دہشت گردی کا انمٹ نقش: قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Da_XUtu9_W0_AEIJM2.jpg


امریکی حکومت کے ليے کسی بھی تنازعہ ميں معصوم انسانی جانوں کا ضياع باعث تشويش ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

الف نظامی

لائبریرین
بھائی بہت درد ہوتا ہے، یہ درد نہ ہوتا تو حضرت یعقوب علیہ السلام چالیس سال تک یوسف علیہ السلام کے فراق میں روتے؟ ان کے گھر والے ان کو صبر کی نصیحتیں کرتے رہے اور وہ جواب میں فرماتے رہے کہ میں اپنے غم اور رنج کا اظہار اپنے رب ہی کے سامنے تو کر رہا ہوں۔ جنگ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کے ایک گھرانے سے ہوا کہ جس کی خواتین اپنے شہداء کے حق میں رو رہی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لکن حمزۃ لا بواکی لہ
آہ، حمزہ پر تو کوئی رونے والی بھی نہیں ہے۔


مسلمانوں پر ظلم وستم کی کچھ امیجز اور ویڈیوز دیکھ کر اس قدر رنج اور غم کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ جیسے وہ حادثہ ہمارے شعور کا حصہ (content) بن جاتا ہے۔ امت مسلمہ جس کرب اور الم کی کیفیت سے دو چار ہے تو بہت ضروری ہے کہ یہ دکھ اور درد اپنے اظہار کے ایسے رستے تلاش کرے کہ جن سے نفس کو تسکین حاصل ہو ورنہ تو اس قدر الم و رنج کی کیفیت کے نتیجے میں یہ سب کے سب ذہنی مریض بن جائیں گے۔ دین اسلام میں آرٹ اور فنون لطیفہ کی اجازت ایسے مواقع کی نسبت سے ہی ہے البتہ کچھ شرائط کے ساتھ۔

کبھی کبھار دل کا درد اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کا شعر کہنے کو دل کرتا ہے لیکن بہت سوں کو میری طرح شاعری نہیں آتی۔ کبھی رنج کی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اگر گنگنانے لگے تو جیسےدل پھٹ جائیں لیکن اکثر کو گنگنانا نہیں آتا۔
ہمارے ایک فاضل دوست نے قندوز میں حفاظ کرام کی شہادت کے المیے کو گنگنایا ہے
، ایسے لوگ مذہبی طبقات کے جذبات کی ترجمانی کے ذریعے ایک فرض کفایہ کی ادائیگی فرما رہے ہیں۔
جہاں دل ہی پتھر بن چکا ہو تو وہاں درد کیا ہونا ہے اور جہاں تعلق ہی نہ ہو تو وہاں کس چیز کا غم اور کاہے کا رنج۔
 

الف نظامی

لائبریرین
21-14-696x438.jpg

لاہور،تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیراہتمام قندوز میں امریکی بمباری سے حفاظ کی شہادت کیخلاف طلبہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
قندوز میں ایک مدرسے پر بمباری کے حادثے کو گزرے بارہ دن ہو چکے ہیں، مگر وہ بچے جو قرآن حفظ کر کے دستار بندی کی باوقار تقریب میں شریک تھے، اُن کے جسم ویڈیو میں تار تار ہوتے اور فضا میں اُڑتے دیکھے۔ وہ اندوہناک مناظر میرے پورے وجود میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو تھمتے ہی نہیں، کلیجہ آج بھی پھٹ پھٹ جاتا ہے اور احساس دلاتا ہے کہ قیامت آن پہنچی ہے۔ یہ قیامت ہی کے آثار ہیں کہ 150پھول سے بچوں کی ہلاکت پر عالمی ضمیر کے اندر کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ابھی تک مہر بہ لب ہیں اور دنیا کے کسی گوشے سے اس وحشت ناک المیے کے خلاف احتجاج کی دلخراش آواز بلند نہیں ہو رہی۔ سوچتا ہوں کہ یہ اکیسویں صدی جسے انسانی عظمت اور وقار کے تحفظ کی عظیم صدی ہونا چاہیے تھا، وہ تو پتھر کی دنیا میں چلی گئی ہے جہاں سنگ دلی اور جنگل کے قانون کا راج تھا اور انسان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے برابر ہوتی تھی۔ بھیڑیے انسانوں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے اور کسی کو آہ و بکا کی اجازت بھی نہیں تھی۔ میرا وہم تھا کہ انسانی تہذیب نے بلندیوں کی طرف صدیوں کا سفر طے کر لیا ہے اور ایک ایسا عالمی سماج وجود میں آتا جا رہا ہے جس میں انسان کی عزت و احترام پر کوئی حرف نہیں آئے گا، کوئی شخص دوسرے شخص کا حق نہیں چھین سکے گا۔
کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا اور کسی طاقت ور قبیلے کو دوسرے قبیلے کو تاراج کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ مگر آہ یہ کیا ہے۔ دن کی روشنی میں ہیلی کاپٹر آئے، ایک مدرسے کے اوپر چکر لگاتے اور اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ اہداف بھی وہ بچے تھے جنہوں نے اللہ کا کلام نہایت شوق اور بڑی ریاضت سے حفظ کیا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں طلبہ اور علاقے کے عمائدین آئے تھے۔ اُن پر بھیڑیا صفت لوگ حملہ آور ہوئے اور انسانی عظمت کے سنگ ہائے میل پاش پاش کر گئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کچھ ہی دن پہلے شام کے شہر، غوطہ میں اُمّت کی بے بسی کے سمندر میں ڈوبتے بچّوں کو دیکھا۔ پھر غزہ میں اسرائیلی بم باری سے جوانوں کی چھلنی لاشیں دیکھیں۔ رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو کشمیر کے علاقے، شوپیاں میں کڑیل جوانوں کے جنازوں پر بہنیں سسک رہی تھیں، تو اُس کے دوسرے روز افغانستان کے صوبے، قندوز میں پھولوں سے لَدے 101 بچّے کفن میں لپٹے ہوئے تھے۔

شام سے فلسطین، فلسطین سے کشمیر اور کشمیر سے افغانستان، گویا غم کا اک سلسلہ ہے، جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں جائیں ؟ کس سے فریاد کریں ؟ یوں لگتا ہے کہ اللہ کریم ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ان سانحات سے دوچار کررہا ہے، مگر ہم ہیں کہ بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔

مقامی اور عالمی میڈیا کے مطابق، افغان صوبے قندوز کے ضلع، دشت ارچی کے’’دارالعلوم الہاشمیہ العمریہ‘‘میں قرآن پاک حفظ کرنے والے بچّوں کی دستار بندی کی روایتی تقریب جاری تھی کہ اُن پر بم برسا دیے گئے، جس کی نتیجے میں ایک سو سے زاید حفّاظ شہید ہوئے، جب کہ زخمیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں بتائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں، جن کی آزاد ذرایع سے تصدیق نہیں ہو سکی، حفّاظ بچّے سفید پگڑیوں میں دُولھے اور شہہ بالے لگ رہے ہیں۔

گویا سفید برّاق لباس پہنے لیلائے شہادت پانے کی پوری تیاریاں تھیں۔ گریجویشن پارٹیز منانے والوں کو تو خُوب اندازہ ہے کہ پاسنگ آئوٹ تقریب کیا اہمیت رکھتی ہے اور اس موقعے پر طلبہ اور اُن کے والدین کس قدر جذباتی ہو رہے ہوتے ہیں۔ اسناد لیتے ہوئے اور دوستوں کے ساتھ بنائی جانے والی تصاویر زندگی بھر سنبھال، سنبھال رکھی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین نے اپنے بچّوں کو اس یادگار تقریب کے لیے خُوب سجایا سنوارا تھا، بلکہ وہ خود بھی یہ تاریخی لمحات دیکھنے آئے تھے اور واقعتاً، ان تاریخی لمحات کو زندگی بھر کے لیے اپنی اداس آنکھوں میں سمیٹ لیا۔

اس الم ناک واقعے کی سرکاری طور پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ’’ تقریب میں جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاع تھی، اسی وجہ سے اُسے نشانہ بنایا گیا‘‘، چلیے، مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا، تو کیا اس مسئلے کا حل بچّوں کو یوں بوٹیوں اور چیتھڑوں میں تبدیل کرنا ہی تھا…؟؟ اس سوال کا جواب اس لیے بھی دینا ضروری ہے کہ میڈیا میں عینی شاہدین کے حوالے سے شایع ہونے والی رپورٹس کے مطابق پہلا بم، حفّاظ بچّوں کی صف ہی پر گرایا گیا۔

ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ کسی ترقّی یافتہ مُلک میں ایک کتا بھی مر جائے، تو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ وہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجائے، تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے پاس جا کر تعزیتی تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ نیز، مختلف انداز سے اظہارِ یک جہتی کیا جاتا ہے۔ عوام اپنی ڈی پیز کو ان ممالک کے جھنڈوں سے رنگ دیتے ہیں، مگر یہ خون خاک نشیناں، خاک میں رُل گیا، طلبہ کے یوں قتلِ عام پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

پھر مغرب سے کیا شکوہ…مسلم مُمالک کی بے حسی ہی خون کے آنسو رُلانے کے لیے کافی ہے۔ اتحاد، ایثار، قربانی سے ہم ایسے ناآشنا ہوئے کہ ایک ملّت کا تصوّر ہی ماند پڑتا جا رہا ہے۔ مسلم دنیا، فرقوں، علاقائی اور لسانی شناختوں کے گھن چکر میں کھو کر اپنی قوّت گنواتی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب عالمی سطح پر مسلمانوں کے احساسات و جذبات کی کسی کو پروا نہیں۔ اگر پروا ہوتی، تو کیا معصوم بچّوں کے قتلِ عام پر اقوامِ عالم یوں گونگی بہری ہو سکتی تھی کہ کہیں سے مذمّت تک سُننے کو نہیں مل رہی۔

دراصل، ہمیں قندوز جیسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ سبق، باہمی اتحاد و اتفاق ہی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھودنے اور اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں مارنیں سے کبھی کوئی قوم آگے بڑھی اور نہ بڑھ سکتی ہے۔ مسلم ممالک میں لگی آگ میں بیرونی ہاتھ سے انکار ممکن نہیں، مگر ان خانہ جنگیوں کے ہم بھی کچھ کم ذمّے دار نہیں۔

ان جنگوں میں خواتین اور بچّوں سمیت لاکھوں لوگ مارے جا چکے، اتنے ہی گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، مگر مجال ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیمیں اس بھڑکتی آگ کو بجھانے کے لیے آگے بڑھتی ہوں۔ جب ہمیں ہی اس آگ کی فکر نہیں تو کوئی اور ہم پر آگ برساتے ہوئے کیوں ہچکچائے گا۔

سانحۂ قندوز کے ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس طرح کے واقعات انتقام اور اشتعال جیسے جذبات کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ عسکری سرگرمیوں میں اضافے کی صُورت ہی نکلتا ہے۔

پھر افغانیوں کے قبائلی پس منظر اور مقبول روایات کی بنا پر ایک نئی’’ بدلے کی جنگ‘‘ شروع ہونے کے قوی خدشات ہیں۔ نیز، اس طرح کی اندھی کارروائیاں، جن میں بے گناہ نشانہ بنتے ہوں، صرف افغانستان ہی نہیں، خطّے کے دیگر ممالک کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہیں۔

افغانستان اور پڑوسی ممالک میں امن و استحکام کے لیے اس طرح کی بے مہار کارروائیوں سے گریز کے ساتھ خطّے میں بیرونی مداخلت کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے تاکہ عوام کسی ڈکٹیشن اور دباؤ کے بغیر اپنے فیصلے خود کرسکیں۔

حالات و واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا یہ جنگ ہار چکا ہے اور اس نے خطّے کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا، لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ امریکا یہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لے اور عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے دے۔

اس موقعے پر سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں بھی ایک گزارش کرنا ضروری ہے۔ جمادی الاولیٰ 8ہجری میں غزوۂ موتہ پیش آیا، یہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کو درپیش سب سے خونریز معرکہ تھا، جو کئی مُمالک کی فتوحات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔

اس میں ستّر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی، لہٰذا ان 100سے زاید حفّاظِ کرام کی شہادت پر ہمارے گھروں اور مساجد میں بھی یہ سنّت زندہ ہونی چاہیے۔

یہ صرف سو بچّے ہی تو نہ تھے، سو مائوں کی گود، سو باپوں کا غرور، سیکڑوں بہنوں کے بھائی، ایک پوری نسل تھی ،جس کو قومِ فرعون کی طرح ختم کردیا گیا۔ اگر ہم اس درد کو محسوس نہیں کررہے، تو پھر ذرا خُوب اچھی طرح خود کو ٹٹول کر دیکھیے، کہیں ہمارے پہلو میں دِل کی بجائے، پتھر تو نہیں۔

ایک شاعر نے ہمارے جذبوں کو یوں زبان دی ہے۔؎ ’’ہاتھوں میں اسناد اٹھائے…چہرے پر مسکان سجائے…حافظ بچّے لائن بنائے…یوں بیٹھے تھے جیسے وہ سب…شہہ زادے ہوں اس دھرتی کے…رکھوالے ہوں نور نبیؐ کے…آن کی آن میں منظر بدلے…اجلے چہرے خون میں بدلے…لاشوں کے انبار لگے ہیں…دولھوں کے تابوت پڑے ہیں…آہ و فغاں اور سسکی ہے…انسانیت کی پستی ہے…دولھوں کی دستاریں اب…ان کے کفن کی وردی ہے۔ ‘‘

اُدھر کشمیر کی وادی بھی ظلم و ستم اور حریّت و قربانی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ایک طرف سنگینیں ہیں، تو دوسری جانب جرّی جوانوں کی بے خوف چھاتیاں، جن کے آزادی کے ترانے قابض افواج پر کپکپی طاری کر دیتے ہیں۔ بھارتی افواج گزشتہ پون صدی سے کشمیریوں کے جذبۂ حریّت کو کچلنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی آ رہی ہے۔

قید و بند، نظر بندیاں، محاصرے، جعلی مقابلے، عصمت دریاں اور املاک کو نذرِ آتش کرنے جیسے حربے بار بار آزمائے گئے، مگر آج بھی گھر گھر سے’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔

نیز، گزشتہ کچھ عرصے سے نہتّے اور بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی برادری نے ان مظالم پر مجرمانہ خاموشی کے تمام تر ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، جس سے قابض فوج کو شہہ ملی ہے اور وہ اس غیر اعلانیہ عالمی تھپکی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی ہتھکنڈے نہ پہلے کشمیریوں کو جھکا سکے اور نہ اب اُن کے جذبۂ حریّت کو سَرد کر سکتے ہیں۔

ان حالات میں ہماری ذمّے داریوں میں بھی مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے انصاف پسند شہری کشمیریوں کی جدوجہد کو ایک جائز اور قانونی جدوجہد سمجھتے ہیں، پھر یہ کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کی قراردادیں بھی کشمیری عوام کی تحریکِ آزادی کو سپورٹ کرتی ہیں، سو، ہمیں ان انصاف پسند شہریوں تک پہنچنا چاہیے اور اُن کے ذریعے عالمی اداروں پر مسئلۂ کشمیر حل کرنے کے لیے دباؤ ڈلوانا چاہیے۔

دوسری طرف، پاکستانی حکومت کو بھی اپنی اسلامی اور اخلاقی ذمّے داریاں پوری کرنے کے لیے پوری طرح متحرّک ہونے کی ضرورت ہے، کیوں کہ مظلوم کشمیری مسلسل ہماری ہی طرف دیکھ رہے ہیں اور اُن کی امیدیں ہم ہی سے وابستہ ہیں۔ حریّت رہنما، آسیہ اندرابی کا سسکیوں میں ڈوبا پیغام ملا ہے کہ’’ ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر نہیں تھک رہے، تو تم پاکستان میں اپنے گھروں سے تو کم ازکم نکل آئو اور پُرامن مارچ کرکے ہماری مزاحمت کی تحریک کی پشتیبانی کرو‘‘، مگر نہ جانے ہم کس بات کے منتظر ہیں۔ سادات گھرانے کے بوڑھے شیر، علی گیلانی کا پُرعزم لہجہ ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ بھارت اپنے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونک رہا ہے اور وادی کے سارے شیر دھاڑ رہے ہیں کہ’’ ہم کیا مانگیں ؟ آزادی۔‘‘

فلسطین اور غزہ کے وہ نہتّے لوگ، جن کے پاس پتھروں اور غلیلوں کے سوا کچھ نہیں، مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے رات دن چوکیداری کرتے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ خواتین بھی، جنھیں’’مرابطات‘‘ کہا جاتا ہے، ان چوکیداروں میں شامل ہیں۔ یہ خواتین اپنے اس کام پر فخر بھی کرتی ہیں اور یہ سعادت ملنے پر اپنے رب کی شُکر گزار بھی ہیں۔

غزہ کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جیل کہا جائے، تو مبالغہ نہ ہوگا۔ وہاں بھی ظلم و تشدّد کی نئی لہر نے انتفاضہ کی تحریک کو از سرِ نو زندہ کردیا ہے۔چاروں اطراف سے ظلم کی یلغار دیکھ کر فیض کے وہ اشعار یاد آ جاتے ہیں؎’’بہار آئی تو جیسے یک بار…لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے…وہ خواب سارے ، شباب سارے…جو تیری یادوں سے مشک بُو ہیں…جو تیرے عشّاق کا لہو ہیں…اُبل پڑے ہیں عذاب سارے…بہار آئی تو کھل گئے ہیں…نئے سرے سے حساب سارے۔‘‘ ہر طرف ظلم وجبر کی تاریک رات مسلّط ہے، مگر جب رات گہری اور تاریک تر ہو جائے، تو دِل سے کہو کہ نہ گھبرائے۔ سحر قریب ہے اور میرا رحمٰن رب، اُ س سے بھی قریب !!
 

الف نظامی

لائبریرین
قندوز کا نوحہ نیا کب ہے؟ 26 اپریل2015 سے ہی افغان حکومت اور طالبان یہاں دست بہ گریباں ہیں۔ طالبان نے کئی علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر یہاں فتح کے جھنڈے گاڑے، انھیں پیچھے دھکیلنے کے لیے اکثر وبیشتر افغان فوج چڑھائی کرتی رہتی ہے۔ لیکن اس بار مدرسہ ہاشمیہ کی تقریب دستار بندی میں جو انسانی المیہ وقوع پذیر ہوا، اس کے بعد الفاظ ختم اور زبانیں گنگ ہیں۔ کیا ہوا؟ کس نے کیا؟

ان سوالات کا جواب مل بھی جائے تو کیا حاصل۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ان سانحات کے بعد میں ہمیشہ سائنسی ترقی سے شکوہ کناں ہوجاتی ہوں کہ اس کے طفیل یہ درد بھرے مناظر ہماری نظروں سے ہوتے ہوئے سینے میں جا کے چبھ جاتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی سانحات کی ویڈیوز لرزتی اور بھیگتی پلکوں کے سائے میں دیکھ چکی ہوں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت اور خوف اس قدر حاوی رہا کہ غیردانستہ طور پر موبائل کی اسکرین پر انگلیوں کی جھری بنا کر یہ خونی مناظر بہ مشکل دیکھ پائی ہوں۔

کہا جارہا ہے کہ یہ حملہ اہم طالبان کمانڈرز کے خلاف آپریشن کا ایک حصہ تھا، لیکن ہاتھیوں کی جنگ میں جو ننھی کلیاں مسلی گئیں ان کا حساب کون دے گا؟ ان معصوم بچوں کی نرم مسکراہٹ کہیں سے بھی ان کے دہشت گرد ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر رہی۔ حملے سے پہلے ان کے چہرے کھلکھلا رہے تھے۔ وہ سند ملنے پر ایسے ہی خوش تھے جیسے ہمارے اور آپ کے بچے اپنے رزلٹ ڈے پر خوشی سے ہلکان ہوتے ہیں۔




ان کی ماؤں نے صبح ان کو نہلا دھلا کر سفید براق کپڑوں میں کسی دلہا کی طرح سجاکر روانہ کیا ہوگا، تقریب میں فخر سے سر اٹھائے ان بچوں کے باپ اور بھائی بھی بیٹھے ہوں گے۔ ننھے بچوں کی بڑی بڑی آنکھوں میں دیپ جل رہے ہوں گے، مائیں ان کا ماتھا چومنے کو گھروں میں بے تاب منتظر ہوں گی۔ لیکن افسوس! گھروں کو وہ زندہ سلامت نہیں پہنچ سکے۔

میں کتنی ہی دیر ویڈیو میں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان طالبان کمانڈروں کو کھوجتی رہی لیکن مردہ جسموں سے بہتا لہو اور موت کے کرب سے کھلی رہ جانے والی آنکھیں تو نئی کہانی سنا رہی تھیں۔ لیکن اس کہانی میں صرف منظر ہی نیا تھا، پلاٹ تو وہی پرانا تھا۔ ایک بار پھر ہمارے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ لاشوں پر جشن منایا گیا۔

غلبے اور تسلط کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں کلیوں کو مسل کر افغانستان کو ایک قدم اور پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ معصوم آرزوئیں بین الاقوامی سیاست کی نذر ہوئی ہیں۔ مذہبی منافرت اور انتہاپسندی نے ماؤں کی کوکھ پھر اجاڑی ہے۔ فضا سے پھینکے گئے بموں سے صرف عام شہری اور بچے ہی نہیں جل کر راکھ ہوئے بلکہ افغانستان میں قیام امن کے سارے خوب صورت خواب بھی خاکستر ہوئے ہیں۔

دنیا کے کسی گوشے میں تو ماتم ہوا تو صد افسوس! انسانیت کی بدترین رسوائی پر وقت کے فرعونوں کے تو چہرے ہی کھل بھی اٹھے۔ بین الاقوامی طاقتوں اور مذہبی انتہاپسندی کے درمیان بچوں کو پستا دیکھ کر مجھے گئے وقتوں کے نمرود، فرعون، چنگیز اور ہٹلر یاد آگئے۔ کتنی ہی ایسی ہولناک جنگیں میرے ذہن میں تازہ ہوگئیں جن میں بچے بطور خاص نشانہ بنائے گئے۔ کبھی بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، کبھی بھٹیوں میں ڈال کر بھونا گیا، کبھی ماؤں کی گودوں سے چھین کر سمندر برد کیا گیا۔

کبھی بچوں کو پاؤڈر منکی powder monkey کے طور جنگ کا حصہ بنایا گیا، کہیں یہودی بچوں کا خون حلال کیا گیا تو کہیں مسلمان بچوں کا گوشت۔ لیکن یہ دور نیا ہے۔ اب نیزے اور بھٹیاں کہاں! اب تو فضا میں تیرتے ہوئے ہاتھی آگ اگلتے ہیں اور چٹکیوں میں ہی سب جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔

شام، عراق، افغانستان سمیت دنیا کے دیگر جنگی خطوں میں بچوں کی ہلاکتوں کا کوئی جواز پیش ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ بذات خود بری چیز ہے لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے خطرناک پہلو بچوں کا قتل عام ہے۔ قندوز کے سانحے پر دنیا کے کتنے ہی اخبارات کی سرخیاں پڑھ ڈالیں سب نےimmoral کہہ کر خبرنگاری کا فرض تو پورا کردیا لیکن انسانیت کا حق کہاں ادا کیا؟

قندوز کے سانحے کی تصاویر اور بچوں کے قتل عام کی یہ سرخیاں پوری دنیا کے عالموں اور دانشوروں کے سامنے روتے ہوئے پوچھ رہی ہیں کہ اتنے بڑے سانحے کو صرف غیراخلاقی قرار دے کر کیا بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے؟

جینوا کنوینشن میں واضح طور پر درج ہے کہ جنگوں میں بیماروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو یا کسی ایسے مقام کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے جہاں عام شہری بھی موجود ہوں۔ یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بہ طور جنگجو بھی بھرتی کرنے کی بھی سختی سے ممانعت ہے۔ لیکن انسان جب بھیڑیا بنتا ہے تو سارے قوانین بھاڑ میں جھونک دیے جاتے ہیں اور ان کی اہمیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ قرار نہیں پاتی۔ اور پھر جب دنیا سے ساری اخلاقی اقدار ہی ایک ایک کرکے روٹھ رہی ہوں تو جنگی اخلاقیات کی کیا بات کی جائے!! کہ جنگ تو ماسوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہے ہی نہیں۔

بوسنیا، کمبوڈیا، صومالیہ، روانڈا، افغانستان، عراق اور دنیا بھر میں جو بھی ممالک جنگوں کی لپیٹ میں آئے وہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد جان سے گئی۔ بچوں کا قتل کرنے کے پس پردہ مقصد معاشرے کے بڑوں کو دباؤ میں لینا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر جگہ بچوں کا استیصال باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو پوری پوری نسلیں تصادم کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں اور جو بچے مرنے سے بچ بھی جاتے ہیں وہ خوراک، ادویات اور پانی کی قلت کے باعث مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی کی بات کریں تو دنیا کے تمام جنگی خطوں میں مجموعی طور پر دو ملین بچے مار دیے گئے، چار سے پانچ ملین بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوئے، دو ملین بے گھر، ایک ملین سے زاید یتیم اور دس ملین بچے جنگوں کی ہولناکیوں کے باعث نفسیاتی عوارض کا شکار ہوئے۔ لہٰذا عالمی شاطروں کی اس بات پر کیسے ایمان لائیں کہ انھوں نے پوری دنیا میں جنگیں سرکشوں کو لگامیں ڈالنے کے لیے چھیڑ رکھی ہیں۔

اور ہمارے اس نہ ماننے کہ وجہ تو انسانی تاریخ کے وہ سیاہ پَنّے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں عام شہریوں کو ہی سب سے بڑا ہدف بنایا گیا۔ سانحہ قندوز کو دیکھتے ہوئے یقین ہو رہا ہے کہ ہر جنگ زدہ خطے کی طرح افغانستان میں بھی آنے والا سال پچھلے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔ ہر سال جتنے بچے جنم لیتے ہیں اس سے دگنی تعداد میں مار دیے جاتے ہیں۔

بیٹھے بیٹھے جانے کیوں یہی خیال آرہا ہے کہ کاش دنیا بھر میں مارے جانے والے ان بچوں کے لاشوں میں جان پڑ جائے اور یہ اسی حال میں صف بستہ ہو کر بیٹھ جائیں کہ ان کے جسموں سے خون رِس رہا ہو، کسی کا ہاتھ کٹ کر لٹک رہا ہو اور کسی کے تن پر سر نہ ہو۔ وقت کے آمروں اور جابروں کے سامنے یہ ننھے لاشے اپنا نوحہ خود پڑھیں اور چلا چلا کر گائیں۔۔۔ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔

مگر افسوس! جس بدبو دار سماج میں ہم سانس لیتے ہیں وہاں تو جنگل جیسا بھی کوئی قانون نہیں۔ یہاں شیر صرف قندوز کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ہزاروں لاکھوں ماؤں کے بچے کھا گئے ہیںلیکن ان کا پیٹ ہے کہ بھر کے نہیں دے رہا۔ یہ دکھیاری مائیں اجڑی کوکھوں پر آنچل پھیلائے آسمان کو تک رہی ہیں اور پکار رہی ہیں، خداوند! جلیل ومعتبر! دانا و بینا منصف اکبر۔۔۔ مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر۔
 

ابن عادل

محفلین
الف نظامی صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے اتنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنا درد دوسروں کو منتقل کیا ۔ اور اس بہانے اداکاروں ، گلوکاروں کے غم میں نوحہ کناں افراد کی مصروفیت میں مخل ہوئے ۔ افسوس اس پر ہے کہ وہ ان حفاظ کے لیے دوآنسو بہانے پر تیار نہیں ۔ اور مُصر ہیں کہ مسلم نے مسلم کو مارا ہے سو غم کاہے کا ۔ ایسے بھی ہیں جنہیں امریکہ کی افغان میں موجودگی پر تو اس واقعے کے بعد کچھ افسوس ہے لیکن انہیں غم یہ ہے امریکہ نے کچھ جلدی حملہ کردیا کہ کچھ انتظار کرلیتا تو ان سب کی عمریں بیس کے آس پاس ہوجاتیں اور پھر ان کے چیتھڑے اڑانا جائز ہوجاتا ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اب ایک صاحب یو ایس اے والے بھی مطمئن ہیں کہ محافظین دشمنان ملک و ملت ان کی عدم موجودگی میں خلوص کے ساتھ مصروفِ عمل ہوں گے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکہ بہادر کی ایسی تمام کاروائیوں پر چپ سادھے رکھنے میں ہی ملک و ملت کی بھلائی ہے کہ کہیں طالبان اور محبان طالبان اس واقعے کو اپنے حق میں استعمال نہ کرلیں ۔
اس تمام معلومات سے واقفیت دلانے پر الف نظامی صاحب آپ کا شکریہ ۔ اور قندوز کے شہداء کے لیے دعائیں لیکن شرمندگی اور بہت چپکے چپکے کیوں کہ مجھے مذکورہ بالا پرزور دلائل نے اپنے جذبات ، غیرت ، حمیت ، اسلامی احساس ، آخرت کی جوابدہی ، رسول اللہ ٖ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی طلب ، اخوت اسلامی الغرض تمام احساسات و جذبات کو دبانے پر مجبور کردیا ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے اتنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنا درد دوسروں کو منتقل کیا ۔ اور اس بہانے اداکاروں ، گلوکاروں کے غم میں نوحہ کناں افراد کی مصروفیت میں مخل ہوئے ۔ افسوس اس پر ہے کہ وہ ان حفاظ کے لیے دوآنسو بہانے پر تیار نہیں ۔ اور مُصر ہیں کہ مسلم نے مسلم کو مارا ہے سو غم کاہے کا ۔ ایسے بھی ہیں جنہیں امریکہ کی افغان میں موجودگی پر تو اس واقعے کے بعد کچھ افسوس ہے لیکن انہیں غم یہ ہے امریکہ نے کچھ جلدی حملہ کردیا کہ کچھ انتظار کرلیتا تو ان سب کی عمریں بیس کے آس پاس ہوجاتیں اور پھر ان کے چیتھڑے اڑانا جائز ہوجاتا ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اب ایک صاحب یو ایس اے والے بھی مطمئن ہیں کہ محافظین دشمنان ملک و ملت ان کی عدم موجودگی میں خلوص کے ساتھ مصروفِ عمل ہوں گے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکہ بہادر کی ایسی تمام کاروائیوں پر چپ سادھے رکھنے میں ہی ملک و ملت کی بھلائی ہے کہ کہیں طالبان اور محبان طالبان اس واقعے کو اپنے حق میں استعمال نہ کرلیں ۔
اس تمام معلومات سے واقفیت دلانے پر الف نظامی صاحب آپ کا شکریہ ۔ اور قندوز کے شہداء کے لیے دعائیں لیکن شرمندگی اور بہت چپکے چپکے کیوں کہ مجھے مذکورہ بالا پرزور دلائل نے اپنے جذبات ، غیرت ، حمیت ، اسلامی احساس ، آخرت کی جوابدہی ، رسول اللہ ٖ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی طلب ، اخوت اسلامی الغرض تمام احساسات و جذبات کو دبانے پر مجبور کردیا ہے ۔
شکریہ ابن عادل
امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ امریکی استعمار پہ لعنت بے شمار۔ اور استعمار کے حامیوں پر بھی لعنت مزید بر وزن یزید
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ امریکی استعمار پہ لعنت بے شمار۔ اور استعمار کے حامیوں پر بھی لعنت مزید بر وزن یزید
 

الف نظامی

لائبریرین
گرچہ گزشتہ چار دہائیوں سے پورے افغانستان نے ہی موت اور تباہی دیکھی ، لیکن قندوز میں ہونے والے حملے انتہائی تباہ کن تھے ۔ اس طویل جنگ کے دوران قندوز زیادہ تر فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہے ۔
اکتوبر 2015 ء میں امریکی فوج نے قندوز میں ’’ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز ‘‘ کے ایک شفاخانے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ڈاکٹروں اور مریضوں سمیت بیالیس افراد مارےگئے ۔ ’’ڈاکٹر زودآوٹ بارڈرز ‘‘ نے اسے ایک جنگی جرم قرار دیا لیکن امریکی فوج نے اپنی داخلی انکوائری میں نتیجہ نکالا کہ یہ جنگی جرم نہیں تھا کیونکہ حملہ بلاارادہ اور اتفاقی تھا۔
اس سے پہلے قندوز میں تعینات جرمن دستوں نے فضائی حملے کا پیغام بھیجا۔ امریکی فضائیہ کے اُس حملے میں بھی درجنوں شہری ہلاکتیں ہوئیں ۔ ایک آئل ٹینکر سے بہنے والا تیل اکٹھا کرنے والے افراد پر بے رحمانہ طریقے سے بمباری کی گئی ۔

حالیہ برسوں میں طالبان جنگجوئوں نے قندوز شہرپر دومرتبہ قبضہ کیا۔ شہر پر قبضہ کرنے ، اور قبضہ چھڑانے کے لئے ہونے والی جنگ میں شہریوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ۔

دواپریل کو ہونے والے تازہ ترین حملے کا نشانہ شمالی قندوز میں تاجکستان کی سرحد سے قریب دشت ِ آرچی میں واقع ایک دینی مدرسہ تھا۔ دافتیانو گاوں کے دارلعلوم ہاشمیہ پر اُس وقت بمباری کی گئی جب قرآن مجید حفظ کرنے والے حفاظ کی دستار بندی کی جارہی تھی ۔ سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والی تصاویر میں سفید لباس اور سفید پگڑیوں میں ملبوس نوجوان لڑکے اپنی اسناد ہاتھوں میں تھامے کھڑے تھے ۔ یہ اُن کی زندگی کا ایک خوشگوار دن تھا۔ اُنھوں نے اُس موقع کے لئے دستیاب بہترین کپڑے زیب تن کیے تھے ۔ لیکن اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُن پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے ۔ حملے کی خبر ملتے ہی پورے قندوز اور دیگر مقامات پرصف ماتم بچھ گئی ۔
مدرسوں میں ایسی تقریبات ایک اہم موقع ہوتی ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ دستار بندی کی رسم کا جشن مناتے ہیں کیونکہ وہ طلبہ مذہبی تعلیم کا ایک اہم سنگ ِ میل عبور کرچکے ہوتے ہیں۔ طلبہ کے اہل ِ خانہ ، رشتے دار اور دیہات کے دیگر افرادبھی اس رسم میں شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مشہور علمااور علاقے کے عمائدین کو بھی مدعوکیا جاتا ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ، خاص طور پر بچے بن بلائے بھی آجاتے ہیں کیونکہ اس موقع پر گوشت اور چاول پکائے جاتے ہیں جن سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے ۔
اس خوفناک حملے کے چشم دید گواہو ں کے مطابق اُس وقت مدرسے میں ایک ہزار کے قریب افراد موجود تھے جب گن شپ ہیلی کاپٹروں نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ بچے خوف سے چیخ رہے تھے کہ ہیلی کاپٹرز بم بھی گرا سکتے ہیں، لیکن اُن کے بڑوں نے اُنہیں شور مچانے سے منع کیا۔ جلد ہی بچوں کا خوف درست ثابت ہوا۔ ہیلی کاپٹروں نے راکٹ فائر کرنا شروع کردئیے ۔ وہ اسے کوئی فوجی ہدف سمجھ رہے تھے ۔ اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ حملہ افغان ایئرفورس نے کیا تھا۔ اس فورس کو امریکہ نے تربیت دی ہے اور مسلح کیا ہے ۔ امریکی اور نیٹو فورسز نے اس حملے میں ملوث ہونیکی تردید کی۔ تاہم یہ بھی غلط نہیں کہ اُن کے کمانڈر افغان پائلٹوں کو حملے سے روک سکتے تھے کیونکہ افغان فضائیں امریکی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔
افغان ایئرفورس نے اپنے زمینی دستوں کی کمک کے لئے فضائی حملوں میں اضافہ کررکھا ہے ۔زمینی دستوں پر طالبان جنگجوئوں کا شدید دبائو ہے ۔ درحقیقت امریکی اور افغان فورسز زیادہ ترجنگی کارروائی فضائی حملوں کی صورت میں ہی کرتی ہیں۔ یہ حملے طالبان کے خلاف بہت موثر ہیں کیونکہ اُن کے پاس طیارہ شکن میزائل اور اینٹی ایئرکرافٹ گنز نہیں ہیں۔ افغان اور امریکی فورسز جنگی نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لئے فضائیہ کو بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے اُن کا جانی نقصان بھی نہیں ہوتا اور جنگی اخراجات بھی زیادہ نہیں اٹھتے ۔ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اگست 2017 ء میں بیان کردہ جنگی حکمت عملی کے مطابق ہے ۔ وہ میدان جنگ کا جمود توڑنے اور کم امریکی جانیں گنوانے کی پالیسی رکھتے ہیں۔

اگرچہ صدر اشرف غنی نے قندوز واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا ہے لیکن اُن کی حکومت پہلے ہی ایک موقف اختیار کرچکی ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز نے طالبان جنگجوئوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جو اس وہاں دہشت گردی کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہے تھے ۔ صدر کے دفتر کی طرف جاری ہونے والے بیان میں افغان سویلین کی ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ۔ لیکن بے گناہ شہریوں اور بچوں کی ہلاکت کی ذمہ داری نہیں اٹھائی گئی ۔ اس سے پہلے افغان وزارت ِدفاع نے بھی یہی موقف اختیار کیا تھا کہ حملے کا ہدف دراصل طالبان کا ایک تربیتی مرکز تھا۔ کہا گیا کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاکت نہیں ہوئی ۔ افغان وزارت ِ دفاع نے کچھ کمانڈروں سمیت بیس طالبان جنگجوئوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ اس نے مخصوص الفاظ ، جیسا کہ طالبان کا ’’ریڈ یونٹ‘‘ اور کوئٹہ اور پشاور شوریٰ کا استعمال کرتے ہوئے حملے کی ساکھ بنانے کی کوشش کی ۔ افغان حکام نے یہ تاثر دیا کہ ہوائی حملے کے وقت پاکستان میں اپنی موجودگی رکھنے والے اہم طالبان کمانڈ ر اور جنگجو بھی قندوز کے مدرسے میں موجود تھے ۔ اس کے بعد افغان وزارت ِ دفاع نے مدرسے میں موجود اور ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوئوں کی فہرست بھی جاری کی ۔ چنانچہ افغان سرکاری افسران پر مشتمل کسی کمیشن کی طرف شفاف اور قابل ِ اعتماد تحقیقات خارج ازامکان ہیں، خاص طور پر جب اُس کمیشن کی سربراہی ایک انٹیلی جنس افسر، خدائی داد ہزارہ کررہے ہوں۔

اس خوفناک حملے کے بعد افغان حکومت کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی جب قندوز کے گورنر نے پانچ شہری ہلاکتوں اور پچپن افراد کے زخمی ہونے کا اعلان کیا ۔ اس طرح قندوز کے گورنر نے افغان وزارت ِ دفاع کے دعوے کی تردید کردی ۔ افغان وزارت ِ دفاع کا دعویٰ تھا کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاکت نہیں ہوئی ۔ گورنر کے ترجمان کی طرف حملے کے فوراً بعد بیان دیا گیا تھا۔ جلد ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ یہ ایک سو پچاس، اور پھر دوسو تک پہنچ گئی ۔ ہلاکتوں کی درست تعداد دستیاب نہیں ، اور ظاہر ہے کہ افغان حکومت اس علاقے میں طاقتور موجودگی نہیں رکھتی۔ اس پر طالبان کا کنٹرول ہے ۔ اس نے ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوئوں کی تعداد ستر، اور بعد میں ایک سو بیان کی۔ طالبان ترجمان نے ایک سوپچاس شہری ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان دعوئوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کس کی بات سنتے ہیں۔
تاہم مقامی افراد کی طرف سے بیان کردہ تفصیل زیادہ قابل ِ اعتماد ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ کچھ طالبان جنگجو وہاں ضرور موجود تھے ، لیکن وہ ایک شہری اجتماع تھا۔ اس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ بہت سے حلقوںنے حکومتی دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے شفا ف اور قابل ِ اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا۔کچھ عینی شاہدین نے حکومت کے ان دعوئوں کی بھی تردید کی کہ ہیلی کاپٹروں کے حملے کے بعد طالبان جنگجوئوں نے بھی شہریوں پر فائرنگ کی ۔ اگر اُس اجتماع میں کچھ طالبان موجود تھے تو بھی اس پر بمباری کا کوئی جواز نہ تھا کیونکہ اُس میں بہت بڑی تعداد میں عام شہری اور بچے موجود تھے ۔ اقوام ِ متحدہ نے اس واقعے کی انکوائری شروع کردی ہے ۔ لیکن اگر ماضی سے رہنمائی لی جائے تو لگتا ہے کہ اس سے مظلوم اور متاثرہ افراد کو انصاف نہیں مل پائے گا۔ سوشل میڈیاقندوز حملے کے جذباتی ردعمل سے سلگ رہا تھا۔ بعض حلقے انتقام کی آواز بلند کررہے تھے ۔ موسم ِ گرما کی لڑائی کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے۔
یہاں قیام امن کے عمل کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں۔ قندوز سانحے سے دراز ہوتے ہوئے ظلم اور بربریت کے سائے انتقامی کارروائیوں کو مہمیز دیں گے۔ دنیا کے اس حصے میں امن کے امکانات پہلے ہی بہت معدوم ہیں۔ اب تو متحارب قوتوں کے درمیان مذاکرات شروع کرانا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔
 
Top