ٹیلی درحقیقت ہے کیا ۔ یہ دو دماغوں کے درمیان ایک کمیونکیشن ہے جو کسی بھی physical interaction کے رونما ہوسکتا ہے ۔ اس کی فریکوئنسیز کیا ہیں اور کس طرح کام کرتیں ہیں ۔ یہ سب ذاتی مشاہدات اور تجربات تک ہی محدود ہے ۔ سائنس ابھی اس کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے ۔ مگر اس پر کام ہو رہا ہے ۔مگر دماغ کی فریکوئنسیز اور ان کے کمیونیکیشن پر کافی تحقیقات ہوچکی ہے ۔ مگر ٹیلی پیتھی کو ہم جس تناظر میں لیکر بحث کر رہے ہیں ۔ سائنس اس کا مشاہدہ نہیں کر پائی ہے۔ کیونکہ جب انسان سے بشر یا بشر سے انسان تک کا سفر یا فاصلے کی بات کریں گے تو پھر بات
Physical Evidence سے آگے نکل جائے گی۔ بات گھوم پھر کے پھر ماورائی اور تصوف کی دنیا کی طرف آجاتی ہے ۔ جب ہمیں بات ہی اس دنیا کی کرنی ہے تو پھر ہمارے پاس کس قسم کے شواہد اور ثبوت موجود ہونگے ۔ جو اس بات کو باور کراسکیں کہ یہ صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات نہیں بلکہ حقیقتیں ہیں ۔ اور جب حقیقت کی بات کی جائے گی تو پھر ثبوت بھی درکار ہونگیں۔ تو معاملہ یہاں سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ تو پھر کیا جائے ۔ پھر وہی کیا جائے جس کا میں نے پچھلے تبصرے میں مشورہ دیا جائے کہ پہلے علمِ نفسیات اور مڈیکل سائنس کی رو سے دماغ اور اس کے فنکشنز کو سمجھا جائے ۔ ورنہ ایک ٹانگ دنیا میں اور دوسری خلاء میں لٹک رہی ہوگی ۔