دہشت گردی کا انمٹ نقش: قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری

شاہد شاہ

محفلین
افغانستان میں امریکی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا ہر فرد طالبان ہے۔
جئے چی گویرا ، جئے طالبان ، جئے امام حسین!
اپنی تاریخ درست کر لیں۔ طالبان افغان خانہ جنگی جو ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۶ کے دوران ہوئی میں افغانستان پر قابض ہوئے تھے۔ اسوقت وہاں نہ امریکہ تھا نہ روس۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی گردنیں کاٹ کر ۹۰ فیصد افغانستان پر قابض ہوئے تھے اور ۲۰۰۱ تک حکومت کی تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکہ نے نائن الیون کے بعد پر امن احتجاج کرتے ہوئے پر امن قتل عام کیا اور یہ مدرسے کے بچے بھی پر امن طور پر قتل کیے گئے۔۔جئے اعتدال پسندی
 

شاہد شاہ

محفلین
اس کی خاطر سو بچوں کی قربانی کو گوارا کیا گیا۔
یہ تو تفتیش کے بعد پتا چلے گا کہ آیا افغان فورسز کو معلوم تھا کہ وہاں سو سے زائد بچے موجود ہیں یا نہیں۔ خود ہی سوچ لینا کہ ان کو معلوم تھا اور جان بوجھ کر بچے شہید کر دئیے محض پروپیگنڈہ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
29872938_2043553535861161_8796360964905152171_o.jpg
 

شاہد شاہ

محفلین
شاہد شاہ کیا واقعی اس غم وغصہ کو اپ "پروپیگنڈہ مقاصد کیلئے استعمال" سمجھتے ہیں؟
حد ہے بھائی۔
غم و غصہ بجا ہے۔ سو سے زائد معصوم بچوں کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں۔ اور نہ ہی اسکا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جو لوگ اس سانحہ کو طالبان کی حمایت کیلئے استعمال کر رہے ہیں وہ محض پروپگنڈہ ہے۔ عوامی غم و غصے کو طالبنائز کرنا انکا پرانا وطیرہ ہے۔ ایک طرف سے ہوئی انسانیت سوزی کو دوسری طرف سے ہونے والی انسانیت سوزی کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
 
یہ تو تفتیش کے بعد پتا چلے گا کہ آیا افغان فورسز کو معلوم تھا کہ وہاں سو سے زائد بچے موجود ہیں یا نہیں۔ خود ہی سوچ لینا کہ ان کو معلوم تھا اور جان بوجھ کر بچے شہید کر دئیے محض پروپیگنڈہ ہے۔
گویا بچے کسی سوئی کی مانند چھپے ہوئے تھے کہ بمباروں کی"ہزار احتیاط" کے باوجود زد میں آگئے۔
شکریہ شاہد!
آج نجانے کیوں ہمیں کچھ "کاٹے" درکار ہیں
 

شاہد شاہ

محفلین
گویا بچے کسی سوئی کی مانند چھپے ہوئے تھے کہ بمباروں کی"ہزار احتیاط" کے باوجود زد میں آگئے۔
اسکا جواب دوسرے دھاگے میں دے چکا ہوں:
یہی سوال طالبان کے خودکش بمباروں سے بھی پوچھنا چاہئے کہ سیکیورٹی فورسز کو ختم کرنے کے چکر میں نہتے بچے اور خواتین کیسے زد میں آجاتے ہیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے۔

فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے

تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے

کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے​
 

سین خے

محفلین
شکریہ۔
اور پہلے مراسلے کے لیے سب سے معذرت!!
میں نے ان کے سرورق ہی دیکھے تھے۔ اس خیال سے کہ ایسی اہم خبر کا سرورق پر موجود ہونا ضروری ہے۔

اس میں معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ہے :) جب میں نے ڈان پڑھنا شروع کیا تھا تو مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان کے یہاں خبریں کس طرح اپڈیٹ ہوتی ہیں۔ بہت بار ایسا ہی لگتا تھا کہ اتنی اہم خبر پیچھے ہو گئی ہے۔

مین اسٹریم میڈیا میں خرابیاں ہیں۔ بہت قسم کے پراپگنڈا چلتے ہیں پر رپورٹنگ بھی ہو جاتی ہے۔ ڈان کے بارے میں آپ کو ایک بات بتانا چاہوں گی کہ ڈان کو سب سے بہتر صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ بھارت میں بھی بہت بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے سرجیکل اسٹرائیکس والا واقعہ تو یاد ہی ہوگا۔ اس کی اگر آپ ڈان پر خبریں نکال کر دیکھیں گے تو نیچے بھارتیوں کے کمنٹس بھی شامل تھے اور ان کا کہنا تھا وہ اپنے میڈیا سے بیزار ہیں اور یہاں سے ہی سب سے بہتر رپورٹنگ ملتی ہے۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
یہ حملے جیسا کہ دیگر رپورٹس میں بتایا گیا ہے دسمبر ۲۰۱۷ سے ہو رہے ہیں۔ افغان فورسز کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور عین ممکن ہے اس حملے کی انٹیلیجنس خود امریکہ نے افغان فورسز کو دی ہو۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کئی ماہ سے طالبان کیخلاف کاروائیاں جاری ہیں تو اس حملے پر اتنا شور شرابا کیوں؟ کیونکہ اسمیں ۱۰۰ سے زائد بچوں کی شہادت ہوئی ہے۔ اور یہ طالبان کے حامیوں کیلئے اچھا موقع ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈہ مقاصد کیلئے استعمال کریں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی متعدد پوسٹس میں نظر آیا۔

ان بچوں کا قصور کیا بد قسمتی تھی کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ باقی ان مدرسوں کے مالکان کو بھی ہوش عقل کے ناخن لینے چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ طالبان نشانے پر ہیں وہ انہیں مدرسوں میں کیوں آنے دیتے ہیں۔

یہ حملہ حفاظ پر نہیں طالبان پر کیا گیا تھا۔ ملک میں سینکڑوں مدرسے موجود ہیں، صرف اسی کو کیوں نشانہ بنایا گیا جہاں طالبان موجود تھے؟ دوسری طرف انٹیلیجنس اداروں کی ذمہ داری ہے کہ طالبان سے جنگ کیساتھ ساتھ دیگر عوام کا تحفظ بھی یقینی بنائے۔

یہ تو تفتیش کے بعد پتا چلے گا کہ آیا افغان فورسز کو معلوم تھا کہ وہاں سو سے زائد بچے موجود ہیں یا نہیں۔ خود ہی سوچ لینا کہ ان کو معلوم تھا اور جان بوجھ کر بچے شہید کر دئیے محض پروپیگنڈہ ہے۔

شاہد بھائی یہ جنگی حکمتِ عملی کے حساب سے انتہائی بڑی مجرمانہ غفلت ہے کہ دس پندرہ طالبان کی خاطر شہریوں اور املاک کو نشانہ بنایا جائے جبکہ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہو۔ طالبان کی حمایت ایک الگ بات ہے اور طالبان کی مذمت کی جانی چاہئے لیکن یہ بہت بڑا سانحہ ہے اور اس پر غم و غصہ بجا ہے۔

یہ رپورٹ ایک ہیومن رائٹس واچ کی ریسرچر کی ہے۔

Another Airstrike in Kunduz, and More Civilian Deaths

انٹلیجنس اس طرح کام نہیں کرتی ہے۔ یہ بات یقینی بنائی گئی ہوگی کہ طالبان وہاں موجود ہیں یا نہیں۔ جب اس جگہ کو آبزروو کیا جا رہا ہوگا تو دستار بندی کی تقریب کے بارے میں معلوم نا ہو گیا ہوگا کیا؟ اس سے پہلے بھی 2015 میں قندوز کے ہسپتال کا ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ جنگی جرائم ہیں اور ان کے لئے جواز نہیں پیش کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اسے زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈہ مقاصد کیلئے استعمال کریں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی متعدد پوسٹس میں نظر آیا۔
یہی تو فرق ہے کہ ایک مسلمان پروپیگنڈوں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ حق اور باطل، سچ اور منافقت میں فرق واضح کرنے کے لیے ترویج کرنے کا قائل ہوتاہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
یہی تو فرق ہے کہ ایک مسلمان پروپیگنڈوں پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ حق اور باطل، سچ اور منافقت میں فرق واضح کرنے کے لیے ترویج کرنے کا قائل ہوتاہے۔
میں نے صرف اس سانحہ کو طالبان کے حق میں پروپگنڈہ کرنے سے متعلق لکھا ہے۔ اس سانحہ پر امریکہ-افغان پالیسی پر تنقید تو سب ہی کر رہے ہیں جو کہ بجا ہے۔ البتہ کچھ کالی بھیڑیں اسے طالبان کو جائز قرار دینے کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
میں نے صرف اس سانحہ کو طالبان کے حق میں پروپگنڈہ کرنے سے متعلق لکھا ہے۔ اس سانحہ پر امریکہ-افغان پالیسی پر تنقید تو سب ہی کر رہے ہیں جو کہ بجا ہے۔ البتہ کچھ کالی بھیڑیں اسے طالبان کو جائز قرار دینے کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔
مگر طالبان کو جائز قرار دینا نہ دینا مغربی یا اس کے زیرِ اثر میڈیائی رپورٹس پڑھنے سے ممکن نہیں۔ صرف ایک نکتہ یہاں عرض کرنا چاہتاہوں باقی پر پھر کبھی بات ہوسکتی ہے۔ جب افغان قوم خود ہی طالبان بن جائے اور تقریباً پوری قوم ہی طالبان کو تسلیم کرلے تو پھر اُن کو جائز ناجائز کہنے کی بات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بات طالبان کے حق پر ہونے یا نہ ہونے سے آگے چلی گئی ہے۔ اب امریکہ کے لیے وہ دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے جو افغانستان کے وسائل کو لُوٹنا اور افغان ثقافت کو عالمگیریت کے نام پر ختم کرنا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بات تو قریب قریب ناممکن معلوم ہوتی ہے کہ اس مدرسے پر حملہ کرنے والوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ معصوم بچے اِس حملے کی زد میں آ جائیں گے۔ اس معاملے کو اس زاویے سے دیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ آیا یہ اقدام امریکا کی جھنجلاہٹ کا عکاس ہے یا اسے امریکا کی جارحانہ پالیسی اور بدلتے ہوئے تیور کی ذیل میں رکھ کر دیکھا جائے۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ٹرمپ کے برسراقتدار میں آنے کے بعد سے بہت کچھ اتھل پتھل ہوا ہے؛ معلوم نہیں کہ آنے والے تین سال میں کتنے مزید حوادث افغان قوم کا مقدر بنیں گے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
یہ بات تو قریب قریب ناممکن معلوم ہوتی ہے کہ اس مدرسے پر حملہ کرنے والوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ معصوم بچے اِس حملے کی زد میں آ جائیں گے۔
ماضی میں خود اپنی پاک افواج کی بمباری سےباجوڑ ایجنسی میں ایک مدرسہ تباہ ہو گیا تھا جس میں 80 سے زائد بچوں کی شہادتیں ہوئی تھیں۔ اسوقت بھی یہی پروپگنڈہ چلایا گیا تھا یہ حملہ اصل میں امریکہ نے کیا ہے، اور جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پاک فوج اسکی ساری ذمہ داری قبول کر چکی تھی، اور اسکا مؤقف یہی تھا کہ ٹارگٹ شدت پسند تھے:
BBCUrdu.com
باجوڑ دینی مدرسے پر حملہ امریکہ نے کیا۔ قاضی حسین احمد،فوج اپنے آقاؤں کی غلطیوں کو چھپانے کیلئے اسے اپنے ذمے لے رہی ہے، ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا،حملے میں 80 معصوم بچے شہید ہوئے جن میں 30 حافظ قرآن ہیں،وہاں القاعدہ کا کوئی تربیتی کیمپ نہیں تھا۔ پریس کانفرنس سے خطاب
 
Top