نظر لکھنوی غزل: رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری ٭ نظرؔ لکھنوی

رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری
ہمیں شرمساری سی ہے شرمساری

مودّت، محبت، مروت سے عاری
نگاہوں سے اترا اب انساں ہماری

وفاداریاں اور دنیائے دوں سے
یہ کس کی ہوئی ہے جو ہو گی تمہاری

سمیٹا ہے دنیا کا سرمایۂ غم
عجب ہے غریبوں کی سرمایہ داری

وہی شدتِ غم، وہی بے بسی ہے
وہی نالۂ دل، وہی آہ و زاری

محبت جگہ کرتی ہے خود ہی دل میں
محبت نہیں شے ہے خود اختیاری

تعجب ہے دل کو، نظرؔ محو ِ حیرت
ہیں بندے خدا کے، صنم کے پجاری

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت خوب۔۔۔تابش بھائی۔۔کیا ۔۔والد صاحب کی کوئی کاوش نہیں ہے کیا۔۔۔انہوں نے والد کیا شعری صحبت کا اثر نہیں لیا یا طبعیت ادھر نہیں گئ۔۔ ؟
 
بہت خوب۔۔۔تابش بھائی۔۔کیا ۔۔والد صاحب کی کوئی کاوش نہیں ہے کیا۔۔۔انہوں نے والد کیا شعری صحبت کا اثر نہیں لیا یا طبعیت ادھر نہیں گئ۔۔ ؟
بہت شکریہ۔
ابو کا ذوقِ مطالعہ خوب ہے اور سخن فہم قاری ہیں ۔ موزونیتِ طبع بھی پائی ہے۔ کوئی 8، 10 غزلیں لکھی بھی ہوئی ہیں، مگر کبھی دکھائی نہیں۔ :)
ان کی کالج کے زمانے تک کی ڈائری محفوظ ہے، جس میں منتخب اشعار لکھا کرتے تھے۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت شکریہ۔
ابو کا ذوقِ مطالعہ خوب ہے اور سخن فہم قاری ہیں ۔ موزونیتِ طبع بھی پائی ہے۔ کوئی 8، 10 غزلیں لکھی بھی ہوئی ہیں، مگر کبھی دکھائی نہیں۔ :)
ان کی کالج کے زمانے تک کی ڈائری محفوظ ہے، جس میں منتخب اشعار لکھا کرتے تھے۔ :)
کبھی موقع لگے تو ۔۔چھپڑ کر کے یہاں لگا دیں ۔ ۔ ۔;)
 
Top