کیا سودی نظام سے چھٹکارا ممکن ہے ؟

جاسم محمد

محفلین
کیا سودی نظام سے چھٹکارا ممکن ہے ؟
08/08/2019 عبدالغنی محمدی


معاشیات میرا سبجیکٹ تو نہیں لیکن اس حوالے سے کچھ نہ کچھ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ شریعہ اکیڈمی اسلام آباد میں ”انسداد سود“ کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس میں پاکستان میں مختلف اوقات میں انسداد سود کے حوالے سے کی گئی کاوشوں کا ذکر ہوا۔ موجودہ صورتحال کیاہے، چیلنجز اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان چیزوں کے حوالے سے مختلف حاضرین کی جانب سے کافی مفید گفتگو ہوئی۔

مغرب کی موجودہ ترقی کے پیچھے دو عنصر کارفرمانظر آتے ہیں اور مغرب کا ذاتی دعویٰ بھی یہی ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام، دوسرا سائنسی ترقی۔ سائنسی ترقی بھی سرمایہ دارانہ نظام کی مرہون منت ہے اور اسی کو سپورٹ کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مطلب ہے کہ سرمایہ کو فارغ نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کے ذریعے مزید سرمایہ آتا رہنا چاہیے۔ ماقبل دور میں جب کرنسی ایجاد نہیں ہوئی تھی یا ہونے کے بعد سونا چاندی اور ایسی صورتوں میں تھی یہ کرنسی کسی بھی ملک کی مجموعی دولت اور وسائل کی نمائندہ نہیں ہوسکتی تھی۔ (کرنسی کی ایجاد اور پھر اس کے بعد مختلف مراحل کا مطالعہ خاصی دلچسپ چیز ہے جس کا سردست موقع نہیں ہے ) ۔

یہ کرنسی ایک مخصوص مقدار میں ہوسکتی تھی اس سے زیادہ نہیں۔ اسی طرح اس وقت تک کوئی ایسا سسٹم نہیں تھا جو اس کرنسی کو ہر حال میں مصروف عمل رکھے۔ اس کرنسی کو اگر کسی نے جمع کیا ہوا ہے تو وہ اسی کے فائدے کے لئے ہے اور اسی کے کام آسکتی ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتاتھا۔

کرنسی کی ایجاد نے انسانوں کو بہت سی مشکلات سے نجات دی۔ تبادلہ اشیاء کے درمیان کرنسی کا واسطہ بہت سی آسانیاں لے کر آیا۔ کا غذی کرنسی سونے اور چاندی کی کرنسی کانمائندہ بن کر آئی۔ اس کو اعتباری زر کہتے ہیں جبکہ حقیقی زر آج بھی سونا ہے۔ بینکنگ سسٹم جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ ہے اس میں ہوتا یہ ہے کہ ہر شخص اپنی رقم کو حفاظت کے لئے، کاروبار کے لئے یا جس مد میں بھی رکھنا چاہے، اس رقم کو بینک آگے استعمال کرتاہے۔

اور رقم کایہ استعمال ایک مرتبہ نہیں ہوتاہے۔ مثال کے طور دس ہزار کی رقم سے ایک لاکھ تک کا کاروبارکیا جاتاہے۔ بینک کے پاس دس ہزار کی رقم ہے ایک شخص جس نے دوسرے کا دس ہزار دینا ہے اس کو چیک دیتاہے، رقم بینک میں اسی طرح رہتی ہے، غرض اس دس ہزار نے دس بندوں کے کا م بھی آجانا ہے اور بینک میں اسی طر ح پڑے بھی رہنا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا دعویٰ یہ ہے کہ دس ہزار سے ایک لاکھ کا کام لیاجائے گا تو ترقی کی رفتا ر دس گنا ہوجائے گی۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے پاس سرمایہ نہیں ہے اور وہ کاروبار کا کسی قسم کا کوئی آئیڈیا رکھتے ہیں وہ بینک کے پاس جائیں گے اور سرمایہ لے کر اپنے آئیدیا کو عملی صورت دے سکتے ہیں، کاروبار بڑھاسکتے ہیں۔ اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ وہ شخص جس کے پاس پاس پیسہ نہیں ہے کاروبار کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے اور ہر ایک کے لئے کاروبار کے یکساں مواقع پیدا ہوچکے ہیں۔ اس میں حقیقت کتنی ہے اور عملی صورت میں ایسا کس حد تک ہوپاتا ہے اس پر ماہرین معاشیات ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔

اس تمام نظام میں سود ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل ہو جاتاہے۔ اگر کسی کو قرض کی ضرورت ہے تو کوئی دوسرا شخص بغیر اپنے فائدے کے دیتا نہیں۔ اس میں جہاں قرض دینے والے کا فائدہ ہو تاہے وہیں قرض لینے والے کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے اور اس کو بھی کاروبار کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔

اس میں دو تین چیزیں قابل غور ہیں۔ یہ سسٹم درست ہے کہ نہیں؟ اس سیمینار میں ایک محاضر کی جانب سے یہ بات آئی کہ یہ سسٹم ہی درست نہیں۔ اسلام میں کاروباری قرضے کا کوئی تصور نہیں اور یہ سود ہے کیونکہ حدیث میں ہے ایک جنس والی اشیاء کا تبادلہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے اور ایک جتنا ہونا چاہیے۔ اگر اسلام میں کاروباری قرضے کا تصور نہیں ہے تو پھر کیا قرضہ صرف اسی صورت میں درست ہے جب کوئی مفلو ک الحال ہو؟ گویا اسلام میں کسی کو کاروبار مضبوط کرنے، بہتر بنانے یا نئے سر ے شروع کرنے کے لئے تو قرض نہیں دیا جاسکتاہے ہاں جب وہ خالی اور کنگال ہوجائے تو تب اس کی مدد قرض کے ذریعے کردو؟ بعض صحابہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام کے متعلق روایات میں آتاہے کہ وہ کاروباری قرضے لیا کرتے تھے اوران کے ذریعے کاروبار کیا کرتے تھے، اگر کاروباری اور تجارتی قرضہ درست نہیں تو ان کے اس فعل کوکیسے دیکھیں گے؟

دوسری چیز یہ ہے کہ اس سسٹم کو خرابیوں سے کیسے پاک کیا جا سکتاہے؟ خرابیوں میں ایک تو سود ہے۔ اسلامی بینکنگ کی اب تک جو صورتیں نظر آرہی ہیں اس میں سرمایہ دار کا سر مایہ محفوظ رہے اور بچت بھی دے ان چیزوں کے حوالے سے کوئی اساسی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسی طرح جو شخص قرض لیتاہے اس کوبھی اس قرض پر کچھ نہ کچھ دینا پڑتاہے۔ یہ سب سود کے نام پر ہو یا اور ناموں پر، ایسے میں اسلامی بینکنگ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لے کر آرہی۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اساسی تصورات سے ہٹ کر اسلامی بینکنگ کچھ پیش کرسکتی ہے یا بینکنگ سسٹم کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام سے ہٹ کر اگر کوئی نظام پیش کیاجائے تو کیا اس نظام میں بھی بڑھوتری اور ترقی اسی طرح ممکن ہوگی؟ اگر ممکن نہیں ہوئی تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ کس طرح کرے گا؟ بعض لوگ یہ بات کردیتے ہیں کہ اس قدر ترقی اور بڑھوتری کی کیا ضرورت ہے؟ اس قدر ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بات ویسے بھی ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے لیکن آپ اگر قدیم تصورات پر کھڑے رہ کر ایسا سب کچھ نہیں کرتے ہیں تو دوسری اقوام جو ترقی کے ان ذرائع کو استعمال کررہی ہیں ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا؟
 
سرمایہ دارانہ نظام سے ہٹ کر اگر کوئی نظام پیش کیاجائے تو کیا اس نظام میں بھی بڑھوتری اور ترقی اسی طرح ممکن ہوگی

بڑھوتری ، معاشیات کا ایک لازمی جزو ہے۔ موجود ، اسلامی نظریات میں سود کا تعین کرنے کا طریقہ کار قرآن حکیم کے اھکامات کے خلاف ہے۔

سود کیا ہے ، یہ تمام مسلمان جاننے کا دعوی کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ رقم جو دولت کو ادھار دینے سے کمائی ہو ، سود ہے۔ اس کا جواز قرآن حکیم سے کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ زکواۃ کی مقدار ڈھائی فی صد کا ترانہ ہر ایک پڑھتا ہے، لیکن اس ڈھائی فی صد کا جواز قرآں حکیم سے کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ پھر زکواۃ کس کو ادا کی جائے، یہ ملاء کا حق ہے ، یہ گردان آپ کو ہر طرف ملے گی ، لوگ اپنی زکواۃ، فطرانے، صدقات ، زیادہ تر مساجد کو دیتے ہیں۔ ملاء بہت خوش ،

آئیے دیکھتے ہیں کہ سود ہے کیا بلاء، اور سود کا کھانے والا ، کیوں اس طرح اٹھے گا کہ جیسے شیطان نے اس کو چھو لیا ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ ، زہن کو پاک صاف کرکے کیا جائے ، اور کسی اسرائیلیات ، کسی ملاء ازم سے کوئی مدد نہیں لی جائے، یہ دعا کی جائے کہ اللہ تعالی میں تیری پناہ میں آتا ہوں، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں ، مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے بس ایک تیری ہدایت کافی ہے۔

بڑھوتری اور اس پر اللہ اور اس کے رسول کا حق:
سورۃ انفال، آیت 41
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جس کسی شے سے بھی تم کو بڑھوتری ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے

ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور حکومت کی اطاعت ، قرآن حکیم نے فرض کی ہے۔ ہر بڑھوتری میں سے پانچواں حصہ اس مرکزی بیت المال کا حق ہے، یہی ٹیکس ہے، یہی زکواۃ ہے ، یہی خمس ہے۔ پانچواں حصہ کسی بھی بڑھوتری، فائیدے کا مرکزی بیت المال میں جمع کرانا، مسلمان پر فرض ہے۔ اس آیت کے معانی صاف اور واضح ہیں۔ جس شے سے بھی بڑھوتری ہوئی ، اس بڑھوتری کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ دہرانے کا مقصد ہے کہ آپ غور کرسکیں۔ یہ آیت صرف اور صرف جنگ میں آئے ہوئے مال غنیمت کے لئے نہیں ہے۔ اس آیت کے الفاظ کی قانونی حیثیت صرف یہ ہے کہ آپ کسی بھی شے سے بڑھوتری کا پانچواں حصہ بطور زکواۃ یا ٹٰکس مرکزی حکومت کو ادا کریں۔ برھوتری کا یہ پانچواں حصہ ہی وہ رقم ہے جس کو آپ ادا نہیں کریں اور کھا جائیں تو آپ نے اللہ اور اس کے رسول کا حق کھایا، یہی پانچواں حصہ کھا جانا ، سود یا رباء کھا جانا ہے۔ کہ آپ اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق کھا جائیں۔

یہ پانچواں حصہ کب واجب الادا ہے؟
سورۃ النعام، آیت 141
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

جس دن بڑھوتری ہو ، جس دن فائیدہ ہو، اسی دن، اللہ کا حق ادا کردو۔ بہت ہی صاف اور واضح حکم، نا سمجھنے والے کے لئے ایک کہانی اور قانون دان کے لئے ، قانونی حکم۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر بڑھوتری کا 20 فی صد جب مرکزی حکومت کو نہیں جاتا تو یہی رباء یہی سود مرکزی حکومت کو جانا رک جاتا ہے، دولت کی گردش میں شدت کی کمی آتی ہے، جیسے دوران خون کم ہوجائے، جب یہ روپیہ رک جاتا ہے تو ، حکومت مزید نوٹ چھاپتی ہے، اور روپے کی قیمت اچانک کم ہوجاتی ہے، تو ہم بھونچکا کر اس طرح اٹھتے ہیں جیسے شیطان نے چھو لیا ہو۔ ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، غریب مزید غریب ہوجاتا ہے ، ملکی معیشیت کو شدید جھٹکے لگتے ہیں۔

میں یہاں رک جاتا ہوں، اور آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے یہ احکامات ، معیشیت کی بڑھوتری کے لئے فائیدہ مند ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہم ان صاف اور واضح احکامات سے انکار کردیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ ان احکامات کو نا ماننے سے دولت کی گردش میں کمی آتی ہے اور معیشیت کا خون ہجاتا ہے۔

غور فرمائیے، اور پلیز یہ بحث نا کیجئے کہ یہ آیت صرف اور صرف جنگ میں ہاتھ آئے ہوئے سامان کے بارے میں ہے، یہ انتہائی بے وقفانہ بات ہے کہ کوئی کہے کہ ساری معیشیت کو صرف اور صرف جنگ میں لوٹے ہوئے مال سے چلاؤ۔

سود یا رباء کی تعریف ، قائم ہوجئے تو پھر معییشت کی بڑھوتری کی بات کرتے ہیں۔

والسلام۔
 
یہ سب سود کے نام پر ہو یا اور ناموں پر، ایسے میں اسلامی بینکنگ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لے کر آرہی۔
یہ بات درست نہیں لگتی کہ اسلامی بنکنگ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا رہی۔ سب سے بڑی اور بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ سود سے پاک بنکاری نظام اگرچہ ظاہری احوال (نفع نقصان) کے اعتبار سے سرمایہ دارانہ نظام سے ملتا جلتا ہو، لیکن اس میں سود کا عنصر نہ ہونا اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا ذریعہ ہونے سے خارج کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس نظام کی سود سے پاکیزگی اسے باطنی اعتبار سے انتہائی منافع بخش (جسے مذہبی اصطلاح میں بابرکت بھی کہا جاتا ہے) بنا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی بنکاری کی بنیاد اثاثوں کے لین دین پر استوار کی گئی ہے، محض سودی قرضوں کے لین دین پر قائم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بنکاری زیادہ پائیدار اور ٹھوس ہے، سودی بنکاری کی طرح ہوا کا بلبلا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کی انتہاء پر دنیا نے جس خوفناک اقتصادی بحران کا سامنا کیا اس میں اسلامی بنکاری کی بنیاد پر قائم ہونے والے بنک بڑی حد تک محفوظ رہے۔ البتہ سودی بنکاری کے مقابلے میں اسلامی بنکاری ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن جس تیزی سے یہ نظام ترقی کر رہا ہے اور جس طرح اسے دنیا بھر کے ممالک میں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے، وہ دن دور نہیں جب یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلائے گا۔ سودی نظام کے لئے خطرے کی بہت سی گھنٹیاں ابھی سے بجنا شروع ہوچکی ہیں۔ گزشتہ سن (۲۰۱۸) میں پاکستان میں بہترین بنکاری کا ایوارڈ ایک اسلامی بنک کو ہی ملا ہے۔
 
بڑھوتری ، معاشیات کا ایک لازمی جزو ہے۔ موجود ، اسلامی نظریات میں سود کا تعین کرنے کا طریقہ کار قرآن حکیم کے اھکامات کے خلاف ہے۔

سود کیا ہے ، یہ تمام مسلمان جاننے کا دعوی کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ رقم جو دولت کو ادھار دینے سے کمائی ہو ، سود ہے۔ اس کا جواز قرآن حکیم سے کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ زکواۃ کی مقدار ڈھائی فی صد کا ترانہ ہر ایک پڑھتا ہے، لیکن اس ڈھائی فی صد کا جواز قرآں حکیم سے کیا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ پھر زکواۃ کس کو ادا کی جائے، یہ ملاء کا حق ہے ، یہ گردان آپ کو ہر طرف ملے گی ، لوگ اپنی زکواۃ، فطرانے، صدقات ، زیادہ تر مساجد کو دیتے ہیں۔ ملاء بہت خوش ،

آئیے دیکھتے ہیں کہ سود ہے کیا بلاء، اور سود کا کھانے والا ، کیوں اس طرح اٹھے گا کہ جیسے شیطان نے اس کو چھو لیا ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ ، زہن کو پاک صاف کرکے کیا جائے ، اور کسی اسرائیلیات ، کسی ملاء ازم سے کوئی مدد نہیں لی جائے، یہ دعا کی جائے کہ اللہ تعالی میں تیری پناہ میں آتا ہوں، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں ، مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے بس ایک تیری ہدایت کافی ہے۔

بڑھوتری اور اس پر اللہ اور اس کے رسول کا حق:
سورۃ انفال، آیت 41
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جس کسی شے سے بھی تم کو بڑھوتری ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے

ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور حکومت کی اطاعت ، قرآن حکیم نے فرض کی ہے۔ ہر بڑھوتری میں سے پانچواں حصہ اس مرکزی بیت المال کا حق ہے، یہی ٹیکس ہے، یہی زکواۃ ہے ، یہی خمس ہے۔ پانچواں حصہ کسی بھی بڑھوتری، فائیدے کا مرکزی بیت المال میں جمع کرانا، مسلمان پر فرض ہے۔ اس آیت کے معانی صاف اور واضح ہیں۔ جس شے سے بھی بڑھوتری ہوئی ، اس بڑھوتری کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ دہرانے کا مقصد ہے کہ آپ غور کرسکیں۔ یہ آیت صرف اور صرف جنگ میں آئے ہوئے مال غنیمت کے لئے نہیں ہے۔ اس آیت کے الفاظ کی قانونی حیثیت صرف یہ ہے کہ آپ کسی بھی شے سے بڑھوتری کا پانچواں حصہ بطور زکواۃ یا ٹٰکس مرکزی حکومت کو ادا کریں۔ برھوتری کا یہ پانچواں حصہ ہی وہ رقم ہے جس کو آپ ادا نہیں کریں اور کھا جائیں تو آپ نے اللہ اور اس کے رسول کا حق کھایا، یہی پانچواں حصہ کھا جانا ، سود یا رباء کھا جانا ہے۔ کہ آپ اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق کھا جائیں۔

یہ پانچواں حصہ کب واجب الادا ہے؟
سورۃ النعام، آیت 141
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

جس دن بڑھوتری ہو ، جس دن فائیدہ ہو، اسی دن، اللہ کا حق ادا کردو۔ بہت ہی صاف اور واضح حکم، نا سمجھنے والے کے لئے ایک کہانی اور قانون دان کے لئے ، قانونی حکم۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر بڑھوتری کا 20 فی صد جب مرکزی حکومت کو نہیں جاتا تو یہی رباء یہی سود مرکزی حکومت کو جانا رک جاتا ہے، دولت کی گردش میں شدت کی کمی آتی ہے، جیسے دوران خون کم ہوجائے، جب یہ روپیہ رک جاتا ہے تو ، حکومت مزید نوٹ چھاپتی ہے، اور روپے کی قیمت اچانک کم ہوجاتی ہے، تو ہم بھونچکا کر اس طرح اٹھتے ہیں جیسے شیطان نے چھو لیا ہو۔ ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، غریب مزید غریب ہوجاتا ہے ، ملکی معیشیت کو شدید جھٹکے لگتے ہیں۔

میں یہاں رک جاتا ہوں، اور آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے یہ احکامات ، معیشیت کی بڑھوتری کے لئے فائیدہ مند ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہم ان صاف اور واضح احکامات سے انکار کردیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ ان احکامات کو نا ماننے سے دولت کی گردش میں کمی آتی ہے اور معیشیت کا خون ہجاتا ہے۔

غور فرمائیے، اور پلیز یہ بحث نا کیجئے کہ یہ آیت صرف اور صرف جنگ میں ہاتھ آئے ہوئے سامان کے بارے میں ہے، یہ انتہائی بے وقفانہ بات ہے کہ کوئی کہے کہ ساری معیشیت کو صرف اور صرف جنگ میں لوٹے ہوئے مال سے چلاؤ۔

سود یا رباء کی تعریف ، قائم ہوجئے تو پھر معییشت کی بڑھوتری کی بات کرتے ہیں۔

والسلام۔

فاروق بھائی! اصولی طور پر آپ کے مراسلات کا جواب دینا یا آپ کے ساتھ کسی دینی موضوع پر گفتگو کرنا اس وقت تک بے فائدہ لگتا ہے جب تک آپ قرآنِ حکیم کے ساتھ ساتھ قابلِ استدلال حد تک مستند احادیثِ مبارکہ کو بھی اصولِ دین میں شمار نہیں کر لیتے۔ اسلامی تعلیمات کے ایک ناگزیر اثاثے سے قطع نظر کرکے اسلامی اصطلاحات کی تشریح و توضیح کرنا ایسے افراد کے لئے کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا جو اس اثاثے کو اصولِ دین میں شمار کرتے ہیں۔ الحمد للہ اس فارم پر موجود افراد کی اکثریت مستند احادیثِ مبارکہ کو اصولِ دین میں شمار کرتی ہے اور یہی نظریہ امتِ مسلمہ کے تقریبا پچاسی سے نوے فیصد افراد کا بھی ہے۔ نوے فیصد کا یہ دعوٰی محض دعوی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مستند سروے اور رپورٹس کھڑی ہیں۔ تو جب آپ مستند احادیثِ مبارکہ کو اصولِ دین میں ہی شمار نہیں کریں گے تو دوسرے لفظوں میں آپ امت کے پچاسی سے نوے فیصد طبقے کو گمراہ قرار دے رہے ہوں گے۔ اس لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پہلے آپ حجیتِ حدیث (احادیثِ مبارکہ کا اصولِ دین ہونا) کے موضوع پر علماء و محدثین کی تحریر کردہ بے شمار کتابوں میں سے چند مستند کتب کا مطالعہ فرما لیں اور احادیثِ مبارکہ سے متعلق اپنے نظریے پر نظرِ ثانی فرما لیں، اس کے بعد انشاء اللہ ہم دینی موضوعات پر خوب مذاکرات کریں گے اور آپ کو مندرجہ ذیل سوال نہیں کرنا پڑے گا۔
کیا کوئی اس دھاگے کو پڑھنا پسند کرے گا؟
 
فاروق بھائی! اصولی طور پر آپ کے مراسلات کا جواب دینا یا آپ کے ساتھ کسی دینی موضوع پر گفتگو کرنا اس وقت تک بے فائدہ لگتا ہے جب تک آپ قرآنِ حکیم کے ساتھ ساتھ قابلِ استدلال حد تک مستند احادیثِ مبارکہ کو بھی اصولِ دین میں شمار نہیں کر لیتے۔ اسلامی تعلیمات کے ایک ناگزیر اثاثے سے قطع نظر کرکے اسلامی اصطلاحات کی تشریح و توضیح کرنا ایسے افراد کے لئے کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا جو اس اثاثے کو اصولِ دین میں شمار کرتے ہیں۔ الحمد للہ اس فارم پر موجود افراد کی اکثریت مستند احادیثِ مبارکہ کو اصولِ دین میں شمار کرتی ہے اور یہی نظریہ امتِ مسلمہ کے تقریبا پچاسی سے نوے فیصد افراد کا بھی ہے۔ نوے فیصد کا یہ دعوٰی محض دعوی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مستند سروے اور رپورٹس کھڑی ہیں۔ تو جب آپ مستند احادیثِ مبارکہ کو اصولِ دین میں ہی شمار نہیں کریں گے تو دوسرے لفظوں میں آپ امت کے پچاسی سے نوے فیصد طبقے کو گمراہ قرار دے رہے ہوں گے۔ اس لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پہلے آپ حجیتِ حدیث (احادیثِ مبارکہ کا اصولِ دین ہونا) کے موضوع پر علماء و محدثین کی تحریر کردہ بے شمار کتابوں میں سے چند مستند کتب کا مطالعہ فرما لیں اور احادیثِ مبارکہ سے متعلق اپنے نظریے پر نظرِ ثانی فرما لیں، اس کے بعد انشاء اللہ ہم دینی موضوعات پر خوب مذاکرات کریں گے اور آپ کو مندرجہ ذیل سوال نہیں کرنا پڑے گا۔
مستند احادیث مبارکہ ٓپیش کرنے سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ آپ کا یہ فرمانا، مجھ پر ایک شدید لزام ہے کہ میں مستند احادیث رسول اکرم کے استدلال کا قائیل نہیں۔ ٓاگر ٓکوئی روایت خلاف قرآن واضح ہو تو کیا پھر بھی وہ حدیث رسول اکرم کہلائے گی؟ مستٓند حدیث ، خود رسول اکرم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ ، جب بھی کوئی روایت پیش کی جائے، اس کو قرآن حکیم پر پرکھئے۔ لہذا آپ ایسی کوئی بھی حدیث مبارک پیش کرسکتے ہیں جو رسول اکرم ٓسے منسوبٓ ہو اور قرآن حکیم کے بنیادی احکامات کے خلاف نا ہو۔

والسلام
 

فرقان احمد

محفلین
مستند احادیث مبارکہ ٓپیش کرنے سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ آپ کا یہ فرمانا، مجھ پر ایک شدید لزام ہے کہ میں مستند احادیث رسول اکرم کے استدلال کا قائیل نہیں۔ ٓاگر ٓکوئی روایت خلاف قرآن واضح ہو تو کیا پھر بھی وہ حدیث رسول اکرم کہلائے گی؟ مستٓند حدیث ، خود رسول اکرم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ ، جب بھی کوئی روایت پیش کی جائے، اس کو قرآن حکیم پر پرکھئے۔ لہذا آپ ایسی کوئی بھی حدیث مبارک پیش کرسکتے ہیں جو رسول اکرم ٓسے منسوبٓ ہو اور قرآن حکیم کے بنیادی احکامات کے خلاف نا ہو۔

والسلام
یہ موقف کسی صورت بھی بے جان نہیں ہے کہ اگر کوئی حدیث یا روایت صریح طور پر قرآنی احکامات کے منافی ہو، تو اُسے قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ مستند احادیث کو درست تسلیم کرتے ہیں اور اُن سے استدلال بھی کرتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
یہ بات درست نہیں لگتی کہ اسلامی بنکنگ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا رہی۔ سب سے بڑی اور بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ سود سے پاک بنکاری نظام اگرچہ ظاہری احوال (نفع نقصان) کے اعتبار سے سرمایہ دارانہ نظام سے ملتا جلتا ہو، لیکن اس میں سود کا عنصر نہ ہونا اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا ذریعہ ہونے سے خارج کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس نظام کی سود سے پاکیزگی اسے باطنی اعتبار سے انتہائی منافع بخش (جسے مذہبی اصطلاح میں بابرکت بھی کہا جاتا ہے) بنا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی بنکاری کی بنیاد اثاثوں کے لین دین پر استوار کی گئی ہے، محض سودی قرضوں کے لین دین پر قائم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بنکاری زیادہ پائیدار اور ٹھوس ہے، سودی بنکاری کی طرح ہوا کا بلبلا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کی انتہاء پر دنیا نے جس خوفناک اقتصادی بحران کا سامنا کیا اس میں اسلامی بنکاری کی بنیاد پر قائم ہونے والے بنک بڑی حد تک محفوظ رہے۔ البتہ سودی بنکاری کے مقابلے میں اسلامی بنکاری ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن جس تیزی سے یہ نظام ترقی کر رہا ہے اور جس طرح اسے دنیا بھر کے ممالک میں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے، وہ دن دور نہیں جب یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلائے گا۔ سودی نظام کے لئے خطرے کی بہت سی گھنٹیاں ابھی سے بجنا شروع ہوچکی ہیں۔ گزشتہ سن (۲۰۱۸) میں پاکستان میں بہترین بنکاری کا ایوارڈ ایک اسلامی بنک کو ہی ملا ہے۔
یہ بالکل درست نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری محض نام تبدیل کر کے وہی کام کر رہی ہے جو دوسرے بینک۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلامی اصولِ تجارت
مفتی عزیز الرحمان جمع۔ء 16 اگست 2019
1778140-businesshandshake-1565929080-744-640x480.jpg

ملاوٹ، دھوکا دہی، دجل و فریب، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی اور جعلی اشیاء کی خرید و فروخت سے مکمل اجتناب برتیں۔ فوٹو: فائل

زمانہ قبل از اسلام مکہ میں عقیق اور عکاظ جیسے مشہور بازاروں میں تجارتی نمائشیں لگتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس نمائش میں اپنے بیس اونٹ لائے، جن میں سے ایک اونٹ معمولی لنگڑا تھا جسے ہر کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے غلام کو ہدایات فرمائیں کہ مجھے ضروری کام پڑگیا ہے تو اگر کوئی اس اونٹ کا خریدار آئے تو اسے اونٹ کا عیب ضرور بتانا اور قیمت بھی نصف وصول کرنا۔ جب آپؐ واپس آئے تو پتا چلا کہ غلام نے اونٹ کو فروخت تو کردیا ہے لیکن خریدار کو اونٹ کا عیب بتانا بھول گیا اور قیمت بھی پوری لے بیٹھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور خریدار کی تلاش میں نکلے۔ خریدار چوں کہ یمن کی طرف سے آئے تھے، تو ایک دن ایک رات کے مسلسل سفر کے بعد ان کا قافلہ ملا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا: ان میں ایک اونٹ لنگڑا ہے تم یا تو وہ اونٹ واپس کردو یا اپنی آدھی قیمت واپس لے لو۔ تو ان کی خوشی سے آپؐ نے وہ اونٹ لے کر قیمت واپس کردی۔ اس امانت و دیانت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر وہ فوراً اسلام لے آئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاجرانہ زندگی کا یہ وہ حسین پہلو ہے جو تاجروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ اکثر تاجروں کے لیے انتہائی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم شرعی حکم کی وجہ سے اپنی چیز میں نقص بتاکر اپنا نقصان کیسے کریں، جب کہ خریدار کو عیب کا پتا ہی نہ ہو۔ اس کے حل کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے کمال اور آخرت کے محاسبے پر زور دیا اور اپنے عمل سے مال کی اہمیت کو گھٹایا۔ ایک یہودی جس سے آپؐ نے کچھ قرض لیا تھا وہ آکر سختی سے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے روکنا چاہا، آپؐ نے منع فرما دیا کہ صاحب حق کو کہنے کا حق حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا اسے اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہؓ واپس آکر کہنے لگے یارسول اللہ ﷺ! اس کے اونٹ جیسا اونٹ تو نہیں مل رہا اس سے اچھا مل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، وہی اسے خرید کر دے دو اور فرمایا: ’’ تم میں سے بہترین وہی ہے جو ادائی میں اچھا ہو۔‘‘

کوئی ملک قانون شکن اور بااثر سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالے بغیر چھوٹے تاجروں اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ مطالعہ فرمائیے۔ قبیلہ ارش کے ایک شخص نے ابوجہل کے ہاتھ ایک اونٹ بیچا لیکن ابوجہل قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ اس مظلوم شخص نے مکے کے سب شرفاء سے اس بابت بار بار دہائی دی۔ مگر کوئی ابوجہل سے اس کا حق دلانے کی جرأت نہ کرسکا۔ ان دنوں ابوجہل اسلام دشمنی میں اپنے عروج پر بھی تھا۔ کسی نے اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے جاکر کہو، وہ تجھے رقم دلا دیں گے۔ وہ آپ ﷺ کے پاس چلا آیا۔

آپ ﷺ اسے لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے۔ ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس کا چہرہ سفید اور رنگ فق ہوگیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: اس کا حق ادا کرو۔ ابوجہل نے فوراً رقم دے دی۔ بعد میں ابوجہل سے لوگوں نے اس کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سن کر مجھ پر ناقابل بیان رعب طاری ہوگیا تھا۔

اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مظلوم کو اس کا حق دلانے میں بااثر سرمایہ کاروں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی حق تلفی اپنے عروج پر ہے۔ وطن عزیز میں اس خوف ناک صورت حال کا حل سیرت نبویؐ میں تلاش کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ بازاروں کا چکر لگاتے، ناپ تول کے پیمانوں کی تحقیق کرتے اور تاجروں کے معاملات کو بہ غور دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ ایک تاجر کے گندم کے ڈھیر کے پاس سے گزرے، اس میں ہاتھ ڈالا تو اندر سے وہ گیلی نکلی۔ آپ ﷺ پوچھا یہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟ اس نے کہا بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: گیلی گندم اوپر رکھو تاکہ خریدار کو پتا چلے۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جس نے دھوکا اور فریب سے کام لیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ دو لوگوں کو وزن کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’ تولو اور جھکتا ہو تولو۔‘‘

تو یہ ہے چیکنگ اور فوری احکامات دینے کا مؤثر، منظم اور مربوط نظام جس کی بہ دولت ایک ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتا ہے۔ غور کیجیے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بازاروں میں نکل کر چیکنگ کو عار سمجھتے اور گھر بیٹھے صرف رپورٹ لے لیتے تو معاشرہ، ملک اور ادارے کبھی نہ سدھرتے۔ آج غیر مسلم اقوام تجارت و معیشت میں اسلام کے زریں اصولوں کو اپناکر دنیا پر راج کر رہی ہیں، جب کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان اصولوں کو فراموش کرنے کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔

تاجروں کو چاہیے کہ وہ اسوۂ رسول کریمؐ پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں۔ ملاوٹ، دھوکا دہی، دجل و فریب، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی اور جعلی اشیاء کی خرید و فروخت سے مکمل اجتناب برتیں۔
 
یہ بالکل درست نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری محض نام تبدیل کر کے وہی کام کر رہی ہے جو دوسرے بینک۔
زکریا بھائی! آپ یہ ویب سائٹ وزٹ کریں۔ Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions
یہ اس عالمی ادارے کی ویب سائٹ ہے جس میں صرف پاکستان یا صرف کسی ایک مذہب و مسلک کے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ممالک سے ممتاز اور عالمی طور پر مسلمہ مفتیانِ کرام موجود ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس ادارے نے اٹھاون (۵۸) معیارات (اسٹینڈرڈز) بنائے ہیں۔ ان معیارات کے بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس موضوع پر مالیاتی اداروں کو کسی شرعی مسئلے پر عمل درآمد کی ضرورت ہو اس مسئلے کو دنیا بھر کے موقر علماء کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ اس پر تفصیلی تحقیق کے بعد اپنی آراء تحریر کر کے جمع کرواتے ہیں اور مقالات پیش کرتے ہیں۔ ان مقالات پر غورو خوض کے لئے میٹنگز ہوتی ہیں اور سالہا سال کی محنت کے بعد کسی اسٹینڈرڈ کو حتمی قرار دیا جاتا ہے۔ انہی اسٹینڈرڈز کی بنا پر دنیا بھر کے ممالک کے ملکی سطح کے ریگولیٹری ادارے (جیسے ہمارے ہاں اسٹیٹ بنک ہے) اسلامی مالیاتی (اسلامک فنانشل) اداروں کے لئے شرائط و ضوابط وضع کرتے ہیں جن پر عمل درآمد ان اداروں کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ان شرائط و ضوابط پر عمل درآمد کے لئے ہی ان اداروں میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ بنائے جاتے ہیں جن میں ان اسٹینڈرڈز پر عبور رکھنے والے مفتیانِ کرام ان اداروں کی نگرانی اور شریعہ آڈٹ کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
مستند احادیث مبارکہ ٓپیش کرنے سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ آپ کا یہ فرمانا، مجھ پر ایک شدید لزام ہے کہ میں مستند احادیث رسول اکرم کے استدلال کا قائیل نہیں۔ ٓاگر ٓکوئی روایت خلاف قرآن واضح ہو تو کیا پھر بھی وہ حدیث رسول اکرم کہلائے گی؟ مستٓند حدیث ، خود رسول اکرم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ ، جب بھی کوئی روایت پیش کی جائے، اس کو قرآن حکیم پر پرکھئے۔ لہذا آپ ایسی کوئی بھی حدیث مبارک پیش کرسکتے ہیں جو رسول اکرم ٓسے منسوبٓ ہو اور قرآن حکیم کے بنیادی احکامات کے خلاف نا ہو۔

یہ موقف کسی صورت بھی بے جان نہیں ہے کہ اگر کوئی حدیث یا روایت صریح طور پر قرآنی احکامات کے منافی ہو، تو اُسے قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ مستند احادیث کو درست تسلیم کرتے ہیں اور اُن سے استدلال بھی کرتے ہیں۔

اس سوال سے شاید انیس بھائی آپ کو یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ جس طرح احادیثِ مبارکہ پہلے زبانی طور پر محفوظ تھیں بعد میں انہیں مدون کیا گیا اسی طرح قرآنِ حکیم بھی صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک نبی اکرم ﷺ کی زبانِ مبارک کے وسیلہ سے ہی پہنچا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو تحریر فرما لیا کرتے تھے۔ اگر آپ علمِ حدیث کی فنی اصطلاحات سے واقفیت رکھتے ہوں (اور یقینا رکھتے ہوں گے، ورنہ اتنے نازک موضوع پر علم کے بغیر خامہ فرسائی شدید نقصان دہ ہوسکتی ہے) تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآنِ کریم کو اس کے اعلیٰ ترین تواتر (اتنے زیادہ لوگوں کا روایت کرنا جن کے کسی جھوٹ پر متفق ہونے کو عقل تسلیم نہ کرتی ہو) کی بنا پر ہی بلا ریب و شک کلام اللہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لہذا اسی قرآنِ کریم کو کلام اللہ تسلیم کرنا یہ دلیل ہی کی بنیاد پر ہے۔

آپ کا یہ دعوٰی بے شمار تفصیلات کا متقاضی ہے۔ بات اتنی سرسری نہیں جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ یا تو آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، یا پھر تعارفِ جاہلانہ میں مبتلا ہیں۔ اگر کوئی حدیثِ مبارکہ کسی آیتِ قرآنیہ سے متضاد معلوم ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقتا متضاد ہے۔ پہلے تو فہم و ادراک کے ذریعے تطبیق کی ضرورت ہوتی ہے، تطبیق نہ ہو پائے تو اس پر عمل کے درجات، فرض، واجب، استحباب کا فرق کرتے ہوئے دونوں کے درجات متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پر بھی عمل نہ ہو پائے تو قوتِ روایت کی بنا پر ناسخ و منسوخ کی مباحث سامنے آتی ہیں۔ اس طرح کے بہت سے معیارات کی کسوٹیوں پر پرکھنے کے بعد بھی اگر تضاد کی کیفیت برقرار رہے، تب ردِ حدیث کے نازک اقدام پر غور کیا جاتا ہے۔ جتنی آسانی سے آپ ردِ حدیث کی گردان کر رہے ہیں اس سے تو دوست لوگ وہی سمجھیں گے جو وہ سمجھ رہے ہیں۔

اس فورم پر یہ فنی بحث مناسب تو نہیں تھی، مگر آنجناب کی جانب سے اپنے دعوے پر مسلسل اصرار کی وجہ سے کچھ گزارشات پیشِ خدمت کرنا ضروری محسوس ہوا۔ امید ہے خیرخواہانہ گزارشات کے زمرے میں شمار کی جائیں گی۔
 
زکریا بھائی! آپ یہ ویب سائٹ وزٹ کریں۔ Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions
یہ اس عالمی ادارے کی ویب سائٹ ہے جس میں صرف پاکستان یا صرف کسی ایک مذہب و مسلک کے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ممالک سے ممتاز اور عالمی طور پر مسلمہ مفتیانِ کرام موجود ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس ادارے نے اٹھاون (۵۸) معیارات (اسٹینڈرڈز) بنائے ہیں۔ ان معیارات کے بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس موضوع پر مالیاتی اداروں کو کسی شرعی مسئلے پر عمل درآمد کی ضرورت ہو اس مسئلے کو دنیا بھر کے موقر علماء کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ اس پر تفصیلی تحقیق کے بعد اپنی آراء تحریر کر کے جمع کرواتے ہیں اور مقالات پیش کرتے ہیں۔ ان مقالات پر غورو خوض کے لئے میٹنگز ہوتی ہیں اور سالہا سال کی محنت کے بعد کسی اسٹینڈرڈ کو حتمی قرار دیا جاتا ہے۔ انہی اسٹینڈرڈز کی بنا پر دنیا بھر کے ممالک کے ملکی سطح کے ریگولیٹری ادارے (جیسے ہمارے ہاں اسٹیٹ بنک ہے) اسلامی مالیاتی (اسلامک فنانشل) اداروں کے لئے شرائط و ضوابط وضع کرتے ہیں جن پر عمل درآمد ان اداروں کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ان شرائط و ضوابط پر عمل درآمد کے لئے ہی ان اداروں میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ بنائے جاتے ہیں جن میں ان اسٹینڈرڈز پر عبور رکھنے والے مفتیانِ کرام ان اداروں کی نگرانی اور شریعہ آڈٹ کرتے ہیں۔

آپ کا یہ دعوٰی بے شمار تفصیلات کا متقاضی ہے۔ بات اتنی سرسری نہیں جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ یا تو آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، یا پھر تعارفِ جاہلانہ میں مبتلا ہیں۔ اگر کوئی حدیثِ مبارکہ کسی آیتِ قرآنیہ سے متضاد معلوم ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقتا متضاد ہے۔ پہلے تو فہم و ادراک کے ذریعے تطبیق کی ضرورت ہوتی ہے، تطبیق نہ ہو پائے تو اس پر عمل کے درجات، فرض، واجب، استحباب کا فرق کرتے ہوئے دونوں کے درجات متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پر بھی عمل نہ ہو پائے تو قوتِ روایت کی بنا پر ناسخ و منسوخ کی مباحث سامنے آتی ہیں۔ اس طرح کے بہت سے معیارات کی کسوٹیوں پر پرکھنے کے بعد بھی اگر تضاد کی کیفیت برقرار رہے، تب ردِ حدیث کے نازک اقدام پر غور کیا جاتا ہے۔ جتنی آسانی سے آپ ردِ حدیث کی گردان کر رہے ہیں اس سے تو دوست لوگ وہی سمجھیں گے جو وہ سمجھ رہے ہیں۔

پیغام تیرا حق ہے پر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند

کچھ لوگ آج تک "بغداد شریف مرحوم" کو آنکھ بند کرکے فالو کرنا چاہتے ہیں۔
"بغداد شریف مرحوم " نے فتوی دیا یعنی قانون سازی کی جس کی بنیاد نا قرآن حکیم اور نا ہی حدیث شریف تھی کہ

" زکواۃ یعنی ٹیکس ، ڈھائی فیصد ہوگا اور یہ ہر سال کے ختم ہونے پر جو بھی بچا کچھا " نصاب" ہے، اس پر ادا ہوگا، یہ مسجدوں کا حق ہے، حکومت کا نہیں"

تو حلومت کیا تیل بیچنے جائے گی۔ کیسے چلے گی؟
کچھ لوگ اس جاہلانہ بے منطقی نکات کو پھیلاتے رہے اور ان نکات کو جنم دینے والے "علماء" کو انسانوں سے برتر مانتے رہے۔ کیا دلیل ہے ان لوگوں کے پاس؟ تاویلات در تاویلات در تاویلات؟؟

آج بھی کچھ لوگ کبھی حدیث کے نام پر کبھی فقہ کے نام پر طرح طرح کی تاویلات کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی اتنی ہی سمجھ ہے تو لائیں کوئی دلیل مستند احادیث سے اور قرآن حکیم سے اس جہالت بھرے اصول کی۔

اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو حکومت کیسے چلے گی، صرف ملاء کے حلوے مانڈے چلتے رہیں، اس لئے اپنے اس فرسودہ نثام کو زکواۃ قرار دیتے ہیں ؟؟؟
کسی بھی بڑھوتری میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے، یعنی یہ مرکزی حکومت کا حق ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی آئیدیالوجی کی ترویج کرتی ہے ، یہ پانچواں حصۃ کھا جانا ہی سود یا ربا ء کھانا ہے۔ اس ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر مرکزی حکومت کے پاس دولت واپس نہیں آئے گی۔

وقت آگیا ہے کہ "بغداد شریف مرحوم" کے شیطانی سحر سے نکلا جائے اور بجائے حدیث حدیث کے زور دینے کے صاف اور واضح مستند احادیث پیش کی جائیں۔

آپ کے پیش کئے ہوئے ادارے کی بنیادی نکات کسی بھی حقیقت سے دورت ہیں۔ نا سود کی تعریف منطقی ہے اور نا ہی یہ کسی بی مسئلے کا حل ہیں۔ اور رہ گئی " دعوٰی بے شمار تفصیلات کا متقاضی" تو یہ صرف ایک ہوائی ریمارک ہے۔ ایک آدھ تفصیل فراہم کرتے تو بات بنتی۔ لاحول ولا قوۃ



ٓٓٓٓ
 
کچھ لوگ آج تک "بغداد شریف مرحوم" کو آنکھ بند کرکے فالو کرنا چاہتے ہیں۔
"بغداد شریف مرحوم " نے فتوی دیا یعنی قانون سازی کی جس کی بنیاد نا قرآن حکیم اور نا ہی حدیث شریف تھی
لگتا ہے آپ نے کوئی غلط کتاب پڑھ لی ہے۔ :)

کسی بھی بڑھوتری میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے،

جس آیتِ مبارکہ کا آپ حوالہ دینا چاہ رہے ہیں وہ مالِ غنیمت سے متعلق ہے۔ اس کے صاف الفاظ ہیں کہ ’’غنمتم من شیئ‘‘ یعنی جو مال تم مالِ غنیمت کے طور پر حاصل کرو۔

آئیے زکوٰۃ سے متعلق اپنی معلومات میں ہم تھوڑا سا اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں:
من کل اربعین درھما درھم۔ (سنن ابی داؤد)
ترجمہ: ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم ہے (یعنی اڑھائی فیصد)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں:
من کل اربعین درھما درھم (سنن الترمذی)
ترجمہ: ہر چالیس درھم میں سے ایک درہم ہے (یعنی اڑھائی فیصد)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ مبارکہ نقل فرماتے ہیں:
ففی کل اربعین درھما درھم (شعب الایمان للبیہقی)
ترجمہ: ہر چالیس درھم میں سے ایک درھم (یعنی اڑھائی فیصد)

ابنِ ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں:
ففی کل اربعین درھما درھم (مصنف ابنِ ابی شیبۃ)
ترجمہ: ہر چالیس درہم میں ایک درھم ہے۔ (یعنی اڑھائی فیصد)

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسری حدیثِ مبارکہ نقل فرماتے ہیں:
فاذا کانت لک عشرون دینارا ۔۔۔ ففیہا نصف دینار۔ (سنن ابی داؤد)
ترجمہ: جب تمہارے پاس بیس دینا ہوں تو ان میں نصف دینار ہے (یعنی اڑھائی فیصد)

ابنِ جریر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کنز العمال میں مذکور ہے:
وفی کل عشرین مثقالا نصف مثقالِ۔
ترجمہ: ہر بیس مثقال (وزن کا ایک قدیم پیمانہ) میں سے نصف مثقال ہے (یعنی اڑھائی فیصد)

امید ہے کہ ان تمام حوالہ جات کو آپ اپنا نامعلوم ’’بغداد شریف مرحوم‘‘ نہیں گردانیں گے۔ :)

یہ مسجدوں کا حق ہے، حکومت کا نہیں
نہ کریں جناب عالی! :)
مسجد تو مصرفِ زکوٰۃ ہے ہی نہیں۔
مصارفِ زکوٰۃ خود قرآنِ کریم نے آٹھ بیان فرمائے ہیں۔ سورۃ توبہ کی آیت نمبر ساٹھ (۶۰) ملاحظہ فرمالیں۔

یہ پانچواں حصۃ کھا جانا ہی سود یا ربا ء کھانا ہے۔

مسلم شریف کی ’’الذھب بالذھب والی روایت جس میں مختلف جنسوں کا تذکرہ کر کے ان کے تبادلے کو برابر برابر جائز قرار دیا ہے اور زیادہ لینے کو سود، اس تشریح آپ فرمانا سکیں تو بہتر ہے۔

علامہ سیوطی رحمۃ للہ علیہ کی روایت:’’ کل قرض جر نفعا فھو ربا‘‘ (ترجمہ: ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے، سود ہے) جسے محدثین نے صالح للعمل قرار دیا ہے، اس کی تشریح بھی آپ فرما سکتے ہیں۔

مجھے صرف یہ شبہ ہے کہ آپ کی دینی معلومات کا ماخذ مشکوک ہے۔ یا آپ پوری امت کی تصریحات کو چھوڑ کر خود دین کی تشریح کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
بہر حال آپ کے علمی فائدے کے چند باتیں ذکر کی ہیں۔ امید ہے اپنے مطالعے کی جہت کی درستگی پر آپ خود کام کر لیں گے۔ :)
 
ضح۔ہدایت ح
مسلم شریف کی ’’الذھب بالذھب والی روایت جس میں مختلف جنسوں کا تذکرہ کر کے ان کے تبادلے کو برابر برابر جائز قرار دیا ہے

جس آیتِ مبارکہ کا آپ حوالہ دینا چاہ رہے ہیں وہ مالِ غنیمت سے متعلق ہے۔ اس کے صاف الفاظ ہیں کہ ’’غنمتم من شیئ‘‘ یعنی جو مال تم مالِ غنیمت کے طور پر حاصل کرو۔

'غنمتم من شی' کے معانی ' مال غنیمت ' کے نہیں بلکہ جس شے سے بھی بڑھوتری ہو کے ہیں۔
مسلم شریف کی ’’الذھب بالذھب والی روایت جس میں مختلف جنسوں کا تذکرہ کر کے ان کے تبادلے کو برابر برابر جائز قرار دیا ہے

یہ حدیث قرآن حکیم کی کسی آیت کی کسی طور تردید نہیں کرتی، پانچواں حصہ اللہ تعالی کی طرف سے صاف اور واضح حکم اور اس حدیث مبارک سے مزید ادا کرنے کا حکم مزید واضح

۔
مجھے صرف یہ شبہ ہے کہ آپ کی دینی معلومات کا ماخذ مشکوک ہے

ذاتی حملے نہیں کیجئے
 
۔ یا آپ پوری امت کی تصریحات کو چھوڑ کر خود دین کی تشریح کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
امت آپ کے پاس ووٹ دینے آئی تھی یا آپ امت کے پاس ان سے پوچھنے گئے تھے۔ ایسے خالی ریمارک سن کر میں صرف ہنس سکتا ہوں۔ آپ نے شیعہ امت کے خمس کے بارے میں سنا ہے؟ کہ وہ اپنے مال میں ہونے والی بڑھوتری کا پانچواں حصۃ بطور زکواۃ نکالتے ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ یہ مال بھی ان کا ملاء کھا جاتا ہے۔ اصل میں ان کا مقصد صرف اپنی حکومت کو یہ ٹیکس ادا کرنا تھا نا کہ سنی ملوکیت کو۔ بہر حال ، یہ امت کا فیصلہ ہرگز نہیں ہے، صرف صرف سنی فقہ کی تاویلات ہیں۔

جب ساری قوم ، 20 فی صد زکواۃ یعنی ٹٰکس دینے لگے گی تو کیا ہوگا؟ حکومت کے پاس آج سے کئی گنا زیادہ فالتو پیسہ ہوگا۔ یہی فالتو پیسہ، خرچ ہوگا، ریسرچ پر، ترقی کے لئے قرضوں پر، تعلیم پر، صحت عامہ پر، انفرا سٹرکچر بنانے پر، سڑکیں، نہریں، پل، نئی بستیاں، پارک، بنک، اسکول۔ 1400 سال سے امت اس بات پر متفق ہے کہ ملاء کو یہ زکواۃ دے کر ایسا کچھ بھی نہیں بنا ، البتہ ملاء چار شادیاں اس کرتا ہوا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ حلوے مانڈے کرالیجئے ڈھائی فیصد کے نام پر یا پھر ترقی یافتہ ممالک کی صفوںمٰں شامل ہوجائیے اللہ تعالی کا بیس فی صد ٹیکس ادا کرنے کا حکم مان کر۔ چوائس آپ کی ہے، کہ ترقی بذریعہ ایمان یا تنزلی بذریعہ تاویلات۔
 
امت آپ کے پاس ووٹ دینے آئی تھی یا آپ امت کے پاس ان سے پوچھنے گئے تھے۔ ایسے خالی ریمارک سن کر میں صرف ہنس سکتا ہوں۔
اگر امریکہ میں واشنگٹن آپ کے قریب پڑتا ہو (آپ کے جھنڈے کے حساب سے عرض ہے) تو ایک چکر جارج ٹاؤن یونیورسٹی کا لگا لیجئے گا۔ وہاں سے آپ کو ان کی رپورٹ پر مشتمل ایک کتاب یقینا مل جائے گی جس میں وہ دنیا کے پانچ سو بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست ہر سال جاری کرتے ہیں۔ اس کتاب کے 2017 کے ایڈیشن میں (ہوسکتا ہے اس کے بعد والے ایڈیشنز میں بھی ہو) آپ کو دنیا کی مسلم آبادی کی مسلکی تقسیم سے متعلق رپورٹ بھی مل جائے گی۔ ویکیپیڈیا کا لنک یہ رہا : The 500 Most Influential Muslims - Wikipedia
اصل میں ان کا مقصد صرف اپنی حکومت کو یہ ٹیکس ادا کرنا تھا نا کہ سنی ملوکیت کو۔ بہر حال ، یہ امت کا فیصلہ ہرگز نہیں ہے، صرف صرف سنی فقہ کی تاویلات ہیں۔
’’دی ہاؤس آف اسلام‘‘ کے نام سے پیش کی گئی اس رپورٹ سے آپ کو پتہ چلے گا کہ نوے (۹۰) فیصد امتِ مسلمہ اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتی ہے، جس میں حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی (یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کے چاروں مسالک) شامل ہیں۔ جب نوے فیصد مسلمان زکوٰۃ وغیرہ سے متعلق اکثر مسائل میں متفق ہیں (سوائے جزوی اور چند اصولی اختلافات رائے کے، جن میں آپ کی پیش کردہ تشریحات ہر گز شامل نہیں ہیں) تو پھر یہی مسلمان ’’امتِ مسلمہ‘‘ اور اس کے ترجمان کہلائیں گے، نہ کہ دین کی ان سے جدا تعبیرات کرنے والے( حتیٰ کہ فقہ جعفری سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی وہ تعبیرات پیش نہیں کرتے جو آپ کر رہے ہیں)۔
آپ کی معلومات میں مسلسل خیرخواہانہ اضافے کی کوشش کرتا چلا جا رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ان خیر خواہانہ مشوروں سے یقینا مستفید ہوں گے۔
 
آخری تدوین:
جی اسی لیے حکومتی بیت المال اور علاقائی زکوۃ کمیٹیاں شاید مولوی ہی چلا رہے ہیں۔
کیا ہر ادارہ، ہر فرد، اپنے مال کی بڑھوتری، میں سے پانچواں حصہ حکومت کو ادا کررہا ہے؟ یا اپنی من پسند مسجد کو، کہ آخرت میں اچھا سا گھر ملے :) ؟؟
 
آخری تدوین:
Top