نصیر الدین نصیر تیرے ابرووں‌ کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں -- سید نصیر الدین نصیر

الف نظامی

لائبریرین
تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم

"پیمانِ شب" از سید نصیر الدین نصیر
 

بےباک

محفلین
نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیا زبردست شعر ہے ، واہ واہ ،
سید نصیر الدین نصیر صاحب نے سچ میں الفاظ کے موتی پروتے ہیں
بہت ہی خوب ، مکرر
 

یوسف سلطان

محفلین

ہمیں جب کہ اپنا بنا لیا تو ہے ربط کس لیے ہم سے کم
یہ حجاب کیا، یہ گریز کیوں، رہیں سامنے تو وہ کم سے کم


غمِ آرزو، غمِ جستجو، غمِ امتحاں، غمِ جسم و جاں
مری زندگی کی بساط کیا، مری زندگی تو ہے غم سے کم

یہ مقامِ ناز و نیاز ہے، مرا دل ہی محرمِ راز ہے
وہ نوازتے ہیں بہ مصلحت ہمیں التفات و کرم سے کم

ترے آستاں کا فقیر ہُوں، مگر آپ اپنی نظیر ہُوں
مری شانِ فقر جہان میں نہ ملے گی شوکتِ جَم سے کم

یہ کہا گیا، یہ سُنا گیا، یہ لکھا گیا، یہ پڑھا گیا
نہ جفا ہوئی کبھی تم سے کم، نہ وفا ہوئی کبھی ہم سے کم

وہی نسبتیں، وہی رفعتیں، وہی رونقیں، وہی عظمتیں
مرے دل میں جب سے وہ ہیں مکیں، نہیں یہ مکاں بھی حرم سے کم


ترے اَبروؤں کی حسیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قُزَاح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اُس نے مئے سُخن
مجھے پاس اپنے بُلا لیا، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں جس میں تیری تجلیاں، اُسے جانچتی ہے نظر کہاں
ترے نُور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے، کبھی عینِ شَے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ، کسی آئنے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب، ہیں ضیا فگن، نہیں اس میں شک
ہے مُسَلَّم ان کی چمک دَمک، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو، یہی مدّعا، کبھی وقت ہو تو سُنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیرؔ دفترِ راز ہے، یہ غبارِ راہِ نیاز ہے
کریں اِس پہ اہلِ جہاں یقیں، نہیں اِس کا قول، قسم سے کم

(پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ )


 
آخری تدوین:
Top