عرش صدیقی

  1. پ

    بس ایک ہی کیفیتِ دل صبح و مسا ہے - ارشادالرحمٰن عرش صدیقی

    بس ایک ہی کیفیتِ دل صبح و مسا ہے ہر لمحہ مری عمر کا زنجیر بہ پا ہے میں شہر کو کہتا ہوں بیاباں کہ یہاں بھی سایہ تری دیوار کا کب سر پہ پڑا ہے ہے وقت کہ کہتا ہے رکوں گا نہ میں اک پل تو ہے کہ ابھی بات مری تول رہا ہے میں بزم سے خاکسترِ دل لے کے چلا ہوں اور سامنے تنہائی کے صحرا کی ہوا ہے...
  2. پ

    آنکھوں میں کہیں اس کے طوفاں تو نہیں تھا - ارشادالرحمٰن عرش صدیقی

    آنکھوں میں کہیں اس کے طوفاں تو نہیں تھا وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا کیوں مجھ سے نہ کی اس نے سرِ بزم کوئی بات میں سنگِ ملامت سے گریزاں تو نہیں تھا ہاں حرفِ تسلی کے لئے تھا میں پریشاں پہلو میں مرے دل تھا ، کہستاں تو نہیں تھا کیوں راستہ دیکھا کیا ، اس کا سرِ شام بے درد کا...
  3. پ

    بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا - ارشادالرحمٰن عرش صدیقی

    بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا خود اس کے پاس جاؤں نہ اس کو بلاؤں پاس پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا اس پر غلط ہے عشق میں الزام دشمنی قاتل ہے میرے حجلہء جاں میں چھپا ہوا ہیں جسم و جاں بہم یہ مگر کس کو خبر ہے کس کس جگہ سے دامن دل ہے سلا ہوا ہے...
  4. نوید ملک

    روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں

    روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں جسمِ افلاک میں ہم صورتِ جاں رہتے ہیں ہیں دل دہر میں ہم صورتِ امید نہاں مثلِ ایماں رُخِ ہستی پہ عیاں رہتے ہیں جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں اور دیکھو تو قریبِ رگِ جاں رہتے ہیں ہر نفس کرتے ہیں اک طرفہ تماشا پیدا ہم سرِ دار بھی تزئین جہاں...
  5. پاکستانی

    اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

    اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے اسے...
Top