چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

نور وجدان

لائبریرین
پیشی ہو گئی ہے تو اب جواب بھی دینا پڑیں گے حکم فرمائیں
ہہہہم .... اب تو آپ سے باری باری سب سوالات کرنے ہیں .. "لاشعور " میں کیسے جایا جائے؟ شعور حاوی رہتا ہے اکثر مگر جب لاشعور کا حال اور شعور میں کمانڈ ہو تو انسان سیدھا ہوجاتا ہے .......تو لاشعوری ٹرانس کیسے حاوی کیا جائے، شعور کو کیسے سلایا جائے؟
 
ہہہہم .... اب تو آپ سے باری باری سب سوالات کرنے ہیں .. "لاشعور " میں کیسے جایا جائے؟ شعور حاوی رہتا ہے اکثر مگر جب لاشعور کا حال اور شعور میں کمانڈ ہو تو انسان سیدھا ہوجاتا ہے .......تو لاشعوری ٹرانس کیسے حاوی کیا جائے، شعور کو کیسے سلایا جائے؟
جواب تفتیح طلب ہے لہذا جہاں ہوں وہاں اس کا جواب بالتفصیل دینے سے قاصر ہوں رسید لکھ دی تاکہ سند رہے اور گھر لوٹ کر کل باذن اللہ جواب دونگا ان شاء اللہ
 
ہہہہم .... اب تو آپ سے باری باری سب سوالات کرنے ہیں .. "لاشعور " میں کیسے جایا جائے؟ شعور حاوی رہتا ہے اکثر مگر جب لاشعور کا حال اور شعور میں کمانڈ ہو تو انسان سیدھا ہوجاتا ہے .......تو لاشعوری ٹرانس کیسے حاوی کیا جائے، شعور کو کیسے سلایا جائے؟
لاشعور اور تحت الشعور کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ایک درجے پر جا کر غیب سے مل جاتا ہے جبکہ تحت الشعور آپ کے شعور سے متصل ہوتا ہے ۔ لاشعور میں جانا براہ راست بغیر کسی خصوصی کرم نوازی کے ممکن نظر نہیں آتا جبکہ تحت الشعور کی کیفیات تک رسائی شعور کی تربیت سے ممکن ہے ۔

عمومی تعریف کے مطابق

عام حالات میں لاشعور كو ہم شعور كى ضد بھى كہ سكتے ہیں اور اس عام تصور کے مطابق لاشعور کو دماغ میں موجود ایسی یاداشتوں کو کہا جاتا ہے کہ جو عموما انسان کی خواہش یا حسرت کی سی حیثیت میں اس کی ذہن میں موجود ہوتی ہیں مگر عملی زندگی میں اس وقت تک سامنے نہیں آتیں جب تک کہ انکو کسی تحریک (یاد دلانے والی بات) کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بچپن سے ليكر مرنے تک ایسی بے شمار باتیں ہماری یاداشت memory) میں موجود رہتی ہیں اور ان کو ہی لاشعور کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں علم نفسیات (psychology) اور طب کے مطابق یہ تحت الشعور (subconsciousness) کہا جاتا ہے نہ کہ لاشعور۔ یہ تحت الشعور ہمارے سونے کے دوران بھى كام كرتا رہتا ہے–تحت الشعور ميں جو گزرى زندگى كى ياداشتيں محفوظ ہوتى ہیں ان ياداشتوں كى مدد سے تحت الشعور آئندہ زندگی كا بنيادى ڈھانچہ ترتيب ديتا ہے۔ ايک طبیب اپنى پچھلى زندگى میں جھانک كر دیكھے تواسے اندازہو گا کہ طبیب بنبے كى یہ خواھش اس كى زندگی میں يا اس كے لا شعور ميں بچپن سے مو جود تھى۔

یا دوسرے الفاظ میں

وہ باتیں جن کا ادراک ہم جاگتے میں نہیں کر سکتے وہ باتیں ہمارے لاشعور کا حصہ ہوتیں ہیں جبکہ تحت الشعور ہمارے شعور سے ہم آھنگ ہوتا ہے

ایسے میں دیکھا جائے تو لاشعور کے تحت الشعور سے ہوتے ہوئے شعور سے متصل ہونے کی صورت میں ہی عین الیقین حاصل ہوتی ہے یہ وہی عین الیقین ہے جس سے جہنم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ کے حضور کھڑے ہونے کے رعب کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ جنت کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ قبر کی سختیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان سے ڈرا جا سکتا ہے اور نیکی بدی کا ایک پیمانہ اپنی ذات پر اس گائیڈ اور مرکزی نمونہ کے مطابق ہر لمحے قائم کیا جا سکتا ہے اور اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت مجوزہ نصاب اور عملی نمونہ کے مطابق خود پر لاگو کرنے سے بڑا کوئی مقصد حیات نہیں ہے اور اصل امتحان انہی دو اعمال کا ہے۔ باقی سب لہو و لعب اور عبدیت غیر ہے (یہ میرا نقطہ نظر ہے نہ کہ دوسرے تمام نقطہ ہائے نظر کی تردید )
 

نور وجدان

لائبریرین
لاشعور اور تحت الشعور کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ایک درجے پر جا کر غیب سے مل جاتا ہے جبکہ تحت الشعور آپ کے شعور سے متصل ہوتا ہے ۔ لاشعور میں جانا براہ راست بغیر کسی خصوصی کرم نوازی کے ممکن نظر نہیں آتا جبکہ تحت الشعور کی کیفیات تک رسائی شعور کی تربیت سے ممکن ہے ۔

عمومی تعریف کے مطابق

عام حالات میں لاشعور كو ہم شعور كى ضد بھى كہ سكتے ہیں اور اس عام تصور کے مطابق لاشعور کو دماغ میں موجود ایسی یاداشتوں کو کہا جاتا ہے کہ جو عموما انسان کی خواہش یا حسرت کی سی حیثیت میں اس کی ذہن میں موجود ہوتی ہیں مگر عملی زندگی میں اس وقت تک سامنے نہیں آتیں جب تک کہ انکو کسی تحریک (یاد دلانے والی بات) کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بچپن سے ليكر مرنے تک ایسی بے شمار باتیں ہماری یاداشت memory) میں موجود رہتی ہیں اور ان کو ہی لاشعور کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں علم نفسیات (psychology) اور طب کے مطابق یہ تحت الشعور (subconsciousness) کہا جاتا ہے نہ کہ لاشعور۔ یہ تحت الشعور ہمارے سونے کے دوران بھى كام كرتا رہتا ہے–تحت الشعور ميں جو گزرى زندگى كى ياداشتيں محفوظ ہوتى ہیں ان ياداشتوں كى مدد سے تحت الشعور آئندہ زندگی كا بنيادى ڈھانچہ ترتيب ديتا ہے۔ ايک طبیب اپنى پچھلى زندگى میں جھانک كر دیكھے تواسے اندازہو گا کہ طبیب بنبے كى یہ خواھش اس كى زندگی میں يا اس كے لا شعور ميں بچپن سے مو جود تھى۔

یا دوسرے الفاظ میں

وہ باتیں جن کا ادراک ہم جاگتے میں نہیں کر سکتے وہ باتیں ہمارے لاشعور کا حصہ ہوتیں ہیں جبکہ تحت الشعور ہمارے شعور سے ہم آھنگ ہوتا ہے

ایسے میں دیکھا جائے تو لاشعور کے تحت الشعور سے ہوتے ہوئے شعور سے متصل ہونے کی صورت میں ہی عین الیقین حاصل ہوتی ہے یہ وہی عین الیقین ہے جس سے جہنم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ کے حضور کھڑے ہونے کے رعب کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ جنت کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ قبر کی سختیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان سے ڈرا جا سکتا ہے اور نیکی بدی کا ایک پیمانہ اپنی ذات پر اس گائیڈ اور مرکزی نمونہ کے مطابق ہر لمحے قائم کیا جا سکتا ہے اور اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اجتناب معصیت اور ارتکاب عبدیت مجوزہ نصاب اور عملی نمونہ کے مطابق خود پر لاگو کرنے سے بڑا کوئی مقصد حیات نہیں ہے اور اصل امتحان انہی دو اعمال کا ہے۔ باقی سب لہو و لعب اور عبدیت غیر ہے (یہ میرا نقطہ نظر ہے نہ کہ دوسرے تمام نقطہ ہائے نظر کی تردید )
میرا نصب العین جوہرِ ذات تک پہنچنا ہے کیونکہ میرے درون میں جنت و دوذخ کی کشش کے بجائے جوہرِ ذات کو پہنچاننے کی سعی کی ہے. جب درون آپ کو شناخت دے دے یعنی اک اشارہ یا مجموعہ ہائے اشارات سے قیاس لگا لیا جائے کہ یہی درون ہے، یہی نصب العین ہے تو اس تک رسائی، پہنچ کیسے کی جائے؟ دوسری بات یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے بنا تحت الشعور رسائی کے لاشعور تک ہوجائے اور کرم فرما بھی اپنا بھرم رکھے تو کیا کیا جائے؟ یقین کا سفر شعور سے تحت الشعور اور عین الیقین /حق الیقین کا لاشعور تک کا سفر ہے؟ لاشعور سے پہلے تحت الشعور تک پہنچنا گویا خود کو پاک صاف کرلینا .... جیسا کہ سورہ المدثر میں اللہ کریم نے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ نے کہا "اپنے کپڑے صاف رکھو " آپ تو نفس کی اعلی سطح پر ابتدا سے ہی گامزن تھے تو پھر ایسا ارشاد کیونکر ہوا؟ اور جب ہم جیسے قاری اس آیت پر غور کریِ تو ہم عام سطح کی نفسانی کشاکش سے بچ نہیں پاتے، خود کو شعوری کمانڈز نہیں دے پاتے وہ کیا کریں.... کیسے لاگو کرنا ہے؟ اسوہ حسنہ کیسے لاگو کرنا جبکہ غصہ جبلت، نفرت جبلت، بدلہ جبلت، بد دعا جبلت، جھوٹ جبلت ....... وغیرہ وغیر. ..... جبلتوں کو بدلنے کا عملی نسخہ ...ہم خود کو بات کرتے تبدیل نہیں کرپاتے جبکہ الفاظ میں اثرپذیری اس قدر بڑھ جائے یا زمین اتنی نرم ہو جائے ....نہ دل کی زمین نرم ہے نہ الفاظ کے اصل تک رسائی نہ بصارت ہے نہ طہارت ہے
 

علی صہیب

محفلین
واہ واہ ...کیا نقطہ اٹھایا ہے .... یہی اصل سوال ہے

شاید شعرا قوتِ متخیلہ کے ذریعے یہ مقام حاصل کر لیتے ہیں یا کم از کم دعوی کرتے ہیں...
جیسے عرفان صدیقی نے کہا کہ
دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہرِ ملال
ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

اور جاگتے میں بھی اس شدت کی حالتِ بے حالی کہ سلیم ساگر بول اٹھا..
آئینہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں ہوں
ورنہ تو مجھے بھول ہی جاتا ہے کہ میں ہوں
 
میرا نصب العین جوہرِ ذات تک پہنچنا ہے کیونکہ میرے درون میں جنت و دوذخ کی کشش کے بجائے جوہرِ ذات کو پہنچاننے کی سعی کی ہے. جب درون آپ کو شناخت دے دے یعنی اک اشارہ یا مجموعہ ہائے اشارات سے قیاس لگا لیا جائے کہ یہی درون ہے، یہی نصب العین ہے تو اس تک رسائی، پہنچ کیسے کی جائے؟ دوسری بات یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے بنا تحت الشعور رسائی کے لاشعور تک ہوجائے اور کرم فرما بھی اپنا بھرم رکھے تو کیا کیا جائے؟ یقین کا سفر شعور سے تحت الشعور اور عین الیقین /حق الیقین کا لاشعور تک کا سفر ہے؟ لاشعور سے پہلے تحت الشعور تک پہنچنا گویا خود کو پاک صاف کرلینا .... جیسا کہ سورہ المدثر میں اللہ کریم نے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ نے کہا "اپنے کپڑے صاف رکھو " آپ تو نفس کی اعلی سطح پر ابتدا سے ہی گامزن تھے تو پھر ایسا ارشاد کیونکر ہوا؟ اور جب ہم جیسے قاری اس آیت پر غور کریِ تو ہم عام سطح کی نفسانی کشاکش سے بچ نہیں پاتے، خود کو شعوری کمانڈز نہیں دے پاتے وہ کیا کریں.... کیسے لاگو کرنا ہے؟ اسوہ حسنہ کیسے لاگو کرنا جبکہ غصہ جبلت، نفرت جبلت، بدلہ جبلت، بد دعا جبلت، جھوٹ جبلت ....... وغیرہ وغیر. ..... جبلتوں کو بدلنے کا عملی نسخہ ...ہم خود کو بات کرتے تبدیل نہیں کرپاتے جبکہ الفاظ میں اثرپذیری اس قدر بڑھ جائے یا زمین اتنی نرم ہو جائے ....نہ دل کی زمین نرم ہے نہ الفاظ کے اصل تک رسائی نہ بصارت ہے نہ طہارت ہے
جوہر ذات تک پہنچنا عین سعادت کا مقام ہے۔ لیکن (یہاں بھی لیکن کو دخل ہے) جب آپ ایک درجے کی تعلیم حاصل کر چکتے ہیں تو اس سے اگلے درجے کی تعلیم شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح شعور سے تحت الشعور کا سفر اور اس کے بعد لاشعور کا سفر درجہ بدرجہ ترقی سے ہوتا ہے۔ یقینا پہچان کرنا اور جاننا کرم فرما کے کرم کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ ماں کے پیٹ کی کیفیات کا علم آج ہمیں کیوں نہیں ۔ اور قبر کا حال بالعموم ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے۔۔؟؟
یہی وہ درجہ بدرجہ کی سمجھ ہے جو اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد-
نبیوں کا معاملہ عامۃ الناس سے یکسر مختلف ہوتا تھا۔۔ انہیں ہدایات دینے کے مقاصد میں ان کی امت کی تربیت اور آنے والے وساوس اور فتنوں کا سدباب ہوتا تھا۔۔
باقی ان منازل کی نشان دہی اور ان پر چلنے کا طریقہ اور اس راہ کے مسائل سب اسی گائیڈ بک میں موجود ہیں اور اسی عملی مرکزی نمونہ سے ان پر عمل پیرا ہونے کی حکمت عملی و طریقہ سب موجود ہیں۔

تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے ۔۔؟؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
شاید شعرا قوتِ متخیلہ کے ذریعے یہ مقام حاصل کر لیتے ہیں یا کم از کم دعوی کرتے ہیں...
جیسے عرفان صدیقی نے کہا کہ
دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہرِ ملال
ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

اور جاگتے میں بھی اس شدت کی حالتِ بے حالی کہ سلیم ساگر بول اٹھا..
آئینہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں ہوں
ورنہ تو مجھے بھول ہی جاتا ہے کہ میں ہوں
بات شاید اتنی ہے کہ شاعر لوگ بے نیاز ہوتے ہیں، کچھ تو ہستی سے بھی بے نیاز ہوجاتے ایک خیال کو خدا کو مانتے. اپنے عشق کی آیت انہیں ریت، پہاڑ، پانی، چرند پرند میں دکھتی ہے. یہی آیات لاشعور تک پہنچا دیتی ہیں اگر عشق نارسا ہو ....مسئلہ تو ہم جیسے لوگوں کو ہوتا جن کی زندگی ایسی بے نیازی کی متحمل ہو نہیں سکتی ....
 
سلسلہ بہت دلچسپ ہے مونگ پھلی اور چائے سے شروع ہو کر شعور سے پھر اڑان بھری جا رہی ہے غالباً لاشعور براستہ تحت الشعور۔
اچھی چائے پسند کرتا ہوں اور بری چائے پی جاتا ہوں۔
مونگ پھلی سے لوگوں کی وجہ سے کنارہ کش ہوں۔
اور پتہ مجھے شعور کا ہے اور نہ تحت الشعور اور نہ ہی لاشعور کا ۔
ہاں البتہ میرا میرے جسم اور شاید اس کی حسیات اور کمانڈ سسٹم کے ساتھ ایک اچھا سلسلہ یا ربط ضرور قائم ہے۔ ہم ایک دوسرے کے مشوروں اور احکامات کو ماننے کی کوشش کرتے محسوس ہوا کرتے ہیں اکثر۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جوہر ذات تک پہنچنا عین سعادت کا مقام ہے۔ لیکن (یہاں بھی لیکن کو دخل ہے) جب آپ ایک درجے کی تعلیم حاصل کر چکتے ہیں تو اس سے اگلے درجے کی تعلیم شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح شعور سے تحت الشعور کا سفر اور اس کے بعد لاشعور کا سفر درجہ بدرجہ ترقی سے ہوتا ہے۔ یقینا پہچان کرنا اور جاننا کرم فرما کے کرم کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ ماں کے پیٹ کی کیفیات کا علم آج ہمیں کیوں نہیں ۔ اور قبر کا حال بالعموم ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے۔۔؟؟
یہی وہ درجہ بدرجہ کی سمجھ ہے جو اپنے وقت پر ہی آتی ہے۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد-
نبیوں کا معاملہ عامۃ الناس سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ انہیں ہدایات دینے کے مقاصد میں ان کی امت کی تربیت اور آنے والے وساوس اور فتنوں کا سدباب ہوتا ہے۔
باقی ان منازل کی نشان دہی اور ان پر چلنے کا طریقہ اور اس راہ کے مسائل سب اسی گائیڈ بک میں موجود ہیں اور اسی عملی مرکزی نمونہ سے ان پر عمل پیرا ہونے کی حکمت عملی و طریقہ سب موجود ہیں۔

تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے ۔۔؟؟
یہ جو لیکن ہے نا .... اس پر بھی پردہ اٹھا دیا کریں تاکہ بات مکمل سمجھ میں آجائے .... قران پاک جا بجا تمثیلوں، استعاروں سے بھرا ہوا ہے ...مثال کے طور پر زمین کے مختلف معانی ہیں، رات اور دن میں بھی مثالیں ہیں ... پانی کا، ہوا کا چلنا، بجلی کا چمکنا سب ایسے استعارے ہیں جن کا جواب کسی تفسیر میں نہیں ہے بلکہ تاریخ کے حقائق بیان کردئیے گئے...اسکو پڑھنے والے جب اس میں سے اپنے لیے آیت ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو قران پاک سے پیار بڑھنے لگتا ہے کبھی یہ رلاتا ہے تو کبھی سکون بخش دوا بھی ہے کبھی کیا تو کیا مگر قران پاک کی ابتدائی سطور بھی نہ سمجھ سکے تو باطنی معانی کی پہنچ کہاں سے ہو؟ اللہ نے کہا ہے نا "دیکھو، سنو، بولو اور غور کرو، تدبر کرو ....یہ غور سے تدبر والی اسٹیج پر الجھاؤ آجاتا ہے ورنہ پھر اندھے گونگے بہرے کا لقب مل سکتا ..... کچھ آپ ہی بتائیے اپنے تجربے سے آپ قران پاک کیسے پڑھتے ہیں،؟ آپ کے مرشد کون ہیں؟ آپ کو ہداہت و علم کیسے ملا؟ باقی بچہ جب وجود میں آتا ہے تو ماں کی خوشبو سے پہچان جاتا ہے یہاں تو پہچان لیا بھی جائے تو بھرم قائم رہتا ہ. ...یوں سمجھیے اس فیکٹ پر اک پردہ ہے کہ لاشعور تک جیسے ماقبل رسائی ہوئی اسکے ہیچھے اسرار کیا تھا اور اب ایسی رسائی کیوں نہیں ہے ...سمجھ تو واقعہ درجہ بدرجہ آتی ہے ... دیکھیں اب اپنے عیوب سے آگاہ ہوں پہلے خود کو مکمل سمجھتی تھی. اب اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اس لیے سجدے میں سر جھک جاتا ہے شرم سے ...سامنا نہیں ہوتا کہ کیسے سامنا ہو ...اتنی برائیاں ہیں ..یہ خود شناسی کا مرحلہ تو ہے کہ ائنہ ہی تڑپا رہا ہے
 
ہ جو لیکن ہے نا .... اس پر بھی پردہ اٹھا دیا کریں تاکہ بات مکمل سمجھ میں آجائے .... قران پاک جا بجا تمثیلوں، استعاروں سے بھرا ہوا ہے ...مثال کے طور پر زمین کے مختلف معانی ہیں، رات اور دن میں بھی مثالیں ہیں ... پانی کا، ہوا کا چلنا، بجلی کا چمکنا سب ایسے استعارے ہیں جن کا جواب کسی تفسیر میں نہیں ہے بلکہ تاریخ کے حقائق بیان کردئیے گئے...اسکو پڑھنے والے جب اس میں سے اپنے لیے آیت ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو قران پاک سے پیار بڑھنے لگتا ہے کبھی یہ رلاتا ہے تو کبھی سکون بخش دوا بھی ہے کبھی کیا تو کیا مگر قران پاک کی ابتدائی سطور بھی نہ سمجھ سکے تو باطنی معانی کی پہنچ کہاں سے ہو؟ اللہ نے کہا ہے نا "دیکھو، سنو، بولو اور غور کرو، تدبر کرو ....یہ غور سے تدبر والی اسٹیج پر الجھاؤ آجاتا ہے ورنہ پھر اندھے گونگے بہرے کا لقب مل سکتا ..... کچھ آپ ہی بتائیے اپنے تجربے سے آپ قران پاک کیسے پڑھتے ہیں،؟ آپ کے مرشد کون ہیں؟ آپ کو ہداہت و علم کیسے ملا؟ باقی بچہ جب وجود میں آتا ہے تو ماں کی خوشبو سے پہچان جاتا ہے یہاں تو پہچان لیا بھی جائے تو بھرم قائم رہتا ہ. ...یوں سمجھیے اس فیکٹ پر اک پردہ ہے کہ لاشعور تک جیسے ماقبل رسائی ہوئی اسکے ہیچھے اسرار کیا تھا اور اب ایسی رسائی کیوں نہیں ہے ...سمجھ تو واقعہ درجہ بدرجہ آتی ہے ... دیکھیں اب اپنے عیوب سے آگاہ ہوں پہلے خود کو مکمل سمجھتی تھی. اب اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اس لیے سجدے میں سر جھک جاتا ہے شرم سے ...سامنا نہیں ہوتا کہ کیسے سامنا ہو ...اتنی برائیاں ہیں ..یہ خود شناسی کا مرحلہ تو ہے کہ ائنہ ہی تڑپا رہا ہے
جب عشق کرنا ہی ٹھہرا تو اپنے مالک جل جلالہ سے کیوں نہ کیا جائے جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ہماری ہدایت کے لیئے اس دنیا میں بھیجا۔ جس نے لاکھوں برس سے آدم کی اولاد کو تنہا نہیں چھوڑا اور تاقیامت نہیں چھوڑے گا۔ الا یہ کہ آدم کی اولاد خود سے اس سے جڑے رہنا پسند نہ کرے اور اس کے راستے کو ترک کر دے (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ تو ایسوں کے لیئے راندہ درگاہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)

اپنی ذات کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ (میں) بھی ایک خطرناک فتنہ ہے

میرے مرشد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وہ ہیں جو سب مرشدوں کے مرشد ہیں۔ جب تک ان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے در تک نہ پہنچا تھا در در پھرتا تھا۔ لیکن جب پہنچا تو ایسے راستے سے جو سب دروں سے الگ تھا جس کی توقع بھی نہ کی تھی ۔ اور وہ راستہ مجھے کہیں راستے میں ملا مجھ پر اس نے محنت کی اور مجھے گائیڈ پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ قاری اور مولوی کا فرق بتایا اور پھر ایک ایک آیت سمجھاتے ہوئے اب بھی مجھ پر محنت کر رہا ہے۔ جب قرآن رٹتا تھا تو کیفیت کا حصول نہ تھا جب قرآن پڑھا تو جانا کہ توحید کیا ہے۔ اور توحید کی لذت تمام پیری مریدی کی لذتوں سے ماورا ہے۔ قرآن پڑھنے سننے کا لطف تمام لطف ہائے معلوم سے ماورا ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ پیغام ہے جو محجوب معشوق حقیقی جل جلالہ نے محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہاتھوں ہم تک بھیجا اور اس کا ایک ایک لفظ ہمی سے یعنی صرف ہمی سے مخاطب ہو کر بھیجا گیا ہے۔ گو کہ اس میں کفار کو بھی مخاطب کیا گیا ہے لیکن وہ بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے اور محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے تخاطب بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے ہے ۔ اس کی تمام آیات نہ تو اتنی مشکل ہیں کہ اپنی ذات کی حد تک آپ انہیں سمجھ کر خود پر لاگو ہی نہ کر سکیں اور نہ ہی اس قدر گنجلک ہیں کہ آپ کو انہیں سمجھنے کے لیئے سات سالہ درس نظامی کرنا پڑے - اللہ کی عطا ہے کہ میری کوشش اب یہی ہوتی ہے کہ قرآن پڑھتے وقت یہ خیال ہو کہ یہ میرے مالک نے میرے لیئے ہی بھیجا ہے اور اس کے احکام و اوامر میرے لیئے ہیں۔ مرشد پاک سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کروں تو سمجھ آتا ہے کہ دین کا حال خراب کرنے میں اور فرقوں کی تشکیل میں مولویوں (علماء نے نہیں ) کا بہت بڑا کردار ہے ۔ علمائے دین وہ تھے اور ہیں جنکے علوم کا مرجع و مصدر قرآن کریم اور صحیح احادیث اور درست قابل تصدیق و قابل اعتماد مصادر سے حاصل کردہ معلومات ہیں - جبکہ ضعیف الاسناد احادیث ، اور ایسی احادیث جو ایسے گھڑی گئی ہوں کہ دراصل قرآن کے نص کے مخالف ہوں کا جھنڈا پکڑ کر کھڑے بابے، علماء ، پیر، فقیر، مولوی سب کے سب دکان دار ہیں۔ جنہیں اپنی دکان داری سے مطلب ہے وہ دکان جس کا سامان دیومالائی داستانیں اور کرامتیں اور قصے کہانیاں ہیں اور قیمت میں کثرت کی ہوس ہے وہ کثرت واہ واہ سے شروع ہو کر طاقت و سلطنت تک جاتی ہے اور یہی وہ کثرت کی ہوس ہے جس میں ہلاکت ہے-

آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اور اس نظر آنے کے باوجود آپ کا سر سجدے میں جھک جاتا ہے اکڑ کر اٹھ نہیں جاتا اس خوش قسمتی اس کرم کو ضائع مت کیجئے بلکہ جب کھڑے ہوں مالک کے سامنےاس کے دربار میں تو میں سوچوں کہ چالان ہوجائے تو ایک پولیس والے کے سامنے کیسے کھڑے ہوتا ہوں ۔ کیس عدالت میں ہو اور جج کے پاس فیصلے کی آخری پیشی ہو اور مجھے علم ہو کہ میں مجرم ہیں تو کیسے کھڑے ہونگا۔ یا کم از کم اگر میرے عیب ہی میرے ان اعزاء کے سامنے کھل گئے جنہیں میں جانتا ہوں تو ان کا سامنا کیسے ہوگا۔۔؟؟
تو کیا ہمارا بنانے والا جو لاکھوں سالوں سے ہماری رکھوالی کرتا آرہا ہے اور تاقیامت کرنے والا ہے اور تمام عیوب کا جاننے اور ڈھک کر رکھنے والا ہے اس کے سامنے کیسے کھڑے ہونا ہے یہ بھی کوئی آ کر مجھے سکھائے گا جبکہ اسی کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے وہ مالک جل جلالہ ہمیں اس کا نہ صرف طریقہ بتا چکا بلکہ سرکار دوعالم علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعے عملی نمونہ بھی دکھا چکا-
خود شناسی۔۔۔
کیا کسی معمولی موبائل کو اس کے بنانے والے کی دی ہوئی گائیڈ کے بغیر آپ سمجھ اور جان سکتے ہیں۔۔؟؟ یقینا نہیں تو ساری مشینیں بنانے والے اس دوٹانگوں اور ایک سر والے اس عجوبے کو اس کے بنانے والے کی گائیڈ کے بغیر کیسے جان سکتے ہیں ۔ اور اپنی ذات سے بڑھ کر کون ہے جو اپنی ذات سے ریلیٹ کر سکے اور گائیڈ کی روشنی میں اپنے تمام فنکشنز کو سمجھ کر درست استعمال کی طرف سفر شروع کر سکے۔۔؟؟

آئیے آج نماز میں کھڑے ہوں تو اللہ کو اپنے محلے کے چوہدری، تھانے دار، ایک جج، حاکم سے زیادہ عزت اور رعب والا سمجھ کر تو دیکھیں - نتیجہ آپ خود دیکھ لیں گے مجھے یقین دلانے کے لیئے کسی نئی مثال کی ضرورت نہیں پڑے گی - قرآن کو تفسیروں اور تفسیر در تفسیر کے صفحہ نمبر اور حاشیہ نمبر سے آگے بڑھ کر صرف ترجمہ سے پڑھنے سے شروع کیجئے کہ آغاز سادی بات سے ہی ہوگا -
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو بلا حیل و حجت تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آخری نبی و رسول ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کو مسلمان سمجھیں ۔ فرقوں میں تقسیم نہ ہوں بلکہ امت میں یک جا ہونے کی کوشش کریں ۔ بحث میں مت پڑیں کہ یہ آپ کے اپنے ہدف کی طرف ارتکاز سے آپ کو دور کرتی ہے۔ اور اطاعت کے مطلب کو سمجھیں کہ اس میں کیا کیوں کیسے نہیں ہوتا ۔ بس ماننا ہوتا ہے - حرام سے اجتناب رکھیں ۔ پسند ناپسند محبت اور نفرت کا ایک ہی پیمانہ ہو اور وہ ہو (للہ) (اللہ کے لیئے) پھر دیکھنا ایک ایک کر کے نئی دنیائیں دریافت ہوتی جائیں گی
 

م حمزہ

محفلین
جب عشق کرنا ہی ٹھہرا تو اپنے مالک جل جلالہ سے کیوں نہ کیا جائے جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ہماری ہدایت کے لیئے اس دنیا میں بھیجا۔ جس نے لاکھوں برس سے آدم کی اولاد کو تنہا نہیں چھوڑا اور تاقیامت نہیں چھوڑے گا۔ الا یہ کہ آدم کی اولاد خود سے اس سے جڑے رہنا پسند نہ کرے اور اس کے راستے کو ترک کر دے (نعوذ باللہ من ذلک) ۔ تو ایسوں کے لیئے راندہ درگاہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)

اپنی ذات کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ (میں) بھی ایک خطرناک فتنہ ہے

میرے مرشد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وہ ہیں جو سب مرشدوں کے مرشد ہیں۔ جب تک ان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے در تک نہ پہنچا تھا در در پھرتا تھا۔ لیکن جب پہنچا تو ایسے راستے سے جو سب دروں سے الگ تھا جس کی توقع بھی نہ کی تھی ۔ اور وہ راستہ مجھے کہیں راستے میں ملا مجھ پر اس نے محنت کی اور مجھے گائیڈ پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ قاری اور مولوی کا فرق بتایا اور پھر ایک ایک آیت سمجھاتے ہوئے اب بھی مجھ پر محنت کر رہا ہے۔ جب قرآن رٹتا تھا تو کیفیت کا حصول نہ تھا جب قرآن پڑھا تو جانا کہ توحید کیا ہے۔ اور توحید کی لذت تمام پیری مریدی کی لذتوں سے ماورا ہے۔ قرآن پڑھنے سننے کا لطف تمام لطف ہائے معلوم سے ماورا ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ پیغام ہے جو محجوب معشوق حقیقی جل جلالہ نے محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہاتھوں ہم تک بھیجا اور اس کا ایک ایک لفظ ہمی سے یعنی صرف ہمی سے مخاطب ہو کر بھیجا گیا ہے۔ گو کہ اس میں کفار کو بھی مخاطب کیا گیا ہے لیکن وہ بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے اور محبوب و معشوق ثانی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے تخاطب بھی ہماری ہی تعلیم کے لیئے ہے ۔ اس کی تمام آیات نہ تو اتنی مشکل ہیں کہ اپنی ذات کی حد تک آپ انہیں سمجھ کر خود پر لاگو ہی نہ کر سکیں اور نہ ہی اس قدر گنجلک ہیں کہ آپ کو انہیں سمجھنے کے لیئے سات سالہ درس نظامی کرنا پڑے - اللہ کی عطا ہے کہ میری کوشش اب یہی ہوتی ہے کہ قرآن پڑھتے وقت یہ خیال ہو کہ یہ میرے مالک نے میرے لیئے ہی بھیجا ہے اور اس کے احکام و اوامر میرے لیئے ہیں۔ مرشد پاک سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کروں تو سمجھ آتا ہے کہ دین کا حال خراب کرنے میں اور فرقوں کی تشکیل میں مولویوں (علماء نے نہیں ) کا بہت بڑا کردار ہے ۔ علمائے دین وہ تھے اور ہیں جنکے علوم کا مرجع و مصدر قرآن کریم اور صحیح احادیث اور درست قابل تصدیق و قابل اعتماد مصادر سے حاصل کردہ معلومات ہیں - جبکہ ضعیف الاسناد احادیث ، اور ایسی احادیث جو ایسے گھڑی گئی ہوں کہ دراصل قرآن کے نص کے مخالف ہوں کا جھنڈا پکڑ کر کھڑے بابے، علماء ، پیر، فقیر، مولوی سب کے سب دکان دار ہیں۔ جنہیں اپنی دکان داری سے مطلب ہے وہ دکان جس کا سامان دیومالائی داستانیں اور کرامتیں اور قصے کہانیاں ہیں اور قیمت میں کثرت کی ہوس ہے وہ کثرت واہ واہ سے شروع ہو کر طاقت و سلطنت تک جاتی ہے اور یہی وہ کثرت کی ہوس ہے جس میں ہلاکت ہے-

آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنا آپ گنہ گار دکھتا ہے اور اس نظر آنے کے باوجود آپ کا سر سجدے میں جھک جاتا ہے اکڑ کر اٹھ نہیں جاتا اس خوش قسمتی اس کرم کو ضائع مت کیجئے بلکہ جب کھڑے ہوں مالک کے سامنےاس کے دربار میں تو میں سوچوں کہ چالان ہوجائے تو ایک پولیس والے کے سامنے کیسے کھڑے ہوتا ہوں ۔ کیس عدالت میں ہو اور جج کے پاس فیصلے کی آخری پیشی ہو اور مجھے علم ہو کہ میں مجرم ہیں تو کیسے کھڑے ہونگا۔ یا کم از کم اگر میرے عیب ہی میرے ان اعزاء کے سامنے کھل گئے جنہیں میں جانتا ہوں تو ان کا سامنا کیسے ہوگا۔۔؟؟
تو کیا ہمارا بنانے والا جو لاکھوں سالوں سے ہماری رکھوالی کرتا آرہا ہے اور تاقیامت کرنے والا ہے اور تمام عیوب کا جاننے اور ڈھک کر رکھنے والا ہے اس کے سامنے کیسے کھڑے ہونا ہے یہ بھی کوئی آ کر مجھے سکھائے گا جبکہ اسی کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے وہ مالک جل جلالہ ہمیں اس کا نہ صرف طریقہ بتا چکا بلکہ سرکار دوعالم علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعے عملی نمونہ بھی دکھا چکا-
خود شناسی۔۔۔
کیا کسی معمولی موبائل کو اس کے بنانے والے کی دی ہوئی گائیڈ کے بغیر آپ سمجھ اور جان سکتے ہیں۔۔؟؟ یقینا نہیں تو ساری مشینیں بنانے والے اس دوٹانگوں اور ایک سر والے اس عجوبے کو اس کے بنانے والے کی گائیڈ کے بغیر کیسے جان سکتے ہیں ۔ اور اپنی ذات سے بڑھ کر کون ہے جو اپنی ذات سے ریلیٹ کر سکے اور گائیڈ کی روشنی میں اپنے تمام فنکشنز کو سمجھ کر درست استعمال کی طرف سفر شروع کر سکے۔۔؟؟

آئیے آج نماز میں کھڑے ہوں تو اللہ کو اپنے محلے کے چوہدری، تھانے دار، ایک جج، حاکم سے زیادہ عزت اور رعب والا سمجھ کر تو دیکھیں - نتیجہ آپ خود دیکھ لیں گے مجھے یقین دلانے کے لیئے کسی نئی مثال کی ضرورت نہیں پڑے گی - قرآن کو تفسیروں اور تفسیر در تفسیر کے صفحہ نمبر اور حاشیہ نمبر سے آگے بڑھ کر صرف ترجمہ سے پڑھنے سے شروع کیجئے کہ آغاز سادی بات سے ہی ہوگا -
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو بلا حیل و حجت تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آخری نبی و رسول ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کو مسلمان سمجھیں ۔ فرقوں میں تقسیم نہ ہوں بلکہ امت میں یک جا ہونے کی کوشش کریں ۔ بحث میں مت پڑیں کہ یہ آپ کے اپنے ہدف کی طرف ارتکاز سے آپ کو دور کرتی ہے۔ اور اطاعت کے مطلب کو سمجھیں کہ اس میں کیا کیوں کیسے نہیں ہوتا ۔ بس ماننا ہوتا ہے - حرام سے اجتناب رکھیں ۔ پسند ناپسند محبت اور نفرت کا ایک ہی پیمانہ ہو اور وہ ہو (للہ) (اللہ کے لیئے) پھر دیکھنا ایک ایک کر کے نئی دنیائیں دریافت ہوتی جائیں گی
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
Top