سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

فاتح

لائبریرین
عزیزانِ محفل، خصوصاً جنابِ صدر اعجاز عبید صاحب اور مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
میں شکر گذار ہوں اس مشاعرہ کے منتظمین، خصوصاً خلیل الرحمن صاحب، تابش صدیقی صاحب، عزیزہ مقدس حیات اور حسن محمود جماعتی صاحب کا جنہوں نے مشاعرے میں شرکت کے لیے مجھے لائق سمجھا۔
عرض ہے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں۔ البتہ خود کو ادب کا ایک سنجیدہ قاری ماننے میں کسی انکسار کو حائل نہیں جانتا۔ چند ہی تک بندیاں کی ہیں جو کہ اس لائق نہیں کہ پیش کی جاسکیں۔ اور اب ایک عرصے سے طبیعت پر انتہا کا جمود طاری ہے جس کا سبب شاید میری غیر ادبی و غیر تخلیقی مشغولیات اور رسمی تعلیم و تعلم کے سلسلوں کا بارِ گراں ہے جو کہ اب بھی مزید کئی سال کا طلبگار ہے۔ لیکن برتر حقیقت یہی ہے کہ یہ اوپر ساری خامہ فرسائی اپنی کم مایگی اور نالائقی کے اعتراف سے بچنے کا حیلہ ہی ٹھہری۔ اور یہ جو "بسمل" اپنے نام کے ساتھ لگا رکھا ہے اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ میں شاعر ہوں۔ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ بہر حال، اب چونکہ میرا نام پکارا جا چکا ہے، اور سوائے اس کے کوئی راہِ نجات نہیں کہ کچھ "موزوں سطریں" نذرِ محفل کرکے جان کی امان پاؤں۔ اساتذہ اور پختہ کار شعرا سے درخواست ہے کہ اس ناقص کی یہ گستاخی (جس کا ایک نظم کی صورت میں یہاں ارتکاب کر رہا ہوں) در گزر فرمائیے گا۔

نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​
آپ نے تمہید میں ایسی رقت کے ساتھ معافیاں مانگی ہیں کہ آپ کے صدق دل پر یقین سا آنے لگا ہے اور اب واقعی معاف کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ ;)
مذاق برطرف۔۔۔ بہت خوب نظم ہے میاں۔ جمود و نمود کا سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا لیکن اس خوبصورت تخلیق پر بہت سی داد
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم،

سب سے پہلے تو اس لاجواب محفل کے خوبصورت مشاعرے کے مشفق و مہربان و سلیقہ و ہنر مند منتظمین محترم خلیل صاحب، مقدس بہن، تابش صدیقی صاحب، جماعتی صاحب اور بلال صاحب کو مبارکباد۔

اب چونکہ مجھے یاد فرمایا گیا ہے، منتظمین کی مہربانی سے، تو عرض کروں کہ بلا مبالغہ سات آٹھ سال بعد کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ دو چار غزلوں سے خود پر شاعر ہونے کی تہمت لگوا رکھی ہے اور اب تو طبیعت بالکل بھی ادھر نہیں آتی لیکن حکم حاکم۔۔۔۔۔۔ پرانی غزلیں اور رباعیاں سنانے کا فائدہ نہیں کہ ہیں ہی کتنی سو مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق نئی غزل کہنی ہی پڑی۔ مصرع طرح کی بحر میرے مزاج سے ہٹ کر تھی سو بدل دی بلکہ بدل گئی اور قافیہ بھی الف کی قید سے آ گیا، ردیف بہرحال وہی ہے اور شعر پانچ ہی ہیں گویا فرض ہی پورا کیا ہے :)

سوختنی ہی سہی لیکن سُن لیجیے۔ صدرِ مشاعرہ محترم و معظم جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے:

عرض کیا ہے

ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے

تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے

تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے


والسلام
واہ واہ واہ
حکم حاکم، مرتا کیا نہ کرتا، فرض ہی پورا کیا اور سوختنی کے لاحقوں کے ساتھ بھی کمال غزل کہہ ڈالی۔ ڈھیروں داد
اور ان لاحقوں کے بغیر بھی کہہ لیا کریں حضور۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ
حکم حاکم، مرتا کیا نہ کرتا، فرض ہی پورا کیا اور سوختنی کے لاحقوں کے ساتھ بھی کمال غزل کہہ ڈالی۔ ڈھیروں داد
اور ان لاحقوں کے بغیر بھی کہہ لیا کریں حضور۔ :)
یہ بھی خوب کہی، لیکن حکم ہی ایسا تھا کہ کیا کرتا :)
 
واہ واہ اچھی غزلیں ہیں۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ بطور میزبان آپ کو تو سب سے پہلے کلام پیش کرنا چاہیے تھا، یہ عین بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑے؟ :)
قبلہ غزل زیر اصلاح تھی تو انتظامیہ نے اتنی چھوٹ دے دی۔۔۔۔بندہ نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
صدرمشاعرہ اعجاز صاحب محترم مہمانِ خصوصی منیر انور صاحب ،تمام شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اپنی معذرت بھی پیش کرتا ہوں کچھ ذاتی مسائل اورمصروفیات کے سبب اور یہاں حج کی سرگرمیوں کے آغاز کی وجہ سے جو تاخیر کا سبب بنے۔
مبارکباد خلیل صاحب کو ، مقدس بہن کو، تابش صدیقی صاحب کو ، جماعتی صاحب کو اور بلال صاحب کو او دیگر وابستگان محفل کو کہ ایسی موقر ادب کی محفل سجا ئی کہ تشنہ لبوں کو سیراب کیا اور بہتیرے رنجوروں کو مسرور کرنے کا سامان کیا ۔
میری شرکت باعث صد مسرت ہے کہ اس کا اہل نہیں ،سو احباب کی ایسی تکریم کے شکریئے کا حق ادا کرنے قاصر ہوں۔
کچھ نہ کچھ پیش کرنا بھی کیوں کہ مسرت کا ایک لاینفلک حصہ تھا سو اپنے حصے کے پراگندہ خیالات پیش کرنے کا ارادہ بھی کیا۔ اور اسی نسبت سے ماحضر پیش خدمت کرنے کی جسارت اجازت کے ساتھ کرتا ہوں۔
عرض ہے کہ۔

ایک ان سے جو بھول ہو جائے
اپنی محنت وصو ل ہوجائے
-
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
-
جس کو مل جائے عشق کا پیغام
وہ وفا کا رسول ہوجائے
-
بے جنوں، جو چلے ترا رستہ
اپنے قدموں کی دھول ہوجائے
-
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
-
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
-
زخم دل مندمل ہوا چاہے
تجھے دیکھے تو پھول ہو جائے
-
دیکھ کر تیرے عارض گلگوں
گل سے شبنم خجول ہا جائے
-

ایک طرحی جسارت بھی اہل محفل کی نذرعرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہے
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"


اجازت چاہوں گا۔​
آداب و تسلیمات ۔
واہ واہ واہ جناب کیا ہی خوبصورت غزل اور طرحی مصرع پر غزل کا تو جواب نہیں۔
جیسا مصرع آپ نے لگایا ہے طرح پر اس جیسا رواں مصرع لگانا کارِ دشوار ہے
 

شکیب

محفلین
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
وہ دعا لب پہ جو ہیں آتی۔۔۔ خوب عاطف بھائی۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
بالکل۔۔۔۔ "یہاں" محفل میں ہے۔ بہت سی داد۔
 
کیا کہنے عاطف بھائی۔ لاجواب۔ کیا خوب غزل پیش کی ہے، خاص طور پر یہ اشعار تو بہت ہی پسند آئے:
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے

تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے

اور مصرعِ طرح پر غزل کا تو جواب نہیں۔ بہت عمدہ۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہے
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے

نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"

کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے

چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا اسی مشکل میں ہے

کیا تخیل ہے، سبحان اللہ
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
آداب آداب۔ نوازش، کرم، عنایت فاتح بھائی۔ غزل کا کون سا شعر زیادہ پسند آیا۔۔۔:)
دل سے کہیے گا۔ میرا دل رکھنے کے لیے نہیں! :)
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے
 

صفی حیدر

محفلین
ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے

تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے

تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
واہ واہ واہ سر ۔۔۔۔۔۔ لاجواب بے مثل تخلیق ہے ۔۔۔ تمام اشعار بہترین ہیں ۔۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
ایک ان سے جو بھول ہو جائے
اپنی محنت وصو ل ہوجائے
-
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
-
جس کو مل جائے عشق کا پیغام
وہ وفا کا رسول ہوجائے
-
بے جنوں، جو چلے ترا رستہ
اپنے قدموں کی دھول ہوجائے
-
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
-
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
-
زخم دل مندمل ہوا چاہے
تجھے دیکھے تو پھول ہو جائے
-
دیکھ کر تیرے عارض گلگوں
گل سے شبنم خجول ہا جائے
-

ایک طرحی جسارت بھی اہل محفل کی نذرعرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہے
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
۔
نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
بہت ہی خوب واہ واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایک شعر لا جواب ہے ایسے کہ انتخاب کرنا کارِ دشوار ہے ۔۔۔ تمام اشعار پر ڈھیروں داد قبول کیجئے ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک ان سے جو بھول ہو جائے
اپنی محنت وصو ل ہوجائے
-
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
-
جس کو مل جائے عشق کا پیغام
وہ وفا کا رسول ہوجائے
-
بے جنوں، جو چلے ترا رستہ
اپنے قدموں کی دھول ہوجائے
-
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
-
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
-
زخم دل مندمل ہوا چاہے
تجھے دیکھے تو پھول ہو جائے
-
دیکھ کر تیرے عارض گلگوں
گل سے شبنم خجول ہا جائے
-

ایک طرحی جسارت بھی اہل محفل کی نذرعرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہے
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
۔
نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"


اجازت چاہوں گا۔​
آداب و تسلیمات ۔

کیا خوبصورت غزلیں ہیں سید صاحب محترم، بہت داد قبول کیجیے، لاجواب۔
 
عرض کیا ہے
ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے

تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے

تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے


والسلام
خوب اشعار ہیں وارث بھائی۔
ماشا اللہ !
 
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
واہ
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
کیا کہنے !!
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
واااااہ
دونوں غزلیں عمدہ ہیں عاطف بھائی ۔
لطف آ گیا۔ ماشا اللہ۔
 
Top