سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

فاتح

لائبریرین
اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد

سب سے پہلے ایک نعت کے دو اشعار

جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ متفرق اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا

پھر وہی شامِ غریباں کا دھواں آنکھوں میں
پھر وہی ہاتفِ غیبی کی صدا، جانے دے

میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم چاند کی کرنوں کو سنبھالے ہوئے رکھو
وہ نور کی صورت سرِ محرابِ دعا آئے

لفظوں کا اجالا ہے جو تم دیکھ رہے ہو
خوشبو سی سماعت ہے، تمہیں کون بتائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا

ایک دنیا ہے مرے درپئے آزار جدا
پھر بھی ملتا نہیں مجھ کو کوئی غم خوار جدا

کچھ مرے عہد کی قسمیں بھی جدا ٹھہری ہیں
کچھ مرے دوست، ترا وعدۂ ایثار جدا

کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا

کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا
واہ واہ واہ بلال کیا کہنے۔ تمہاری اکثر غزلیں لا جواب ہوتی ہیں۔ زورِ قلم ہمیشہ بڑھتا رہے۔
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ھو
میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے سخن شناس احباب کے درمیان مجھے بھی اپنے سیدھے سادھے اشعار پیش کرنے کا موقع ملا

ایک مطلع اور چند اشعار غزل کے حاضرِ خدمت ہیں
غزل
وہ اپنی ہتک آپ بلانے کو چلے تھے
جو نام و نشاں میرا مٹانے کو چلے تھے

سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے

افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے

جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
تھے

کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے

پتھر بھی جو روتے تو تعجب نہیں ہوتا
ہم حالِ شکستہ جو سنانے کو چلے تھے

اپنوں سے تو رکھا نہ تعلق کوئی فائق
رشتہ تو زمانے سے نبھانے کو چلے تھے

مصرع طرح. ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
مطلع
آرزو خود سے شناسائی کی میرے دل میں ہے
پر کہاں امکان اس کا حال و مستقبل میں ہے

بات دل کی کیا ہمارے وہ تمہارا ہے اسیر
کوئی وقعت بھی ہماری کیا تمہارے دل میں ہے

اس کی جانب جو گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
بس خدا جانے کشش کیسی تری محفل میں ہے

غیر ممکن ہے وہ آئے گا جنازے پر مرے
اہمیت کوئی کہاں میری دلِ قاتل میں ہے

کل بھی ہم مقتول تھے اور آج بھی مقتول ہیں
بوکھلاہٹ پھر بھی آخر کیوں صفِ باطل میں ہے

واجباً گرچہ نہیں ہے_احتیاطاً ہے_مگر
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے

اب اجازت چاہوں گا شکریہ
محتاجِ دعا
واہ واہ کیا خوب اشعار ہیں محمد فائق صاحب۔
 

ربیع م

محفلین
آن لائن مشاعرے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن تبصرہ جات کی لڑی میں انٹری کی ہمت نہیں ہو رہی!!

سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کس کو داد دی جائے۔

ماشاءاللہ سبھی شعراء کرام کا کلام ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے!
 

فاتح

لائبریرین
آداب۔۔۔ ابتدا ایک فی البدیہہ غزل سے

مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں


پڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا
عوض قرضوں کے حرمت قوم کی بیچی نہ جاتی تھی
جسے اب فائدہ کہتے ہیں وہ نقصان ہوتا تھا
وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا
یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

آخر ميں ایک پرانی غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

اب اجازت چاہوں گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
نوٹ:بطور قاری شامل رہوں گا مشاعرے میں
مانی صاحب، بہت اچھی کوشش ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔
مشاعرے کے منتظمین اور شرکاء نے اس مشاعرے میں چار چاند لگا دیے ہیں۔
یہ خاکسار بھی چند بے ڈھب سے اشعار غزل کے نام پر لے کر حاضرِ خدمت ہے۔
پہلے ایک زیرِ ترتیب غزل سے چند اشعار
-----------------------------------
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !

-----------------------------------
ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں۔ آپ احباب کی توجہ چاہونگا۔

مطلع عرض کیا ہے۔
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بھلا لگتا ہے جب میں دیکھتا ہوں ایک آہنگ میں
ہوا میں پٹ ہلاتی کھڑکیاں آہستہ آہستہ !

یہ سگریٹ منظرِ شامِ غریباں پیش کرتی ہے
بھرا کرتی ہے کمرے میں دھواں آہستہ آہستہ!

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

سبق لے سیکھ لے دل گفتگو میں خود ستائش کی
بھری جاتی ہیں کیسے چسکیاں آہستہ آہستہ!

کسی کی یاد سے چونکا ہوں یا پھر واقعی یہ ہے
گھلی ہیں چائے میں کچھ تِلخیاں آہستہ آہستہ!

اور غزل کا مقطع پیش کر رہا ہوں۔
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
سیّد کاشف
-----------------------------------

مشاعرے کے لئے ایک طرحی غزل بھی پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔

چچا غالب کی غزل کا مصرع ہو اور دل نا مچلے ! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا !


بے قراری کا یہ جُز، کیا قربتِ منزل میں ہے ؟
یا خمیرِ ذات کا حصّہ ہے، میری گِل میں ہے ؟


دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

اک سراب آرزو سے ہم ہوئے ہیں دستکش
پیش انجانا سفر اب اک نئی منزل میں ہے

اے نشاطِ امتحاں، مدّت وہ دل کو شاق ہے
عرصۂِ امن و اماں، جو ہر پسِ مشکل میں ہے!

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!



ڈھونڈ لائے کاش وہ روشن نگیں غیروں سے تُو
اصل میں گھر جس کا تیرے سینہءِ غافل میں ہے

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
سیّد کاشف
----------------------------
ایک بار پھر تمام منتظمین کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر دلی مبارکباد۔
کاشف اسرار صاحب، تینوں غزلیں ہی بہت خوبصورت ہیں۔ بہت لطف آیا۔
 

فاتح

لائبریرین
مجھے اس شاندار مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا۔ اس کے لیے آپ سب کا شکرگزار ہوں۔
زیادہ نہیں، بس دو ہی غزلیں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پہلی مصرع طرح کے مطابق ہے۔ عرض کیا ہے:
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے
حاملِ خاصیتِ صحرا نوردی اب بھی ہیں
ہے جنوں محمول لیلیٰ پر اگر محمل میں ہے
مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے​
بعد اس کے،
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ

بہت شکریہ!
واہ واہ منیب صاحب کیا کہنے۔
آڈیو اور وہ بھی موسیقی کے ساتھ۔ کیا کہنے۔ شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
لیجئے ہم بھی حاضر ،تاخیر کی معذرت

غزل
تو اپنی زات کے زنداں سے گر رہائی دے۔
تو مجھ کو پھر میرے ہمزاد کچھ دکھائی دے ۔
بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری ،
مرے خدا ! مجھے اتنی بڑی خدائی دے ۔
میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں،
وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے ۔
اُسے غرور ِ عطا ہے ،کوئی تو اب آ ئے ،
جو اُس کے دست میں بھی کاسہِ گدائی دے۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔

------

غزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔

---
واہ واہ کیا ہی خوب غزلیں ہیں۔ بہت سی داد ایمان صاحبہ
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم سب کو

سلام کے بعد ایک غزل حاضر هے

شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی
تمہارے قرب کی لذت سے ہوگئے واقف
بسر کریں گے ، بنا تم یہ زندگانی بھی
سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
وہی تو ایک حسینہ ہے میرے گاؤں کی
ملی ہے موت بھی جس سے و زندگانی بھی
وہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی

ایک اور بھی برداشت کی جیے


جب پڑی اس کی ضرورت مجھ کو
تب ملی خوب عداوت مجھ کو
پہلے مشغول رہا غیبت میں
اب عطا کر دی ہے تہمت مجھ کو
جب کبھی پایا ہے تنہا اس کو
نہ ہوئی بات کی ہمت مجھ کو
وہ جفا کار جفا کر گزرا
اس نے بخشی ہے یہ دولت مجھ کو
پھر تو اس کو بھی پریشاں پایا
جب ہوئی اور سے چاہت مجھ کو

شکریه
واہ واہ عمدہ ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شکریہ محمود چاہت کا محبت کا کہ اب
مجھ کو شاعر کہ رہے ہو گو کہ ذرہ ہوں یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے

سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے

گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرانا کلام جو مجھے بہت عزیز ہے ایک بار پھر سے حاضر خدمت ہے

تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں​
واہ فیصل عظیم صاحب۔ اچھی کوشش ہے
 

فاتح

لائبریرین
محترم صدرِ محفل، محترم مہمانِ خصوصی، محترم انتظامیہ اور تمام محترم محفلین کی خدمت میں آداب
ہرمحفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں، محفلِ مشاعرہ کے تو خاص آداب ہوتے ہیں لیکن میرا کلام پڑھتے وقت صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ آپ کی زوجہ محترمہ کی نظر میرے کلام پر نہ پڑ جائے (بصورتِ دیگر ذمہ داری آپ کی اپنی ہوگی)۔
امید ہے کہ آپ سب میرے اشعار کی گہرائی میں غوطہ زن ہونے کی بجائے صرف داد دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ اشعار کا مطلب آپ بعد میں سمجھتے رہیئے گا۔ سمجھ آگئے تو آپ کے نصیب بصورتِ دیگر یقین کر لیجیئے گا کہ الہامی کلام ہے۔



زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر

بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر​



کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں

چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں​



چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے

ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے

ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے

دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"

میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے

دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے

میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے

دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟

آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے

ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​



(So Boring)

ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ

مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ

گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ

گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ

چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ

شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ

ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ

میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ

میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“​



یہاں میں اپنی بیوی کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گا جس کے تعریفی اور تنقیدی رویے نے اس مشاعرے کے لئے کلام مکمل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، حالانکہ بحیثیتِ بیوی یہ کافی مشکل کام تھا۔
شکریہ بیگم۔
واہ واہ امجد صاحب اور آپ کی بیگم کا شکریہ بھی
 

فاتح

لائبریرین
منتظمین اور دیگر افراد کے شکریے کے ساتھ ایک غزل۔


اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے​

اور مصرع طرح پر میری طبع آزمائی:

قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
مار ڈالے گی ہمیں پتھر دلی کے باوجود
کچھ ستاروں سی چمک جو دیدۂ سائل میںہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
واہ واہ نمرہ صاحبہ۔ ہمیشہ کی طرح خوبصورت غزلیں
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم منتظمین و قارئین کرام ۔۔۔۔
حکم کی تعمیل میں ایک ادنی سی کوشش پیش خدمت ہے ۔۔۔۔

غزل
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ

میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ

کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ

نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ

بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ

پس ِ وجود ِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ِ ہستی ِ دوراں وُرود میں نا رکھ

ذوالفقار نقوی ۔۔ انڈیا



السلام علیکم ۔۔۔ تاخیر کے لئے معذرت ۔۔۔میرا نیٹ ایک مسئلہ تھا ۔۔۔۔
بہر حال حکم کی تعمیل میں ایک اور غزل پیش ِ خدمت ہے ۔۔۔۔۔

دشت میں دھوپ کی بھی کمی ہے کہاں
پاؤں شل ہیں مگر بے بسی ہے کہاں

لمس ِ دشت ِ بلا ہی کی سوغات ہے
میرے اطراف میں بے حسی ہے کہاں

خاک میں خاک ہوں ، بے مکاں بے نشاں
میرا ملبوس ِ تن خسروی ہے کہاں

میرا سوز ِ دروں مائل ِ لطف ہو
مجھ میں شعلہ فشاں وہ نمی ہے کہاں

پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں

صوت و حرف ِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں

ذوالفقار نقوی ۔۔۔ انڈیا
واہ واہ واہ ذوالفقار صاحب۔ کیا ہی خوبصورت غزلیں ہیں۔ بہت سی داد
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ مقدس آپ کا۔
صدر محفل کی اجازت سے۔۔۔۔
سب سے پہلے صدر محفل و میر محفل کو آداب اور سلام عرض ہے۔
جملہ محفلین، اراکین، قارئین، ناظرین، حاضرین، وابستگان اور مہمانان کو ہماری ہر دل عزیز اور بہت ہی پیاری "اردو محفل" کی گیارہویں سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔
؎ پھلا پھولا رہے یا رب چمن ہماری امیدوں کا​
دعا ہے باری تعالی ہماری اس اردو محفل کو اسی طرح شاد آباد اور پر رونق رکھے ہمیں اس محفل سے اور آپس میں محبت عطا کرے۔
اجازت کے ساتھ۔۔۔۔
اس شعر سے آغاز کرتا ہوں، عرض کیا ہے کہ۔۔۔
؎ لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے​

ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔

؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر​


اس قطعہ اور غزل کے ساتھ اجازت۔۔۔۔۔

؎ وسعت ذات میں کھویا ہوں تجھے پایا ہے
جس جگہ دیکھتا ہوں یہ ترا سایہ ہے
میں کہ افلاک کی گردش کو کہاں چھو سکتا
یہ ترا لمس افق پار تلک لایا ہے​




لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں

قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں

اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں

عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں

زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں

آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں

جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں

ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں

والسلام شکریہ
حسن محمود جماعتی​
واہ واہ اچھی غزلیں ہیں۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ بطور میزبان آپ کو تو سب سے پہلے کلام پیش کرنا چاہیے تھا، یہ عین بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑے؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
تمام سخن شناس احباب کو دل کی گہرائیوں سے السلام علیکم
اور اردو محفل کا بہت بہت شکریہ کہ مجھ ناچیز کو اس مشاعرہ میں شرکت کا موقع دیا. اور اب جناب برداشت کی جیے میرا ﭨﻮﭨﺎ ﭘﮭﻮﭨﺎ ﮐﻼﻡ
سب سے پہلے اک نظم
عنوان ہے "شکایت"

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﮨﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﺲ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ
ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﮦ
ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺗﻮ
ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ
ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ
ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺟﺎﻥِ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ
ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺩﻭ ﺟﺴﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ

اور اب ایک غزل پیشِ خدمت ہے

ﻣﺴﮑﻦ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ

ﺩﻝ ﮐﺶ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﻤﺎﮞ
ﻣﺤﻔﻞ ﭘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ

ﻧﻮﺭِ ﺳﺤﺮ ﻭﮦ ﺣﻮﺭ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﻣﺮﮮ ﻟﺌﮯ
ﮨﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺷﻔﻖ ﺑﻬﯽ ﻭﮨﯽ ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﺟﺎﮞ

ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ

ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ

اور مزید چند اشعار

ﺑﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺳﻤﺖ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺐِ ﻓﺮﻗﺖ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ

شکریہ احباب برداشت کرنے کا
واہ واہ نظم بھی اور غزلیں بھی بہت اچھی لگیں۔ بہت سی داد
 

فاتح

لائبریرین
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نے
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے
اور ایک عدد تازہ غزل آپ کی باذوق سماعتوں کی نذر
❀ غزل

عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز

سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز

طیش میں وہ ہیں تو کیا، ایک یہی در تو ہے
اور کہاں پر کریں دستِ سوالی دراز

ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز

پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز

کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز

آپ کی مانند سب رند نہیں ہیں شکیب
دیجیے گا کب تلک بادہ کشی کا جواز

دعاگو و دعاجو
فقیر شکیب احمد
واہ واہ فقیر شکیب صاحب۔ غزل بھی عمدہ ہے اور تبرک کے دو اشعار بھی :)
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ، تابش بھائی۔
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
میرا خوب صورت کلام (بقولِ محمد تابش صدیقی ، دروغ بر گردنِ راوی) پیشِ خدمت ہے۔
پہلے ایک غیرطرحی غزل:

میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی​

فاتح بھائی کے حکم کی تعمیل میں یہ غزل اب میری آواز میں بھی سنیے:


اور اب طرحی غزل ملاحظہ فرمائیے:

عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

عموماً شاعر کمی کوتاہی کی معافی نہیں مانگتے، مگر کوئی ہو گئی ہو تو مجھے، تابش بھائی اور فاتح بھائی کو معاف فرمائیے گا۔
والسلام!
واہ واہ واہ راحیل صاحب، میری جانب سے معافی تو آپ مانگ چکے، اب آپ کی جانب سے اپنا شکریہ میں ادا کر دیتا ہوں کہ اس قدر خوبصورت غزل اتنی ہی دلکش آواز میں سننے کو ملی۔ یقین مانیے اس شعر نے تو دل مٹھی میں لے لیا اور اس کے نشے میں ہوں کہ
خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی​
 

فاتح

لائبریرین
عزیزانِ محفل اور اساتذہ کی خدمت میں خاکسار کا سلام!

سب سے پہلے تو مبارکباد دینا چاہوں گا مشاعرے کے متنظمین کو کہ جنہوں نے شبانہ روز محنت اور لگن سے یہ محفل سجائی ۔ محترم خلیل الرحمٰن بھائی، حسن محمود بھائی، بلال اعظم بھائی اور تابش بھائی ، اس خوبصورت مشاعرے کے انعقاد کے لئے آپ تمام احباب کی کاوشیں لائقِ صد ستائش ہیں۔ سب سے بڑھ کر میں شکریہ ادا کروں گا اپنی پیاری سی بہنا مقدس کا کہ جو ہر چند شعر و شاعری سے خاطر و خواہ دلچسپی نہیں رکھتی پھر بھی ہم بھائیوں اور دیگر محفلین کی دل جوئی کے لئے اس مشاعرے کے انتظام و انصرام میں پیش پیش ہے۔ شکریہ مقدس ! جیتی رہو۔

اور اب بات کو مختصر کرتے ہوئے اساتذہ کرام کی اجازت سے ایک غزل کے کچھ اشعار پیش کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا

ایک اور رنگ کی ایک دوسری غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ

شکریہ ۔​
واہ واہ واہ محمد احمد بھائی، کیا ہی سنجی سنوری غزلیں ہیں۔ بہت سی داد
 

فاتح

لائبریرین
تمام حاضرینِ مشاعرہ کی خدمت میں السلام علیکم اور تمام منتظمین کو اس بے مثال مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد کے بعد مصرعِ طرح پر ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔


فرق ہے واضح جو لا حاصل میں اور حاصل میں ہے
ہاں وہی جو دورئ منزل میں اور منزل میں ہے

جو کشاکش زندگی بھر خون رُلواتی رہی
کاروانِ زندگی اب تک اُسی مشکل میں ہے

وہ سمجھتے تھے کہ بس اِک ضرب میں قصّہ تمام
جان باقی اب تلک میرے تنِ بسمل میں ہے

حق کے پیروکار ہیں بے خوف اور سینہ سپر
دید کے قابل ہے جو لرزہ صفِ باطل میں ہے

آگئے پیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں پے

پائیے جذب و کشش ایسی بھلا کِس چیز میں
جو کسی کے چمپئ رُخسار کے اِک تِل میں پے

جن کو اپنے حال پر حاصل نہیں کچھ اختیار
وہ بھلا کیا جان سکتے ہیں جو مستقبل میں ہے

دِل میں ہنگامہ ہے برپا اِک ذرا سی بات پر
جو زباں تک آنہ پائی اور ابھی تک دِل میں ہے

کارواں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے مجنوں ہر طرف
کون جانے اُس کی لیلیٰ کون سے محمل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس طرف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

اور کِس منظر میں، کِس جا، ہم کو مِل پائے حفیظ
حُسن اور وہ دلرُبائی ، جو مہِ کامل میں ہے
واہ واہ حفیظ صاحب۔ طرح مصرع پر کمال غزل کہہ دی آپ نے
 

فاتح

لائبریرین
جنابِ صدر، محترم مہمانِ خصوصی، شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میں اردو محفل اور محترم جناب محمد تابش صدیقی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اس اہم مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ سائبر دنیا میں اتنے طویل عرصہ تک اردو زبان کی بہترین خدمت پر اردو محفل کی انتظامیہ اور متحرک اراکین سبھی بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ صاحبِ صدر کی اجازت سے اپنے کلام سے دو غزلیات، دو مختصر نظمیں اور ایک نمکین غزل پیش کرنا چاہوں گا۔

غزل

اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزِل ہو جاتے ہیں

چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تُم محفل ہوجاتے ہیں

وقت پہ گَر نہ آنکھ کُھلے تو
سپنے قاتِل ہو جاتے ہیں

روتا ہے جب پُھوٹ کے اَمبر
ہم بھی شامِل ہو جاتے ہیں

ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

دیکھیں جب وہ پیار سے صاحِب!
شِکوے مشکل ہو جاتے ہیں

-------------------------------------

غزل

ذِکر تیرا جہاں، وہاں ٹھہرے
درد والے کہاں کہاں ٹھہرے!

اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے

جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟

بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!

کچھ تعلق نہیں تھا دُنیا سے
چار پَل کو مگر یہاں ٹھہرے


--------------------------------------

"بیماری"

پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!


(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا ترجمہ ہے)

---------------------------------

"ڈیجیٹل شاعری – فوٹو"

زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں!

----------------------------------

نمکین غزل

اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں

چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں

سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں

"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟

شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں

سردی میں سویڈن کی صاحب!
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں


ایک بار پھر اردو محفل کے تمام احباب کا بے حد شکریہ۔

والسلام،

ابنِ مُنیب
واہ واہ نوید صاحب، لطف آ گیا خصوصاً نظم بیماری کے تو کیا کہنے
 
Top