جاسم محمد

محفلین
آپ کے ٹوکنے پر آپ کے ساتھ جتنی اس محفل میں ہوئی اس سے کہیں زیادہ اس محفل میں ہو رہی ہے. اب برداشت کریں ہاہاہا
ویسے اس میں ملاقاتیوں کیلئے ایک سبق بھی ہے کہ آئیندہ ملاقات کا مقام وہ رکھا جائے جہاں گول دائرہ میں بیٹھنے کی سہولت موجود ہو۔
یوں مشترکہ ملاقات میں ون ٹو ون گفتگو کم رہے گی اور ہر محفلین کو ایک جتنی بات کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔
 
خیر جیسا کہ مختلف شہروں سے مراسلات بتا رہے ہیں۔ یرغمالیوں کیلئے یہ تمام قید و بند دہشت گردوں کی کرامات ہیں۔
آرمی پبلک سکول پشاور سانحہ کے وقت پاکستان میں موجود تھا۔ اور چند دن قبل ہی چکلالہ کینٹ سے ہو کر آیا تھا۔
سانحہ کے بعد دوبارہ گیا تواسی چیک پوسٹ پر نفری ڈبل اور کاروں کی لمبی قطاریں۔ اکثر لوگ جو پہلے با آسانی آ جا سکتے تھے اب گاڑیاں گھما کر واپس جا رہے تھے۔
اس لئے میرے خیال میں فوج یرغمالیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے وہ ان کی سیکورٹی مجبوری ہے۔ اکا دکا سویلین دہشت گرد جو کرتے ہیں اس کی سزا باقی سب یرغمالیوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
اور ان لوگوں کے اندیشوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایسے سانحات رونما ہی ایسے تمام اختیارات حاصل کرنے کے لیے ہوتے رہے ہیں گاہے بگاہے۔
 
یاد داشت کے علاوہ تخلیق کی صلاحیت بھی استعمال کی گئی ہے۔۔۔ ;)
مثلاً یہ جملہ:

زیک نے صرف "ایک" ڈیٹا بیس کا نہیں کہا تھا۔۔۔ اور اس کے استعمال کے متعلق بھی یہ قدغن عاید نہیں کی تھی کہ صرف فلاں اور فلاں مقاصد کے لیے ہی ممکن ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ "ایسے ڈیٹا بیسز موجود ہیں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ لوگ آپ کے کام کے لیے ان کے استعمال کی اجازت دیں گے یا نہیں"۔
میں نے ریکارڈ نہیں کیا تھا کہ حرف بہ حرف سب وہی لکھتا جو فرمایا گیا تھا۔ چلیں درستگی کر دیتا ہوں تاکہ سند رہے۔
"جنوبی ایشیاء اور پاکستان کے ڈی این اے سیمپلز کا بھی اچھا خاصا ڈیٹا بیس موجود ہے لیکن اس تک رسائی پتہ نہیں آپ کو کمرشل کام کے لیے مل سکے گی یا نہیں":rolleyes::rolleyes:
مطلب میں کتنا فرق پڑا ٹھاکر :sneaky::sneaky::sneaky:
 
لاہور میں موجود ایک کافر بھی ۔۔ولایتی سے ملنے کا متمنی ہے کب سے ۔۔ پر دارالحکومت ہی آماجگاہ ہوتی ہے
یہ لاہوریا کافر بھی تو ولایتیوں سے ہی ملنے کا متمنی رہتا ہے ورنہ دوسرے دیسی تو لاہور سے پتہ پچھتے پچھتے ہی مڑ آئے کئی بار۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لاہوریا کافر بھی تو ولایتیوں سے ہی ملنے کا متمنی رہتا ہے ورنہ دوسرے دیسی تو لاہور سے پتہ پچھتے پچھتے ہی مڑ آئے کئی بار۔
اوہ اچھا یعنی ہمارے ساتھ ملاقات کی اصل وجہ صرف ہمارا ولایت سے آنا تھا۔ ہم خوامخواہ ہی خود کو خواص سمجھتے رہے :)
 
آپ کے ٹوکنے پر آپ کے ساتھ جتنی اس محفل میں ہوئی اس سے کہیں زیادہ اس محفل میں ہو رہی ہے. اب برداشت کریں ہاہاہا
ارے جناب آپ جیسے کچھ دوستوں کی خوشی کے لیے تو ہم ہر ہر محفل میں تماشہ بن سکتے ہیں خوشی خوشی سے۔
شاید آپ کو یاد نہ ہو لیکن اکثر ہماری کوشش یہی رہی ہے کہ اگر ہماری وجہ سے محفل میں کچھ دیر مسکراہٹیں بکھر سکتی ہیں تو کیوں نہ قربانی کا بکرا بن ہی لیا جائے۔ اور یہاں بھی یہی ایک مجھ سے متعلق سرا ہی ہاتھ آ رہا ہے ملاقات کے موضوع کو طول دینے اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے ورنہ سترنگی جھنڈے والا موضوع تو ویسے بھی قینچی کی نظر ہو جانا ہے، اور محمد سعد کی سعادت مندی اور شرافت ایک نسبتاً حساس بندے سے متعلق ہے جس سے ملاقات بھی پہلی تھی اور کبھی غائبانہ تعارف بھی نہیں ہوا تھا اس لیے انہیں چھوٹ دے دی ورنہ مسکرانا آج کل کہاں سستا ہے فاتح میاں۔ :cowboy1::cowboy1:

اب برداشت کریں ہاہاہا
میں نے کہاں اعتراض کیا کچھ ;);)
اور برداشت کیا کرنا میں تو انجوائے کر رہا ہوں اور تھوڑا نمک مصالحہ بڑھا رہا ہوں۔ تاکہ ذوالقرنین اور دیگر دوستوں کے آجانے کے بعد مزید بہتر تڑکا لگ سکے۔
 
اوہ اچھا یعنی ہمارے ساتھ ملاقات کی اصل وجہ صرف ہمارا ولایت سے آنا تھا۔ ہم خوامخواہ ہی خود کو خواص سمجھتے رہے :)
میں بابا جی یعنی فراز بھائی سے کہہ رہا ہوں کہ وہ بھی تو زیک سے ہی ملنے کے متمنی نظر آ رہے ہیں ورنہ میں تو لاہور میں کئی بار ان کا پوچھ پوچھ کر واپس آ چکا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
میں نے ریکارڈ نہیں کیا تھا کہ حرف بہ حرف سب وہی لکھتا جو فرمایا گیا تھا۔ چلیں درستگی کر دیتا ہوں تاکہ سند رہے۔
"جنوبی ایشیاء اور پاکستان کے ڈی این اے سیمپلز کا بھی اچھا خاصا ڈیٹا بیس موجود ہے لیکن اس تک رسائی پتہ نہیں آپ کو کمرشل کام کے لیے مل سکے گی یا نہیں":rolleyes::rolleyes:
مطلب میں کتنا فرق پڑا ٹھاکر :sneaky::sneaky::sneaky:
اس میں بار بار "کمرشل" کا تذکرہ کیسا؟ میں نے کمرشل کام کے لیے نہیں پوچھا تھا۔ لا انفورسمنٹ کی انویسٹیگیشن اور فورینزک کمرشل کے زمرے میں نہیں آتے۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
چھاؤنی اگر شہر سے باہر ہو تو فوجی جیسے چاہے سلوک کریں کہ وہاں وہی جائے گا جس کو چھاؤنی میں کام ہوگا۔ سیالکوٹ چھاؤنی جب 1852ء میں بنی تھی تو یہ بھی اصل شہر سے بہت دُور تھی، لیکن اب ڈیڑھ سو سال بعد یہ عین شہر کے وسط میں ہے اور اس کے چاروں طرف لاکھوں کی آبادی ہے اور لوگ چھاؤنی کو ایک راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اگر نہ کریں یا فوجی نہ کرنے دیں تو وہی راستہ چار پانچ گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا ساری چھاؤنیوں کو تو انہوں نے خود کمرشل کر دیا ہوا ہے، نہ صرف بڑے بڑے کاروباری مراکز اوردکانیں چھاؤنیوں میں ہیں بلکہ ان کے اپنے اسکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ اسکول اور پھر شادی ہال اور ہسپتال وغیرہ بھی، سو حد سے زیادہ ٹریفک چھاؤنی میں سے گزرتی ہے۔

اب بھی عام حالات میں وہ صرف قومی شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں ، اس کے بغیر تو کسی کو گزرنے نہیں دیتے۔ کچھ سختی ہو تو کارڈ کے ساتھ گاڑی اور موٹر سائیکل کا ٹوکن بھی ، زیادہ سختی ہو تو اندراج بھی کرتے ہیں اور کینٹ بند ہو تو کوئی سویلین نہیں گزر سکتا چاہے وہ مر رہا ہو۔ مسئلہ شناخت کا نہیں بلکہ انٹری پوائنٹس پر لگی ہوئی بڑی بڑی لائنوں اور وقت کے ضیاع کا ہے۔ ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگوں کو ایک یا دو فوجی اجازت دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے اکثر وہاں تلخ کلامیاں ہوتی بھی دیکھی ہیں اور شہریوں کے احتجاج بھی۔ ان مسائل کا حل ضروری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے یہ مسیج کیا تھا کہ اس کا کوہاٹ چھاونی جانا ہوا اور سیکیورٹی کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایٹم بم یہیں پر چھپایا ہوا ہے۔ کوہاٹ چھاونی بھی شہر کے بیچ میں ہی ہے۔ اور جب بھی جانا ہو تو شناختی کارڈ گیٹ پر رکھوانا پڑتا ہے اور گیٹ پر لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے یہ مسیج کیا تھا کہ اس کا کوہاٹ چھاونی جانا ہوا اور سیکیورٹی کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایٹم بم یہیں پر چھپایا ہوا ہے۔ کوہاٹ چھاونی بھی شہر کے بیچ میں ہی ہے۔ اور جب بھی جانا ہو تو شناختی کارڈ گیٹ پر رکھوانا پڑتا ہے اور گیٹ پر لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔
واہ کینٹ، سیالکوٹ کینٹ، کوہاٹ کینٹ، وغیرہ وغیرہ کے متعلق پڑھ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر راولپنڈی کینٹ میں بھی یہی صورتحال ہو گئی تو کیا بنے گا ٹریفک کا۔ یہاں تو شاید راولپنڈی کراس کرنے میں دو دو تین تین دن لگ جایا کریں گے۔
 

سید ذیشان

محفلین
واہ کینٹ، سیالکوٹ کینٹ، کوہاٹ کینٹ، وغیرہ وغیرہ کے متعلق پڑھ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر راولپنڈی کینٹ میں بھی یہی صورتحال ہو گئی تو کیا بنے گا ٹریفک کا۔ یہاں تو شاید راولپنڈی کراس کرنے میں دو دو تین تین دن لگ جایا کریں گے۔
راولپنڈی کینٹ اتنا بڑا ہے کہ شائد ایسا ہونا کافی محال ہو اگر ناممکن نہیں۔
 
کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے یہ مسیج کیا تھا کہ اس کا کوہاٹ چھاونی جانا ہوا اور سیکیورٹی کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایٹم بم یہیں پر چھپایا ہوا ہے۔ کوہاٹ چھاونی بھی شہر کے بیچ میں ہی ہے۔ اور جب بھی جانا ہو تو شناختی کارڈ گیٹ پر رکھوانا پڑتا ہے اور گیٹ پر لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔
ہماری کالونی کے متعلق بھی ایسا ہی ہے. اٹامک انرجی کمیشن کے انڈر ہونے کی وجہ سے.
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
واہ کینٹ، سیالکوٹ کینٹ، کوہاٹ کینٹ، وغیرہ وغیرہ کے متعلق پڑھ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر راولپنڈی کینٹ میں بھی یہی صورتحال ہو گئی تو کیا بنے گا ٹریفک کا۔ یہاں تو شاید راولپنڈی کراس کرنے میں دو دو تین تین دن لگ جایا کریں گے۔

بہاولپور میں بھی یہی صورتحال ہے۔
 
واہ کینٹ، سیالکوٹ کینٹ، کوہاٹ کینٹ، وغیرہ وغیرہ کے متعلق پڑھ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر راولپنڈی کینٹ میں بھی یہی صورتحال ہو گئی تو کیا بنے گا ٹریفک کا۔ یہاں تو شاید راولپنڈی کراس کرنے میں دو دو تین تین دن لگ جایا کریں گے۔
شاید جی ایچ کیو اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد راولپنڈی والوں کو کچھ آسانی ہو جائے۔
 
خیر اتنا مشکل پراسس ہے تو ٹوکن کم سے کم دو سال کا تو کردیں اگر پانچ کا نہیں کرتے تو۔یہاں کامرہ میں مقامیوں کے لیے انٹری پاس بنوانا اتنا مشکل تو نہیں ہے مگر یہ سال والا رولا ضرور ہے کہ پلک جھپکتے ہی ایکسپائر ہو جاتا ہے۔
جو لوگ کینٹ کی حدود سے باہر رہتے ہیں انھیں بس سکول، کالج، دفتر، یونین وغیرہ سے لیٹر لانا پڑتا ہے۔ سٹیٹ سے باہر، لیکن کینٹ کی حدود کے اندر والوں کی مت وجائی ہوئی ہے۔
 
اصل اور سُچا دکھ تو ابھی تک بتایا ہی نہیں۔

لگ بھگ تین سال قبل کی بات ہو گی، ہری پور کے رہائشی ایک واقف کار پراپرٹی ڈیلر سٹیٹ ایریا میں ایک سگنل پر کھڑے نظر آ گئے۔ اشارہ کھلا تو تھوڑا آگے جا کر بریک لگائی، وہ بھی رک گئے۔ وہیں سڑک کنارے ان کی گاڑی کے پاس کھڑے کھڑے دو چار منٹ حال احوال کیا۔ اچانک نظر پڑی تو گاڑی کی ونڈ سکرین پر واہ کینٹ کا Gratis انٹری ایگزٹ ٹوکن لگا دیکھا۔ حیرت سے پوچھا کہ ’اے ٹوکن تُسی کِسرا چا کیِندا اے (یہ ٹوکن آپ نے کیسے لے لیا؟) ؟ ایک فخریہ سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمودار ہوئی اور بولے ’ تُداں نہیں پتہ، مِینڈا اِک بَھرا کرنل ہوندا اے‘ (تمھیں نہیں پتا کہ میرا ایک بھائی کرنل ہوتا ہے)۔ میں نے کہا وہ تو پنوں عاقل میں نہیں ہوتے تھے! بولے ابھی بھی وہیں ہے۔ تمھارے واہ کینٹ کا سٹیشن کمانڈر ان کا کورس میٹ ہے۔ جس روز بھائی نے کال کی اس سے اگلے دن میں سٹیشن کمانڈر سے ملنے آ گیا۔ ابھی اس کے دفتر میں بیٹھا چائے ہی پی رہا تھا کہ کمانڈر کے رنر (اردلی) نے آ کر اطلاع دی کہ، سر۔۔۔ ٹوکن لگا دیا ہے۔ :)
 
واہ کینٹ، سیالکوٹ کینٹ، کوہاٹ کینٹ، وغیرہ وغیرہ کے متعلق پڑھ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر راولپنڈی کینٹ میں بھی یہی صورتحال ہو گئی تو کیا بنے گا ٹریفک کا۔
اگلوں نے پہلے سے ہی بندوبست کیا ہوا ہے۔ لالکڑتی سے 22 نمبر تک روڈ کھلی ہے، وہ بھی سی ایم ایچ، اے ایف آئی ڈی وغیرہ کی وجہ سے، ورنہ وہ بھی بند کر دیتے۔ آر اے بازار اور سی ایس ڈی چوک تک پہنچنے سے پہلے والا راستہ مکمل بند ہے۔ مال روڈ پر ہاکی، کرکٹ گراؤنڈز اور آرٹلری میس کے ساتھ والی سڑک سے داخلہ مکمل بند ہے۔ ماسوائے خاکیان اور جی ایچ کیو کے سول ملازمین کے کوئی نہیں جا سکتا۔

البتہ ویسٹریج، الہ آباد وغیرہ کو بند نہیں کر سکے کہ وہاں بے تحاشہ سول آبادی ہے۔
 
Top