سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
اس کا نیتن یاہو کے احتساب سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ ان کے سسٹم کے اندر اسرائیلی سپریم کورٹ کو مجرم ثابت کریں ۔
آپ درست کہہ رہے ہیں۔ اسرائیلی سپریم کورٹ گو غیراسرائیلیوں کے ساتھ نا انصافی کر لے۔ لیکن اسرائیلی شہریوں کے ساتھ نا انصافی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جبکہ پاکستانی سپریم کورٹ میں ایسا روز کا معمول ہے۔
 

آصف اثر

معطل
آپ درست کہہ رہے ہیں۔ اسرائیلی سپریم کورٹ گو غیراسرائیلیوں کے ساتھ نا انصافی کر لے۔ لیکن اسرائیلی شہریوں کے ساتھ نا انصافی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جبکہ پاکستانی سپریم کورٹ میں ایسا روز کا معمول ہے۔
روز کا لفظ مبالغہ آرائی ہے۔ البتہ نچھلی سطح پر رشوت خوری و دیگر مسائل عام ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
روز کا لفظ مبالغہ آرائی ہے۔ البتہ نچھلی سطح پر رشوت خوری و دیگر مسائل عام ہیں۔
روز سے میری مراد بدنام زمانہ ’نظریہ ضرورت‘ تھی۔ ملک میں انصاف کے نظام کی بربادی اسی ’نظریہ‘ نے کی ہے۔ اور اسی نے جنرل ایوب کا غیر قانونی مارشل لاحلال کیا تھا ۔ تب سے ملک ان خاکیان کی جاگیر ہے :)
 

آصف اثر

معطل
روز سے میری مراد بدنام زمانہ ’نظریہ ضرورت‘ تھی۔ ملک میں انصاف کے نظام کی بربادی اسی ’نظریہ‘ نے کی ہے۔ اور اسی نے جنرل ایوب کا غیر قانونی مارشل لاحلال کیا تھا ۔ تب سے ملک ان خاکیان کی جاگیر ہے :)
بس ان مجرموں کو پکڑنے کی کمی رہ گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہد کی بوتل میں زہر: محسن داوڑ کو استعمال کیا جا رہا ہے
11/05/2019 سلیم صافی



نجانے جعلی ہے یا اصلی لیکن نئے پاکستان کی نئی پارلیمنٹ میں پہلی آئینی ترمیم لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس کا محرک بھی کوئی اور نہیں بلکہ وہ محسن داوڑ ہیں جنہیں چند روز قبل غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار قرار دیا گیا تھا اور جو عمران خان صاحب کے بھرپور تعاون کے ساتھ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ محب وطن عمران خان کی قیادت میں ”ریاست مدینہ“ کے وزیر مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری نے ایک طرف محسن داوڑ اور دوسری طرف علی وزیر کو کھڑا کرکے پریس کے سامنے اعلان کیا کہ داوڑ صاحب کے پیش کردہ بل پر ہم نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو بھی راضی کر لیا ہے اور اب یہ ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس کر لیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت واقعی قبائلی عوام کی اس قدر ہمدرد ہے تو پھر پی ٹی ایم کے دیگر مطالبات پر کیوں اس پھرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ اصل ڈرامہ کچھ اور ہے جس کے لئے محسن داوڑ کو آگے کیا گیا ہے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے ایم این ایز اور سینیٹرز کو آگے کرکے وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات (جن کے شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی طرف سے کیا گیا ہے ) کو ملتوی کرنے کی سازش تیار کی ہے اور اس کے لئے بہانہ قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کے خوشنما نعرے کو بنایا گیا ہے۔

ایک طرف قبائلی اضلاع کے سینیٹرز اور ایم این ایز کی نظریں ان فنڈز پر لگی ہوئی ہیں جو انضمام کے لئے سالانہ سو ارب روپے کے حساب سے فراہم ہونا ہیں۔ یہ ایم این ایز اور سینیٹرز نہیں چاہتے کہ وہاں پر ہر حلقے میں دو دو، تین تین نوجوان ایم پی ایز (جن میں سے بعض صوبائی وزیر بھی بنیں گے ) آکر ان کی اجارہ داری کو چیلنج کر دیں۔ ظاہر ہے محسن داوڑ بھی ایم این اے ہیں اور نور الحق قادری وغیرہ کی طرح وہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کے حلقے میں ایم پی ایز کی صورت میں نئے کھلاڑی میدان میں آئیں۔

اسی طرح صوبائی انتخابات کی صورت میں پی ٹی ایم کو اس میں حصہ لینے اور نہ لینے کے فیصلے کی مشکل بھی درپیش ہوگی جس سے وہ بچنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ سال رواں کے دوران پی ٹی آئی حکومت نے وعدے کے مطابق سو ارب تو کیا دس ارب روپے بھی خرچ نہیں کیے، اس لئے صوبائی انتخابات کی صورت میں پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا اور صوبائی اسمبلی میں اس کی دو تہائی اکثریت متاثر ہو سکتی ہے چنانچہ حکومت کی طرف سے شروع دن سے الیکشن کمیشن پر زور ڈالا جاتا رہا کہ وہ وہاں پر انتخابات ممکن حد تک ملتوی کرا کے رکھے۔

یہی وجہ تھی کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں پر ضرورت سے زیادہ وقت لگا دیا لیکن اب الیکشن کمیشن کی آئینی مجبوری تھی کہ وہ 25 جولائی سے پہلے انتخابات کروائے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے جولائی کی 2 تاریخ کو سابقہ قبائلی اضلاع میں انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کرکے شیڈول جاری کر دیا۔ چنانچہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مذہبی امور پیرزادہ نور الحق قادری، وزیر قانون اور ریاض فتیانہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ انتخابات کو ملتوی کرانے کے لئے کوئی راستہ نکالیں۔

پہلے اسپیکر اور ریاض فتیانہ کے ذریعے الیکشن کمیشن سے رابطے کروائے گئے کہ وہ انتخابات ملتوی کرائے لیکن جب الیکشن کمیشن نے بات نہیں مانی تو پھر قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے زور ڈالا کہ وہ اس کی بنیاد پر صوبائی انتخابات ملتوی کرا دے لیکن وہاں سے جواب ملا کہ یہ کافی نہیں اور آئینی ترمیم کے بغیر وہ الیکشن ملتوی نہیں کرا سکتا۔

چنانچہ آئینی ترمیم کے لئے اسپیکر قومی اسمبلی اور پیرزادہ نور الحق قادری متحرک ہوئے۔ انہوں نے جے یو آئی کے ایم این ایز کو بھی یہ کہہ کر ساتھ ملا لیا کہ صوبائی ممبران کے منتخب ہونے سے ان کی اجارہ داری بھی متاثر ہوگی لیکن اس سازش کو خوبصورت موڑ پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ کو آگے کرکے دیا گیا تاکہ ان کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ممبران کو رام کیا جا سکے۔ ان ممبران اور فاٹا کے دیگر تمام ممبران کو ریاض فتیانہ کی سربراہی میں قانون و انصاف کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں خصوصی دعوت پر بلایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے سب قبائلی عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ الیکشن ملتویکیے جائیں۔

بل کا محرک محسن داوڑ ہے لیکن اگر واقعی قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی سیٹیں بڑھانا مقصود تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ گزشتہ نو ماہ کے عرصہ میں کسی نے اس ترمیم کی کوشش کیوں نہ کی۔ بہرحال گزشتہ روز قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے ترمیمی بل کو منظور کرایا گیا اور اب اسد قیصر کی قیادت میں نور الحق قادری، محسن داوڑ اور جے یو آئی کے ایم این ایز ایک صف میں کھڑے ہوکر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی مدد سے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل لارہے ہیں کہ جس کی رو سے سابقہ قبائلی علاقوں کے ممبران کی تعداد سولہ سے بڑھا کر بیس ہو جائے گی لیکن جب انتخاب ہی نہیں ہوگا تو پھر سو بھی ہو جائیں تو کیا فائدہ؟

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو قبائلی علاقوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور عام لوگ اس شہد میں چھپائے گئے زہر کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک معصومانہ سی کوشش نظر آرہی ہے کہ جس میں قبائلی اضلاع کی سیٹیں بڑھ جائیں گی۔ اصل سازش یہ ہے کہ جب سیٹوں کو بڑھانے کے لئے آئینی ترمیم ہو جائے گی تو الیکشن کمیشن مجبور ہوگا کہ وہ دوبارہ حلقہ بندیاں کرے اور حلقہ بندیوں کے کام پر کم ازکم چھ ماہ لگیں گے۔ پھر نئی حلقہ بندیوں پر جھگڑے ہوں گے اور ایک سال بعد کوئی نیا بہانہ نکال دیا جائے گا کیونکہ سازش کا ایک جز سینیٹ کے اگلے انتخابات سے قبل فاٹا کے سینیٹرز کی بحالی کے لئے بھی کوئی راستہ نکالنا ہے۔

یوں جب تک موجودہ سیٹ اپ رہے گا تب تک قبائلی اضلاع کے انضمام کے عمل اور اس کے لئے آنے والے فنڈز پر ایم این ایز اور سینیٹرز کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ اگر مقصد انتخابات کا التوا نہیں تو پھر یہ جماعتیں ابھی ایک معاہدہ کر لیں کہ الیکشن کے فوراً بعد اس ترمیم کو پارلیمنٹ سے پاس کرائیں گی یا پھر اس ترمیم میں یہ شق رکھ دیں کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری، شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل ہے کہ وہ اس سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ انضمام کا عمل بھی پورا ہو اور قبائلی نوجوانوں کی محرومیوں میں بھی مزید اضافہ نہ ہو۔ بشکریہ: روز نامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی بے بسی اور تاریخ کا بوجھ
13/05/2019 سید مجاہد علی


بات سادہ اور آسان ہے۔ اسے پاکستان کا ہر شہری سمجھ سکتا ہے۔ صرف وزیر اعظم اور ان کی حکومت اسے سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ کہ پاکستان سنگین صورت حال کا شکار ہے۔ اسے سقوط ڈھاکہ کے بعد سے ملکی تاریخ کا سب سے مشکل بحران کہا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے چھے سات ارب ڈالر قرض لینے کے لئے چھے سات ماہ کی مدت صرف کردی گئی ہے لیکن ا س کے باوجود حکومت یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ سیاسی و معاشی معاملات طے کرتے ہوئے اس سے بنیادی غلطیاں سرزد ہورہی ہیں۔ نئے نظام کی باتیں کرنے والے اس تاثر کا سر نامہ بن گئے ہیں کہ اپنی غلطیوں پر اصرار ہی نئے پاکستان کی بنیاد ہے۔ یہ نیا پاکستان دراصل پرانے نظام کو نئے لیبل کے ساتھ فروخت کرنے کی بھونڈی کوشش بن کر رہ گیا ہے۔

1971 سے 2019 کے سیاسی سفر پر نگاہ دوڑائی جائے تو 48 برس کے اس دورانیے میں وہی غلطیاں دہرائی گئیں جو قیام پاکستان کے بعد قومی شعار بنا لی گئی تھیں۔ ایک جمہوری تحریک کے ذریعے قائم ہونے والے ملک کو پہلے مذہب کا مقدس لبادہ پہنایا گیا اور پھر تقدیس کے اس تخت پر فوجی آمریت کا پھریرا لہرایا گیا۔ ایوب خان نے دس سالہ دور اقتدار میں ملکی سیاست و معیشت کو مسلسل بیمار کرنے کے لئے جو کھیتی کاشت کی تھی، اسے کاٹنے کے لئے ایک نئے فوجی حکمران یحیٰ خان نے عوام کی مرضی تسلیم کرنے کی بجائے طاقت کے زور پر ملک کی اکثریت کو مٹھی بھر جرنیلوں اور ان کے ہمنوا سیاست دانوں کا دست نگر رکھنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لئے مشرقی حصے میں فوجی ایکشن کا حکم دیا جس کے نتیجے میں 80 ہزار فوجی بھارت کی قید میں گئے اور ملک دو نیم ہو گیا۔

یہ سانحہ کسی بھی قوم پر گزرا ہوتا تو وہ اپنا چلن تبدیل کرکے مستقبل کی راہ متعین کرنے کی کوشش کرتی۔ پاکستان میں معاملات البتہ عسکری اشرافیہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنبھالے ہوئے تھے کہ وہی اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی اہل ہے۔ اس لئے سیاست دانوں کو انہی خطوط پر کام کرنا ہوگا جو ملک کے عسکری اسٹبلشمنٹ متعین کرتی ہے۔ یہ تجربہ 1958 میں کیا گیا اور بارہ تیرہ برس بعد ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ساتھ اس تجربہ کی ہلاکت خیزی واضح ہوگئی لیکن ملک کے سجیلے جوانوں کو اپنی طاقت اور سیاست دانوں کی بد نیتی کا پختہ یقین تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے۔ وہ اس لحاظ سے فوج کے محسن بھی تھے کہ انہوں نے بھارت کی قید سے فوجیوں کو رہا کروانے کے لئے کامیاب مذاکراتکیے تھے۔ اس کے باوجود جولائی 1977 میں جنرل ضیا الحق نے نہ صرف اپنے محسن وزیر اعظم کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا بلکہ اسے تختہ دار پر چڑھا کر ایک بار پھر یہ طے کردیا کہ 1971 کی خانہ جنگی سے جنم لینے والے ’نئے پاکستان‘ میں کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔ فوج بدستور قومی سلامتی کے نام پر سیاست دانوں کا راستہ کاٹتی رہے گی اور ملک کا آئین صرف اس شکل و صورت میں قبول کیا جائے گا اگر ملک کی سپریم کورٹ بدلتی ضرورتوں کے مطابق اس کی توضیح و توجیہ کرنے کا مقدس فریضہ انجام دیتی رہے۔

ان 48 برسوں میں فوج نے 20 برس تک براہ راست حکومت کی ہے۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں افغان جنگ کی صورت میں قوم کو بدامنی، تشدد، انتشار اور مذہبی انتہا پسندی کا تحفہ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کسی سویلین حکومت کو باعزت طریقے سے اپنے اصولوں کے مطابق کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ضیا کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور کو نواز شریف اور بے نظیر کے باریاں لینے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے زمانے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ لڑائی بھی دراصل جمہوریت اور آمریت کی کشمکش سے ہی عبارت ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ سیاست دان موقع ملنے پر فوجی اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بنتے رہے لیکن اس سارے عمل میں رہنما اصول یہی تھا کہ سیاست دان اسی وقت قابل قبول ہو سکتا ہے جب وہ اسٹبلشمنٹ کی مقرر کردہ بعض ’ریڈ لائنز‘ کو عبور نہ کرے۔ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دو دو بار حکومت سنبھالی۔ اس حوالے سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ناہلی اور ناکامی کا طعنہ بھی دیاجاتا ہے لیکن ان ادوار میں بے نظیر بھٹو با الترتیب ڈیڑھ برس اور تین برس اور نواز شریف پونے دو اور پونے تین برس اس عہدہ پر فائز رہے۔ گویا دسمبر 1988 سے اکتوبر 1999 کے ساڑھے دس برس میں کسی ایک پارٹی کو بھی پوری مدت تک حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔

سیاسی پارٹیوں کی ناکامیوں پر دفتر سیاہکیے جاچکے ہیں لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ چوتھائی یا نصف مدت حکومت سنبھالنے والے وزرائے اعظم سے نتائج کی توقع کرنے والے فوجی آمروں کے طویل دوارنیے والی حکومتوں کا حساب کیوں نہیں مانگتے۔ یا جب فوج منتخب حکومت سے اپنی خدمات اور وقار کے نام پر قومی امور میں حصہ داری کا تقاضہ کرتی ہے تو وہ سیاست میں اپنے جرنیلوں کی ناکامی کا تجزیہ کیوں نہیں کرتی؟


ایوب خان نے ملک قائم ہونے کے گیارہ برس بعد ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دس برس تک حکومت کی۔ اسی طرح ضیا الحق نے گیارہ برس اور پرویز مشرف نے نو برس تک قتدار پر قبضہ رکھا۔ اگر ان ادوار کی قانونی حیثیت اور فوجی جرنیلوں کی حلف شکنی کو موضوع گفتگو نہ بھی بنایا جائے تو بھی یہ سوال تو اپنی جگہ موجود رہے گا کہ سول حکومتوں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے سے پہلے ان ادوار کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا کم و بیش دیکھ لیا جائے جنہیں ملک کا سنہرا دور قرار دینے کی نئی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اگر کبھی دو قومی نظریہ نام کی کوئی بنیاد تحریک پاکستان کے قائدین کے دماغ میں موجود بھی تھی تو 1971 کے سانحہ نے اسے مسمار کردیا تھا۔ اس سانحہ کے بعد دو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ فوج یہ سبق سیکھتی کہ سیاست کرنا اس کا کام نہیں ہے اور ملک کے سیاست دان اور ووٹر بھلا برا جیسے بھی معاملات طے کرتے ہیں، فوج آئین کے وفادار ادارے کے طور اسے قبول کرے اور ان فیصلوں کو تسلیم کیا جائے جو ملک کی پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی فکری لحاظ سے ملک کو نئی بنیاد فراہم کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو یہ کام کرسکتے تھے لیکن فوج کے دباؤ اور اقتدار کی ہوس نے انہیں اس حد تک مجبور کردیا تھا کہ وہ اسی قرارداد مقاصد کو 1973 کے دیباچہ میں شامل کرنے پر راضی ہو گئے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے آنکھ بند کرتے ہی آئین ساز اسمبلی سے منظور کروائی گئی تھی۔ اور ملک کے تمام اقلیتی لیڈروں نے جس کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔

گویا اس بات سے اصولی طور پر انکار کردیا گیا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد نصف پاکستان پر مشتمل علاقے پر قائم ہونے والے ملک کو کسی نئی فکری جہت کی ضرورت تھی۔ قرار داد مقاصد کو مکرر قبول کرنے کا مطلب یہی تھا کہ اس مذہبی رجحان و تفہیم کو قبول کر لیا جائے جس کی بنیاد پر مولانا ابوالاعلی مودودی نے جناح کے پاکستان کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد قرار داد مقاصد کی آڑ میں اسے اصلی اسلامی ریاست بنانے کے مقدس مشن کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے چونکہ جمہوری تحریک شرط نہیں ہے لہذا جماعت اسلامی نے ہر آمریت کا ساتھ دینا ضروری سمجھا۔ اس تگ و دو میں یہ جماعت نہ اسلامی تحریک بن سکی اور نہ ہی قابل قدر سیاسی جماعت کا روپ دھار سکی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور پھانسی سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی واضح کردیا کہ نہ صرف نئی فکری بنیاد کے لئے غور و فکر ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ ملک کی فوج نے بھی 1971 کی خانہ جنگی اور ملک ٹوٹنے کے المیہ سے سبق سیکھنے کی بجائے سیاست پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کو اپنے عسکری عہد کا لازمہ قرار دیا۔ 1988 سے 1999 کے دوران تواتر سے منتخب حکومتوں کو تبدیل کرنے کا عمل دراصل سیاست میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی بھرپور مداخلت کی کہانی ہے۔

2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے ذریعے جمہوریت کی بجائے محفوظ دیواروں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے سایوں کو طاقت عطا کی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ طویل انتظار اور بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کی شہادت کے باوجود ملک میں جمہوری حکومت تو قائم ہوگئی لیکن جمہوریت غالب نہ آسکی۔ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی اور 2013 میں بننے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی بے بسی اور لاچاری سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک کو کوئی سمت کیوں نہیں دی جا سکی۔

2018 میں نیا پاکستان بنانے کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت منظر عام پر آئی۔ زندگی بھر ہر شعبہ میں کامیابیاں حاصل کرنے والے عمران خان ملک کے وزیر اعظم بنا لئے گئے۔ تاہم گزشتہ برس اگست میں حلف اٹھانے کے بعد سے انہیں مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ یہ ناکامیاں واضح کررہی ہیں کہ کوئی بھی حکومت اختیار اور جواز کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ میں اپنے وجود کا جواز حاصل نہیں ہے اور اس نے اپنے اختیارات ان اداروں کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں جو عمران خان کو اقتدار میں لانے کا سبب بنے ہیں۔

اس معلق فضا میں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو مطعون کرکے ملک کے سارے مسائل کا حل نکال لیا جائے گا۔ لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران ٹھوس مالی حقائق پر بات کرنا پڑتی ہے۔ ان سچائیوں کو بدلنے کے لئے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کام کے لئے نعروں کی بجائے بصیرت اور نفرت کی بجائے مفاہمت ضروری ہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں۔ وہ غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے اصلاح کا راستہ تلاش کرنا دو بھر ہوچکاہے۔ البتہ ملک کو اس صورت حال تک پہنچانے کی ذمہ داری عمران خان پر عائد نہیں ہوتی گو کہ تاریخ یہ بوجھ انہیں کے سر پر لادے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
باتوں کا دنگل اور گفتار کے غازی
13/05/2019 ارشاد بھٹی


ٹھنڈ پڑ جائے ملکی حالات، عوامی اوقات اور قائدین کی ذہنی بساط دیکھ کر، سینے میں برف کے بلاک لگ جائیں گھر گھر ناچتی بھُک ننگ اور اشرافیہ کی موجیں دبنگ دیکھ کر، ایک ایک شاخ پر کئی کئی اُلّو، ہر بندر کے ہاتھ میں دو دو استرے، خود ساختہ لیڈران کی حالت یہ، آکسفورڈ کے پڑھے لکھے بلاول بھٹو کی زبان ایسی، ’پھکڑ بازوں‘ کے پسینے چھوٹے ہوئے، طعنے، معنے، جگتیں، عجیب وغریب القاب، زرداری صاحب سے کہا گیا ”آپ کے خلاف ایک اور ریفرنس دائر ہو گیا“ بولے ”الحمدللہ“ الحمدللہ سنتے ہی حسین نواز یاد آگئے، بدنصیبی دیکھئے کہ الحمدللہ سن کر خیال کیا آنا چاہیے اور خیال کیا آجائے، میاں برادران کا سب کچھ سب کے سامنے، کچھ کہنے، سننے کی گنجائش ہی نہیں، پارلیمنٹ کا جو حشر پارلیمنٹیرین کر رہے خود پارلیمنٹ شرمائی ہوئی، عوام کے کیا کہنے، اسی کو کندھوں پہ بٹھا کر جیل چھوڑنے گئے جس نے انہیں لوٹا، میڈیا کی سن لیں، 10 بڑے چینلز پونے دو گھنٹے اس پر لگا دیں ”وہ دیکھو نواز شریف جیل جانے کے لئے گھر سے باہر آ گئے“، دانشوروں کاحال یہ، بحثیں ہو رہیں ”ریلی میں کتنے آدمی تھے“ بہت سے تو اس امید کے ساتھ گھنٹوں ٹی وی اسکرینوں سے چمٹے رہے کہ کرپشن پر سزا یافتہ، نا اہل مجرم جیل جاتے جاتے ’انقلابِ مزاحمت‘ ووٹ کو عزت دو کا کوئی نیا سبق پڑھا، سِکھا جائے گا، سجان اللہ!

کیا دیوالیہ پن ہے، تبدیلی کا سنتے جائیں، ترجمانی فردوس عاشق کے سپرد، پارلیمانی امور اعظم سواتی کے ہاتھ میں، آدھا پاکستان عثمان بزدار کے رحم و کرم پر، اللہ اللہ خیر صلا! قوم بھی کمال کی، ڈبل شاہوں پر پھول نچھاور ہو رہے، جیرے بلیڈوں کو سونے کے تاج پہنائے جا رہے، ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسوایا جا رہا اور توقع کوئی معجزہ ہوگا، حالات بدلیں گے، اچھے دن آئیں گے، پکاتے رہو خیالی پلاؤ، جب تک خیالی پلاؤ پر ٹیکس نہیں لگ جاتا۔

چونکہ کوئی کام کرنے کا ہے نہیں، فراغت ہی فراغت، لہٰذا ہر گھر، گلی محلے، چوک پر بھانت بھانت کے مناظرے ہو رہے، صبح سے شام تک، گلاں ای گلاں، تقریراں ای تقریراں، چند جید ناظر ان دنوں اس پر بھی طبع آزمائی فرما رہے کہ حفیظ شیخ کے وزیر خزانہ، رضا باقر کے گورنر اسٹیٹ بینک بننے سے ملک آئی ایم ایف کے حوالے ہوگیا، اب پاکستان کی پالیسیاں آئی ایم ایف بنائے گا، حفیظ شیخ پر تنقید اس لئے دھیمے سروں میں کہ وہ پرویز مشرف کے وزیر نجکاری رہنے کے باوجود بلاول کے بابا جانی کے وزیر خزانہ بھی رہے، لہٰذا سارا نزلہ گر رہا رضا باقر پر، لیکن بلاول کو معلوم نہیں کہ وہاڑی کے نواحی گاؤں 571 ای بی کے رہائشی رضا باقر کے والد بیرسٹر محمد شریف پی پی کے ٹکٹ پر بورے والا سے قومی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے، بی بی انہیں سوئٹرز لینڈ میں سفیر لگا چکیں، مگر ہنسوں یا روؤں، بلاول سے مریم تک، شاہد خاقان عباسی سے آصف زرداری تک راگ الاپ رہے کہ ملک آئی ایم ایف کے حوالے ہو چکا، بلّے بھئی بلّے!

جعلی خود مختاری ڈرامہ بازیاں، جھوٹ، منافقت بھری حب الوطنیاں، سی پیک چین کے حوالے، کوئی اعتراض نہیں، 25 سو سے زیادہ دہری شہریت والے بیورو کریٹ، ہر وزارت، محکمے، شعبے میں بیٹھے ملک چلا رہے، کوئی اعتراض نہیں، 90 ارب ڈالر قرضہ لیا، کہاں لگا، کون کھا گیا، کوئی سروکار نہیں، 195 ملکی ادارے خسارے میں، کوئی غرض نہیں، ملک لوٹ لیا گیا، کوئی مطلب نہیں، بس رضا باقر آگیا، اب کچھ نہیں بچے گا، کچھ چھوڑا ہے، جو لٹنے کا ڈر، کچھ ہے جو کوئی لوٹے گا، موٹروے تک تو گروی رکھی جا چکی، 11 جولائی 1950 کو آپ آئی ایم ایف کے ممبر بنے، 70 سالوں میں 21 مرتبہ آئی ایم ایف کا دوازہ کھٹکھٹا چکے، کبھی بش کی سفارش پر قرضہ ملا، کبھی اوباما کے کہنے پر آپ کے کشکول میں ڈالر ڈالے گئے، اس بار صورتحال صرف اس لئے مختلف کہ اندر کھاتے ٹرمپ مخالف، آئی ایم ایف کے ذریعے شکنجے کسنے کا پروگرام، ملکی حالات نازک ترین، کڑی شرطوں پر قرضہ ملے گا، ٹیکسوں، مہنگائی کا طوفان آنے والا، ورنہ ہم وہی کر رہے، جو پچھلے ستر سالوں سے کرتے آ رہے۔

پھر رضا باقر پہلا شخص نہیں، گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے محمد علی بوگرہ کو چنا تو وہ امریکہ میں تھے، عالمی مالیاتی اداروں کے قریب، ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب ورلڈ بینک کے ملازم، ڈاکٹر مبشر حسن کو فارغ کرکے خزانہ ورلڈ بینک کے محبوب الحق کو بھی سونپا گیا، سرتاج عزیز عالمی مالیاتی اداروں کے چہیتے، ایٹمی دھماکوں کے وقت اکاؤنٹس فریز کرنے کا انہیں کس نے کہا، اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، معین قریشی انہی اداروں سے آئے، سرتاج عزیز نے شیروانی پیش کی، راتوں رات شناختی کارڈ بنا اور 3 ماہ نگراں وزارت عظمیٰ بھگتا کر واپس لوٹ گئے، شوکت عزیز بھی انہی اداروں کے لاڈلے، گورنر اسٹیٹ بینک بننے آئے، وزیر خزانہ بنے، وزارتِ عظمیٰ کی لاٹری نکلی، موصوف ان aدنوں وہی کر رہے جو وزیرخزانہ، وزیراعظم بننے سے پہلے کیا کرتے تھے، یہ تو ولایتی مال، دیسی میڈ ان پاکستان، اسحاق ڈار کی سن لیں، جعلی اعداد و شمار کے ایسے ماسٹر عالمی ادارے چکرا جاتے، ایک بار جعل سازی آئی ایم ایف نے پکڑ لی، ساڑھے 5 ملین ڈالر جرمانہ ہوا جو پرویز مشرف حکومت کو بھرنا پڑا۔

چونکہ ہمارے پاس وقت ہی وقت، لہٰذا جب تک جی چاہے، جی بھر کر رضا باقر پر بحث کریں، حالانکہ بات اتنی سی جب آپ خود نکمے، نا اہل، نالائق، جب آپ بیڈ گورننس کے شاہکار، جب آپ کرپٹ، لوٹ مار کے رسیا، جب 22 کروڑ میں سے صرف 7 لاکھ ٹیکس دیں گے، جب زراعت، صنعتیں، ٹیکسٹائل، امپورٹ، ایکسپورٹ سب کا ستیاناس، جب آپ نے اگلے سال 24 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنیں، جب آپ 9 مہینوں میں 36 سو ارب قرضہ لے کر 14 سو ارب قرضوں کا سود دیں گے، جب ڈالر مہنگا ہونے پر ایک دھیلا نہ لے کر آپ پر 1421 ارب کا قرض چڑھ جائے، جب ہر سطح پر ہر کوئی چوریوں، دو نمبریوں میں لگا ہو، جب آپ کا 80 فیصد پیسہ بلیک اور 85 فیصد پیسہ ملک سے باہر ہو تب اگر آپ کو آئی ایم ایف اپنی شرطیں منوا کر بھی بھیک دے دے تو ’ہم زندہ قوم‘ اور ’خود مختاری‘ کے ڈراموں کی بجائے اچھے بھکاریوں کی طرح پیسے کشکول میں ڈالوائیں، ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام ٹھونکیں اور دعائیں دیتے ہوئے کسی اگلے سے بھیک مانگنے روانہ ہو جائیں۔

بشکریہ روز نامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں۔ وہ غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں
عمران خان نے ناقص کاکردگی دکھانے والے وزرا اور افسران کو فارغ کر دیا۔ لیکن اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ مضحکہ خیز۔
 

زیک

مسافر
26ویں آئینی ترمیم کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔ فاٹا کے علاقوں کی قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کا تعین آبادی کی بجائے آئین میں کیوں کیا جا رہا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ایمنسٹی اسکیم اور عمران خان ۔ ماضی اور حال


عمران خان کے مغالطے دور ہوتے جارہے ہیں۔
انفارمل معیشت کو فارمل بنانے کا ایک اور تجربہ کار ناکام طریقہ۔ سیدھا سیدھا قانون پاس کریں کہ آئیندہ سے ملک میں کوئی بھی کاروبار بغیر سرکاری اپروول کے ممکن نہیں ہوگا۔ ساتھ میں ہر کاروبار کو بینک اکاؤنٹ سے نتھی کرنے کو لازمی قرار دیں۔ جیسا کہ مغربی ممالک میں ہے۔
قوانین پاس کرنے کے بعد عوام کو ۱ سال کا وقت دیں کہ وہ اپنا کاروبار، اثاثے خود رجسٹر کروائے۔ اور اس کے بعد مردم شماری کی طرز پر گلی محلوں بازاروں میں جاکر غیر رجسٹر کاروبار ضبط کرنا شروع کر دیں۔ ایک سال کے اندر اندر ملک کی معیشت انفارمل ہو جائے گی۔
Informal economy in Pakistan (ILO in Pakistan)

فاروق سرور خان
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کو اسی حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔
سمجھ سے باہر ہے ہر نئی حکومت کو کچھ نیا کرتے وقت موت کیوں پڑتی ہے۔ وہی خساروں سے بھرپور سرکاری محکمے اور ادارے۔ وہی ٹیکس چوریاں اور خفیہ اکاؤنٹس۔ وہی بیرونی اور داخلی گردشی قرضے۔ معلوم نہیں ایسا کب تک چلے گا۔
 
قوانین پاس کرنے کے بعد عوام کو ۱ سال کا وقت دیں کہ وہ اپنا کاروبار، اثاثے خود رجسٹر کروائے۔ اور اس کے بعد مردم شماری کی طرز پر گلی محلوں بازاروں میں جاکر غیر رجسٹر کاروبار ضبط کرنا شروع کر دیں۔ ایک سال کے اندر اندر ملک کی معیشت انفارمل ہو جائے گی۔

جی نہیں۔ ہر ادارے کے لئے ضروری ہو کہ وہ جو بھی ادائیگی کسی کو بھی کرے ، ایف بی آر کو رپورٹ کرے ، یہ ہے بنیادی امدنی جس پر ٹیکس ادا کرنا لازمی ہے۔ اب یہ ہر وصول کرنے والے کا کام ہے کہ وہ گوشوارے جمع کروائے کہ اس آمدنی میں سے خرچہ کتنا تھا اور منافع کتنا ۔ جب حکومت کو علم ہی نہیں کہ کس کے پاس کتنا ایا تو حکومت کو کیسے پتہ چلے گا کہ کس نے کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے؟ مجھے بھی کچھ ٹیکس ادا کرنا ہے لیکن ایف بی آر مجھے بتائے کہ مجھے کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے۔

دوسرے، جائیداد کا ٹرانسفر ، پاور آف اٹارنی پر بند کیا جائے، پاور آف اٹارنی ہر سال نیا جاری ہو ورنہ ، پاور اف اٹارنی جاری کرنے والا واپس جائیداد کا مالک تصور ہو۔ اس طرح کروڑوں روپے کی جائیداد کو جس طرح بناء کسی ٹیکس کے بیچا جاتا ہے بند ہونی چاہئے۔

ابے لے، میں تو بغاوت کی باتیں کررہا ہوں :)
فوج تیار ہوگی ان قوانین کے لئے ؟
 
بس ان مجرموں کو پکڑنے کی کمی رہ گئی ہے۔
میں طنز نہیں کررہا، پاکستان میں کوئی بھی مجرم نیہں ہے۔ سب کے سب قانون کے دائرے میں کام کررہے ہیں۔ بات ہے یہ کہ قانون درست نہیں ہیں۔ ٹیکس کے بڑے بڑے مد، جائیداد کا ٹرانسفر ، بناء ٹیکس ادا کئے ہوتا ہے، زرعی زمینوں کا استعمال بناء ٹیکس ادا کئے ہوتا ہے۔ وراثت کا ٹرانسفر بناء ٹیکس کئے ہوتا ہے۔ ان سب کے کئے مناسب قانونی جواز موجود ہے ، تو مجرم کیسے؟؟؟ یہ تو صرف اور صرف سیاسی بازیگری کے لئے ہو رہا ہے۔ کوئی بھی قانون بنانے کے لئے تیار نہیں جو ان بدمعاشیوں کا مداوا کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو صرف اور صرف سیاسی بازیگری کے لئے ہو رہا ہے۔ کوئی بھی قانون بنانے کے لئے تیار نہیں جو ان بدمعاشیوں کا مداوا کرے۔
یہ قوانین بنانا کس کا کام ہے؟ جمہوری اور سلیکٹڈ دونوں ہی حکومتوں میں ٹیکس کلیکشن پر قانون سازی کا فقدان رہا ہے۔ کیونکہ پارلیمان کی اکثریت خود ٹیکس چور ہے! :LOL:
 
Top