محمد فضولی بغدادی کے چند تُرکی اشعار

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای فیض‌رسانِ عرب و تُرک و عجم
قېلدېن عربی افصحِ اهلِ عالَم
ائتدین فُصَحایِ عجمی عیسیٰ‌دم
بن تُرک‌زبان‌دان التفات ائیله‌مه کم
(محمد فضولی بغدادی)


Еy fеyzrəsani-ərəbü türkü əcəm
Qıldın ərəbi əfsəhi-əhli-aləm
Еtdin füsəhayi-əcəmi İsadəm
Bən türkzəbandan iltifat еyləmə kəm


ترجمہ:
اے عرب و تُرک و عجم کو فیض پہنچانے والے [خدا]!۔۔۔ تم نے عرب کو افصحِ اہلِ عالَم کیا۔۔۔ تم نے فُصَحائے عجم کو عیسیٰ نَفَس کیا۔۔۔ [پس] مجھ تُرک زبان سے [اپنی] اِلتِفات و توجہ کم مت کرنا!
× تُرک زبان = وہ شخص جس کی زبان تُرکی ہو

× یہ رُباعی محمد فضولی بغدادی کی کتاب «حدیقۃ السُعَداء» کے دیباچے سے مأخوذ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میرے پسندیدہ ترین ادیب ملّا محمد بن سلیمان فضولی بغدادی نے اپنے تُرکی دیوان کی اوّلین غزل کا آغاز اِس بیتِ مُلمّع سے کیا ہے:
قَد أَنارَ الْعِشْقُ لِلعُشّاقِ مِنْهاجَ الهُدا
سالکِ راهِ حقیقت عشقه ائیله‌ر اقتدا
(محمد فضولی بغدادی)

عشق نے عُشّاق کے لیے راہِ ہدایت روشن کر دی ہے؛ [لہٰذا] سالکِ راہِ حقیقت عشق کی اقتدا کرتا ہے۔

Saliki-rahi-həqiqət eşqə eylər iqtida
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشق‌دیر اۏل نشئهٔ کامل کیم اۏندان‌دېر مُدام
مَی‌دہ تشویرِ حرارت، نَی‌دہ تأثیرِ صدا
(محمد فضولی بغدادی)
عشق [ہی] وہ کامل سرمستی ہے کہ جس کے باعث ہمیشہ شراب میں جوشِ حرارت اور نَے میں تأثیرِ صدا [رہتی] ہے۔
× نَے = بانسری

Eşqdir ol nəş’eyi-kamil kim, ondandır müdam
Meydə təşviri-hərarət, neydə tə’siri-səda

ایک نُسخے میں مصرعِ ثانی میں 'تشویرِ حرارت' کی بجائے 'تنویرِ حرارت' درج تھا۔ لیکن تُرکیہ اور آذربائجان کے دیگر مآخذ میں 'تشویرِ حرارت' ہی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
اۏل سبب‌دن فارسی لفظیله چۏخ‌دور نظم کیم
نظمِ نازک تُرک لفظیله ایکن دشوار اۏلور
لهجهٔ ترکی قبولِ نظم و ترکیب ائتمه‌ییب
اکثرِ الفاظې نامربوط و ناهموار اۏلور
من‌ده توفیق اۏلسا، بو دشوارې آسان ائیلرم
نوبهار اۏلغاج دیکن‌دن برگِ گُل اظهار اۏلور
(محمد فضولی بغدادی)
لفظِ فارسی کے ساتھ (یعنی فارسی زبان میں) میری نظمیں اِس لیے بِسیار ہیں کیونکہ لفظِ تُرکی کے ساتھ نظمِ نازک و لطیف [کا لکھنا] دشوار ہوتا ہے۔ لہجۂ تُرکی نظم و ترکیب کو قبول نہیں کرتا اور اُس کے اکثر الفاظ نامربوط و ناہموار ہوتے ہیں۔ [لیکن] اگر مجھے توفیق میسّر ہو تو میں اِس مشکل کو آسان کر دوں گا۔ جب نوبہار آ جائے تو خار سے برگِ گُل ظاہر ہو جاتا ہے۔

Ol səbəbdən farsi ləfzilə çoxdur nəzm kim,
Nəzmi-nazik türk ləfzilə ikən düşvar olur.
Ləhceyi-türki qəbuli-nəzmü tərkib etməyib,
Əksəri-əlfazı namərbutü nahəmvar olur.
Məndə tovfiq olsa, bu düşvarı asan eylərəm,
Novbahar olğac dikəndən bərgi-gül izhar olur
.

'نظمِ نازک' سے شاعر کی مراد شاید غزل ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان سے شائع شدہ ایک نسخے میں مندرجۂ بالا قطعے کے مصرعِ ثالث میں 'قبولِ نظمِ ترکیب' نظر آیا ہے، لیکن دیگر نسخوں کی پیروی میں میری رائے یہی ہے کہ 'قبولِ نظم و ترکیب' درست ہے۔ تُرکیہ کے نسخوں میں مصرعِ پنجم میں 'من' کی بجائے 'بن' نظر آیا ہے کیونکہ اُن کے لہجے میں 'میں' کو 'بن' جبکہ آذربائجانی لہجے میں فارسی کی مانند 'من' کہتے ہیں۔ یہ صرف لہجوں کا فرق ہے اور قدیم تُرکی میں دونوں استعمال ہوتے تھے۔ اِسی طرح حالیہ دور کے ایک ایرانی آذربائجانی نسخے میں مصرعِ ششم میں 'اولغاج' اور 'دیکن' کی بجائے بالترتیب 'اولقاج' اور 'تیکن' نظر آیا ہے، اور یہ بھی محض لہجے کا فرق ہے۔ میں اکثر موارد میں آذربائجانی لہجے کے مطابق متن درج کروں گا۔ ویسے بھی آذربائجان اور تُرکیہ کے مطبوعہ نُسخوں میں صرف چند الفاظ کے تلفظ کا تفاوت ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
اۏل سبب‌دن فارسی لفظیله چۏخ‌دور نظم کیم
نظمِ نازک تُرک لفظیله ایکن دشوار اۏلور
لهجهٔ ترکی قبولِ نظم و ترکیب ائتمه‌ییب
اکثرِ الفاظې نامربوط و ناهموار اۏلور
من‌ده توفیق اۏلسا، بو دشوارې آسان ائیلرم
نوبهار اۏلغاج دیکن‌دن برگِ گل اظهار اۏلور
(محمد فضولی بغدادی)
اپنی مشہور نثری کتاب 'حدیقۃ السُعَداء' کے دیباچے میں بھی فضولی بغدادی نے اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے:
"اگرچه عبارتِ تُرکی‌ده بیانِ وقایع دشواردۆر، زیرا اکثرِ الفاظې رکیک و عبارتې ناهمواردۆر، امید که، همتِ اولیاء اتمامینه مساعد اۏلا و انجامینه معاونت قېلا."

"اگرچہ عبارتِ تُرکی میں بیانِ وقائع دشوار ہے، کیونکہ اُس کے اکثر الفاظ رکیک اور اُس کی عبارت ناہموار ہے، [لیکن] امید ہے کہ، اولیاء کا احسان اِس [کتاب] کے اتمام میں مساعدت اور اِس کے انجام میں معاونت کرے گا۔"

ذہن میں رکھنا چاہیے کہ امیر علی شیر نوائی اور محمد فضولی بغدادی کی تُرکی زبان میں عالمگیر ادبی تخلیقات سے قبل تُرکی زبان کا ادبی قد و وقار فارسی و عربی کے مقابلے میں بِسیار کم تھا۔ یہ نوائی و فضولی جیسے برجستہ و ممتاز شعراء و ادباء ہی تھے جنہوں نے تُرکی شاعری کو رشکِ فارسی بنایا تھا۔ محمد فضولی بغدادی کے سامنے اُس وقت تک چونکہ تُرکی کی قوی ادبی روایت موجود نہ تھی، اِس لیے اُنہوں نے فارسی کے مقابلے میں تُرکی میں شعر گوئی اور تصنیف و تألیف کو دشوار کہا ہے۔ لیکن حقّا کہ اُنہیں تُرکی زبان میں 'نظمِ نازک' کہنے میں موفقّیت حاصل ہو گئی، اور وہ اِس دشواری کو دیگروں کے لیے آسان کر گئے۔ خدا کی رحمت ہو اُن پر!
 
آخری تدوین:
شعرهای جالب و قشنگ اند--درین هیچ شک نیست که فضولی یکی از زیبا ترینِ شاعرانِ فارسی و ترکی است---و از شعرهایش این هم آشکارا شد که ترکیِ مفرّس هم زبانِ بسیار زیبایی‌ست---من همین‌گونه می‌خواهم که زبانِ اردو هم کاملاََ مفرّس باشد
 

حسان خان

لائبریرین
شعرهای جالب و قشنگ اند--درین هیچ شک نیست که فضولی یکی از زیبا ترینِ شاعرانِ فارسی و ترکی است---و از شعرهایش این هم آشکارا شد که ترکیِ مفرّس هم زبانِ بسیار زیبایی‌ست---من همین‌گونه می‌خواهم که زبانِ اردو هم کاملاََ مفرّس باشد
ترجمہ: "دلچسپ اور خوبصورت اشعار ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ فضولی فارسی و تُرکی کے ایک زیباترین شاعر ہیں۔۔۔ اور اُن کے اشعار سے یہ بھی آشکار ہو گیا کہ مُفرّس تُرکی بھی ایک بِسیار زیبا زبان ہے۔۔۔ میں اِسی طرح چاہتا ہوں کہ زبانِ اردو بھی بالکل مُفرّس ہو۔"

برادرم! زبانِ فارسی سے اظہارِ محبّت پر کوئی حَرف نہیں کہ اِس میں مَیں آپ کا ہم دل و ہم رائے ہوں، لیکن یہاں تبصرے لکھنے کے برائے اردو کا استعمال مناسب ہے، تاکہ جو چیز آپ نے لکھی ہے، وہ قاری کے لیے قابلِ استفادہ ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دوست بی‌پروا، فلک بی‌رحم، دوران بی‌سکون
درد چۏخ، هم‌درد یۏخ، دشمن قوی، طالع زبون
(محمد فضولی بغدادی)
دوست بے پروا ہے، فلک بے رحم ہے، دوران (گردشِ زمانہ) بے سکون ہے؛
درد بِسیار ہے، ہمدرد [کوئی] نہیں ہے، دشمن قوی ہے، اور بخت زبوں ہے۔

Dust bipərva, fələk birəhm, dövran bisükun
Dərd çox, həmdərd yox, düşmən qəvi, tale’ zəbun
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بیابان‌گرد مجنون‌دان غم و دردیم سؤال ائتمین
نه بیلسین بحر حالېن اۏل که منزل‌گاهې ساحل‌دیر؟
(محمد فضولی بغدادی)
بیاباں میں گھومنے والے مجنوں سے میرا غم و درد مت پوچھیے؛ وہ شخص حالِ بحر کیا جانے کہ جس کی منزل گاہ ساحل ہے؟

Biyabangərd Məcnundan qəmü dərdim sual etmin
Nə bilsin bəhr halın ol ki, mənzilgahı sahildir


باکو، جمہوریۂ آذربائجان سے شائع ہونے والے نسخے اور ایک عثمانی نسخے میں مصرعِ اول یہ نظر آیا ہے:
"بیابان‌لاردا مجنون‌دان غم و دردیم سؤال ائتمین"
بیابانوں میں مجنوں سے میرا غم و درد مت پوچھیے۔

جبکہ تُرکیوی ادبیات شناس مرحوم علی نہاد تارلان کی شرحِ دیوانِ فضولی میں مصرعِ ثانی کا متن یہ نظر آیا ہے:
"نه بیلسین غرقه حالېن اۏل که منزل‌گاهې ساحل‌دیر؟"
جس شخص کی منزل گاہ ساحل ہے وہ غرق شدہ فرد کا حال کیا جانے؟

بلبلِ شیراز حافظ نے بھی اِس طرح کا مضمون اپنی شہرۂ آفاق بیت میں ادا کیا تھا:
شبِ تاریک و بیمِ موج و گِردابی چنین هایل

کجا دانند حالِ ما سَبُک‌بارانِ ساحل‌ها؟
(حافظ شیرازی)
شبِ تاریک، خوفِ موج اور ایک ایسا ہولناک گِرداب۔۔۔۔ ساحلوں پر موجود سَبُک بار افراد ہمارا حال کہاں جانیں؟
× سَبُک بار = وہ شخص جس کے شانوں پر بار سَبُک (ہلکا) ہو؛ فارغ و آسودہ شخص
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
بیابان‌گرد مجنون‌دان غم و دردیم سؤال ائتمین
نه بیلسین بحر حالېن اۏل که منزل‌گاهې ساحل‌دیر؟
(محمد فضولی بغدادی)
بیاباں میں گھومنے والے مجنوں سے میرا غم و درد مت پوچھیے؛ وہ شخص حالِ بحر کیا جانے کہ جس کی منزل گاہ ساحل ہے؟

Biyabangərd Məcnundan qəmü dərdim sual etmin
Nə bilsin bəhr halın ol ki, mənzilgahı sahildir


باکو، جمہوریۂ آذربائجان سے شائع ہونے والے نسخے اور ایک عثمانی نسخے میں مصرعِ اول یہ نظر آیا ہے:
"بیابان‌لاردا مجنون‌دان غم و دردیم سؤال ائتمین"
بیابانوں میں مجنوں سے میرا غم و درد مت پوچھیے۔

جبکہ تُرکیوی ادبیات شناس مرحوم علی نہاد تارلان کی شرحِ دیوانِ فضولی میں مصرعِ ثانی کا متن یہ نظر آیا ہے:
"نه بیلسین بحر حالېن اۏل که منزل‌گاهې ساحل‌دیر؟"
جس شخص کی منزل گاہ ساحل ہے وہ غرق شدہ فرد کا حال کیا جانے؟

بلبلِ شیراز حافظ نے بھی اِس طرح کا مضمون اپنی ایک شہرۂ آفاق بیت میں ادا کیا تھا:
شبِ تاریک و بیمِ موج و گِردابی چنین هایل

کجا دانند حالِ ما سَبُک‌بارانِ ساحل‌ها؟
(حافظ شیرازی)
شبِ تاریک، خوفِ موج اور ایک ایسا ہولناک گِرداب۔۔۔۔ ساحلوں پر موجود سَبُک بار افراد ہمارا حال کیا جانیں؟
× سَبُک بار = وہ شخص جس کے شانوں پر بار سَبُک (ہلکا) ہو؛ فارغ و آسودہ شخص
بہت خوب، حسان بھیا! آپ یقینی طور پر فارسی اور اردو ادب کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں، اللہ پاک آپ کو جزا دے! یہاں کوئی آپ کی مدد کا منتظر ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
قلم اۏلسون الی اۏل کاتبِ بدتحریرین
که فسادِ رقمی سوروموزو شور ائیلر
گاه بیر حَرف سقوطیله قېلېر نادری نار
گاه بیر نقطه قصوریله گؤزۆ کور ائیلر
(محمد فضولی بغدادی)
اُس کاتبِ بدتحریر کا دست قلم ہو جائے، کہ جس کا فسادِ تحریر ہمارے 'سور' (جشن) کو 'شور' (پُرآشوب یا نمکین) کر دیتا ہے؛ گاہے ایک حرف کے سقوط سے 'نادر' کو 'نار' کر دیتا ہے؛ [اور] گاہے ایک نقطے کے سہو سے 'گؤز' (چشم) کو 'کور' (نابینا) کر دیتا ہے۔


Qələm olsun əli ol katibi-bədtəhririn
Ki fəsadi-rəqəmi surumuzu şur eylər
Gah bir hərf süqutilə qılır nadiri nar
Gah bir nüqtə qüsurilə gözü kur eylər


× یہ قطعہ دیوانِ تُرکیِ فضولی کے دیباچے میں موجود ہے۔
× محمد فضولی بغدادی کے زمانے کے تُرکی املاء میں 'گؤز' کو 'کوز' لکھا جاتا تھا۔
× 'سور' فارسی الاصل لفظ ہے جو جشن و بزم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ 'گؤز' تُرکی لفظ ہے جس کا معنی 'چشم' ہے۔
× ایک نسخے میں مصرعِ ثانی میں 'سوروموزو' کی بجائے 'سؤزۆمۆزو' نظر آیا ہے۔ 'سؤز' تُرکی میں لفظ یا سُخن کو کہتے ہیں۔ مصرع کا ترجمہ یہ ہو گا: کہ جس کا فسادِ تحریر ہمارے 'سؤز' (سُخن) کو 'شور' کر دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی

یہ نام کیا صرف مجھے ہی عجیب لگا ؟
فُضولی کے دو مختلف معانی مراد لیے جا سکتے ہیں:
۱۔ متجسّس اور دوسروں کے اُمور میں بے جا مداخلت کرنے والا
۲۔ 'فُضول'، 'فضل' (یعنی علم و دانش) کی جمع ہے۔ لہٰذا فضولی کا معنی ہوا 'فُضُول' سے نسبت رکھنے والا

بہ ہر حال، فضولی نے اپنے دیوانِ فارسی میں 'فضولی' تخلص منتخَب کرنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ جب اُنہوں نے شاعری شروع کی تھی تو اُن کا دل جس تخلص کی جانب مائل ہوتا تھا، اُس کا کوئی شریک ظاہر ہو جاتا تھا اور اُن کو تخلص تبدیل کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا اُنہوں نے 'فضولی' تخلص اختیار کر لیا، کیونکہ کوئی اور شاعر یہ تخلص منتخَب نہیں کرے گا اور وہ ہم تخلص شاعروں کی تشویش سے آزاد ہو جائیں گے۔

پس نوشت: اُن کا نام محمد بن سلیمان تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بیر پری سلسلهٔ عشقینه دۆشدۆم ناگه
شیمدی بیلدیم سببِ خلقتِ آدم نه ایمیش
(محمد فضولی بغدادی)

میں ایک پری کی زنجیرِ عشق میں ناگاہ گرفتار ہو گیا؛ اب مجھے معلوم ہوا کہ آدم کی تخلیق کا سبب کیا تھا۔

Bir pəri silsileyi-eşqinə düşdüm nagəh
Şimdi bildim səbəbi-xilqəti-adəm nə imiş


× ایک جا مصرعِ اول کا متن یہ نظر آیا ہے:
"بیر پری سلسلهٔ زلفۆنه دۆشدۆم ناگه"
میں ایک پری کی زنجیرِ زلف میں ناگاہ گرفتار ہو گیا
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنی ایک نعتیہ غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
یا نبی لُطفۆن فضولی‌دن کم ائتمه اۏل زمان

کیم اۏلور تسلیم مفتاحِ درِ غُفران سانا
(محمد فضولی بغدادی)
اے نبی! جس وقت کہ درِ مغفرت کی کلید آپ کو سونپی جائے گی، اُس وقت فضولی پر اپنے لطف کو کم مت کیجیے گا۔

Ya nəbi lütfün Füzulidən kəm etmə ol zaman
Kim olur təslim miftahi-dəri-ğüfran sana
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قېل تفاخر کیم سنین هم وار من تک عاشقین
لیلی‌نین مجنونو شیرین‌ین اگر فرهادې وار
(محمد فضولی بغدادی)
اگر لیلیٰ کے پاس مجنون، اور شیرین کے پاس فرہاد ہے تو تم فخر کرو کہ تمہارے پاس بھی مجھ جیسا عاشق ہے۔

Qıl təfaxür kim sənin həm var mən tək aşiqin
Leylinin Məcnunu Şirinin əgər Fərhadı var

 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی ایک حمدیہ غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
یا رب بلایِ قیده فضولی اسیر‌دیر

اۏل بی‌دلی بو دامِ کدورت‌دن ائت رها
(محمد فضولی بغدادی)
یا رب! فضولی بلائے قید میں اسیر ہے؛ اُس بے دل کو اِس دام کُدورت و آلودگی سے رہائی دلا دو۔
× دام = جال

Ya rəb, bəlayi-qeydə Füzuli əsirdir
Ol bidili bu dami-küdurətdən et rəha
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقوڭ‌ده مُبتَلالېغومې عَیب ایده‌ن سانور
کیم اۏلماق اختیار ایله‌دۆر مُبتَلا ساڭا
(محمد فضولی بغدادی)


تمہارے عشق میں میرے مُبتَلا ہونے پر جو شخص ملامت کرتا ہے، اُسے [یہ] گُمان ہے کہ [گویا] تمہارے [عشق میں] مُبتَلا ہونا اِختِیار کے ساتھ ہے۔۔۔
(یعنی اگر میں تمہارے عشق میں مُبتَلا ہوا ہوں تو خود کے اِختِیار و اِرادہ کے ساتھ نہیں ہوا ہوں، بلکہ تم کو دیکھنے والا ہر ایک شخص بےاِختِیار ہی تم پر عاشِق ہو جاتا ہے، لہٰذا میں لائقِ سرزَنِش نہیں ہوں اور میری سرزَنِش کرنے والا شخص غلطی پر ہے۔)

'Işḳuñda mübtelâlıġumı 'ayb iden ṣanur
Kim olmaḳ iḫtiyâr iledür mübtelâ saña
(Fuzûlî)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سجده‌گاه ائتمیش‌دی عشق اهلی قاشېن محرابې‌نې
قېلمادان خیلِ ملائک سجدهٔ آدم هنوز
(محمد فضولی بغدادی)
ہنوز گروہِ ملائک نے آدم کو سجدہ [بھی] نہ کیا تھا کہ اُس سے قبل اہلِ عشق تمہاری محرابِ ابرو کو سجدہ گاہ بنا چکے تھے۔

Səcdəgah etmişdi eşq əhli qaşın mehrabını
Qılmadan xeyli-məlaik səcdeyi-Adəm hənuz

حافظ شیرازی کی مندرجۂ ذیل بیت دیکھیے:
نبود نقشِ دو عالم که رنگِ اُلفت بود

زمانه طرحِ محبت نه این زمان انداخت
(حافظ شیرازی)
ہنوز دو جہاں کا نقش وجود میں نہ آیا تھا کہ [اُس سے قبل] اُلفت کا رنگ [اور عشق و محبت کا شیوہ] موجود تھا؛ زمانے نے رسمِ محبت کی بنیاد اِس عہد میں نہیں ڈالی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پردهٔ چشمیم مقام ائتمیش‌دی بیر ترسابچه
اۏلمادان مهدِ مسیحا دامنِ مریم هنوز
(محمد فضولی بغدادی)
ہنوز دامنِ مریم مسیحا کا گہوارہ [بھی] نہ بنا تھا کہ اُس سے قبل ایک طفلِ مسیحی میرے پردۂ چشم کو [اپنا] مقام بنا چکا تھا۔ (یعنی میرے پرد‌ۂ چشم میں مقیم ہو چکا تھا۔)

Pərdeyi-çeşmim məqam etmişdi bir tərsabeçə
Olmadan məhdi-Məsiha daməni-Məryəm hənuz
 
آخری تدوین:
Top