صنفِ غزل کو پسند یا ناپسند کرنے کی وجوہات

جاسمن

لائبریرین
چائے خانے میں چائے کے ساتھ نیا موضوع شروع کیا ہے۔ محفلین اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
نظم کے ساتھ ساتھ غزل کی صنف مجھے بہت پسند ہے۔ ایک شعر میں ایک پورا جہان آباد ہو سکتا ہے۔ جب ہم تشریح کیا کرتے تھے تو ایک شعر پہ صفحات بھر دیتے تھے۔ شاعر نے شاید اُن جہتوں کو سوچا بھی نہ ہو، جو ہم ایجاد کر دیا کرتے تھے۔
کیا آپ میں سے کوئی ایسا کرتا تھا؟
 

فلسفی

محفلین
نظم کے ساتھ ساتھ غزل کی صنف مجھے بہت پسند ہے۔ ایک شعر میں ایک پورا جہان آباد ہو سکتا ہے۔ جب ہم تشریح کیا کرتے تھے تو ایک شعر پہ صفحات بھر دیتے تھے۔ شاعر نے شاید اُن جہتوں کو سوچا بھی نہ ہو، جو ہم ایجاد کر دیا کرتے تھے۔
کیا آپ میں سے کوئی ایسا کرتا تھا؟
آپ نے اسکول کا زمانہ یاد کروا دیا۔ جب تشریح کے لیے یوں لکھتے تھے "شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ" ۔۔۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے۔
 

جاسمن

لائبریرین
آپ نے اسکول کا زمانہ یاد کروا دیا۔ جب تشریح کے لیے یوں لکھتے تھے "شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ" ۔۔۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے۔
اسکول اور پھر کالج کے ابتدائی دو سال ہم نے ایسی ایسی تشریحات کی ہیں کہ اب سوچیں تو ہنسی آتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو بتا رہی تھی کہ جب میں نے کسی شعر کی تشریح میں کوئی ایسا شعر استعمال کرنا ہوتا تھا جو زیرِ تشریح شعر سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا تھا تو میں بات کرتے کرتے موضوع کو اُدھر لے جاتی اور پھر شعر ٹانک کے رفتہ رفتہ واپس لے آتی۔:)
 

فلسفی

محفلین
اسکول اور پھر کالج کے ابتدائی دو سال ہم نے ایسی ایسی تشریحات کی ہیں کہ اب سوچیں تو ہنسی آتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو بتا رہی تھی کہ جب میں نے کسی شعر کی تشریح میں کوئی ایسا شعر استعمال کرنا ہوتا تھا جو زیرِ تشریح شعر سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا تھا تو میں بات کرتے کرتے موضوع کو اُدھر لے جاتی اور پھر شعر ٹانک کے رفتہ رفتہ واپس لے آتی۔:)
جی بالکل کچھ ایسی ہی کاروائی ہم بھی کرتے رہے ہیں
 

فلسفی

محفلین
میر کے شعر کی تشریح میں ان کے مشکل حالات زندگی کا تذکرہ لازمی سمجھا جاتا تھا۔ تاکہ کم از کم آدھا صفحہ تو بھرا جا سکے۔ اسی طرح غالب کی انگریز دور کی کسم پرسی اور وظیفوں پر گزارے کا تذکرہ، غالب کے ہر شعر کی تشریح میں زبردستی گھسا دیا کرتے تھے۔ اقبال کی شاعری تو بہت آسان تھی کچھ سمجھ نہ آتا تو کہتے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر اقبال مرحوم کا دل بھر آیا اور انھوں نے یہ درد بھرے اشعار کہے جن کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ :D
 

فرقان احمد

محفلین
ارے بھئی کیا زمانہ یاد کرا دیا! تب تو بہت شغل میلے لگاکرتے تھے۔ ایک دوست نے غلطی سے لکھ دیا، شاعر اس شیر میں کہہ رہے ہیں تو اُن کا تادیر خوب مذاق بنا رہا۔ ہماری ایک محترم خاتون اُستاد کا فرمانا تھا کہ جہاں محبوب کا ذکر آئے، وہاں محبوب کی بجائے م لکھا جاوے؛ صد شکر کہ سنسر کی پابندیاں یہیں تک محدود رہیں۔ :)

موضوع کی طرف آئیں تو ہمیں غزل محض پسند ہی نہیں ہے، بلکہ بہت ہی زیادہ پسند ہے۔۔۔!
 
آخری تدوین:
یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ جس کو غزل پسند نہیں اسے کیا پسند ہے؟ اور کیوں؟

پھر اس کے لیے مناسب سزا بھی تجویز کی جائے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ جس کو غزل پسند نہیں اسے کیا پسند ہے؟ اور کیوں؟

پھر اس کے لیے مناسب سزا بھی تجویز کی جائے۔ :)
مزید یہ کہ کیا اُس غریب کی ادبی نمازِ جنازہ ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یا اُس کو بطور سزا کس شاعر کے کتنے سہ غزلے سنائے جائیں گے۔۔۔! صاحب، ذرا تفصیلات میں بھی دخل دیجیے۔۔۔!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ہماری ایک محترم خاتون اُستاد کا فرمانا تھا کہ جہاں محبوب کا ذکر آئے، وہاں محبوب کی بجائے م لکھا جاوے؛ صد شکر کہ سنسر کی پابندیاں یہیں تک محدود رہیں۔ :)
و
ہاہاہا۔:D
ہم جب کسی ایسے شعر کی تشریح کرتے تو "محبوب" کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کرتے کہ عاشق صاحب پڑھ لیتے تو بے حد حیران بلکہ پریشان ہوجاتے۔ :)
نیز عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی دونوں طرح کے عشق والے اشعار کی تشریح میں کوشش کی جاتی کہ دونوں سے متعلق مفصل بیان آجائے تاکہ تشریح خوب بڑھ جائے۔ پھر دونوں میں الگ الگ اشعار بھی ٹانکے جاتے تو خوب رنگ جمتا۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
غزل کے ایک شعر میں بلکہ بعض اوقات ایک مصرع میں اس قدر مکمل بات، واقعہ، کہانی بیان ہوجاتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
آج کل توبہت سی نئی نئی تراکیب والے اشعار پڑھنے کو مل رہے ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
ہمیں اردو کے مضمون میں سکول (سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال لاہور) کی حد تک ایک خاص مقام حاصل تھا۔ نانا اور دادا دونوں ضلع روہتک سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ گھر میں اردو ہی بولی جاتی تھی۔ باہر سارے پنجابی یار دوست تھے۔ سکول میں بھی اکثر پنجابی دوست تھے، جو اردو کو ایک خاص پنجابی لہجے کے ساتھ بولتے تھے۔ آٹھویں جماعت میں، میں اور بڑے بھائی صاحب اردو صاف بولتے تھے لہذا "بھیّے" کہلائے جاتے تھے۔ استاد بھی پنجابی تھے (اصل نام یاد نہیں لیکن شاہ جی کے نام سے مشہور تھے) سر اردو غزل پڑھانے لگتے تو کہتے چل "بھیے" تو پڑھ، پھر اس کے بعد تشریح بھی ہم سے کرواتے جو ہم تیس مار خاں بننے کے چکر میں پہلے سے پڑھ کر آتے تھے۔ ان دنوں خوب غزلیں یاد بھی کیں، سمجھییں بھی اور خوب داد سمیٹی ۔۔۔

کالج کی ابتدا سے ہی انگریزی زبان کا ایسا بھوت سوار ہوا کہ اب تک یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔ نہ اردو کے رہے نہ انگریزی کے۔ محفل پر آ کر احساس ہوا کہ اپنی مادری زبان سے کس قدر دور ہو گئے ہیں۔ الفاظ کے معنی تو دور تلفظ بھی درست ادا نہیں کرتے۔ لیکن امید ہے کہ اہل علم اور اردو زبان سے محبت رکھنے والے محفلین کی صحبت میں بہت سی خامیوں کا ان شاءاللہ ازالہ ہو جائے گا۔
 
Top