ناولوں یا ڈراموں پر بنائی گئی فلمیں

فطرت اس دھرتی پر کہانیاں بُنتی ہے۔ دُکھ سُکھ بانٹتی ہے، نفرت اور محبت کرنا سِکھاتی ہے۔ درد اور تکلیف پہنچاتی ہے اور اس سے نجات دلاکر خوشیوں کا پالن کرتی ہے۔ کچھ باسیوں کو خوبصورتی اور کچھ کو بد صورتی عطاکرتی ہے۔ اِس خوب صورتی اور بد صورتی کے طفیل دلوں میں محبت اور نفرت کے بیج بوتی ہے۔ وصل کے سُہانے سپنے دِکھلا کر لبوں سے خوشی کے ترانے نکلواتی ہے اور جدائی کا کرب دے کر دِلوں سے غموں و اندوہ کے درد بھرے گیت پیدا کرتی ہے۔ فطرت بے رحم ہے۔ ان کہانیوں کے اچھے اور برے ، خوشیوں بھرے یا درد بھرے انجام سے بے پروا کہانیاں بُنتی رہتی ہے۔یہ کہانیاں ہمارے چاروں جانب بکھرتی رہتی ہیں۔


کہانی کار فطرت کا نمائندہ ہے۔ وہ اِن کہانیوں کو چُنتا ہے اور صفحہٗ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ فطرت کی مانند کہانی کار بھی بے رحم ہوتا ہے۔ اسے اپنی کہانی کے درد بھرے یا خوشیوں بھرے انجام سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ تو جیسے دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے۔


انسان یوں تو بھلکڑ واقع ہوا ہے۔ خوشیوں کےملنے پر چند لمحے جشن منا کر انہیں بھول بھی جاتا ہے، لیکن غم کو اپنے جنم دئیے ہوئے بچوں کی طرح پالتا ہے۔ غم بھلائے نہیں بھولنے دیتے۔ غم تازہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان خوشیوں بھری کہانیوں کو سُن کر ، پڑھ کر کچھ دِنوں میں بھول جاتا ہے، لیکن کہانیوں کے دُکھ بھرے انجام کو نہیں بھولتا۔ دکھ اور غم سے انسان کا رشتہ زیادہ گہرا ہے۔ غم اُس کے دل کا گھیراؤ کیے رہتے ہیں۔ روتا ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور رُلاتا ہوا جاتا ہے۔ دکھ بھری کہانیوں سے جلد اپنا رشتہ قائم کرلیتا ہے۔ ہنسی کی کہانیوں اور لطیفوں پر جی بھر کر ہنستا ہے اور بھول جاتا ہے۔ درد بھرے انجام کو مدتوں یاد رکھتا ہے۔

جب سے فلمی دنیا نے سر اُبھارا ہے فلمسازوں کو فلم بنانے کے لیے سب سے پہلے ایک عدد کہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اکثر اوقات وہ کہانی کے لیے دنیا کے مشہور ناولوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ادھر جب کہ کہانی کار اپنی کتاب کے چھپنے کی مجبوری کے باوصف کہانی کو کوئی ایسے موڑ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو بادی النظر میں پڑھنے والوں کی پسند ہوں ، دوسری جانب فلمساز کی مجبوری کہانی کا اچھا انجام ہوتی ہے۔ اس مجبوری کے تحت وہ اکثر اوقات کہانی کا انجام و دیگر جزئیات تبدیل کردیتا ہے۔


ذیل کے دھاگے میں محفلین اپنی دیکھی ہوئی ان فلموں کا تذکرہ کریں گے جو مشہور ناولوں یا ڈراموں پر بنائی گئی ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ای ایم فوسٹر کے شہرہ آفاق ناول پر اسی نام سے بنی فلم "اے پیسج ٹو انڈیا"، جسے مایہ ناز ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے بنایا تھا، اور فلم میں کوئی خاص تحریف بھی نہیں کی گئی۔

PassageToIndiaPoster.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
مشہور مصنف رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی پر بنائی گئی اسی نام کی فلم
The Man Who Would Be King
فلم 'کافرستان' کے متعلق ہے اور تھوڑی بہت تحریف اس میں کی گئی ہے۔ شان کونری کی عمدہ ترین فلموں میں سے ایک۔
220px-The_Man_Who_Would_Be_King.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
احمدندیم قاسمی کے مشہور افسانے "گنڈاسا" پر بنی پنجابی فلم "وحشی جٹ"۔ فلم میں کافی تحریف کی گئی ہے۔ "مولا" اسی افسانے کا کردار تھا جس پر بعد میں "مولا جٹ" بھی بنی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مغرب میں تو لاتعداد کہانیوں، ناولوں وغیرہ پر فلمیں بنی ہیں اور بنتی ہیں، جب کہ برصغیر میں یہ رواج زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں تو شاید بالکل ہی نہیں ہے، انڈیا میں اب شاید اس طرف دھیان دیا جا رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے امیتابھ بچن اور رِشی کپور کی فلم "102 ناٹ آؤٹ" ریلیز ہوئی ہے جو ایک گجراتی کہانی پر مبنی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مغرب میں تو لاتعداد کہانیوں، ناولوں وغیرہ پر فلمیں بنی ہیں اور بنتی ہیں، جب کہ برصغیر میں یہ رواج زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں تو شاید بالکل ہی نہیں ہے، انڈیا میں اب شاید اس طرف دھیان دیا جا رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے امیتابھ بچن اور رِشی کپور کی فلم "102 ناٹ آؤٹ" ریلیز ہوئی ہے جو ایک گجراتی کہانی پر مبنی ہے۔
یہ دونوں اب بھی فلموں میں پرفارم کرتے ہیں ؟؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
پاکستان میں ہمیں شاہین ڈرامہ یاد ہے جو نسیم حجازی کے ناول شاہین پر بنایا گیا.
 

محمد وارث

لائبریرین
"شہرہ آفاق" گاڈ فادر فلمیں، ناولوں پر بنی ہیں۔

ہیری پورٹر سیریز کی ساری فلمیں ناولوں پر بنی ہیں۔
 

یاز

محفلین
سائلنس آف دی لیمبس
ہماری پسندیدہ فلموں میں سے ایک۔ تھامس ہیرس کے سنسنی خیز ناول پر مبنی اس فلم کو دوچند کیا انتھونی ہاپکنز اور جوڈی فوسٹر کی شاندار اداکاری نے۔
images
 

یاز

محفلین
مغرب میں تو لاتعداد کہانیوں، ناولوں وغیرہ پر فلمیں بنی ہیں اور بنتی ہیں، جب کہ برصغیر میں یہ رواج زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں تو شاید بالکل ہی نہیں ہے، انڈیا میں اب شاید اس طرف دھیان دیا جا رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے امیتابھ بچن اور رِشی کپور کی فلم "102 ناٹ آؤٹ" ریلیز ہوئی ہے جو ایک گجراتی کہانی پر مبنی ہے۔
پاکستانی فلموں میں "بن روئے" نامی فلم شاید اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے۔ فرحت اشتیاق کا ناول تھا۔
میں نے فلم نہیں دیکھی تو اس بابت کہنے سے قاصر ہوں کہ کیسی فلم تھی۔
220px-Bin_Roye_film.jpg
 

یاز

محفلین
پاکستانی نژاد ناول نگار محسن حامد کے شہرہ آفاق ناول "دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ" پہ بالی ووڈ میں ایک فلم بنی تھی۔ جتنا شاندار ناول تھا، یہ فلم اس سے انصاف نہ کر سکی۔
ناول کی تمام تر کہانی لاہور کے انارکلی بازار میں بیٹھے دو اشخاص کی گفتگو کے تناظر میں ہے۔ ان دنوں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال نیز بھارت سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس فلم کو بھارت میں ہی فلمایا گیا۔
فلم دیکھ کر دل سے یہی آواز نکلی کہ کاش یہ فلم لاہور میں ہی فلمبند ہو سکتی۔
5116VV6V5BL._SX330_BO1,204,203,200_.jpg
 

یاز

محفلین
پنجر
اس فلم کو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ امرتا پریتم کے بے مثال (لیکن مختصر) ناول پر مبنی یہ آرٹ فلم اپنی مثال آپ تھی۔
چونکہ ایسی فلمیں عام فلم بینوں کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں تو یہ فلم بھی باکس آفس پہ بری طرح پٹ گئی۔ تاہم آرٹ فلموں کے شوقین حضرات کے لئے دیکھنے کی چیز ہے۔
bollywood-films-based-on-novels-7.jpg
 

ہادیہ

محفلین
فلم سے زیادہ ناول دلچسپ تھا۔۔ ناول میں "ارتضٰی بھائی " کہتی ہے صبا ۔۔جبکہ فلم میں صرف ارتضی ۔۔جو کہ کافی بڑی "بونگی" ماری۔۔۔۔ کیونکہ مین تھیم تو یہی تھا کہ عمر کا فرق بہت زیادہ ہوتا۔۔۔ ناول میں الفاظ کی خوبصورتی اور کشش زیادہ تھی۔۔ فلم بس نارمل لگی۔۔
 

یاز

محفلین
To Kill a Mockingbird
لی ہارپر کے مشہور ناول پر بنی اس فلم نے بھی بے تحاشا شہرت پائی۔ اس ناول اور فلم نے امریکی معاشرے میں رنگ کی بنیاد پہ تفریق یا امتیاز پہ بحث کو مزید جِلا بخشی۔ فلم میں گریگوری پیک کی ایکٹنگ نے مرکزی کردار میں جان پیدا کر دی۔

220px-To_Kill_a_Mockingbird.JPG
images
 

فرقان احمد

محفلین
ہماری آل ٹائم فیورٹ فلم 'اپ' ہے جس کو ہم بیسیوں مرتبہ دیکھ چکے۔ اس کی کہانی بھی کسی ناول سے 'کشید'کی گئی ہے جس کا نام یاد نہیں آ رہا ہے۔
up4_wideweb_470x295_0.jpg

watch
 
Top