نظر لکھنوی غزل: ہزار چھوڑ کے نقش و نگار گزری ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

ہزار چھوڑ کے نقش و نگار گزری ہے
کہ جب خیال سے تصویرِ یار گزری ہے

صبا کے دوش پہ ہو کر سوار گزری ہے
وہ بوئے زلفِ دوتا مشکبار گزری ہے

جب آئی کر کے مجھے دل فگار گزری ہے
وطن کی یاد مرے دل پہ بار گزری ہے

ہنوز یاد سے جس کی کلی کھِلے دل کی
چمن سے ایسی بھی طرفہ بہار گزری ہے

ترے بغیر بھی دنیا گزار دی ہم نے
یہ اور بات بہت سوگوار گزری ہے

چمن چمن پہ پڑی اوس صبح دم دیکھی
نہ جانے کر کے صبا کیا پکار گزری ہے

امیدِ رحمتِ پروردگار ہے دل میں
کہ زندگی تو نظرؔ خام کار گزری ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

عرفان سعید

محفلین
Top