سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
یہ معیشت کا نہیں، سیاست کا بحران ہے
29/07/2019 وجاہت مسعود


وزیر اعظم عمران خان وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے تو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ کلام الملوک ملوک الکلام۔ بادشاہ سلامت کا فرمان اعلیٰ ترین کلام، حتمی دلیل اور برہان قاطع ہوتا ہے۔ محترم وزیر اعظم، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، منتخب سربراہ حکومت ہیں۔ ان کے دست راست محترم شیخ رشید ہمیں وقفے وقفے سے مطلع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کی پشت پر کیسے کیسے لشکر جرار صف آرا ہیں۔ ہم تہی دست شہری سرمو اختلاف کی مجال نہیں رکھتے۔ کتاب قانون میں ہزاروں ضابطے درج ہیں، ان گنت تشریحات ہیں۔ وہ جو ثروت حسین نے کہا تھا، ’اوزاروں کے نام بہت ہیں، ہتھیاروں کے دام بہت ہیں، اے سوداگر کون گنے، دس سے اوپر کون گنے‘۔ حاکم بے نیاز ہے، احتساب کا بندوبست جامع ہے، کارندے چوکس ہیں، تعزیر کا کوڑا حرکت میں ہے۔ جانے کب دے دے صدا کوئی حریم ناز سے۔ ایک بشارت مارگلہ کی پہاڑی سے ہویدا ہوئی ہے۔ ہے کوئی جو اس اعزاز کے قابل ہو۔

ہماری ہڈیوں میں لیکن ایک مرد درویش کی بے نیازی اتر گئی ہے۔ لاہور کے اس دانائے راز کو اقبال کہتے تھے۔ اقبال نے خبردار کیا تھا، ’تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیّت ہے‘۔ بندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس کا نقطہ انقطاع نہیں ملتا۔ بندہ مجبور جسے آقا تسلیم کرتا ہے، اس آقا کے پیچھے بھی ایک آقا ہوتا ہے۔ بندہ اور آقا کا رشتہ ایسا مجرد منظر نہیں جسے مصور کے کینوس پر قید کیا جا سکے۔ تمیز بندہ و آقا ایک فلسفہ حیات ہے۔ انسانیت کی تہ در تہ ذلت کے تار اس بوسیدہ پارچے سے نکلتے ہیں۔ انسانیت کا احترام مطالبہ کرتا ہے کہ اس قرطاس کہنہ کو چاک کیا جائے تاکہ روشنی کی کرن راستہ پا سکے، چشموں کا ٹھنڈا پانی روانی سے بہریاب ہو سکے۔ اونچی اور نیچی کٹھن راہوں کو ہموار کیا جا سکے۔ آج کے دن مگر قلم کے لئے تجویز ہے کہ واقعات اور دلائل بیان کرنے سے گریز کرے۔ یہ حزن کا رزمیہ لکھنے کا وقت ہے۔ یہ وقائع نگاری کا نہیں، ایک کیفیت کو دستاویز کرنے کی گھڑی ہے۔

ایک صاحب نظر نے فرمایا ہے کہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ایک برس میں 16 ارب ڈالر کے قرضے لے لئے۔ ایک رائے یہ ملی کہ ایک برس میں ڈالر کی قیمت میں قریب پچاس روپے کا اضافہ کمر توڑ رہا ہے۔ معیشت کے کچھ شناور کہتے ہیں کہ ایک ہی برس میں محصولات کے ہدف میں قریب 30 فیصد کا اضافہ کرنا کون سی حکمت ہے۔ محترم اسد عمر اس ایک برس میں کوئی آٹھ ماہ کے لئے خزانے کے مدارالمہام تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر بھی معیشت کی کایا کلپ ممکن تھی۔ اب ایک ایک کر کے دیکھ لیجئے۔ سرمایہ دار معیشت میں قرضہ لینا اگر ایسا ہی غلط ہوتا تو جاننا چاہیے کہ امریکا کا کل قرض 22 کھرب ڈالر ہے۔ کسی ملک کی معیشت میں قرضے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہیے کہ معیشت کا کل حجم کیا ہے نیز یہ کہ پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں کی صورت حال کیا ہے۔ قرضہ بذات خود وجہ تنقید قرار نہیں پاتا۔

دوسرے، ڈالر کی قیمت تو بہرصورت بڑھنا ہی تھی۔ یہ البتہ ممکن تھا کہ اس زوال کی رفتار کو قابو میں رکھا جاتا۔ ملکی کرنسی کی مصنوعی قیمت سے معیشت کی بنیاد کھوکھلی ہوتی ہے۔ محصولات کا ہدف ہم نے اس لئے بڑھایا کہ جن سے قرض لیا تھا، انہوں نے قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کی شرائط عائد کیں۔ قابل غور نکات دو ہیں۔ پہلا تو یہی کہ اسد عمر ابھی تک اس خوش فہمی میں ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی جادوئی شخصیت کے بل پر معیشت کے لئے کوئی شعبدہ دریافت کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ہم نے گزشتہ دو برس میں وفاقی بجٹ میں اخراجات کے خدوخال پر مناسب غور و فکر نہیں کیا۔ اس برس بھی پارلیمنٹ میں بجٹ پر کماحقہ بحث تو ہوئی نہیں۔ بجٹ کیسے پاس ہوا، یہ قومی مفاد کے نازک نکات ہیں۔

آئیے آپ کو 1972 میں لے چلیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن انقلابی اور عوامی حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ تب ہم نے نیشنلایزیشن کا تجربہ کیا تھا۔ آج پچاس برس بعد بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب ہم ’آسمانی بادشاہت‘کے ایک اور تجربے سے دوچار ہیں اور ہم نے ٹیکس کے نام پر ملکی معیشت جام کر دی ہے۔ پیداوار، کاروبار اور روزگار کے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ یہ نسخہ کارآمد نہیں ہو گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم سیاسی بصیرت اور معاشی حکمت میں تعلق قائم نہیں کر پا رہے۔ خدا معلوم کس نے یہ پٹی پڑھا دی ہے کہ گزشتہ دو حکومتوں نے رات کے اندھیرے میں خزانے کی الماری کھولی، قومی دولت بوریوں میں بھر کر کہیں جنگل میں چھپا دی۔ چنانچہ اگر دو درجن سیاسی حریفوں کو الٹا لٹکا دیا جائے تو ملکی خزانہ سرسبز ہو جائے گا۔ کوئی گزشتہ حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی کھوج لگانے نکلا ہے تو کوئی غیر ملکی دوروں کے اخراجات کا پشتارہ اٹھائے آ رہا ہے۔ احتساب کی یہ مشق شاید شجر اقتدار کے تازہ غنچوں کے لئے نئی ہو، ہمیں بھٹو کے سعید احمد خان، ضیاالحق کے فیض علی چشتی، نواز شریف کے سیف الرحمن، پرویز مشرف کے کموڈور ذکااللہ یاد ہیں۔ احتساب کی اس مشق سے جمہوری بندوبست کا مردہ خراب ہو گا اور معیشت کی بدھیا بیٹھ جائے گی۔

درویش نے استاد مرحوم ڈاکٹر اقبال سے پوچھا کہ سیاسی قیادت کو پرکھنے کا پیمانہ کیا ہے۔ فرمایا۔ ویژن۔ انگریزی کے اس مختصر سے لفظ نے ہماری تاریخ میں ایک آفت جوت رکھی ہے۔ کہیں ایوب خان کی نیلی آنکھیں اور دراز شانے ہیں۔ کہیں بھٹو کی چست انگریزی ہے، کہیں ضیاالحق کی پاک دامانی ہے، کہیں نواز شریف کی کاروباری سوجھ بوجھ ہے۔ اور اب تو خوابوں کا دیومالائی شہزادہ سفید گھوڑے پر سوار ہے۔ جدھر نظر اٹھائے، اہل حسن دل بچھاتے ہیں اور اہل ثروت تجوریاں کھول دیتے ہیں۔ اے صاحبان نظر، ویژن مجموعہ ہے علم، فہم اور ہدف میں تال میل کا۔ سیاست وہ مہارت ہے جس کی مدد سے رہنما اپنا ویژن قوم کو منتقل کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں کسی رہنما کا شخصی کرشمہ کام نہیں آتا، سکوں کی کھنک جادو دکھاتی ہے۔ کارخانے میں مشین کا گھومتا ہوا پہیا اسم اعظم ہے۔ درس گاہوں کا تعلیمی معیار ترقی کی کلید ہے۔ قومی اداروں کی ساکھ رہنماؤں کو ہالہ کئے ہوتی ہے۔ آپ بیرون ملک کھڑے ہو کر سیاسی حریفوں کو للکارتے ہیں، صحافت کو نکیل ڈالنا چاہتے ہیں اور دھمکیوں سے معیشت چلانا چاہتے ہیں۔ نثار عثمانی مرحوم فرمایا کرتے تھے، آپ پہلے حکمران نہیں ہیں اور یقیناً آخری بھی نہیں ہیں۔ مشیران کرام تو ہنر مند لوگ ہوتے ہیں، اگلی چوکھٹ پر بھی یہی بے بحر کا قصیدہ پڑھیں گے اور جھولیاں بھریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پیچھے نہیں، آگے دیکھو
30/07/2019 عاصمہ شیرازی

طاقت ہو اور اختیار نہ ہو مگر طاقتوری کا تاثر موجود ہو تو ایسے میں خام خیالی جنم لیتی ہے۔ خیال پختہ ہوتا چلا جائے تو یقین محسوس ہونے لگتا ہے، ہیولے اشکال میں اور تصورات تصویر میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ دراصل ایسا ہوتا نہیں مگر ہوتا ہے۔ اس ہونی اور انہونی میں کیے جانے والے فیصلے نہ پائیدار ہوتے ہیں اور نہ ہی نتیجہ خیز۔

حکومت اس وقت یقین اور بے یقینی کے درمیان ہے حالانکہ طاقت کا مرکز تصور ہو رہی ہے۔ یہ وہ واحد سیاسی حکومت ہے جس کے پیچھے تمام ادارے نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اس کی پائیداری کے لیے تگ و دو بھی کر رہے ہیں۔ سیاسی حکومت کے فیصلوں سے قبل ہی مہر اکتفا ثبت ہو جاتی ہے۔

انقلابِ زمانہ تو یہ ہے کہ حکومتی اراکین کے منہ سے ممکنہ گرفتاریوں کی فہرست پر من و عن عمل درآمد بھی ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب کی ہی بات ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری کی خواہش ہو یا شاہد خاقان عباسی کی ‘خواہش پر گرفتاری’، رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سمیت گرفتار کرنے کی فرمائش ہو یا عرفان صدیقی کی ‘تیکھی شرپسند ننھی’ کی ‘منی’ تقریروں کی ناپسندیدگی، ٹی وی سکرینوں سے ناپسندیدہ چہروں کو غائب کرنا ہو یا تنقید کی سیاہی کو مٹانا ہو محض اشارے کی دیر ہے اور ‘نکی جئی ہاں’ حکم میں بدل جاتی ہے۔

واشنگٹن کے کیپٹل ایرینا میں مولانا کی گرفتاری کا اشارہ بھی دے دیا گیا ہے، دیکھیے عمل درآمد کب ہو گا۔

طاقت کا مرکز اختیار کے چابک کو اس یقین کے ساتھ استعمال کر رہا ہے کہ وہی اس کا اصل مالک اور مختار ہے لیکن اس یقین کے شائبے میں چھپی حقیقت محض سراب ہے اور سراب حقیقت کی ضد، مگر ایسے میں ادھوری شکلیں کیا روپ اختیار کرتی ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔

اصولِ قدرت ہے کہ ہر طاقت کے لیے ایک طاقت اور ہر اختیار سے اوپر ایک اختیار موجود ہوتا ہے۔ اقتدار کا ایک صفحہ تیار ہو بھی جائے تو اشتراک کے دو دستخط کنفیوژن بڑھا دیتے ہیں۔

کپتان کی حکومت ایک طاقتور حکومت ہے اس کی ایک مثال قانون کرایہ داری میں سابق معلم، کالم نویس اور مشیر میاں نواز شریف کی تاریک رات میں گرفتاری اور سچے اور سُچے دن میں چھٹی کے روز رہائی تھی۔

کوئی ایک طاقت تو یہ دیکھ رہی ہو گی کہ 78 سال کے بزرگ کو قانون کرایہ داری کے تحت اندر کر دینا، ایک مجسٹریٹ کا قابل ضمانت جرم میں جس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک مہینہ اور چھ سو روپے جرمانہ ہے۔

ایک بے گناہ کی گرفتاری سراسر زیادتی ہے۔ اس طاقت نے بھی جوش تو مارا ہو گا، زیادتی اور ظلم قرار دیا ہو گا اور پھر حکم دیا ہو گا کہ اتوار کو عدالت لگوائیں، قانون کو لائن حاضر کریں اور انصاف کو بازیاب کرائیں۔

اگر کسی دن 15 کلو ہیروئن، اربوں کے جعلی اکاؤنٹس، ٹی ٹیوں کی تفصیلات، پانامے، اقامے، کرایہ نامے اور کئی ایک دیگر مقدمات میں اسی طرح این آر او کے بغیر ہی کسی طاقت نے جوش مار دیا اور رات کے اندھیرے میں، صبح صادق یا اتوار کے دن بغیر عدالتوں کے انصاف دستیاب ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔

جناب! یہ قرون اولی کے ایام نہیں بلکہ 21ویں صدی ہے، صحافت اشتہاروں سے، صحافی دھونس سے اور انصاف چابک سے کیسے ہانکے جا سکتے ہیں؟ طرز حکمرانی بدلیے اور بانہیں کھول کر تنقید سننے کا حوصلہ رکھیے، پھر یہ ہی نہیں ہر دور آپ کا ہو گا۔

پیچھے نہیں آگے دیکھیے۔ پیچھے دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں، ماضی میں کھو کر مستقبل گنوا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا استدعا ہے کہ پیچھے نہیں۔۔۔آگے دیکھیے آگے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سازشوں کی کڑی
سلمان نثار شیخ بدھ 31 جولائ 2019
1761434-sazishonkikarri-1564561394-553-640x480.jpg

یہاں ہر کسی کو لگ رہا ہے کہ دوسرا اس کے خلاف سازش کررہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نواز شریف سے لے کر ریاست پاکستان تک ہم میں سے اکثر کے خلاف ہر ایک یا اکثر لوگ سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی قوم کے خلاف اتنی سازشیں ہوئی ہوں جتنی ہمارے خلاف ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اور ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو اپنے مسائل کے حل کےلیے نہیں بلکہ ہمارے خلاف سازش کے طور پر منتخب کیا ہے اور اس پہ طرہ یہ کہ عمران خان میں ٹرمپ اور مودی سے مماثلتیں تلاش کرکے انہیں بھی ’’اسی‘‘ سازش کے سلسلے کی اگلی کڑی قرار دیا جاتا ہے۔

ماضی میں نواز شریف دائیں بازو کے طاقتور طبقے کی بائیں بازو کے روشن خیال گروہ کے خلاف ایک سازش تھے۔ آج نواز شریف بائیں بازو کی دائیں بازو کے خلاف ایک سازش ہیں۔

اور اوپر سے ان کے اپنے خلاف سازشیں! ارض و سماء کی تمام قوتیں باہم متحد ہو کر اس ایک نہتے لڑکے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ عمرانیات کا اصول ہے کہ جس سے جتنا زیادہ پیار ہوتا ہے، اس کے اتنے زیادہ نام رکھے جاتے ہیں اور اگر نواز شریف کی تاریخ دیکھیں اور ان کا اور اسٹیبلشمنٹ کا جنم جنم کا ساتھ دیکھیں تو جب وہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ خلائی مخلوق ان کے خلاف سازشیں کر رہی ہے، اسکرپٹ رائٹر ان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، محکمہ زراعت والے ان کے خلاف صف آرا ہیں اور تو اور منے کے ابا بھی ان کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں تو پھر یہ نکتہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ محبت جتنی پرانی ہوتی ہے، اتنی ہی گہری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی پرانا محبوب آپ کو کٹہرے میں لاکھڑا کرے، آپ کی محبت کا انکار کردے، آپ کا حقہ پانی بند کردے اور پھر بھی آپ کا جی اسے برا سمجھنے کو نہ مانے تو پھر آپ یہی دہائی دیں گے ناں کہ میری محبت ناخالص نہیں، محبوب کی ناراضی کا سبب دراصل ہم دونوں کے بیچ کسی تیسرے کی سازش ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ تیسرا کوئی اور نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہو۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کے پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

غضب خدا کا بھلا کٹھ پتلی بے چاری کسی کے خلاف کیسے سازش کرسکتی ہے؟ اس کا تو اپنا وجود کسی کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ لیکن نہیں!

بات دراصل یہ ہے کہ اگر کل تک ہم کٹھ پتلی ہونے کے باوصف محبوب کی آںکھ کا تارا تھے اور آج کٹھ پتلی بننے کا انکار کرتے ہی ثریا نے ہم کو زمین پر دے مارا ہے اور نئی کٹھ پتلی کو آنکھ کا تارا بنا لیا ہے اور ہم جو اب تک یہ سمجھتے آئے تھے کہ محبوب ہمیں ہمارے کٹھ پتلی ہونے کے سبب نہیں بلکہ حسین ہونے کے سبب چاہتا ہے، اب اعترافِ حقیقت کرکے کیوں جی جلائیں؟ مار تو کھا ہی لی ہے، اب کم از کم یہ شور مچا کر ہی دل کو بہلا لیں کہ محبوب کی ناراضی دراصل کسی تیسرے کی، کسی کٹھ پتلی کی سازش ہے، ورنہ محبوب تو آج تک ہمارے حُسن پر جی جان سے مرتا ہے۔

چنانچہ اہلِ وطن سے التماس ہے کہ انہیں نواز، عمران اور اہل قوت کی باہمی رسہ کشی سے پریشان ہونے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح ہر دور اور ہر خطے کے سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا، سسی پنوں، مرزا صاحباں، سیتا رام اور رومیو جیولٹ اپنے اپنے زمانوں کے چاچا قیدو سے لڑتے رہے ہیں اور ہر ممکن حد تک کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی کھلم کھلا باہم محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے ہیں، اسی طرح آج بھی کبھی منے کے ابا مریم نواز سے درونِ خانہ ڈیل کررہے ہوتے ہیں تو کبھی عمران خان کے ساتھ ٹرمپ کے پہلو میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ دنیا اسی کا نام ہے۔

میاں صاحب یاد آ گئے (ن لیگ والے نہیں، سیف الملوک والے)

سدا نہ ماپے حُسن جوانی، سدا نہ صُحب یاراں

احمد فراز نے بھی عین اسی وقت کےلیے کہا ہے:

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

اور اب اگر فراز کی سنی ہے تو فیض کی بھی سنیں، عین برمحل ہے۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں

اگر آج ڈیل دینے والے مریم نواز کو آفر دے سکتے ہیں اور براہِ راست آفر پر ناکام ہونے پر عمران خان کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن کی خدمت میں نامۂ محبت بھجوا سکتے ہیں تو کیا پھر بھی خان صاحب کو یہ لگتا ہے کہ ان کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور ن لیگ ہمیشہ نامراد رہے گی اور وہ جسے چاہیں جیلوں میں بھریں، انہیں کچھ بھگتنا نہیں پڑے گا؟

اگر وہ واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو اسی جنت میں رہتے ہیں جس میں ڈان لیکس سے لے کر جی ٹی روڈ مارچ تک کے زمانے میں نواز شریف رہا کرتے تھے اور مریم نواز ہنوز ٹھہری ہوئی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہو بہو وہی اعتراضات ہیں جو ڈان اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔
Former president Asif Zardari’s interview was pulled a few minutes into transmission​
آصف زرداری نیب کی حراست میں ہیں۔ پروڈکشن آرڈر کے تحت پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے لئے لائے گئے تھے۔ لیکن ہاؤس میں بیٹھنے کی بجائے بلاول زرداری کے کمرے میں چھپ کر حکومت اور نیب کے خلاف انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ جو کہ پروڈکشن آرڈر قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اسی لئے اس انٹرویو کو چلنے سے روکا گیا۔

;TV channels were sent show-cause notices for airing Maryam Nawaz’s live press conference​
مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سزا یافتہ مجرم ہیں۔آئین و قانون کے تحت وہ کوئی پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتی۔ کجا یہ کہ سیاسی جلسے اور پریس کانفرسز کر کے اسے ٹی وی پر نہ دکھائے جانے کا رونا روئیں۔

;Three channels were taken off air without assigning any reason; another channel, a few hours before the prime minister arrived in the US, was either forced off the air or had its channel number changed in many parts of the country​
ان تینوں چینلز نے سزا یافتہ مجرم مریم نواز کی سیاسی تقریر براہ راست دکھا کر قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس لئے کچھ عرصہ کیلئے پیمرا نے ان کو بند کر دیا تھا۔ یہ آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ کسی سزا یافتہ مجرم کی اس طرح ٹی وی پر تشہیر کی جائے۔ ن لیگ کے دیگر لیڈران کے تمام جلسے اور تقاریر چل رہے ہیں۔ ان کے نمائندگان روزانہ مختلف ٹاک شوز میں آکر اپنی پارٹی کا موقف پیش کرتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ صرف مریم نواز پر ہے کیونکہ وہ سزا یافتہ مجرم ہیں۔ اور اس وقت ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔
جیو نیوز کا چینل نمبر وقتی طور پر اس لئے بدلا گیا کیونکہ انہوں نے کیبل آپریٹرز کو بروقت ادائیگی نہیں کی تھی۔ اب شاید واپس آگیا ہے۔
Just a few hours after you landed in the United States, the leading Pakistani TV news channel, Geo News, was censored yet again. Your fellow citizens found a blank screen when they tried to obtain independent, public interest reporting about your trip from this channel​

A month ago, a live Geo News interview with former President Asif Ali Zardari by the well-known journalist Hamid Mir was cut short after just a few minutes without any explanation. When contacted by RSF, the interviewer blamed you for this sudden and completely arbitrary act of censorship​

The signals of three other Pakistani TV news channels, AbbTakk TV, 24 News and Capital TV, were suddenly suspended from cable TV services on 8 July without any warning to their management, and remained suspended for several days. Najam Sethi, a well-known journalist who often works with 24 News, confirmed to RSF that the suspension was a reprisal for their coverage of a press conference by Maryam Nawaz Sharif, another opposition figure
After a year of press freedom violations, RSF writes to Pakistan’s premier | Reporters without borders
پاکستانی لفافوں نے عالمی صحافتی تنظیموں میں آزادی صحافت سے متعلق خوب شکایتیں لگائی ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ مریم نواز کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ عدالت سے نااہل شدہ، سزا یافتہ مجرم ہیں اور اس وقت ضمانت پر رہا ہیں۔ ایک مجرم کی تقریریں دکھانا پیمرا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین چینلز کے خلاف عارضی کاروائی ہوئی تھی۔
اسی طرح آصف زرداری جو اس وقت میگا منی لانڈرنگ کیس میں حراست میں ہیں کو پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی لایا گیا تھا۔ مگر وہ وہاں سے بھاگ گئے اور بلاول زرداری کے کمرے میں چھپ کر انٹرویو دیا۔ یہ بھی پروڈکشن آرڈر قانون کی خلاف ورزی تھی اس لئے انٹرویو نشر نہیں کیا گیا۔
جبکہ جیو نیوز کا کیبل آپریٹرز سے ادائیگیوں کے سلسلہ میں کوئی تنازعہ چل رہا تھا اس لئے کچھ عرصہ کیلئے ان کا چینل پیچھے کر دیا گیا تھا۔
اس وقت تمام چینلز معمول پر کام کر رہے ہیں۔ صرف لفافیوں کو حکومت سے شکایتیں ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہو بہو وہی اعتراضات ہیں جو ڈان اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔

Just a few hours after you landed in the United States, the leading Pakistani TV news channel, Geo News, was censored yet again. Your fellow citizens found a blank screen when they tried to obtain independent, public interest reporting about your trip from this channel​

A month ago, a live Geo News interview with former President Asif Ali Zardari by the well-known journalist Hamid Mir was cut short after just a few minutes without any explanation. When contacted by RSF, the interviewer blamed you for this sudden and completely arbitrary act of censorship​

The signals of three other Pakistani TV news channels, AbbTakk TV, 24 News and Capital TV, were suddenly suspended from cable TV services on 8 July without any warning to their management, and remained suspended for several days. Najam Sethi, a well-known journalist who often works with 24 News, confirmed to RSF that the suspension was a reprisal for their coverage of a press conference by Maryam Nawaz Sharif, another opposition figure
After a year of press freedom violations, RSF writes to Pakistan’s premier | Reporters without borders
پاکستانی لفافوں نے عالمی صحافتی تنظیموں میں آزادی صحافت سے متعلق خوب شکایتیں لگائی ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ مریم نواز کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ عدالت سے نااہل شدہ، سزا یافتہ مجرم ہیں اور اس وقت ضمانت پر رہا ہیں۔ ایک مجرم کی تقریریں دکھانا پیمرا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین چینلز کے خلاف عارضی کاروائی ہوئی تھی۔
اسی طرح آصف زرداری جو اس وقت میگا منی لانڈرنگ کیس میں حراست میں ہیں کو پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی لایا گیا تھا۔ مگر وہ وہاں سے بھاگ گئے اور بلاول زرداری کے کمرے میں چھپ کر انٹرویو دیا۔ یہ بھی پروڈکشن آرڈر قانون کی خلاف ورزی تھی اس لئے انٹرویو نشر نہیں کیا گیا۔
جبکہ جیو نیوز کا کیبل آپریٹرز سے ادائیگیوں کے سلسلہ میں کوئی تنازعہ چل رہا تھا اس لئے کچھ عرصہ کیلئے ان کا چینل پیچھے کر دیا گیا تھا۔
اس وقت تمام چینلز معمول پر کام کر رہے ہیں۔ صرف لفافیوں کو حکومت سے شکایتیں ہیں۔
رائے ایمان دارانہ ہی اچھی لگتی ہے۔ پاکستان میں صحافیوں پر قدغنیں عائد ہیں اور انہیں مختلف حیلے بہانوں سے سچ کہنے سے روکا جا رہا ہے۔ دیکھیے، اگر آپ کو صحافیوں پر جائز مقدمات بنانے ہیں، تو ضرور بنائیے۔ انہیں کٹہرے میں لائیے۔ تاہم، انہیں سچ کہنے سے روکا جانا تشویش ناک ہے۔ کئی صحافی اس لیے اپنے چینلز چھوڑ چکے ہیں کیونکہ وہ ادھورا سچ بولنے کے رواداد نہیں ہیں۔ آپ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ الگ معاملہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کئی صحافی اس لیے اپنے چینلز چھوڑ چکے ہیں کیونکہ وہ ادھورا سچ بولنے کے رواداد نہیں ہیں۔ آپ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ الگ معاملہ ہے۔
جو صحافی میڈیا مالکان کے دباؤ کی وجہ سے پورا "سچ" بول نہیں پارہے وہ سوشل میڈیا پر مسلسل ایٹم بم گرائے جا رہے ہیں۔
یہ شور تب مچائیں جب سوشل میڈیا پر بھی صحافتی پابندیاں لگیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جو صحافی میڈیا مالکان کے دباؤ کی وجہ سے پورا "سچ" بول نہیں پارہے وہ سوشل میڈیا پر مسلسل ایٹم بم گرائے جا رہے ہیں۔
یہ شور تب مچائیں جب سوشل میڈیا پر بھی صحافتی پابندیاں لگیں۔
سوشل میڈیا کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کا ویسا امپیکٹ یا تاثر نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کالم نویس کو اخبار میں کالم لکھنے سے روک دیا جائے اور وہ اے فور سائز پر اپنے کالم کے پرنٹ نکال کر لوگوں میں خود بانٹتا پھرے! :) ہر فوٹو کاپی کو آگے پھیلانے والے کے لیے دعا بھی کرے اور یہ توقع بھی رکھے کہ جلد ہی مونیٹائزیشن بھی شروع ہو جائے گی۔ مثال اچھی دی ہے نا، اب داد دیجیے! :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سوشل میڈیا کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کا ویسا امپیکٹ یا تاثر نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کالم نویس کو اخبار میں کالم لکھنے سے روک دیا جائے اور وہ اپنے کالم کے پرنٹ نکال کر لوگوں میں خود بانٹتا پھرے! :) مثال اچھی دی ہے نا، اب داد دیجیے! :)
میڈیا پر مبینہ قدغن کے جو بڑے اعتراضات اٹھائے گئے تھے ان کا تفصیلی جواب میں یہاں دے چکا ہوں۔ اگر آپ کے پاس مزید کوئی اعتراض ہو تو وہاں بخوشی پیش کر سکتے ہیں :)
’پاکستانی میڈیا آزاد؟ ڈیئر وزیراعظم آپ کی معلومات انتہائی ناقص ہیں‘
 

زیک

مسافر

کیا پاکستان میں کوئی اور پی آر کمپنی ہے جس میں انٹرنز اتنی زیادہ تعداد میں ہوں؟ یہ سب کیا کرتے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
مکمل ٹیک اوور
جاوید چوہدری جمعرات 1 اگست 2019

’’یہ مارشل لاء کے لیے آئیڈیل صورت حال ہے‘‘ صاحب نے سگار سلگایا‘ کافی کا کپ ناک کے قریب لا کر لمبی سانس لی اور میز پر پڑی ریت گھڑی کو الٹا دیا‘ ریت اوپری خانے سے نیچے سرکنے لگی‘ وہ مسکرائے اور پھر آہستہ سے بولے ’’آپ حالات دیکھ لیں‘ پورا ملک بند ہو چکا ہے‘ فیکٹریاں رک گئی ہیں‘ پیداوار سلو ہو گئی ہے‘ درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور برآمدات منجمد ہیں۔

آپ کسی دکان دار سے پوچھ لیں‘ آپ صنعت کاروں‘ تاجروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ان کے حالات پوچھ لیں‘ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دہائی دیں گے‘ ملک میں معیشت کے تین پہیے تھے‘ یہ تین پہیے پورے ملک کو چلا رہے تھے‘ رئیل اسٹیٹ‘ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز اور موبائل فون کمپنیاں‘ یہ تینوں شعبے ملک کی جڑوں تک پہنچ چکے تھے‘ آپ کو 2017-18ء میں ہر تیسرا خوش حال شخص پراپرٹی ڈیلر ملتا تھا‘ ملک کے بڑے بڑے گروپوں نے باپ دادا کا کام چھوڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ ہاؤسنگ کمپلیکس اور بلڈنگز بنانا شروع کر دی تھیں۔

رئیل اسٹیٹ دنیا میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے‘ یہ اکیلی انڈسٹری ساٹھ انڈسٹریز کو چلاتی ہے‘ یہ دنیا میں جابز کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے‘ آپ دو مرلے کا گھر بنائیں‘ آپ 260 لوگوں کا چولہا جلائیں گے چناں چہ ملک میں رئیل اسٹیٹ بوم آیا اور اس بوم کی وجہ سے ملک میں چار ماہ اینٹ نہیں ملتی تھی‘ آپ کو ٹائلیں لگانے والے اور پلمبر تک دستیاب نہیں ہوتے تھے‘ تعمیراتی میٹریلز میں بھی نئی نئی اختراعات آ رہی تھیں‘ آپ نے ملک میں جتنی قسم کا کنسٹرکشن میٹریل پچھلے پانچ سالوں میں دیکھا ہو گا آپ کو یہ پوری زندگی نہیں ملا ہوگا لیکن پھر یہ حکومت آئی اور رئیل اسٹیٹ کی پوری انڈسٹری بیٹھ گئی‘ کنسٹرکشن‘ ڈویلپمنٹ اور سیل پرچیز تینوں بند ہو گئیں‘ کیوں ہوئیں؟

تین وجوہات تھیں‘ حکومت نے رئیل اسٹیٹ ٹائی کونز کے کیس کھول دیے اور یہ لوگ ڈویلپمنٹ کا کام چھوڑ کر عدالتوں اور ایف بی آر میں دھکے کھانے لگے‘ لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم ہو گئی‘ لوگ اب بل دیں‘ بچوں کو تعلیم دلائیں‘ گھر کا راشن پورا کریں یا پھر مکان یا دکان بنائیں چناں چہ لوگ اپنے خوابوں کے پاؤں سمیٹ کر بیٹھ گئے اور تیسری وجہ لوگوں نے ملک کے غیر یقینی معاشی حالات کی وجہ سے اپنا سرمایہ بینکوں سے نکال کر ڈالرز اور پاؤنڈز میں تبدیل کیا اور گھروں میں چھپا دیا چناں چہ بیڑہ غرق ہو گیا‘ صرف رئیل اسٹیٹ کے انجماد کی وجہ سے پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

آپ کو جن دفتروں میں روزانہ لوگوں کی قطاریں ملتی تھیں وہ اب سنسان اور بیابان دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جن کاریگروں سے کام کرانے کے لیے راتوں کے وقت ان کے گھروں کے چکر لگاتے تھے وہ اب دن کے وقت بھی اپنی دہلیز پر بیٹھے ہوتے ہیں‘ دوسرا پہیا موبائل فون کمپنیاں تھیں‘ یہ کمپنیاں بھی زوال کا شکار ہو گئیں‘ ان کا ریونیو 40 فیصد کم ہو گیا ‘ لوگ اب صرف ضرورت کے تحت کال کرتے ہیں‘ یہ اب واٹس ایپ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ انٹرنیٹ کی راشنگ بھی کرتے ہیں اور پیچھے رہ گئے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز ‘یہ بھی ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

تنخواہیں کم ہو چکی ہیں‘ ریونیو ڈاؤن سے ڈاؤن ہو رہا ہے اور ورکرز کو تین تین ماہ معاوضہ نہیں ملتا‘ ملک کے دس نیوز چینلز بندش کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ سارے حالات مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں کافی اور سگار کی ملی جلی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور میں خوف کے عالم میں انھیں دیکھ رہا تھا‘ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خوف پھیلانے کی بے تحاشا صلاحیت دے رکھی تھی‘ یہ کسی بھی وقت کسی بھی اچھے بھلے شخص کا پیشاب خشک کر سکتے ہیں‘ آپ بس ان کے ساتھ گفتگو شروع کریں اور پھر تماشا دیکھیں‘ میں بھی اس وقت اسی عمل سے گزر رہا تھا۔

وہ رکے اور بولے ’’ملک کا سرکاری نظام بھی پوری طرح بیٹھ چکا ہے‘ حکومت کو سرکاری اداروں کے ڈی جی‘ چیئرمین اور سیکریٹری نہیں مل رہے‘ وزراء فائل سیکریٹریوں کو بھجواتے ہیں اور یہ ان پر سائن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ نیچے سے آنے والی فائلیں بھی مختلف دفتروں‘ مختلف محکموں میں دھکے کھاتی رہتی ہیں اور کوئی ان پر آرڈر لکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا‘ عدلیہ کے حالات بھی ایسے ہیں‘ ججوں کی ٹیپس نکل رہی ہیں‘ عدالتوں میں مقدمے جاتے ہیں اور دس دس سال فیصلے نہیں ہوتے‘ نیب ریفرنس تیار کرتی ہے‘ مجرموں کو پکڑتی ہے اور پھر نیب کے وکلاء مجرم کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کر پاتے‘ مجرم آسانی سے نکل جاتے ہیں۔

عوامی بہبود کے ادارے بھی بدترین دور سے گزر رہے ہیں‘ کراچی کی سڑکیں کچرہ کنڈی بن چکی ہیں‘ آپ روشنیوں کے شہر میں سانس نہیں لے سکتے‘ پانی‘ صحت اور بجلی کی حالت بھی پتلی ہے‘ ڈی ایچ اے کے رہائشی بھی پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں‘ سرکاری دفتروںمیں بھی پانی نہیں ہوتا‘ آپ بلدیہ کی عمارت میں جا کر دیکھ لیں آپ کو اس کے گٹڑ بھی ابلتے ملیں گے‘ پنجاب کے حالات بھی خراب ہیں‘ لاہور میں بارش ہوئی اور پورا شہر ڈوب گیا‘ آپ کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو گلیوں‘ سڑکوں اور چوکوں میں گندگی کے ڈھیر ملیں گے۔

سینٹری ورکرز پورے پنجاب سے غائب ہو چکے ہیں‘ پشاور میں حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا‘ 57 ارب روپے اضافی بھی خرچ کردیے لیکن اس کے باوجود میٹرو مکمل نہیں ہو سکی‘ آرمی کے بغیر اب فاٹا اور بلوچستان میں امن ممکن نہیں رہا‘ آپ جس دن فوج کی چوکیاں ختم کرتے ہیں صوبے میں اس دن قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور آپ کو فاٹا کے الیکشن بھی فوج کے پہروں میں کرانا پڑے اور یہ حالات بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور بولے ’’اور آپ انٹرنیشنل ریلیشنز بھی دیکھ لیجیے‘ چین اور روس دونوں پاکستان کو بے یقینی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرتے ہیں اور وہ کال ریسیو نہیں کرتا‘ وزیراعظم امریکا میں جا کر دھرنے کی تقریر کر کے واپس آ جاتے ہیں‘ امریکی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کو بس پر بٹھا کر طیارے سے لاؤنج تک پہنچایا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فل پروٹوکول دیا‘ پینٹا گان میں انھیں گارڈ آف آنر بھی دیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی بھی ‘ امریکا میں 21 توپوں کی سلامی پروٹوکول کا سب سے بڑا اعزاز ہوتی ہے‘ یہ سلامی جنرل باجوہ سے پہلے آخری بار بے نظیر بھٹو کو دی گئی تھی۔

یہ سلامی ثابت کرتی ہے امریکا وزیراعظم کے بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ یہ حالات بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ صاحب رکے‘ کافی کا سپ لیا اور پھر سگار کے لمبے لمبے کش لینے لگے‘ میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’کیا یہ حالات مارشل لاء کے لیے کافی ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ اگر ان میں پارلیمنٹ کو بھی شامل کر لیں تو تصویر مزید واضح ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ نہیں چل پا رہی‘ سال ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پارلیمانی کمیٹیاں مکمل نہیں ہوئیں‘ پارلیمنٹ کا ہر سیشن ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا ہے۔

وزیراعظم اپوزیشن اور اپوزیشن وزیراعظم سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں‘ سلیکٹڈ کا لفظ باقاعدہ گالی بن چکا ہے اور پارلیمنٹ نے ایک سال میں کوئی قانون سازی‘ کوئی تعمیری کام نہیں کیا‘ رہی سہی کسر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے دوران پوری ہو گی‘ سیاست مزید ننگی ہو کر قوم کے سامنے آ گئی اور یہ بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل حالات ہیں‘‘ وہ رک گئے‘ میں نے عرض کیا ’’کیا یہ کافی ہے‘‘ وہ بولے نہیں ’’بس عوام باقی ہیں‘ حکومتی پالیسیوں کے بدترین اثرات نومبر دسمبر میں کھل کر سامنے آ جائیں گے جس کے بعد لوگ باہر آنا شروع کر دیں گے‘ یہ منتخب نمایندوں اور وزراء کا گھیراؤ کریں گے۔

حکومت دفتروں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی‘ وزراء عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے‘ یہ جہازوں کے اندر بھی عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگیں گے اور لوگ انھیں سڑکوں اور پارکوں میں بھی روک کر کھڑے ہو جائیں گے اور یہ وہ ٹائم ہو گا جب فوج آگے بڑھنے پر مجبور ہو جائے گی‘ عوام کے پاس بھی اس وقت انھیں ویل کم کہنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘ وہ وقت نازک ترین ہو گا‘‘ وہ رک گئے۔

میں نے پوچھا ’’کیا فوج معاملات کو درست کر لے گی‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’سو فیصد‘ فوج چند ماہ میں ملک کو ٹریک پر لے آئے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولے ’’ یہ شرح سود کو ساڑھے تیرہ سے ساڑھے سات فیصد پر لے آئے گی‘ رئیل اسٹیٹ‘ موبائل فون اور میڈیا انڈسٹری کو دس سال کے لیے ٹیکس ایمنسٹی دے دے گی‘حکومت ایکسپورٹس پر ٹیکس کی چھوٹ بڑھا دے گی‘ یہ اسٹاک ایکسچینج کو شوکت عزیز ماڈل پر لے جائے گی‘ یہ پشاور میٹرو سمیت تمام ترقیاتی منصوبے دو تین ماہ میں مکمل کر دے گی‘ یہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کر دے گی‘یہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنا کر جیلوں میں قید تمام سیاست دانوں کو رہا کردے گی‘ یہ لوگ پوری دنیا میں جہاں جانا چاہیں یہ چلے جائیں بس یہ سیاست نہیں کر سکیں گے‘ یہ ایف بی آر اور نیب دونوں کا سسٹم سادہ اور شفاف کر دے گی۔

یہ ادارے ناقابل تردید ثبوتوں کے بغیر کسی شخص کو گرفتار نہیں کر سکیں گے‘یہ بلوچستان اور فاٹا کے ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لے آئے گی اور یہ انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گی اور یوں ملک چند ماہ میں ٹریک پر آ جائے گا‘ وہ رکے‘ سگار منہ سے لگایا اور شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’یہ چیزیں اگر اتنی ہی سادہ ہیں تو یہ پھر یہ حکومت کیوں نہیں کر لیتی‘ ملک بچ جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور دیر تک ہنستے چلے گئے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا چلا گیا‘ وہ شاید جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔

میں نے آخری سوال پوچھا’’آپ کس کو اس صورت حال کا ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’عمران خان معصوم ہیں‘ یہ ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ان کے دوست صورت حال کو وہاں لے آئے ہیں جہاں اب مکمل ٹیک اوور کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا‘ ملک کو اب نیشنل گورنمنٹ اور شاہ محمود قریشی بھی نہیں چلا سکیں گے‘‘۔ کمرے میں خاموشی ہو گئی‘ گہری خاموشی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کسی دکان دار سے پوچھ لیں‘ آپ صنعت کاروں‘ تاجروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ان کے حالات پوچھ لیں‘ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دہائی دیں گے‘ ملک میں معیشت کے تین پہیے تھے‘ یہ تین پہیے پورے ملک کو چلا رہے تھے‘ رئیل اسٹیٹ‘ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز اور موبائل فون کمپنیاں‘ یہ تینوں شعبے ملک کی جڑوں تک پہنچ چکے تھے‘ آپ کو 2017-18ء میں ہر تیسرا خوش حال شخص پراپرٹی ڈیلر ملتا تھا‘ ملک کے بڑے بڑے گروپوں نے باپ دادا کا کام چھوڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ ہاؤسنگ کمپلیکس اور بلڈنگز بنانا شروع کر دی تھیں۔
رئیل اسٹیٹ دنیا میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے‘ یہ اکیلی انڈسٹری ساٹھ انڈسٹریز کو چلاتی ہے‘ یہ دنیا میں جابز کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے‘ آپ دو مرلے کا گھر بنائیں‘ آپ 260 لوگوں کا چولہا جلائیں گے چناں چہ ملک میں رئیل اسٹیٹ بوم آیا اور اس بوم کی وجہ سے ملک میں چار ماہ اینٹ نہیں ملتی تھی‘ آپ کو ٹائلیں لگانے والے اور پلمبر تک دستیاب نہیں ہوتے تھے‘ تعمیراتی میٹریلز میں بھی نئی نئی اختراعات آ رہی تھیں‘ آپ نے ملک میں جتنی قسم کا کنسٹرکشن میٹریل پچھلے پانچ سالوں میں دیکھا ہو گا آپ کو یہ پوری زندگی نہیں ملا ہوگا لیکن پھر یہ حکومت آئی اور رئیل اسٹیٹ کی پوری انڈسٹری بیٹھ گئی‘ کنسٹرکشن‘ ڈویلپمنٹ اور سیل پرچیز تینوں بند ہو گئیں‘ کیوں ہوئیں؟
عمران خان کے آنے سے قبل ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھی۔ بہت ظالم آدمی ہے۔ ٹیکس نہ دینے پر ملک کی اشرافیہ کی دکانیں بند کر دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کے ممبر قومی اسمبلی تو فوج نے قید کر رکھے ہیں
فوج نے کہا تھا کہ ان کی اپنی چیک پوسٹس پر حملے کرو؟
مقامی حکومت سے مراد فاٹا میں صوبائی اور بلدیاتی الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومت ہے۔ پورے صوبہ میں حکومت تو تحریک انصاف کی ہی ہے۔
 
Top