حسان خان

لائبریرین
ای بادِ عصر اگر گذری بر دیارِ بلخ
بگذر به خانهٔ من و آنجا بجوی حال
بنگر که چون شده‌ست پس از من دیارِ من
با او چه کرد دهرِ جفاجویِ بدفِعال
(منسوب به ناصر خسرو)
اے بادِ عصر! اگر تم دیارِ بلخ پر سے گذرو تو [وہاں] میرے خانے کی طرف گذر کرنا اور وہاں حال دریافت کرنا۔۔۔ نگاہ کرنا [اور بتانا] کہ میرے بعد میرے دیار کا حال کیا ہو گیا ہے اور دہرِ جفاجو و بدکردار نے اُس کے ساتھ کیا کیا ہے۔
× خانہ = گھر
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلام کن ز من ای باد مر خراسان را
مر اهلِ فضل و خرد را نه عام نادان را
(ناصر خسرو)
اے باد! میری جانب سے خُراسان [اور خُراسانیوں] کو سلام کرنا۔۔۔ [لیکن صرف] اہلِ فضل و خِرَد کو، عام نادان [افراد] کو نہیں۔۔۔
× 'عام نادان را' کی بجائے 'عام و نادان را' بھی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
شادم ز طعنِ خلق کہ مرغانِ باغِ عشق
شاخے کہ سنگ می رسدش، آشیاں کنند


عجزی تبریزی

لوگوں کے طعنوں سے میں خوش ہوں (بجائے کڑھنے کے) کیونکہ باغِ عشق کے پرندے، اُسی شاخ پر آشیاں بناتے ہیں کہ جس شاخ تک (لوگوں کے) پتھر پہنچتے ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تمنایِ بقایِ عمر در دل داشتم امّا
برون کرد آرزویِ تیغت از دل این تمنا را
(محمد فضولی بغدادی)

میں دل میں بقائے عمر کی تمنّا رکھتا تھا لیکن تمہاری تیغ کی آرزو نے اِس تمنّا کو دل سے بیرون کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مظهرِ سِرِّ حق و آیینهٔ گیتی‌نما
جز مَیِ صاف و رخِ زیبا ‌نمی‌دانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)

مئے صاف اور رُخِ زیبا کے سوا ہم کسی چیز کو مظہرِ رازِ حق اور آئینۂ جہاں نُما نہیں جانتے۔
× آئینۂ جہاں نُما = دنیا دِکھانے والا آئینہ
 

حسان خان

لائبریرین
رسمِ زهد و شیوهٔ تقویٰ نمی‌دانیم ما
عشق می‌دانیم و بس این‌ها نمی‌دانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)
رسمِ زُہد و شیوهٔ تقویٰ ہم نہیں جانتے۔۔۔۔ ہم عشق جانتے ہیں اور بس، یہ چیزیں ہم نہیں جانتے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیست ما را در جهان با هیچ کاری احتیاج
هیچ کاری غیرِ استغنا نمی‌دانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)

ہمیں دنیا میں کسی بھی کام کی حاجت نہیں ہے؛ ہم بے نیازی کے سوا کوئی کام نہیں جانتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شیوهٔ تقلید و رسمِ اعتبار از ما مجو
کار و بارِ مردمِ دنیا نمی‌دانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)
ہم سے شیوۂ تقلید اور رسمِ عبرت کی تلاش مت کرو؛ ہم مردُمِ دنیا کے کار و بار نہیں جانتے۔
× فرہنگوں میں 'اعتبار' کا معنی 'قدر و منزلت و آبرو' بھی درج ہے، اور 'عبرت حاصل کرنا' بھی۔ میں نے مصرعے میں اِس لفظ کے 'تقلید' کے ساتھ عَطْف کے باعث 'عبرت' کے معنی کو ترجیح دی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں 'گیرم' اِن مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے:
میں نے فرض کیا، میں نے تصور کیا، میں نے مانا، میں نے قبول کیا، میں نے تسلیم کیا۔۔۔
میرے ذہن میں لڑکپن سے یہ شعر یوں محفوظ ہے۔
ہرچند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش۔
 

حسان خان

لائبریرین
میرے ذہن میں لڑکپن سے یہ شعر یوں محفوظ ہے۔
ہرچند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش۔
میں نے بھی اِس شعر کو یوں ہی سنا ہے اور سبب یہ ہے کہ علّامہ اقبال نے اِسی شکل میں یہ شعر مقتبس کیا تھا، لیکن ریحان بھائی نے یہاں گنجوری نسخے، اور اکبر بهداروند و پرویز عباسی داکانی کی تصحیح سے ایران میں شائع ہونے والے کلیاتِ بیدل کے نسخے کا متن ارسال کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذکورہ نسخوں میں مصرعِ اول میں 'آشفتگی' کی بجائے 'دیوانگی' ملتا ہے۔
 
آخری تدوین:
میں نے بھی اِس شعر کو یوں ہی سنا ہے اور سبب یہ ہے کہ علامّہ اقبال نے اِسی شکل میں یہ شعر مقتبس کیا تھا، لیکن ریحان بھائی نے یہاں گنجوری نسخے، اور اکبر بهداروند و پرویز عباسی داکانی کی تصحیح سے ایران میں شائع ہونے والے کلیاتِ بیدل کے نسخے کا متن ارسال کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذکورہ نسخوں میں مصرعِ اول میں 'آشفتگی' کی بجائے 'دیوانگی' ملتا ہے۔
مجھے ی کے اسقاط کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے۔ کیا فارسی میں بھی ی کا اسقاط اردو کی طرح جائز ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے ی کے اسقاط کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے۔ کیا فارسی میں بھی ی کا اسقاط اردو کی طرح جائز ہے؟
میں فی الحال اِس کا جواب نہیں دے سکتا، کیونکہ مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے۔ ویسے بھی عروضی اصول و قواعد سے متعلق میری معلومات ابتدائی ہی ہیں۔ :)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

گر رافضیان را کُشم ای دوست رواست
آن کُشتنِ من موافقِ حکمِ خداست
هر کس که ز ما دوست شود با ایشان
او را مشمر دوست که او دشمنِ ماست
(عبیدالله خان اُزبک)
اے دوست! اگر میں رافضیوں کو قتل کروں تو روا ہے؛ میرا وہ قتل کرنا حکمِ خدا کے موافق ہے؛ ہم میں سے جو شخص بھی اُن کے ساتھ دوست ہو جائے اُسے دوست مت شمار کرو کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن خُروسی که تو را دعوت کند سویِ خدا
او به صورت مُرغ باشد در حقیقت انگلوس
(مولانا جلال‌الدین رومی)

جو مرغا تمہیں خدا کی جانب دعوت دیتا ہے وہ صورتاً تو پرندہ ہے [لیکن] در حقیقت وہ فرشتہ ہے۔
× اِس بیت میں مولانا رومی نے یونانی لفظ 'انگلوس' استعمال کیا ہے، جس کا معنی 'فرشتہ' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

ای رافضیان هلاک خواهم کردن
ناپاکانید پاک خواهم کردن
با پُشتهٔ خاک پُشت تا چند نهید
چون پُشتهٔ خاک خاک خواهم کردن
(عبیدالله خان اُزبک)
اے رافضیو! میں تمہیں ہلاک کر دوں گا؛ تم سب ناپاک ہو، پاک کر دوں گا (یعنی محو کر دوں گا)؛ پُشتۂ خاک کے ساتھ کب تک پُشت لگاؤ گے؟ میں پُشتۂ خاک کی طرح [تمہیں] خاک کر دوں گا۔
× پُشتہ = ٹیلا
 

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

اهلِ بدعت که دشمنِ دینِ خداست
مردودِ پیمبر است و اصحابِ هُداست
هر کس که کُشد رافضیان را به خدا
می‌دان به یقین که او دل و دیدهٔ ماست
(عبیدالله خان اُزبک)
اہل بدعت کہ جو دینِ خدا کا دشمن ہے، وہ پیمبر (ص) اور اصحابِ ہُدا (رض) کی جانب سے رد کیا ہوا ہے؛ جو شخص بھی رافضیوں کو خدا کی خاطر قتل کرے، بالیقین جانے رکھو کہ وہ ہمارا دل و دیدہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دلا زهدِ ریایی هیچ کس را خوش ‌نمی‌آید
شعارِ خود مکن بهرِ خدا این وضعِ ناخوش را
(محمد فضولی بغدادی)

اے دل! زُہدِ ریائی کسی شخص کو پسند نہیں آتا؛ خدا کے لیے، اِس وضعِ ناپسند کو اپنا شِعار مت بناؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

تا گشت به من لطفِ خدا یار ای دل
شد قومِ قزلباش نگون‌سار ای دل
از لطفِ خدا امیدوارم که شود
شه‌زادهٔ آن قوم گرفتار ای دل
(عبیدالله خان اُزبک)
اے دل! جب سے خدا کا لطف میرا یار ہوا، قومِ قزلباش نگوں سار ہو گئی؛ اے دل! خدا کے لطف سے میں امید کرتا ہوں کہ اُس قوم کا شہزادہ اسیر ہو جائے۔
× قِزِلباش = صفویوں کے مرید اور غالی و متعصب شیعہ تُرک جنگجوؤں کو اُن کی سرخ کُلاہ کے باعث قِزِلباش (قِزِل = سرخ، باش = سر) کہا جاتا تھا۔ صفوی دور کے ماوراءالنہری و عثمانی ادبیات میں یہ لفظ مطلقاً 'شیعہ' کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

خصمِ تو ز غصّه جاودان سوخته باد
از سوزِ درونِ خود نهان سوخته باد
هر رافضی که قصدِ دینِ تو کند
از آتشِ حربِ سُنّیان سوخته باد
(عبیدالله خان اُزبک)
تمہارا دشمن غم سے ہمیشہ جلا رہے؛ اپنے سوزِ دروں سے مخفیاً جلا رہے؛ جو رافضی بھی تمہارے دین کی طرف سوءِ قصد کرے، وہ سُنّیوں کی آتشِ جنگ سے جل جائے۔

× ماوراءالنہر کے شیبانی امیر کی اِن رباعیوں کو اِرسال کرنے کا مقصد شیعوں کے خلاف اپنے کینہ و دشمنی کا اظہار کرنا نہیں ہے کہ 'من و اِبغاضِ شیعه، این چه حکایت باشد؟'، بلکہ میرا مقصدِ نہائی صرف یہ ہے کہ 'شیعی کیونکر ہو ماوراءالنہری' کی چند تاریخی ادبی مثالیں پیش کی جائیں تاکہ مصرعِ مذکور کا تاریخی پس منظر واضح ہو سکے۔
× مجھے مندرجۂ بالا رباعی کے مصرعِ سوم میں وزن میں خلل معلوم ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مصرع یوں ہو: هر رافضی‌ای که قصدِ دینِ تو کند...
 
آخری تدوین:
Top