سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

واہ واہ منیب صاحب کیا کہنے۔
آڈیو اور وہ بھی موسیقی کے ساتھ۔ کیا کہنے۔ شکریہ
جناب کی قدر افزائی ہے۔
آپ کا تخلص بھی فاتح ہے۔ :)
پہلے میں بھی فاتح استعمال کیا کرتا تھا۔ مگر اب صرف منیب احمد ہی لکھتا ہوں۔
 
قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا

ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا


عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا

یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا

چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا


کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا
ظہیراحمدظہیر بھیا سبحان اللہ، کیا خوب کلام عطا کیا ہے، لطف سے جھوم رہا ہوں اب تک۔
 
میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں

دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں

یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں

وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں

ظہیراحمدظہیر بھیا ماشاءاللہ، کیا خوب اشعار ہیں، ایسے مشکل قافیہ کو نبھانا اور وہ بھی اس طرح کہ مضمون قائم رہے اور روانی بھی رہے یہ آپ کا ہی خاصہ ہے۔ بہت مزہ آیا۔ سلامت رہیں۔
 
ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے

کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے


اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے

اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا
اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا

اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا

رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر ہوئی نظر
بینائی کھوگئی تو مجھے آئنہ ملا
ظہیراحمدظہیر بھیا بہت خوب، بہت اعلیٰ۔ داد قبول فرمائیں۔
 
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے

شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے

مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے

دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے

عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے
ظہیراحمدظہیر بھیا، میں آپ کا فین ہو گیا، ایک ایک شعر پوری غزل کے برابر ہے۔ کیا مفہوم ہے، کیا روانی ہےِ، کیا جدتِ خیال ہے۔ سبحان اللہ، بہت ساری داد پیشِ خدمت ہے۔
 
حسن بھائی بہت بہت شکریہ! بڑی نوازش! اللہ سلامت رکھے ۔ آپ سے استدعا ہے کہ مجھے استاد محترم وغیرہ کہہ کر شرمندہ نہ کیا کریں ۔ مین اس کا اہل نہیں ۔ آپ مجھے ظہیر بھائی یا انکل یا سر وغیرہ یا جو جی چاہے کہہ لیا کیجئے ۔ امید ہے مرا مان رکھیں گے ۔
قبلہ بے شک الامر فوق الادب۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن استاد کو استاد نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔۔۔؟؟
 

فاتح

لائبریرین
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر احمد ظہیر بھیا! اقتباسات لینے لگی تھی مگر سمجھ نہیں آئی کہ چھوڑوں کیا؟
ہر شعر کمال!!!!!!!
زبردست!!!!!
ہمیں آپ کے ہمارے درمیان موجود ہونے پہ فخر ہے!! :in-love:
بہت شکریہ مریم بیٹا ! بہت نوازش !! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور کمال ِبے زوال عطا فرمائے !!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر بھیا، میں آپ کا فین ہو گیا، ایک ایک شعر پوری غزل کے برابر ہے۔ کیا مفہوم ہے، کیا روانی ہےِ، کیا جدتِ خیال ہے۔ سبحان اللہ، بہت ساری داد پیشِ خدمت ہے۔
بہت بہت شکریہ امجد بھائی ! یہ سراسر آپ کی ذرہ نوازی ہے ! جب اہلِ قلم سے پذیرائی ملے تو سمجھئے کہ محنت وصول ہوجاتی ہے ۔ آپ کی ان محبتوں کا مقروض ہوں ! اللہ آپ کو سلامت رکھے اور دونوں جہان کی نعمتیں عطا فرمائے ۔
 

فاتح

لائبریرین
محترم شرکاءِ محفل السلام علیکم!
سب سے پہلے تو اس خوبصورت محفل ِ مشاعرہ کو سجانے کے لئے منتظمین جناب خلیل صاحب، مقدس صاحبہ، تابش صدیقی ، حسن محمود اور بلال اعظم صاحبان کا ازحد شکریہ لازم ہے ۔ اتنی خوبصورت محفل بہت دنوں کے بعد کہین نظر آئی ۔ اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ۔ بہت ممنون ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کا موقع دیا گیا ۔

صدرِ مشاعرہ محترمی و مکرمی استادِ گرامی جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔
پہلے ایک تازہ غزل ۔

قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا

ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا

کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے
بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا

۔ق ۔
پارہء ابر ہٹا سینہء مہتاب سے جب
عشوہء ناز سرِ خلوتِ شب یاد آیا

عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا

پھر مری توبہء لرزاں پہ قیامت گزری
پھر مجھےرقصِ شبِ بنتِ عنب یاد آیا

یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا

۔

چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا


کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا


آپ کی اجازت سے ایک اور تازہ غزل پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں

دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں

خمارِ شام، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں

بجا ہے طعنہء باطل مری دلیلوں پر
ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں

یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں

وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں


ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے

کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے


اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے

اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا
اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا

اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا

رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر ہوئی نظر
بینائی کھوگئی تو مجھے آئنہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب آخر میں مصرعِ طرح پر کچھ طبع آزمائی ۔
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے

شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے

چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر
اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے

مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے

دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے

عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے

خواتین و حضرات بصر خراشی کے لئے معذرت چاہتا ہوں ۔ :):):) برداشت کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔ السلام علیکم ۔
واہ واہ واہ ظہیر بھائی، اتنا خوبصورت کلام عطا کرنے کے بعد آپ نے مجھ جیسے الفاظ گھڑنے والے کو تو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کچھ پیش کر سکوں۔
ڈھیروں داد اور مبارک باد ان خوبصورت تخلیقات پر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ ظہیر بھائی، اتنا خوبصورت کلام عطا کرنے کے بعد آپ نے مجھ جیسے الفاظ گھڑنے والے کو تو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کچھ پیش کر سکوں۔
ڈھیروں داد اور مبارک باد ان خوبصورت تخلیقات پر
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فاتح بھائی ! ہمیشہ کی طرح یہ آپ کی محبت اور اعلیٰ ظرفی ہے ۔ اس حقیر کے گھڑے ہوئے یہ الفاظ آپ کو پسند آئے تو سمجھئے محنت وصول ہوئی ۔ بہت نوازش !! بہت شکریہ!! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ شادآباد رکھے اور اپنی امان کا سایہ سر پر رکھے ! آمین! آپ کی باری کا تو انتظار ہے ۔ بہت عرصے بعد آپ کا نیا کلام پڑھنے کو ملے گا ۔ اچھا ہوا کہ اس مشاعرے کے بہانے آپ کے قلم کا یہ جمود ٹوٹنے لگا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیف و سُرور و لذّتِ نظّارگی تو دیکھ
ہر یک مَسامِ جاں ہے بصارت لیے ہوئے

میری حدیثِ دل پہ ترا تبصرہ ستم
تیرا سخن ہے ضُعفِ روایت لیے ہوئے
واہ واہ واہ!! بہت اعلیٰ !! ہر یک مسامِ جاں ہے بصارت لئے ہوئے !! کیا اچھا کہا ہے فاتح بھائی ! سلامت رہیں !
خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون
خوبصورت!! سبحان اللہ سبحان اللہ! ایک ازلی حقیقت ہے !

لوحِ وجود میں پیوستہ تھا، روح و قلب سے وابستہ
اپنا آپ گنوا بیٹھے ہیں ہم اک نام مٹانے میں
واہ واہ!!
کوئی طنابیں خاطر میں کب لاتا ہے طوفانِ عدم
دیر ہی کتنی لگتی ہے یہ خیمۂ جاں اڑ جانے میں
بہت اعلیٰ!! دیر ہی کتنی لگتی ہے یہ خیمۂ جاں اڑ جانے میں ۔ کیا مصرع دیا ہے جناب !! واہ واہ!
 
واہ واہ، فاتح بھائی۔ ایک غیر ادبی سی داد دے رہا ہوں۔ کرکٹ میں کہتے ہیں کہ فارم عارضی ہے لیکن کلاس مستقل۔
آج اس کا ایک اور تجربہ ہو گیا۔
مزا آ گیا کلام پڑھ کر بھی اور سن کر بھی۔
خاص کر ان اشعار نے تو بہت لطف دیا۔
کیف و سُرور و لذّتِ نظّارگی تو دیکھ
ہر یک مَسامِ جاں ہے بصارت لیے ہوئے

میری اوقات، سیکھتا ہوں فُنون
تیرا منصب، کہے تُو کُن، فَیَکُون
بے شک۔
خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون
کاش کہ ہم سمجھ سکیں
دکھتی رگ سے بھی واقف ہے اور میری برداشت سے بھی
ورنہ کیا تفریق بچی تھی اپنے اور بیگانے میں

ایک شرابِ طہور کی خاطر کس کس کو ہم ترک کریں
قدم قدم پر نشّے بچھے ہیں دنیا کے مے خانے میں
آ ہاہاہا۔ کیا ہی سچا نقشہ کھینچا ہے دنیا کا۔

بہت سی داد فاتح بھائی۔ امید ہے مشاعرہ کے بعد اس سلسلے کو توڑیں گے نہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے تو انتظامیہ کی ہمت کو داد پیش کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے مصروف اوقات میں سے مستقل مزاجی سے خصوصی وقت نکال کر مشاعرے کی نظامت کے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے بعد صدر گرامی کی اجازت سے دو اشعار، دو غزلیں اور مصرع طرح پر اپنی کوشش آپ کی سماعتوں اور بصارتوں کی نذر کرتا ہوں:

کیف و سُرور و لذّتِ نظّارگی تو دیکھ
ہر یک مَسامِ جاں ہے بصارت لیے ہوئے

میری حدیثِ دل پہ ترا تبصرہ ستم
تیرا سخن ہے ضُعفِ روایت لیے ہوئے
(فاتح)​


میری اوقات، سیکھتا ہوں فُنون
تیرا منصب، کہے تُو کُن، فَیَکُون

خواب میں خواب سی حلاوتِ وصل
کون دے ہجرتی کو تیرے بدون

خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون

عکس اپنا ہی اجنبی سا لگے
وقت کے چاک پر وہ بگڑی جُون

چشمِ قاتل میں احمری ڈورے
ہاں، جدھر دیکھیے اُدھر ہی خون

سر میں سودا تھا، پھُوٹتا ہی رہا
نقشِ دیوار ہو گیا ہے جنون

یہ جہاں ہو یا وہ جہاں فاتحؔ
جس کی طاقت اسی کا ہے قانون
(فاتح)​


کیسی ادا تھی کر دیا شامل بوسۂ نطق بہانے میں
کیا کوئی اس کا ثانی ہو گا روٹھا یار منانے میں

لوحِ وجود میں پیوستہ تھا، روح و قلب سے وابستہ
اپنا آپ گنوا بیٹھے ہیں ہم اک نام مٹانے میں

شامِ عنایتِ دزدیدہ کی یاد میں بیتا اپنا دن
مت پوچھو کیا جشن سہے ہیں ہجر کی رات منانے میں

دکھتی رگ سے بھی واقف ہے اور میری برداشت سے بھی
ورنہ کیا تفریق بچی تھی اپنے اور بیگانے میں

ایک شرابِ طہور کی خاطر کس کس کو ہم ترک کریں
قدم قدم پر نشّے بچھے ہیں دنیا کے مے خانے میں

کوئی طنابیں خاطر میں کب لاتا ہے طوفانِ عدم
دیر ہی کتنی لگتی ہے یہ خیمۂ جاں اڑ جانے میں
(فاتح)​


اور اب پیش ہے مصرع طرح پر غزل کی کوشش۔۔۔ حالانکہ یہ مصرع طرح میں نے ہی تجویز کیا تھا لیکن ایک عرصے سے جو بانجھ پن طاری ہے اس کے باعث یہ پانچ چھے اشعار کہنا بھی کارِ دشوار تھا اور جیسے تیسے کر کے ہی کیے ہیں گر قبول افتد زہے عز و شرف:

کیا کمالِ جذب پنہاں جذبۂ کامل میں ہے
منزلِ مجذوب گویا جادۂ منزل میں ہے

کل تلک اک نرخرہ کٹنے ہی کی آواز تھی
آج برپا شور محشر کوچۂ قاتل میں ہے

انجمن تھا جو مری اور میرا سب کچھ تھا کبھی
اب فقط اک دوست ہے اور یاروں کی محفل میں ہے

منحصر لوحِ مورخ پر سبھی عدل و ستم
عدل جیسے قصّۂ نوشیراں عادل میں ہے

لٹ گیا باغ محبت اور ثمر برباد لیک
کُو کُو کُو کُو کی صدا ہی نغمۂ کوئل میں ہے

داخلہ ممنوع میرا، تذکرہ جاری ہے یہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
(فاتح)​

کیا کہنے جناب فاتح صاحب، ہر شعر ہی لاجواب ہے، موتی پروئے ہوئے ہیں، اور آواز کا جادو الگ سے۔ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ بہت داد آپ کے لیے۔ سبھی اشعار بہت پسند آئے لیکن یہ تو کچھ بہت ہی بھا گئے۔

خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون
-----
ایک شرابِ طہور کی خاطر کس کس کو ہم ترک کریں
قدم قدم پر نشّے بچھے ہیں دنیا کے مے خانے میں
----

کیا کمالِ جذب پنہاں جذبۂ کامل میں ہے
منزلِ مجذوب گویا جادۂ منزل میں ہے

واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔
 
بہت بہت شکریہ امجد بھائی ! یہ سراسر آپ کی ذرہ نوازی ہے ! جب اہلِ قلم سے پذیرائی ملے تو سمجھئے کہ محنت وصول ہوجاتی ہے ۔ آپ کی ان محبتوں کا مقروض ہوں ! اللہ آپ کو سلامت رکھے اور دونوں جہان کی نعمتیں عطا فرمائے ۔
آمین،جزاک اللہ
 
میری اوقات، سیکھتا ہوں فُنون​
تیرا منصب، کہے تُو کُن، فَیَکُون

خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون

سر میں سودا تھا، پھُوٹتا ہی رہا
نقشِ دیوار ہو گیا ہے جنون

یہ جہاں ہو یا وہ جہاں فاتحؔ
جس کی طاقت اسی کا ہے قانون
سبحان اللہ، بہت خوب فاتح بھیا بہت خوب
 
Top