قبروں پر قرآنی آیات کیوں کندہ کروائی جاتی ہیں

arshadmm

محفلین
قبرستان میں قبروں پر قرآنی آیات کیوں کندہ کروائی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر قرآن کریم کی بے ادبی ہے۔ قبروں پر جانوروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، بعض قبریں مٹی میں ڈوب جاتی ہیں، بعض علاقوں میں نالیوں کا گندہ پانی برسات کے موسم میں قبروں پہ لگی آیات کے اوپر چڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ پاک کلام ہے جو پاک ذات کی طرف سے ایک پاک فرشتے کے ذریعے ایک پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ کیا یہ حد درجہ بے ادبی نہیں۔ اور کیا ہمیں اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس چیز کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ کیا یہ اللہ کی ناراضگی کا سبب تو نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہونا تو یہی چاہیے کہ مرنے کے بعد ایک گمنام سی قبر ہو اور بس۔
مجھے آپ کی تجویز سے پورا پورا اتفاق ہے۔

یہ چیز یہاں سعودی عرب میں بہت اچھی ہے کہ کسی بھی قبرستان میں کسی بھی قبر پر کوئی کتبہ یا پلیٹ نہیں ہوتی۔ چاہے وہ قبر کسی بادشاہ کی ہے یا کسی عام آدمی کی۔
 

arshadmm

محفلین
ہونا تو یہی چاہیے کہ مرنے کے بعد ایک گمنام سی قبر ہو اور بس۔
مجھے آپ کی تجویز سے پورا پورا اتفاق ہے۔

یہ چیز یہاں سعودی عرب میں بہت اچھی ہے کہ کسی بھی قبرستان میں کسی بھی قبر پر کوئی کتبہ یا پلیٹ نہیں ہوتی۔ چاہے وہ قبر کسی بادشاہ کی ہے یا کسی عام آدمی کی۔

ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تہ خا ک ہم تو ا کیلے رہیں گے
کسی نے ہمارا کیا غم تو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی ہو چشم پر نم تو کیا ہے
کرے حشر تک کوئی ماتم تو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں‌ ہوں‌ گے جب سامنے ہم تو کیا ہے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تہ خا ک ہم تو ا کیلے رہیں گے
 
ایک ہندو کی فریاد -- مسلم قوم کے نام

ایک ہی پربھو کی پوجا ہم اگر کرتے نہیں
ایک ہی دربار پہ سر آپ بھی دھرتے نہیں

اہنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہے
آپ کے سجدوں کا مرکز بھی تو قبرستان ہے

جس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں‌میں‌گھنٹیاں
آپ کو دیکھا بجاتے تربتوں پر تالیاں

ہم بھجن کرتے ہیں گا کر دیوتا کی خوبیاں
آپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوالیاں

بت کی پوجا ہم کریں‌ہم کو ملے نار سقر
آپ پوجیں قبر کو کیونکر ملے جنت میں گھر؟

شرکیہ اعمال کرکے گر غیر مسلم ہم ہوئے
پھر یہی اعمال کرکے کیسے مسلم تم رہے؟


پچھلی بار یہ نظم کچھ احباب و ا صحاب کو سخت ناپسند آئی تھی۔ تو میں نے ہٹا لی تھی۔ اب پھر وہی موضوع دیکھا تو دوبارہ حاضر ہے۔ اگر اس میں کچھ غلط ہو تو ضرور ہٹادوں‌گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فاروق صاحب آپ کو تصوّف کا مطالعہ کرنا چاہیے - اس نظم کا جواب آپ کو وہیں مل سکتا ہے - بہت شکریہ!
 

مہوش علی

لائبریرین
قبرستان میں قبروں پر قرآنی آیات کیوں کندہ کروائی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر قرآن کریم کی بے ادبی ہے۔ قبروں پر جانوروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، بعض قبریں مٹی میں ڈوب جاتی ہیں، بعض علاقوں میں نالیوں کا گندہ پانی برسات کے موسم میں قبروں پہ لگی آیات کے اوپر چڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ پاک کلام ہے جو پاک ذات کی طرف سے ایک پاک فرشتے کے ذریعے ایک پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ کیا یہ حد درجہ بے ادبی نہیں۔ اور کیا ہمیں اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس چیز کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ کیا یہ اللہ کی ناراضگی کا سبب تو نہیں۔

ارشد صاحب،

شریعت کا ایک اصول ہے:

"جب تک کوئی چیز نام لے کر، یا پھر شریعت ہی کے کسی اصول کے تحت حرام نہ ٹہرائی گئی ہو، تو ایسی چیز "مباح" کے زمرے میں آتی ہے یعنی Allowed "

مثال کے طور پر لاہور میں جہاں میرے نانا کا گھر ہے، اس سڑک پر ایک جامع مسجد ہے۔ مسجد کے صدر دروازے پر ایک بورڈ لگوا رکھا ہے جس پر اللہ، رسول، خلفائے راشدین کا نام ہے اور بیچ میں قرانی آیات ہیں۔ صدر دروازے کے بعد چھوٹا سا لان ہے اور پھر مسجد کی عمارت ہے، جسکی دیواروں پر قرانی آیات کندہ ہیں۔

اب چاہے یہ چیز رسول ص کے زمانے میں نہیں تھی کہ ایسے بورڈز بنائے جائیں یا مسجد کی دیواروں پر قرانی آیات کندہ کروائی جائیں، مگر چونکہ شریعت اس معاملے میں خاموش ہے کہ یہ عمل حرام ہے یا نہیں، تو ایسے تمام افعال خود بخود شریعت کے ہی دوسرے اصول کے مطابق "مباح" کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔

قبروں پر قرانی آیات نصب کرنے کا بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے یہ چیز منع نہیں کی گئی اور بذاتِ خود مباح کے زمرے میں آتا ہے۔ چانچہ اگر اس چیز کو مطلقا حرام کہہ دیا جائے تو یہ چیز "خود ساختہ شریعت سازی" میں آ جائے گی کہ ہم نے اُس چیز کو کیسے حرام قرار دے دیا کہ جس کو اللہ نے ہمارے لیے حرام نہیں قرار دیا تھا۔

///////////////////

اب دوسرے مسئلے پر آتے ہیں اور وہ ہے "ادب" و "تعظیم" کا مسئلہ۔

1) پہلے ایک سائیڈ نوٹ یہ کہ (شریعت کے قوانین کے مطابق) بارش کا پانی پاک ہے اور وہ جس جس چیز کو لگے گا اُس کو پاک کرتا چلا جائے گا۔ چنانچہ برساتی نالے جو نالیوں کا پانی لے جاتے ہیں، وہ اسلامی شریعت کے مطابق پاک پانی ہی رہتا ہے۔ آپ کو یقینا علم ہو گا کہ تالاب یا کنویں کے پانی میں کئی حشرات الارض مرتے رہتے ہیں اور اسی میں بول و براز کرتے رہتے ہیں، مگر کنویں کا پانی پاک رہتا ہے کیونکہ جب پاک پانی کی مقدار بہت زیادہ ہو اور اس میں غلاظت کی مقدار کم ہو تو مجموعی طور پر ایسے پانی پر پاک پانی کا حکم ہے۔ اس مسئلے پر آپ فقہ کے کتابوں کا مزید مطالعہ کیجئیے کیونکہ وہاں آپ کو مکمل تفصیلات مل جائیں گی۔


2) اور جہاں تک قبرستان میں جانوروں کی بات ہے تو بذاتِ خود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قبرستانوں میں جانوروں کا داخلہ ختم کریں کیونکہ یہ چیز خود قبر کے احترام کے خلاف ہے۔ مثلا قبر کا احترام یہ ہے کہ اس پر نہ بیٹھا جائے:

Book 004, Number 2121:

Abu Marthad al-Ghanawi reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Do not sit on the graves and do not pray facing towards them.​
چنانچہ رسول اللہ ص کا حکم ہے کہ قبروں پر نہ بیٹھا جائے، جبکہ جانور قبرستانوں میں عام قبروں کے اوپر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔


///////////////////////

مجموعی طور پر (میری کم عقل سوجھ بوجھ کے مطابق) چونکہ مسلمان اپنے قبرستانوں کو جانوروں سے محفوظ نہیں رکھ پاتے ہیں، چنانچہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قبروں کے کتبوں پر قرانی آیات نصب نہ کی جائیں۔

یا پھر اگر کی جائیں، تو کتبے کی اونچائی اتنی زیادہ رکھی جائے کہ جانور (جس میں صرف کتے ہی قابل ذکر ہیں) وہ ان قرانی آیات تک نہ پہنچ سکیں۔


(مجھے جامع مسجد کی صدر دروازے پر لگے بورڈ کا ذکر ایک دفعہ پھر کرنے دیں جہاں بے تحاشہ کبوتر بیٹھتے تھے بمع کچھ دیگر پرندوں کے اور "بٹھیں" کر کر کے انہوں نے اس قرانی آیات والے بورڈ کو غلاظت سے بھر رکھا ہوتا تھا۔ ویسے پاکستان بدل رہا ہے اور اس دفعہ مجھے وہاں صرف اکا دکا ہی کبوتر بیٹھے نظر آّئے)

تو مسئلہ واقعی یہ ہے کہ قرانی آیات کو بے ادبی سے کیسے بچایا جائے۔ نہ جانے پاکستان میں مجھے کتنے ہی بینرز (دکانوں کے سائن بورڈز)، پوسٹرز ہر ہر جگہ اللہ و رسول ص کے نام نظر آئے اور ان تمام جگہوں پر پرندوں کی پہنچ تھی۔
خانہ کعبہ کے دیوار پر قرانی آیات کا ایک منظر

kabadoor.gif

 

مہوش علی

لائبریرین
ہونا تو یہی چاہیے کہ مرنے کے بعد ایک گمنام سی قبر ہو اور بس۔
مجھے آپ کی تجویز سے پورا پورا اتفاق ہے۔

یہ چیز یہاں سعودی عرب میں بہت اچھی ہے کہ کسی بھی قبرستان میں کسی بھی قبر پر کوئی کتبہ یا پلیٹ نہیں ہوتی۔ چاہے وہ قبر کسی بادشاہ کی ہے یا کسی عام آدمی کی۔

السلام علیکم

شمشاد بھائی، اپنے مطالعہ اور مشاھدات کی روشنی میں مجھے سعودی حکومت کا رویہ کچھ معاملات میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سخت لگتا ہے۔ مثال کے طور سعودی حکومت تمام قبرستانوں کا مٹانے پر تل گئی ہے اور اس طرح مکہ و مدینہ میں جو دیگر بابرکت مقامات تھے انہیں بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔

بلکہ اب تو یہاں تک ہو رہا ہے کہ مردے کے گلانے سڑانے کے لیے تیزاب بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پانچ چھ ماہ تک ہڈیاں گل سڑ کر مٹی ہو جائیں۔

////////////////////

جہاں تک سعودی حکومت کا قبروں کا گمنام رکھنے کا تعلق ہے تو میرے کم علم کے مطابق بذاتِ خود اس چیز کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ سنتِ رسول تو اسکے بالکل برخلاف ہے۔ مثال کے طور پر رسول ص ایک دفعہ جنابِ موسی علیہ السلام کی قبر کو گمنام کرنے کی بجائے خود صحابہ کو اُن کی قبر دکھانے کے مشتاق تھے:

Narrated Abu Huraira:
…Then Moses asked, "O my Lord! What will be then?" He said, "Death will be then." He said, "(Let it be) now." He asked Allah that He bring him near the Sacred Land at a distance of a stone's throw. Allah's Apostle (p.b.u.h) said , "Were I there I would show you the grave of Moses by the way near the red sand hill."
Sahih Bukhari, Volume 2, Book 23, Number 423


اسی طرح آپ ص کے دور میں قبروں کا گمنام کر دینے کے رواج کے برخلاف قبروں کے نام و نشان یاد رکھنے جانے کا سلسلہ تھا۔

اسی لیے رسول اللہ ص ایک مرتبہ اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے۔

اور اسی لیے شہدائے احد کی قبروں کا نشان بھی باقی رکھا گیا۔

اور اسی طرح ام المومنین جناب عائشہ بنت ابی بکر اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کے لیے گئیں۔

۔۔۔۔۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ "قبرستان" کی "عمومی" زیارت کے علاوہ اسلامی شریعت میں "اپنے پیاروں کی خاص قبروں" کی زیارت کا بھی مکمل ثبوت موجود ہے۔

///////////////////////

اور یہی وجہ ہے کہ جنابِ رسول خدا ص کی قبر مبارکہ گمنام نہیں رکھی گئی بلکہ اصحاب کو علم تھا کہ وہ جگہ بابرکت ہے جہاں آپ ص دفن ہیں اور سب کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ وہیں پر دفن ہوں اور یہ چیز بطور مقدس Sanctify سمجھی جاتی تھی جیسا کہ ام المومین کی ذیل کی روایت میں آ رہا ہے۔

Narrated Hisham's father:
'Aisha said to 'Abdullah bin Az-Zubair, "Bury me with my female companions (i.e. the wives of the Prophet) and do not bury me with the Prophet in the house, for I do not like to be regarded as sanctified (just for being buried there).'

Narrated Hisham's father: 'Umar sent a message to 'Aisha, saying, "Will you allow me to be buried with my two companions (the Prophet and Abu Bakr) ?" She said, "Yes, by Allah." though it was her habit that if a man from among the companions (of the Prophet ) sent her a message asking her to allow him to be buried there, she would say, "No, by Allah, I will never give permission to anyone to be buried with them."
Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 428
 

arshadmm

محفلین
ارشد صاحب،

شریعت کا ایک اصول ہے:

"جب تک کوئی چیز نام لے کر، یا پھر شریعت ہی کے کسی اصول کے تحت حرام نہ ٹہرائی گئی ہو، تو ایسی چیز "مباح" کے زمرے میں آتی ہے یعنی Allowed "

مثال کے طور پر لاہور میں جہاں میرے نانا کا گھر ہے، اس سڑک پر ایک جامع مسجد ہے۔ مسجد کے صدر دروازے پر ایک بورڈ لگوا رکھا ہے جس پر اللہ، رسول، خلفائے راشدین کا نام ہے اور بیچ میں قرانی آیات ہیں۔ صدر دروازے کے بعد چھوٹا سا لان ہے اور پھر مسجد کی عمارت ہے، جسکی دیواروں پر قرانی آیات کندہ ہیں۔

اب چاہے یہ چیز رسول ص کے زمانے میں نہیں تھی کہ ایسے بورڈز بنائے جائیں یا مسجد کی دیواروں پر قرانی آیات کندہ کروائی جائیں، مگر چونکہ شریعت اس معاملے میں خاموش ہے کہ یہ عمل حرام ہے یا نہیں، تو ایسے تمام افعال خود بخود شریعت کے ہی دوسرے اصول کے مطابق "مباح" کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔

قبروں پر قرانی آیات نصب کرنے کا بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے یہ چیز منع نہیں کی گئی اور بذاتِ خود مباح کے زمرے میں آتا ہے۔ چانچہ اگر اس چیز کو مطلقا حرام کہہ دیا جائے تو یہ چیز "خود ساختہ شریعت سازی" میں آ جائے گی کہ ہم نے اُس چیز کو کیسے حرام قرار دے دیا کہ جس کو اللہ نے ہمارے لیے حرام نہیں قرار دیا تھا۔

///////////////////

اب دوسرے مسئلے پر آتے ہیں اور وہ ہے "ادب" و "تعظیم" کا مسئلہ۔

1) پہلے ایک سائیڈ نوٹ یہ کہ (شریعت کے قوانین کے مطابق) بارش کا پانی پاک ہے اور وہ جس جس چیز کو لگے گا اُس کو پاک کرتا چلا جائے گا۔ چنانچہ برساتی نالے جو نالیوں کا پانی لے جاتے ہیں، وہ اسلامی شریعت کے مطابق پاک پانی ہی رہتا ہے۔ آپ کو یقینا علم ہو گا کہ تالاب یا کنویں کے پانی میں کئی حشرات الارض مرتے رہتے ہیں اور اسی میں بول و براز کرتے رہتے ہیں، مگر کنویں کا پانی پاک رہتا ہے کیونکہ جب پاک پانی کی مقدار بہت زیادہ ہو اور اس میں غلاظت کی مقدار کم ہو تو مجموعی طور پر ایسے پانی پر پاک پانی کا حکم ہے۔ اس مسئلے پر آپ فقہ کے کتابوں کا مزید مطالعہ کیجئیے کیونکہ وہاں آپ کو مکمل تفصیلات مل جائیں گی۔


2) اور جہاں تک قبرستان میں جانوروں کی بات ہے تو بذاتِ خود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قبرستانوں میں جانوروں کا داخلہ ختم کریں کیونکہ یہ چیز خود قبر کے احترام کے خلاف ہے۔ مثلا قبر کا احترام یہ ہے کہ اس پر نہ بیٹھا جائے:

Book 004, Number 2121:

Abu Marthad al-Ghanawi reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Do not sit on the graves and do not pray facing towards them.​
چنانچہ رسول اللہ ص کا حکم ہے کہ قبروں پر نہ بیٹھا جائے، جبکہ جانور قبرستانوں میں عام قبروں کے اوپر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔


///////////////////////

مجموعی طور پر (میری کم عقل سوجھ بوجھ کے مطابق) چونکہ مسلمان اپنے قبرستانوں کو جانوروں سے محفوظ نہیں رکھ پاتے ہیں، چنانچہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قبروں کے کتبوں پر قرانی آیات نصب نہ کی جائیں۔

یا پھر اگر کی جائیں، تو کتبے کی اونچائی اتنی زیادہ رکھی جائے کہ جانور (جس میں صرف کتے ہی قابل ذکر ہیں) وہ ان قرانی آیات تک نہ پہنچ سکیں۔


(مجھے جامع مسجد کی صدر دروازے پر لگے بورڈ کا ذکر ایک دفعہ پھر کرنے دیں جہاں بے تحاشہ کبوتر بیٹھتے تھے بمع کچھ دیگر پرندوں کے اور "بٹھیں" کر کر کے انہوں نے اس قرانی آیات والے بورڈ کو غلاظت سے بھر رکھا ہوتا تھا۔ ویسے پاکستان بدل رہا ہے اور اس دفعہ مجھے وہاں صرف اکا دکا ہی کبوتر بیٹھے نظر آّئے)

تو مسئلہ واقعی یہ ہے کہ قرانی آیات کو بے ادبی سے کیسے بچایا جائے۔ نہ جانے پاکستان میں مجھے کتنے ہی بینرز (دکانوں کے سائن بورڈز)، پوسٹرز ہر ہر جگہ اللہ و رسول ص کے نام نظر آئے اور ان تمام جگہوں پر پرندوں کی پہنچ تھی۔
خانہ کعبہ کے دیوار پر قرانی آیات کا ایک منظر

kabadoor.gif


شکریہ ۔۔۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کام حرام ہے یا مباح ہے۔ ذرا موضوع دیکھیں "قبروں پہ قرآنی آیات کیوں‌ کندہ کروائی جاتی ہیں" باقی نیچے میں نے لکھا تھا کہ بظاہر تو اس سے یہ نقصان ہوتے نظر آتے ہیں۔ دیکھیں ناں‌سوچنے کی بات ہے کہ کوئی غیر مسلم تو ایک آیت نیچے گرائے یا جلائے تو قابل گردن زنی اور ہم خود اپنے ہاتھوں‌ سے اللہ کے کلام کو مٹی و گندے پانی جانوروں کے پائوں تلے رکھ دیں۔ حالانکہ یہ وہی قرآنی آیات ہیں کہ الحمد للہ ہر گھر میں جن کو ایک خوبصورت و پاک غلاف میں‌ نہایت محبت سے لپیٹ کر اونچی جگہ پر عزت و تکریم کے ساتھ رکھا جاتا ہے کہ جو اس کا حق ہے۔ مگر وہی ہاتھ انہی قرآنی آیات کو اس طرح قبرستان میں نیچی جگہ کیوں کندہ کرواتے ہیں۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔
بے شک بارش کا پانی پاک ہے مگر گندے نالوں‌ میں مل کر وہ بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ زیادہ گہرائی میں نہ جائیں تو تین چیزیں پانی کی طہارت کیلئے ہر کوئی جانچ سکتا ہے۔ رنگ، بو ، ذائقہ۔ اگر آپ کو کبھی ایسی بارش کا اتفاق ہوا ہو تو پتہ ہو گا کہ بو تو بو تعفن اٹھ رہا ہوتا ہے۔

قصہ مختصر کہ آخر کیوں ایسا کیا جاتا ہے۔ اور کیا اس سے چھٹکارا نہیں‌ پایا جا سکتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا سعودی عرب کے قبرستانوں میں بھی جانور پھرتے ہیں یا نالیوں کا گندہ پانی آجاتا ہے؟

کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ یہاں قبرستان میں جانور پھرتے نظر آئیں۔
یہاں پاکستان والا نظام نہیں ہے۔ جانوروں کے لیے مخصوص جگہیں ہیں اور جانور انہی جگہوں پر رہتے ہیں۔ آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ کہیں کسی سڑک یا گلی میں کوئی گائے بھینس یا بکری پھر رہی ہو۔ یا کُتے نظر آئے ہوں۔ ہاں بلیاں یہاں بہت ہوتی ہیں اور آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گی۔

اور ہاں یہاں نالیاں بھی نہیں ہیں۔
 

arshadmm

محفلین
کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ یہاں قبرستان میں جانور پھرتے نظر آئیں۔
یہاں پاکستان والا نظام نہیں ہے۔ جانوروں کے لیے مخصوص جگہیں ہیں اور جانور انہی جگہوں پر رہتے ہیں۔ آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ کہیں کسی سڑک یا گلی میں کوئی گائے بھینس یا بکری پھر رہی ہو۔ یا کُتے نظر آئے ہوں۔ ہاں بلیاں یہاں بہت ہوتی ہیں اور آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گی۔

اور ہاں یہاں نالیاں بھی نہیں ہیں۔

نالیاں تو شائد ہمارے ہاں‌ ہی ہیں ۔ ورنہ تو ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ٹیکسلا کے قریب صدیوں پرانے کھنڈرات سے پتہ چلا کہ ان لوگوں‌ کا یہ نظام ڈھکا ہوا تھا۔
 

arshadmm

محفلین
فاروق صاحب آپ کو تصوّف کا مطالعہ کرنا چاہیے - اس نظم کا جواب آپ کو وہیں مل سکتا ہے - بہت شکریہ!
آپکی مراد اگر یہ ہے کہ تصوف میں یہ سب جائز ہے تو پھر وہ تصوف نہیں اور نہ ہی تصوف یہ سکھلاتا ہے۔ ظاہری شریعت پر مکمل عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر انسان اپنی باطنی و روحانی ترقی کیلئے شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کچھ کرتا ہے تو وہ تصوف ہے۔ ورنہ تو وہ تصوف ہے ہی نہیں۔
 

خاور بلال

محفلین
آپکی مراد اگر یہ ہے کہ تصوف میں یہ سب جائز ہے تو پھر وہ تصوف نہیں اور نہ ہی تصوف یہ سکھلاتا ہے۔ ظاہری شریعت پر مکمل عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر انسان اپنی باطنی و روحانی ترقی کیلئے شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کچھ کرتا ہے تو وہ تصوف ہے۔ ورنہ تو وہ تصوف ہے ہی نہیں۔

بہت شکریہ ارشد، تصوف کے حوالے سے آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں سید مودودی رحمتہ اللہ کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں حالانکہ دھاگے کے عنوان سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن بحث سے رکھتا ہے:

“ایک تصوف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائ دور کے صوفیہ میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، معروف کرخی وغیر ہم رحمہم اللہ۔ اس کا کوئ الگ فلسفہ نہ تھا، اسکا کوئ الگ طریقہ نہ تھا، وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے، اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود ہے، یعنی اخلاص للہ اور توجہ الی اللہ۔ اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواتی اور زردشتی اور دیدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئ ہے، جس میں عیسائ راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں، جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط ملط ہوگئے ہیں، جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں، ایک دوسرے سے کم و بیش بے تعلق، بلکہ بسا اوقات باہم متضاد بن گئ ہیں۔ اور جس میں انسان کو خلیفہ اللہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کے بجائے اسے بالکل مختلف دوسرے ہی کاموں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں۔
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائ جاتی ہیں۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید؛ بالکہ اس کے پیرؤوں اور حامیوں سے ہماری گذارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں“ (تذکرہ سید مودودی، جلد سوم)
 

قسیم حیدر

محفلین
فاروق صاحب آپ کو تصوّف کا مطالعہ کرنا چاہیے - اس نظم کا جواب آپ کو وہیں مل سکتا ہے - بہت شکریہ!

قرآن کہتا ہے:
و ما انت بمسمع من فی القبور (فاطر)
"اور تو انہیں نہیں سنا سکتا جو قبر میں ہیں"
اور کہتا ہے:
انک لا تسمع الموتٰی (النمل)
"بے شک تو مردوں کو سنانے والا نہیں"

یہ کرشمہ تصوف ہی میں مل سکتا ہے کہ ان واضح آیات کو "باطنی معانی" کی آڑ میں بالکل ہی الٹے مطلب پہنا دیے جائیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
بہت شکریہ ارشد، تصوف کے حوالے سے آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں سید مودودی رحمتہ اللہ کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں حالانکہ دھاگے کے عنوان سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن بحث سے رکھتا ہے:

“ایک تصوف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائ دور کے صوفیہ میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، معروف کرخی وغیر ہم رحمہم اللہ۔ اس کا کوئ الگ فلسفہ نہ تھا، اسکا کوئ الگ طریقہ نہ تھا، وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے، اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود ہے، یعنی اخلاص للہ اور توجہ الی اللہ۔ اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواتی اور زردشتی اور دیدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئ ہے، جس میں عیسائ راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں، جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط ملط ہوگئے ہیں، جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں، ایک دوسرے سے کم و بیش بے تعلق، بلکہ بسا اوقات باہم متضاد بن گئ ہیں۔ اور جس میں انسان کو خلیفہ اللہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کے بجائے اسے بالکل مختلف دوسرے ہی کاموں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں۔
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائ جاتی ہیں۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید؛ بالکہ اس کے پیرؤوں اور حامیوں سے ہماری گذارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں“ (تذکرہ سید مودودی، جلد سوم)

خاور بھائی، آپ نے بہت اچھا کیا کہ سید صاحب کا یہ اقتباس دے دیا۔ لیکن براہ مہربانی میری معلومات میں اضافہ فرما دیں کہ جس چیز کا نام تک قرآن و حدیث میں نہیں ہے وہ دین کیسے بن سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
برائے مہربانی بحث کو عنوان کے مطابق ہی رہنے دیں۔

اگر آپ کسی اور موضوع پر بحث کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں تو الگ سے دھاگہ کھول لیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شاید اسی قسم کی ابحاث دیکھ کر مرزا مرحوم نے فرمایا ہوگا ;)

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک ہندو کی فریاد -- مسلم قوم کے نام

ایک ہی پربھو کی پوجا ہم اگر کرتے نہیں
ایک ہی دربار پہ سر آپ بھی دھرتے نہیں

اہنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہے
آپ کے سجدوں کا مرکز بھی تو قبرستان ہے

جس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں‌میں‌گھنٹیاں
آپ کو دیکھا بجاتے تربتوں پر تالیاں

ہم بھجن کرتے ہیں گا کر دیوتا کی خوبیاں
آپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوالیاں

بت کی پوجا ہم کریں‌ہم کو ملے نار سقر
آپ پوجیں قبر کو کیونکر ملے جنت میں گھر؟

شرکیہ اعمال کرکے گر غیر مسلم ہم ہوئے
پھر یہی اعمال کرکے کیسے مسلم تم رہے؟


پچھلی بار یہ نظم کچھ احباب و ا صحاب کو سخت ناپسند آئی تھی۔ تو میں نے ہٹا لی تھی۔ اب پھر وہی موضوع دیکھا تو دوبارہ حاضر ہے۔ اگر اس میں کچھ غلط ہو تو ضرور ہٹادوں‌گا۔


یہ شاعری پہلے بھی موضوع بحث رہی ہے اور ناظمین کے جوابات سے مجھے محسوس ہوا کہ انہیں ان موضوعات پر کسی حد تک بحث کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔

بہرحال،۔۔۔۔

فاروق صاحب، میں نے پہلے بھی آپ سے عرض کی تھی کہ دلیل سے بحث کرنا بہت اچھی بات ہے اور میں اسکے حق میں ہوں (اور آپ نے پتا نہیں کیوں اس پر مجھ پر کچھ القاب لاگو کرنا شروع کر دیے)۔ اگر ناظمین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تو میری طرف سے آپ "بسم اللہ" کریں۔

بہرحال ایک بات میں نے اور عرض کی تھی کہ ایسی شاعری کا جواب آپ کو شاعری سے ہی ملے گا جو کہ کسی صورت میں "احسن طریقے" پر کی گئی گفتگو کے زمرے میں نہیں آ سکتا۔ اگر آپ واقعی سنجیدہ گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو خود ثبوت دینا چاہیے تھا، مگر آپ پھر اسی شاعری کو لے کر آگے آ گئے ہیں۔

مجھے سوچنے دیجئے کہ میں آپ کو کس صورت میں بہتر جواب دوں کہ جس سے ہمیں ایک دوسرے کے نظریات سمجھنے میں مدد ملے۔

والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قرآن کہتا ہے:
و ما انت بمسمع من فی القبور (فاطر)
"اور تو انہیں نہیں سنا سکتا جو قبر میں ہیں"
اور کہتا ہے:
انک لا تسمع الموتٰی (النمل)
"بے شک تو مردوں کو سنانے والا نہیں"

یہ کرشمہ تصوف ہی میں مل سکتا ہے کہ ان واضح آیات کو "باطنی معانی" کی آڑ میں بالکل ہی الٹے مطلب پہنا دیے جائیں۔

[نوٹ: ذیل کا پیغام صرف قسیم صاحب کے لیے ہے اور اس سے اگلے پیغام میں میں عام قارئین کو یہ مسئلہ صاف اور آسان لفظوں میں بیان کروں گی کہ کیوں قسیم برادر نے یہاں یہ "دو آیات" پیش کی ہیں اور کیوں اس پر "باطنی معنوں" کے حوالے سے اعتراض فرما ہیں۔]

قسیم برادر،

کاش کہ آپ نے ان دو قرانی آیات کا معنی سمجنے کے لیے انیسویں صدی کے مولانا مودودی اور محمد بن عبد الوہاب صاحب کے علاوہ پچھلی تمام صدیوں کے "قدیم علماء" کے موقف کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہوتی تو آپ اس انتہا پر نہ پہنچتے۔

ضروری نہیں کہ اس انیسویں صدی کے علماء کی جدت پسند تفاسیر ہی ٹھیک ہوں اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے یہ مفسرین اگر قدیم علماء سے اختلاف کر رہے ہیں تو یہ ٹھیک ہی ہوں۔

////////////////////

میں نے اس سے قبل علماء کو "مولانا" کہنے پر ایک ڈورا شروع کیا تھا اور دلائل دیے تھے کہ اس معاملے میں قدیم علماء کا موقف کیوں اس کے حق میں ہے کہ علماء کو "مولانا" کہا جا سکتا ہے۔ یہ ڈورا بہت دیر تک بحث کے لیے کھلا رہا مگر آپ حضرات کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ناظمین نے اس ڈورے کو مقفل کر دیا۔ چونکہ میں ناظمین کے اختیارات کو کبھی چیلنج نہیں کرتی اس لیے میں آپ کو اس کی وجوہات کے متعلق نہیں بتا سکتی۔

لیکن پھر آپ نے ان دو آیات کے حوالے سے "ظاہری معنی اور باطنی معنوں" کے اعتراض کا رخ ہماری طرف کر دیا ہے۔

کاش کہ واقعی آپ لوگ اس ظاہر پرستی کی بیماری سے نکل کر باطنی اور روحانی معنی سمجھ سکتے
اور کاش کہ مودودی صاحب اور محمد بن عبد الوہاب صاحب ان دو آیات کے باطنی اور روحانی معنی سامنے رکھتے ہوئے تفسیر کرتے۔

کاش کہ یہ ظاہر پرستی کی یہ بیماری دور ہو جاتی تو شاید مسلمانوں کے دو گروہ، جو ایک دوسرے پر فتوے بازی کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھ پاتے اور اتحاد بین المسلمین پیدا ہوتا۔ ۔۔۔۔ کاش۔

////////////////////

قسیم صاحب،

میں بذاتِ خود مودودی صاحب کے قلم کی پرستار ہوں اور آنکھوں کی بیماری ہونے سے قبل میں نے ان کی ہر وہ کتاب پڑھی جس تک میری رسائی ہو پائی۔

مگر کیا میں "بند آنکھوں" کے ساتھ مودودی صاحب کی ہر بات کو قبول کرتی جاؤں؟ میرا خیال تو یہ ہے کہ مودودی صاحب خود اس بات کی ہمت افزائی کر رہے ہیں کہ انکی تقلید نہیں ہے بلکہ صرف انکے پیش کردہ دلائل کو حجت بنایا جا سکتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ جب دلائل کی ہی بات ہے تو ہم "قدیم علماء" کے دلائل کو بغیر پڑھے و جانچے رد کر دیں؟

خیر مودودی صاحب (اور انکے پالیسی سے متفق لوگ) بذاتِ خود (عموما) بہت کھلی نظر کے مالک ہوتے ہیں اور اختلافات کو برداشت کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب یہی چیزیں کچھ "انتہا پسند" لوگوں کے ہاتھ لگتی ہیں تو وہ اسی بنیاد پر فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر "مولانا" کہنے پر مودودی صاحب نے تو صرف اپنی رائے پیش کی، مگر بہت سے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہتھیار آ گیا اور انہوں نے باقاعدہ طور پر شرک کے فتوے لگا دیے۔


تو آئیے اب اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیوں لازمی ہے کہ ان آیات کو باطنی معنوں میں سمجھا جائے اور مودودی صاحب اور محمد بن عبد الوہاب صاحب اور انکے پیروکار اپنی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے کسقدر بڑی غلطی کر گئے ہیں۔

اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔
 

arshadmm

محفلین
برائے مہربانی بحث کو عنوان کے مطابق ہی رہنے دیں۔

اگر آپ کسی اور موضوع پر بحث کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں تو الگ سے دھاگہ کھول لیں۔

کتنا اچھا کہا تھا شمشاد صاحب نے دھاگے کا مقصد کچھ اور تھا اور بحث کہیں اور جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کیوں نہ ہم لوگ صرف ان باتوں کو زیر بحث لایا کریں جو ہم سب میں‌ مشترک ہیں اور اختلافات کو پرے ہی رکھا جائے۔ نہ کسی کا دل دکھے نہ کوئی آرزدہ ہو مشترکہ موضوعات ہوں سب دلچسپی لیں۔
 
Top