ایران میں صائب تبریزی کی دوبارہ مقبولیت کا ایک سبب شبلی نعمانی تھے

حسان خان

لائبریرین
ایران کے مجلُۂ وحید میں ۱۹۶۷-۸ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاجکستانی ادبیات شناس عبدالغنی میرزایف لکھتے ہیں:

"آثار شاعر بزرگ سدهٔ یازدهم ایران میرزا محمد علی بن میرزا عبدالرحیم متخلص به صائب، اگر خطا نکنم، از اوایل سدهٔ بیستم میلادی و اگر روشن‌تر به مسئله نزدیک شویم، از تاریخ نشر 'شعرالعجم' تألیف علامه شبلی نعمانی به این طرف اهمیت فوق‌العاده تازه‌ای پیدا کرد. دانش‌مند شهیر هند در این اثر خود، بر خلاف فکر غلط و بی‌اساس مؤلف تذکرهٔ 'آتش‌کده' میرزا محمد علی صائب را آخرین شاعر بزرگ ایران اعلام نمود. پس از این همان نوعی که معلوم است، دقت اصحاب تحقیق بیش از پیش به طرف آثار گران‌بهای این شاعر نامی روانه گردید."

"ایران کے گیارہویں صدی ہجری کے شاعرِ بزرگ میرزا محمد علی بن میرزا عبدالرحیم متخلص بہ صائب کی تألیفات نے، اگر خطا نہ کروں تو، بیسویں صدی عیسوی اور اگر واضح تر و درست تر کہا جائے تو علامہ شبلی نعمانی کی تألیف 'شعرالعجم' کی نشر کے بعد سے یہاں ایک تازہ و خارقِ عادت اہمیت پیدا کی تھی۔ ہند کے مشہور دانشمند نے اپنی اِس تصنیف میں، تذکرۂ 'آتشکده' کے مؤلف کی غلط و بے اساس رائے کے برخلاف میرزا محمد علی صائب کو ایران کا آخری بزرگ شاعر اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں، جیسا کہ معلوم ہے، اصحابِ تحقیق کی نظر و توجہ قبل سے کہیں زیادہ اِن شاعرِ نامور کی گراں بہا تألیفات کی جانب مُنعَطِف ہو گئی تھی۔"

عبدالغنی میرزایف، یک مدرک تاریخی جدید راجع به صائب، مجلهٔ وحید، شمارهٔ اول - سال پنجم، ۱۹۶۷-۸ء
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
علامہ شبلی برصغیر کے چند فضلاء میں سے ہیں جن کی ایران میں بہت توقیر کی جاتی ہے، "شعر العجم" فارسی میں ترجمہ بھی ہو چکی ہے۔ علامہ شبلی ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، مؤرخ، محقق، نقاد، عالم، ادیب، شاعر، مدیر، مدرس۔ برصغیر میں عموماً اپنے ایک شاہکار "سیرت النبی" ہی کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں وگرنہ ان کی شخصیت کی باقی جہتیں بھی قابلِ صد ستائش ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
علامہ شبلی برصغیر کے چند فضلاء میں سے ہیں جن کی ایران میں بہت توقیر کی جاتی ہے، "شعر العجم" فارسی میں ترجمہ بھی ہو چکی ہے۔ علامہ شبلی ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، مؤرخ، محقق، نقاد، عالم، ادیب، شاعر، مدیر، مدرس۔ برصغیر میں عموماً اپنے ایک شاہکار "سیرت النبی" ہی کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں وگرنہ ان کی شخصیت کی باقی جہتیں بھی قابلِ صد ستائش ہیں۔
میں نے اِسی ہفتے جمہوریۂ آذربائجان کی ایک تُرکی کتاب میں بھی شبلی نعمانی اور اُن کی 'شعرالعجم' کا ذکر دیکھا تھا۔ :)
ویسے، صائب کی مقبولیت صرف ایران میں کم ہوئی تھی، اور وہ بھی صفوی دور کے بعد کی 'بازگشتِ ادبی' کی ادبی تحریک کے زمانے میں۔ ورنہ تُرکستان، دیارِ آلِ عثمان اور برِ صغیر میں صائب ہمیشہ ہی بے حد مقبول و معروف رہے تھے۔ اگرچہ، اِس زمانے میں صائب کی ایران میں جو مقبولیت ہے، اُسے دیکھتے ہوئے مشکل ہی سے یقین آتا ہے کہ ایک زمانے میں صائب تبریزی اور اُن کے سبکِ شعری کو یوں نظروں سے گرا دیا گیا تھا۔ صائب کے مقام میں اِس تنزّل کے لیے عموماً تذکرۂ 'آتشکدہ' کے مؤلف لطف علی بیگ آذر بیگدلی کو ذمّہ دار مانا جاتا ہے، جنہوں نے اپنی اِس پُرنفوذ تألیف میں صائب تبریزی کی شاعری پر نکتہ چینی کی تھی۔ تیجتاً، قاجاری دور میں صائب حاشیے پر چلے گئے تھے اور کسی قاجاری شاعر نے اُن کے اسلوب کی پیروی کرنا یا اُن کے دیوان پر زیادہ توجہ دینا پسند نہ کیا۔ حالانکہ یہی صائب تبریزی صفوی دربار کے ملک الشعراء تھے۔
اور اب حال یہ ہے کہ ایران و آذربائجان کے اکثر ادبیات دوست افراد صائب کو اپنا ایک بہترین شاعر مانتے ہیں۔ :)


آذر بیگدلی ہی تحریکِ بازگشتِ ادبی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔
 
آخری تدوین:
Top