ایک نئی بحر کا تجربہ اور میری تک بندیاں

فلسفی

محفلین
اہل فن حضرات سے پیشگی معذرت اگر طبع ناز پر گراں گزرے، کیونکہ یہ میری پہلی جسارت ہے اس بحر کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی۔ تمام احباب مکمل آزادی کے ساتھ اس کا تیا پانچا کرنے کی مکمل کوشش کریں اور اپنے قیمتی رائے سے نوازیں۔
سر الف عین اور دیگر اساتذہ اکرام اغلاط کی نشاندہی فرمادیں یا اس بحر کے حوالے سے کوئی مشورہ ہو تو ضرور عطا کریں۔

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

ساقی کے پلانے میں تسلسل بھی نہیں ہے
رندوں کی طبیعت میں تحمل بھی نہیں ہے

کیسے کوئی تعریف کرے تیری غزل کی
بے ڈھب ترے لفظوں میں تخیل بھی نہیں ہے

محشر میں سفارش کے لیے کس سے کہے گا
نیکی بھی نہیں پاس، توسل بھی نہیں ہے

اللہ کے وعدوں پہ بھروسہ ہے نہ خود پر
عاجز تو ہے انسان، توکل بھی نہیں ہے

سبزہ ہے درختوں پہ نہ بلبل کی چہک ہے
خوشبو کہاں اس باغ میں اب گل بھی نہیں ہے​
 

فلسفی

محفلین
پسند کرنے کے لیے تمام حضرات کا شکریہ
یہ مصرع عجز بیان کا شکار ہے ۔ بندش چست نہیں اور مافی الضمیر سے موافق نہیں ۔ "تو" یہاں ٹھیک نہیں ۔
بقیہ اشعار خوب رواں ہیں ۔ آخری مصرع البتہ کچھ کمزور ہے ۔
جی محترم اس پر مزید سوچتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں صرف آخری مصرعے کی بہتر روانی کے لیے الفاظ کی نشست بدلنے کا مشورہ دوں گا اور
بے ڈھب ترے لفظوں میں تخیل بھی نہیں ہے
لفظوں میں تخیل کی کیا ضرورت؟ شعروں میں ہو سکتی ہے ۔ یہاں 'شعروں' کر دیں
باقی مجھے تو درست بلکہ عمدہ لگ رہی ہے غزل
 

فلسفی

محفلین
میں صرف آخری مصرعے کی بہتر روانی کے لیے الفاظ کی نشست بدلنے کا مشورہ دوں گا اور
بے ڈھب ترے لفظوں میں تخیل بھی نہیں ہے
لفظوں میں تخیل کی کیا ضرورت؟ شعروں میں ہو سکتی ہے ۔ یہاں 'شعروں' کر دیں
باقی مجھے تو درست بلکہ عمدہ لگ رہی ہے غزل
بہت شکریہ سر۔ لفظوں کی جگہ شعروں استعمال کر لیتا ہوں۔

آخری مصرعہ یوں ٹھیک ہے؟
اس باغ میں خوشبو کہاں اب گل بھی نہیں ہے

ویسے محترم عاطف صاحب کے مشورے کے بعد کل سے "توکل" والے شعر کا متبادل سوچ رہا تھا۔ آپ فرمائیے پہلے والا ٹھیک ہے یا یہ مناسب ہے

کامل یقیں خود پر نہیں انسان کو پھر بھی
اللہ تعالی پہ توکل بھی نہیں ہے
 

فلسفی

محفلین
شاعر کو کیا چاہیے۔ ایک "واہ"۔ ایسی تحریک پیدا ہوتی ہے کہ مت پوچھیے۔ امید نہیں تھی یہ غزل محفلین کو پسند آئے گی۔ لیکن آپ حضرات کی حوصلہ افزائی یہ چند مزید اشعار کہے ہیں۔ اچھے یا برے اساتذہ اور محفلین طے کریں گے۔ بہرحال اساتذہ سے اصلاح کی گذارش تو ہے ہی۔

عجلت کو تو پہلے کبھی اچھا نہیں سمجھا
فطرت میں مگر اپنی تساہل بھی نہیں ہے

تجھ کو جو گوارا نہیں آواز بھی سننا
کیا درمیاں اب ربطِ تغافل بھی نہیں ہے؟

کتنی نظر انداز کریں تیری خطائیں
اب ظرف میں وہ ذوقِ تجاہل بھی نہیں ہے

چہرے کی بشاشت لٹی ہے وقت کے ہاتھوں
ہائے کہ وہ سرکش خمِ کاکل بھی نہیں ہے

روٹھے ہوئے رہنا بھی تو ہے پیار کا انداز
کہتے رہو پرخاش ہے، بالکل بھی نہیں ہے​
 

الف عین

لائبریرین
نئے اشعار میں بس یہ مصرع پسند نہیں آیا۔ لُٹِہے کی تقطیع کے باعث
چہرے کی بشاشت لٹی ہے وقت کے ہاتھوں
اور
اس باغ میں خوشبو بھی نہیں، گل بھی نہیں ہے
کیسا رہے گا
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
نئے اشعار میں بس یہ مصرع پسند نہیں آیا۔ لُٹِہے کی تقطیع کے باعث
چہرے کی بشاشت لٹی ہے وقت کے ہاتھوں
سر یہ ٹھیک ہے

برباد ہوا وقت کے ہاتھوں رخِ زیبا
ہائے کہ وہ سرکش خمِ کاکل بھی نہیں ہے

اس باغ میں خوشبو بھی نہیں، گل بھی نہیں ہے
کیسا رہے گا
سر کیا اس طرح زیادہ رواں رہے گا

سبزہ ہے درختوں پہ نہ پھولوں کی مہک ہے
گلشن میں چہکتا ہوا بلبل بھی نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ سر

سر یہ ٹھیک ہے

برباد ہوا وقت کے ہاتھوں رخِ زیبا
ہائے کہ وہ سرکش خمِ کاکل بھی نہیں ہے


سر کیا اس طرح زیادہ رواں رہے گا

سبزہ ہے درختوں پہ نہ پھولوں کی مہک ہے
گلشن میں چہکتا ہوا بلبل بھی نہیں ہے
دونوں شعر بہترین ہو گئے ہیں
 

فلسفی

محفلین
دونوں شعر بہترین ہو گئے ہیں
شکریہ سر مکمل غزل حاضر ہے

ساقی کے پلانے میں تسلسل بھی نہیں ہے
رندوں میں مگر صبر و تحمل بھی نہیں ہے

کیسے کوئی تعریف کرے تیری غزل کی
بے ڈھب ترے شعروں میں تخیل بھی نہیں ہے

محشر میں سفارش کے لیے کس سے کہے گا
نیکی بھی نہیں پاس، توسل بھی نہیں ہے

کامل یقیں خود پر نہیں انسان کو پھر بھی
اللہ تعالی پہ توکل بھی نہیں ہے

سبزہ ہے درختوں پہ نہ پھولوں کی مہک ہے
گلشن میں چہکتا ہوا بلبل بھی نہیں ہے

عجلت کو تو پہلے کبھی اچھا نہیں سمجھا
فطرت میں مگر اپنی تساہل بھی نہیں ہے

تجھ کو جو گوارا نہیں آواز بھی سننا
کیا درمیاں اب ربطِ تغافل بھی نہیں ہے؟

کتنی نظر انداز کریں تیری خطائیں
اب ظرف میں وہ ذوقِ تجاہل بھی نہیں ہے

برباد ہوا وقت کے ہاتھوں رخِ زیبا
ہائے کہ وہ سرکش خمِ کاکل بھی نہیں ہے

روٹھے ہوئے رہنا بھی تو ہے پیار کا انداز
کہتے رہو پرخاش ہے، بالکل بھی نہیں ہے​
 
Top