روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں

نوید ملک

محفلین
روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں
جسمِ افلاک میں ہم صورتِ جاں رہتے ہیں

ہیں دل دہر میں ہم صورتِ امید نہاں
مثلِ ایماں رُخِ ہستی پہ عیاں رہتے ہیں

جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں
اور دیکھو تو قریبِ رگِ جاں رہتے ہیں

ہر نفس کرتے ہیں اک طرفہ تماشا پیدا
ہم سرِ دار بھی تزئین جہاں رہتے ہیں

اور بھی اہلِ نظر ہیں کبھی دیکھو تو سہی
ہم بھی اس شہر میں اے کم نظراں رہتے ہیں

دل کی دھڑکن سے ملا اُنکا پتہ کچھ ہم کو
کس کو معلوم تھا ورنہ وہ کہاں رہتے ہیں

وسعتِ دشت نہیں راس چمن زادوں کو
ہم ترے شہر کی جانب نگراں رہتے ہیں

اشک گرتے ہیں تو کچھ دل کو سکون ملتا ہے
ہائے وہ لوگ جو محرومِ فغاں رہتے ہیں

زندگی بھر کا احباب سے اس دشت میں ساتھ
مثلِ جاں رہتے ہیں ہم عرش جہاں رہتے ہیں

عرش صدیقی
 

عمر سیف

محفلین
جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں
اور دیکھو تو قریبِ رگِ جاں رہتے ہیں

اشک گرتے ہیں تو کچھ دل کو سکون ملتا ہے
ہائے وہ لوگ جو محرومِ فغاں رہتے ہیں

زندگی بھر کا احباب سے اس دشت میں ساتھ
مثلِ جاں رہتے ہیں ہم عرش جہاں رہتے ہیں


خوب ۔۔۔
 
Top