اقتباسات سفر نصیب از مختار مسعود

دور تک پھیلے ہوئےسلسلہ کوہ کی برف سے پٹی ہوئی خوبصورت وادیوں اور ڈھکی ہوئی بارُعب چوٹیوں کو ہوائی جہاز کے دریچہ سے پہلی بار دیکھا تو پتہ چلا کہ گمراہی میں بے ذوقی اور کفر میں کم نظری کو کتنا دخل ہے۔ اتنے خوش منظر اور پائیدار برف کدے کے ہوتے ہوئے لوگ کیونکر آتش پرست ہوگئے۔ آگ میں وہ کیا بات ہے جو برف میں نہیں۔ اُس میں حدّت اس میں شدّت، وہ طلائی یہ نقرئی، وہ دھواں دھواں یہ اُجلی اور بے داغ۔ اور دونوں معمولاتِ زندگی کے لیے درکار اور کارآمد۔ ایک جنگ میں آتشِ انتقام بھڑکائی جاتی ہے اور دوسری سرد جنگ کہلاتی ہے۔ شعر کا ایک مصرع اگر آتشِ شوق کے ذکر سے شروع ہو تو دوسرا آہِ سرد پر ختم ہوتا ہے۔ رزم ہو کہ بزم، اگر آگ لازم ہے تو یخ ملزوم۔
 
جانوں کا نقصان ہمیشہ تحریکوں کے لیے زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ شہید قلبِ تاریخ است۔ عام فہم بات ہے جو سب کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ ایک نوشتہء دیوار ہے جسے سب پڑھ لیتے ہیں ۔ مگر تاریخ کے ہر موڑ پر حقیقت خود پسند نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ تحریر موڑ کے ایک طرف ہوتی ہے اور صاحبِ اقتدار دوسری طرف۔
 
کون سی ریاست اور کیسی انتظامیہ۔ سیاسیات کے سبق کو نظر انداز کیجیے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ حکومت نزدیک سے کی جائے تو جمہوریت، دور سے کی جائے تو پادشاہت، خلق کے لیے ہو تو خلافت، خدا کے لیے ہو تو نیابت۔
 
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں۔ سفر خواہ کتنا ہی طویل اور دلچسپ کیوں نہ ہو، حضر کی منزل خواہ کتنی دل آرام اور خوش منظر کیوں نہ ہو، حدِّ نظر ہمیشہ حدِ سفر سے آگے نکل جاتی ہے۔ مسافر نئے مقامات جتنے شوق سے دیکھتا ہے، اسی شوق سے اَن دیکھے مقامات کے نئے خواب بھی دیکھتا ہے۔ جہاں پہنچ کر آگے جانے کا راستہ بند ہوجائے وہاں دل میں ایک کانٹا سا چبھ جاتا ہے۔ جہاں پہنچ کر آگے کچھ سُجھائی نہ دے وہاں اس کانٹے کی خلش بڑھ جاتی ہے ۔
 
آخری تدوین:
فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکری لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔
 
گوتم بدھ نے کہا تھا ، تم ایک زرد پتہ کی مانند ہو۔ موت کے کارندے تمہاری گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ تم ایک سفر کا آغاز کررہے ہو۔ کوئی اور تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تمجلد ایک شمع بن جاؤ جو تمہاری خامیوں کو جلائے اور خوبیوں کو روشن کرے۔ تاکہ تمہیں وہ جوان زندگی میسر آئے جو بڑھاپے اور موت کی زد سے باہر ہے۔
 
مثنوی مولانا روم میں حکایت ہے کہ ایک شخص سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کو مردہ سمجھ کر جنگل سے اپنے گھر لے آیا۔ گرمیاں آئیں تو یہ اژدھا اس کو نگل گیا۔ یہ اژدھا دراصل نفسِ انسانی تھا۔ برفانی تودے بھی مولانا کے تمثیلی اژدھے سے ملتے جلتے ہیں۔ ہر انسان کے دل میں وہ ہزاروں خواہشیں جن پر دم نکلتا ہے، منجمد ہوکر ایک برفانی تودے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اقتدار کی گرمی ملے یا شباب کی حرارت، یہ تودے پگھل کر تیزی سے نشیب کی طرف جاتے ہیں۔ جو کچھ ان کی راہ میں آتا ہے سب خس و خاشاک کی برح بہہ جاتا ہے۔ اقتدار ہو کہ اقدار ، اسلاف کی شہرت ہو کہ سادات کی عزت۔ بعض برفانی تودے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ جب وہ ٹوٹیں تو بہت کچھ ٹوٹ جاتا ہے، آئین اور اتحاد، حکومت اور ملک۔
 
مسافر نے کے۔ٹو کی چوٹی کو دیکھا اور سوچا، جہاں منظر خود ہم کلام ہوں وہاں تبصرے کی حاجت نہیں رہتی۔ ضرورت اس گوشِ ہوش کی ہے جو مناظر کی زبان سمجھتا ہو اور اُس چشمِ بینا کی جو برف پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھ سکتی ہو۔ ہم نشیں نے ہولے سے کان میں کہا، کس سوچ میں پڑے ہو۔ وہ دیکھو سامنے برف کی چوٹی پر زُبور کے اشعار درج ہیں۔ ایک دلنشیں لہجے میں اس نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔
وہ اپنا حکم زمین پر بھیجتا ہے
اس کا کلام تیز رَو ہے
وہ برف کو اون کی مانند گراتا ہے
وہ پالے کو راکھ کی مانند بکھیرتا ہے
وہ یخ کو لقموں کی مانند پھینکتا ہے
اس کی ٹھنڈ کون سہہ سکتا ہے​
آخری دو مصرعے پہاڑ کی برفانی ڈھلوان پر لکھے ہوئے ہیں۔
وہ اپنا کلام نازل کرکے ان کو پگھلادیتا ہے
وہ (حکم اور) ہوا چلاتا ہے ، پانی بہنے لگتا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
مختار مسعود کی کیا ہی بات ہے۔ خوبصورت انداز تحریر خوبصورت اقتباسات۔
نیرنگ خیال بھائی فیسبک پہ آپ کے ہاتھوں میں ”حرفِ شوق“ دکھی تھی، اس کے اقتباسات محفل پہ شامل کریں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مختار مسعود کی کیا ہی بات ہے۔ خوبصورت انداز تحریر خوبصورت اقتباسات۔
نیرنگ خیال بھائی فیسبک پہ آپ کے ہاتھوں میں ”حرفِ شوق“ دکھی تھی، اس کے اقتباسات محفل پہ شامل کریں۔
میاں پڑھ تو لیں۔ ابھی تک تو بس یوں ہی بیٹھے ہیں۔ کتاب پڑھنے کی چیز تھوڑی ہے میاں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
سراتنے شاندار اقتباسات پیش کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آج کل کی تحریروں میں ایسی چاشنی اوردل موہ لینے والی گہرائی کم کم ہی نظر آتی ہے۔ یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ مختار مسعود اب ہم میں نہیں رہے۔ حق مغفرت کرے اُنہوں نے اپنے عہد کے عروج و زوال کو اپنے الفاظ کے ذریعے مجسم کر دیا ہے۔ آوازِ دوست کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وطنِ عزیز میں جو بیماریاں آج عوام کے لیے رسوا کن اور جان لیوا روپ اختیار کر چکی ہیں اُن کے بیج ارضِ پاک میں بہت پرانے اور بہت گہرے بوئے ہوئے ہیں۔ آزادی کا باب ابھی ادھورا ہے۔ صرف چہرے اور رنگ بدلے ہیں باقی نظام وہی پرانا ہے۔ نظام بدلنے کا نعرہ لگانے والے دل و دماغ کی بجائے پیٹ سے سوچتے ہیں اور اقتدرار کی راہیں اقدار سے جدا ہوئے ایک زمانہ ہوا۔ قحط الرجال کل بھی تھا اور آج بھی ہے فرق یہ ہے کہ آج احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ آزادی !!! جو کہ اپنی اصل میں قوموں کی عزت اور خودداری کی پہچان ہوتی ہے انشاء اللہ ایک دن ہمیں بھی حاصل ہوگی۔ مختار مسعود کو پڑھ کر دل میں ایک آوارہ سا خیال آتا ہے کہ اگر بیورو کریسی کا دانشور طبقہ روایتی دانش و مقصد فروشی سے نوکری اور ترقی پکی کرتے ہوئے دل مظلوم عوام کی حمایت میں اور اپنے اختیارات کی تلوار غاصب حکمرانوں کی حمایت میں برتنے کی تباہ کن منافقت سے باز رہتے تو شائد اقتدار کے ایوانوں کا کلچر بن جانے والی اخلاق باختگی کو موجودہ عروج و دوام نہ مل پاتا۔
 
Top