فنا بلند شہری کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں- فنا بلند شہری

کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے دردِ دل جس کی کوئی دوا نہیں

میری نمازِ عشق کو شیخ سمجھ سکا گا کیا
اس نے درِ حبیب پہ سجدہ کبھی کیا نہیں

مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں میرا کوئی خدا نہیں

کیسے ادا کروں نماز کیسے جھکاؤں اپنا سر
صحنِ حرم میں شیخ جی یار کا نقشِ پا نہیں

کیا ہیں اصولِ بندگی اہلِ جنوں کو کیا خبر
سجدہ روا کہاں پہ ہے سجدہ کہاں روا نہیں ٭

مجھ سے شروع عشق میں مل کے جو تم بچھڑ گئے
بات ہے یہ نصیب کی تم سے کوئی گلہ نہیں

مجھ کو رہِ حیات میں لوگ بہت ملے مگر
ان سے ملا دے جو مجھے ایسا کوئی ملا نہیں

اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں ٭

عشق کی شان مرحبا عشق ہے سنتِ خدا
عشق میں جو بھی مٹ گیا اس کو کبھی فنا نہیں​
فنا بلند شہری
نوٹ
"سجدہ روا کہاں پہ ہے سجدہ کہاں روا نہیں " یہ مصرعہ کتاب میں اس طرح درج ہے سجدہ روا کہاں پہ ہے سجدہ روا کہاں نہیں جو میرے خیال میں غلط ہے
2 "ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں" اس مصرعہ میں جلا کی جگہ ملا ہے جو میرے خیال میں غلط ہے
 
آخری تدوین:
مجھ سے شروع عشق میں مل کے جو تم بچھڑ گئے
بات ہے یہ نصیب کی تم سے کوئی گلہ نہیں

مجھ کو رہِ حیات میں لوگ بہت ملے مگر
ان سے ملا دے جو مجھے ایسا کوئی ملا نہیں
لاجواب
 
Top