پنجاب کے بھولے بسرے پکوان

پنجاب کے بھولے بسرے پکوان

پنجاب کے روایتی پکوان سادہ مگر ذائقے سے بھرپور رہے ہیں۔ چونکہ دیہاتی ماحول میں گائے بھینسوں کا دودھ اور اس کی ذیلی پیداوار گھی اور مکھن کی صورت میں عام تھی اس لئے گھروں میں سالن پکانے کے لیے دیسی گھی استعمال ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور دیہاتوں نے شہروں کا روپ دھارنا شروع کیا تو تن آسانی اور پیداواری قلت کی وجہ سے دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے لے لی اور مزید وقت گزرنے کے ساتھ اور صحت کے مسائل سے آگہی اور تعلیم کے نسبتاً عام ہونے کے ساتھ خوردنی تیل کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ آج بھی پکانے کے لیے دیسی گھی کی شدید قلت اور دیہاتی زندگی میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی، مویشی پالنے کے جدید طریقوں سے لاعلمی اور زراعت کو ترجیح نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس قلت میں اور اضافہ ہوا۔
اس لیے آج کل پنجاب کے دیہات میں بناسپتی گھی زیادہ اورخوردنی تیل بہت کم استعمال ہو رہا ہے۔ روایتی مزیدار پکوان آج کل کھانے کو تو کم کم ملتے ہیں، تاہم یہاں ان کے ذکر سے ضرور لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ سرسوں کا ساگ، مکئی کی روٹی پنجاب کا پرلطف اور سادہ ترین کھانا سرسوں کی نرم و گداز گندلوں سے تیار کیا ہوا سالن… جس میں مکھن کی بہتات ہوتی ہے، مکئی کے آٹے سے بنی روٹی کے ساتھ کھانا پنجاب کی پہچان تھا۔ آج شہروں میں تو کیا دیہاتوں میں بھی یہ کھانا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہ بھی سہل انگاری اور تن آسانی ہی کہی جا سکتی ہے۔ سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور پکانے میں توجہ اور محبت درکار ہوتی ہے،جو شاید کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ روایتی ذائقہ اب عام نہیں رہا، تاہم ابھی بالکل ختم نہیں ہوا۔ بینگن کا بھرتا تنور ہماری پنجابی تہذیبی روایت کا جزو لازم رہا ہے۔ گھروں میں تنوریاں موجود تھیں جہاں خواتین خود روٹیاں پکاتی تھیں۔

ان کے علاوہ دیہاتوں میں تنور پیشہ کے طورپر بھی موجود تھے۔ جہاں اجرت کے طورپر گندھا ہوا آٹا لے کر روٹیاں لگائی جاتیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے پیسے دے کر تنور سے روٹیاں لگوائی جاتیں۔ انہی تنوروں میں بینگن کا بھرتا (آگ پر پکانا) تیار کیا جاتا ہے۔ بینگن کا پکا ہوا گودا نکال کر دہی میں ملایا جاتا ہے۔ ہری مرچیں اور پیاز ملا کر تنور کی روٹی سے کھایا جانا والا بھرتا مزہ ہی مزہ دیتا تھا۔ یہ ڈش بہت جلد تیار ہو جاتی ہے اس لیے گرمیوں میں بطور خاص پسند کی جاتی ہے۔ کڑھی پکوڑا، کڑھی پکوڑا بھی پنجاب کا مصالحے دار اور مزے دار پکوان رہا مگر آج کل سوغات بن چکا ہے۔ بیسن کے پکوڑے تلے جاتے جو خوب چٹ پٹے اورمصالحے دار ہوتے۔ چاٹی کی لسی میں بیسن کو پکال کر سالن تیار کیا جاتا۔ اس میں پکوڑے ڈالے جاتے اور تنوری روٹی سے کھانے کا لطف اٹھایا جاتا۔ کڑھی پکوڑا آج شہروں میں ہوٹلوں میں عام ملتا ہے مگر یہ روایتی دیہاتی کڑھی پکوڑے کے ذائقے کو چھو بھی نہیں سکتا۔ پنجیری مٹھائی پنجابی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔

گنے کے استعمال سے لیکر گڑ، شکر اور چینی کا استعمال پنجاب کی روایت ہے۔ کوئی تقریب مٹھائی کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ مٹھائیاں گھروں میں بھی تیار کی جاتی ہیں اور دکانوں میں بھی۔ پنجیری کا بطور خاص تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ گھریلو مٹھائی ہے اور ہر گھرمیں اپنی معاشی طاقت کے مطابق اپنے طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں گندم کا ان چھنا آٹا (whole wheat) بنیادی جزو ہے اس آٹے کو دیسی گھی میں خوب بھونا جاتا ہے۔ اس بھنے ہوئے آمیزے میں چینی یا شکر ملا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بادام، مغزیات، کھوپرا، گوند کتیرا، سونف، کمرکس، اجوائن، سونٹھ، الائچی اور اخروٹ کی گریاں ملائی جاتی ہیں۔

تاہم دیگر اہل خانہ بھی شوق سے یہ پنجیری کھاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزیدار ڈش بھی غائب ہو رہی ہے۔ شاید ڈرائی فروٹ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اس مزیدار مٹھائی کو پنجاب کے منظر نامے سے غائب کر کے چھوڑیں گی۔ پوٹوں (پوروں ) کی سویاں پنجاب کی نفاست (Delicacy) ہاتھ کی پوروں کی مدد سے بنی سویاں ایک مزیدار شیرینی (Desert) جو آج تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ راقم کے بچپن کی ایک خوبصورت یاد، خواتین اکٹھی ہو کر گرمیوں کی دوپہروں میں خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ سوجی کے گندھے ہوئے آٹے کو انگلیوں کی پوروں کی مدد سے باریک چاول نما بل دار سویاں تیار کرتیں۔ گندم کی بالیوں سے بنی خوبصورت چنگیروں میں سویاں کسی مشین کی سی تیزی سے گرتیں اور چنگیر سویوں سے بھر جاتی۔

ان کو خشک کیا جاتا اور پھرناشتے میں ان سویوں کو روایتی طریقے سے چینی کے شیرے میں پکایا جاتا۔ آج یہ ڈش تقریباً ناپید ہے۔ چڑوے پنجاب کی دوسری اہم فصل چاول، مونجی کے کاشت والے علاقوں میں فصل اٹھانے کے بعد چڑوے بنائے جاتے۔ ایک خاص طریقے سے مونجی بھگو کر بڑے بڑے چٹوئوں میں بھاری بھر کم ڈنڈوں سے خواتین یہ چڑوے بناتیں چھلکے الگ کئے جاتے اور چپٹے چڑوے تیار ہو جاتے۔ یہ میٹھا ملا کر بھی کھائے جاتے اور اس کی نمکو بھی بنتی، کمرشل بنیادوں پر شایدچڑوے آج بھی ملتے ہیں مگر گھر پر تیار کرنے کا عمل ختم ہو چکا ہے۔

غلام نبی شاکر
(’’میرا گمشدہ پنجاب ‘‘ سے اقتباس )
 

ہادیہ

محفلین
ساگ مکئی کی روٹی اور پوروں سے جو سویاں بنائی جاتی ہیں وہ تو اب بھی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں(باقی گھرانوں کا علم نہیں مگر ہمارے گھر میں اس کا استعمال بہت ہوتا۔۔ مکئی کا آٹا ہمیں خاص طور پر تحفہ کے طور پر ماموں کی طرف سے ملتا ہے:))۔ اور پنجیری البتہ بہت طریقوں سے بنائی جاتی ہے۔ جس میں سرفہرست گندم کے آٹے سے تیار ہونے والی، السی سے بنائی گئی اور ایک جو خاص طور پر ہمارے گھر میں بنائی جاتی وہ ہے چنے کی دال کی جس میں دودھ کا استعمال دال سے ڈبل ہوتا،باقی دیسی گھی، خشک فروٹ جیسے میوے،مونگ پھلی کا استعمال،پستہ بادام وغیرہ وغیرہ ڈال کر ایک لذیذ سردیوں کا خاص میٹھا بنایا جاتا ہے اور یہ سردیوں کے آغاز سے لے کر آخر تک تین چار بار بنایا جاتا ہے اور پوری سردیاں مزے لیے جاتے ہیں۔
 
ساگ مکئی کی روٹی اور پوروں سے جو سویاں بنائی جاتی ہیں وہ تو اب بھی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں(باقی گھرانوں کا علم نہیں مگر ہمارے گھر میں اس کا استعمال بہت ہوتا۔۔ مکئی کا آٹا ہمیں خاص طور پر تحفہ کے طور پر ماموں کی طرف سے ملتا ہے:))۔ اور پنجیری البتہ بہت طریقوں سے بنائی جاتی ہے۔ جس میں سرفہرست گندم کے آٹے سے تیار ہونے والی، السی سے بنائی گئی اور ایک جو خاص طور پر ہمارے گھر میں بنائی جاتی وہ ہے چنے کی دال کی جس میں دودھ کا استعمال دال سے ڈبل ہوتا،باقی دیسی گھی، خشک فروٹ جیسے میوے،مونگ پھلی کا استعمال،پستہ بادام وغیرہ وغیرہ ڈال کر ایک لذیذ سردیوں کا خاص میٹھا بنایا جاتا ہے اور یہ سردیوں کے آغاز سے لے کر آخر تک تین چار بار بنایا جاتا ہے اور پوری سردیاں مزے لیے جاتے ہیں۔
ماشاء اللہ
آپ کے گھر میں روائیتی پکوان ابھی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں
 

سید عمران

محفلین
ساگ مکئی کی روٹی اور پوروں سے جو سویاں بنائی جاتی ہیں وہ تو اب بھی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں(باقی گھرانوں کا علم نہیں مگر ہمارے گھر میں اس کا استعمال بہت ہوتا۔۔ مکئی کا آٹا ہمیں خاص طور پر تحفہ کے طور پر ماموں کی طرف سے ملتا ہے:))۔ اور پنجیری البتہ بہت طریقوں سے بنائی جاتی ہے۔ جس میں سرفہرست گندم کے آٹے سے تیار ہونے والی، السی سے بنائی گئی اور ایک جو خاص طور پر ہمارے گھر میں بنائی جاتی وہ ہے چنے کی دال کی جس میں دودھ کا استعمال دال سے ڈبل ہوتا،باقی دیسی گھی، خشک فروٹ جیسے میوے،مونگ پھلی کا استعمال،پستہ بادام وغیرہ وغیرہ ڈال کر ایک لذیذ سردیوں کا خاص میٹھا بنایا جاتا ہے اور یہ سردیوں کے آغاز سے لے کر آخر تک تین چار بار بنایا جاتا ہے اور پوری سردیاں مزے لیے جاتے ہیں۔
پارسل کا بندوبست بھی ہے؟؟؟
:daydreaming::daydreaming::daydreaming:
 
یہ سوچ کر کہ اب گھروں میں مسی روٹیاں نہیں بنتیں،سوجی کی پنجیری نہیں تیار کی جاتی۔۔۔اپنے ایمان سے بتائیے گا کتنا عرصہ ہوگیا ہے آپ کو السی اور چاول کی پنیاں کھائے ہوئے؟ سونف اور گری باداموں والاگڑ کب کھایا تھا؟ گنے کے رس کی کھیر کب حلق میں اتاری تھی؟ گھی میں بنائی ہوئی مونگ اور چنے کی دال کا ’’دابڑا‘‘ کب چکھا تھا؟ بھینس کی ’’بوہلی‘‘ کھائے کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟ پتا نہیں قارئین میں سے کتنے لوگ ’’بوہلی‘‘ کے نام سے واقف ہیں؟ یہ اُس بھینس کا پہلے دو تین دن کا دودھ ہوتاہے جو تازہ تازہ ماں بنتی ہے۔ یہ غذائیں ہمیں اس لیے بھی یاد نہیں کہ ان کے ذکر سے ہی پینڈو پن جھلکتا ہے۔ شہری لگنے کے لیے پیزا، برگر، شوارما، سینڈوچ، سلائس، اورنگٹس کھانا اور ان کے نام آنا بہت ضروری ہے۔
 
پنجاب کی بھولی بسری سوغات: 'پنجیری'

panjeri-760x330-gphZGn.jpg

پنجاب کی روایتی مٹھائیوں میں ویسے تو بہت سے نام شامل ہیں تاہم ان میں کئی سوغاتیں ایسی بھی ہے جو پنجاب کی بھولی بسری یادوں میں کہیں کھو کر رہی گئی ہیں۔

سوجی اور خشک میوہ جات کے ساتھ دیسی گھی کی بھینی بھینی خوشبو میں تیار کی جانے والی میٹھی سوغات 'پنجیری' بھی انہی میں سے ایک ہے۔

پنجیری یوں تو سردیوں کی خاص سوغات ہے لیکن اس کے ذائقہ اور خوشبو کے دلدادہ افراد اسے محفوظ کر کے موسم بہار تک استعمال میں لاتے رہتے ہیں کیونکہ اسے کئی عرصہ تک محفوظ کرنے سے بھی یہ خراب نہیں ہوتی۔

سردی کی آخری رتوں میں پنجیری کا تذکرہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اب یہ سوغات خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث گھروں سے غائب ہوتی جا رہی ہے گو کہ اس کا شمار کبھی گھریلو مٹھائیوں میں کیا جاتا تھا۔

محلہ سمادھانوالا کی دادی بشیراں بتاتی ہیں کہ پنجیری کے بنیادی اجزائے ترکیبی تو ایک جیسے ہی ہیں لیکن اس میں ذائقہ کے لیے خشک میوہ جات کا استعمال جیب کی اجازت پر انحصار کرتا ہے۔

"بنیادی اجزاء میں سوجی، دیسی گھی، شکر، بادام، مغزیات، کھوپرا، سونف، گوند کتیرا، کمرکس، الائچی اور اخروٹ شامل ہیں جس میں بوقت ضرورت دیگر میوہ جات بھی شامل کر لیے جاتے ہیں۔"


پنجیری لذید ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک مکمل غذا اور مؤثر دوا ہے بلکہ اس کی افادیت سے شہر کے حلوائی بھی انکاری نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ خالصتًا گھریلو مٹھائی ہے جسے گھر کی بزرگ خواتین یا عورتیں سردیوں کے دنوں میں خاص طور پر تیار کرتی لیکن اب یہ رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس میں ایک عنصر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا بھی ہے۔

"بچے کی پیدائش پر دودھ پلانے والی ماؤں کو پنجیری کھلانا ضروری تصور کیا جاتا تاکہ بچے کو ماں کا زائد دودھ میسر آ سکے تاہم دیگر اہل خانہ بھی پنجیری شوق سے کھاتے جس سے دو، تین کلو کے حساب سے بھی تیار کردہ یہ سوغات چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتی۔"

پنجیری بنانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے سوجی کو توے پر گرم کر کے بھون لیا جاتا ہے جس میں پھر دیسی گھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ بھونی ہوئی سوجی کو تڑکا لگ سکے۔

"بعد ازاں جب اس حلوے سے خوشبو آنے لگے تو اس میں لائچی، بادام، اخروٹ، مغز اور دیگر میوہ جات شامل کر دیں، اسے چند منٹ اور بھونیں پھر کچھ دیر کے لیے چولھا بند کر کے دم پر رکھ دیں، بعد ازاں شکر یا چینی ملا دیں اور یہ تیار ہے۔"

Collage-JdijUh.jpg

پنجیری لذید ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک مکمل غذا اور مؤثر دوا ہے بلکہ اس کی افادیت سے شہر کے حلوائی بھی انکاری نہیں ہیں۔

امین چغتائی کے نام سے مشہور زمانہ دکان کے مالک محمد امین بتاتے ہیں کہ سردیوں میں پنجیری کا استعمال ہر عمر کے فرد کے لیے فائدہ مند ہے جبکہ بزرگ افراد کے لیے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں پنجیری باقاعدہ طور مٹھائی میں شامل نہیں کی گئی لیکن شہر کے کئی افراد آڈر دے کر کئی، کئی کلو کے حساب سے پنجیری تیار کرواتے ہیں جس کی قیمت پانچ سے چھ سو روپے فی کلو کے حساب سے ہوتی ہے۔

"پنجیری کھانے میں مزیدار اور افادیت سے بھر پور ہے ہی لیکن اس میں شامل میوہ جات اس کے خالص پن اور منفرد ذائقہ کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔"

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجیری کی اصل لذت میوہ جات سے ہے لیکن اسے پنجیری کیوں کہا جاتا ہے اس کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔
سجاگ
 

جاسمن

لائبریرین
میں تو اس وقت بھی چائے کے ساتھ پنجیری کھا رہی ہوں۔
چنے کی دال دودھ میں بھگوئی تھی۔پسوائی ہے۔میری نند نے مجھے نشاشتہ بھی دیا ہے۔وہ بھی ڈالوں گی اس میں۔
کل ارادہ ہے حلوہ بنانے کا ان شاءاللہ۔
الحمداللہ کافی چیزیں بنائی اور کھائی جاتی ہیں ہمارے ہاں۔
السی کی کچھ پنیاں آئی ہیں بڑی نند کی طرف سے۔
میری پیاری ساس نے اور بھی بنا کے بھیجنی ہیں کچھ دنوں تک ان شاءاللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپس کی بات ہے شاہ جی، مجھے تو "بوہلی" کے نام سے ہی ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں، باقی دیگر پکوان مزے کے لگتے ہیں اور ان میں سے کبھی کبھی کچھ کھانے کو بھی مل جاتا ہے۔ ساگ تو ہر سردیوں میں پکتا ہے لیکن مکئی کی روٹی نہیں ملتی پراٹھے سے کام چلانا پڑتا ہے۔ مذکورہ دالیں چونکہ بنا کر ہفتوں تک کافی کھائی جاتی ہیں سو بچپن میں والدہ ان کو مجھ سے بچانے کے لیے اپنی الماری میں رکھتی تھیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
بوہلی سے یاد آیا۔میں نے کشمیر میں چند مہینے قیام کیا تھا۔ایک دن گھر گئی(جہاں رہائش تھی) تو پتہ چلا کہ بوہلی آئی ہے شبانہ کے گھر سے۔آپ بھی لے لیں۔لو جی میرے مزے ہو گئے۔پیالی بھر کے چمچ لیا۔۔۔۔۔
نمکین۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک دن پتہ چلا کہ آج کڑھی پکی ہے۔میں بہت خوش ہوئی۔جب کڑھی سامنے آئی تو لسی میں کڑم (ایک سبزی)تیر رہی تھی۔
 
Top