اردو محفل سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے کہ جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ جس نے اردو محفل کو رونق بخشی اور اردو کی اس ویب سائیٹ کو اس قابل بنایا کہ اس محفل نے گیارہ سال کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیے۔

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہم نے شعروں کا میلہ سجایا ہے۔ اردو تہذیب میں مشاعرے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو محفل پر اس آن لائن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے جو ایک نئی روایت کو جنم دےگا۔

اس مشاعرے میں ایک کے بعد ایک شعراء کو اسی طرح دعوتِ کلام دی جائے گی جس طرح کسی بھی مشاعرے میں دی جاتی ہے۔

اردو محفل کی گیارہویں سالگرہ کی تقریبات کے سلسلہ کی آخری کڑی اردو محفل عالمی مشاعرہ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ جس کی صدارت فرما رہے ہیں محترم المقام جناب اعجاز عبید صاحب اور مہمان خصوصی ہیں محتم منیر انور صاحب۔ محفل کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اتنہائی ادب سے ملتمس ہیں صدر محفل محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے کے آپ مسند صدارت پر تشریف فرما ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ادب سے گزارش ہے محفل کے مہمان خصوصی محترم منیر انورصاحب آپ بھی اپنی مسند پر تشریف فرما ہوں۔ اب صدر محفل کی اجازت سے محفل مشاعرہ کا آغاز کیا جاتا ہے۔

سب سے پہلے پیش کرتے ہیں نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم۔ پڑھیے نبی کے نام پر۔ صلِ علیٰ، صلِ علیٰ

زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی

دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی

تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی

مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی

ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی

شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادیئ برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی

تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی

خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی



اب عرض ہیں مصرع طرح پر دو شعر


غیر کے لب پر ہے اور شاید تمہارے دل میں ہے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"

اک نظر ہم پر پڑی اور نیم بسمل کردیا
زہر کی تاثیر کیسی اس سمِ قاتل میں ہے


ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

رات دن بس اِک تماشا چاہیے
دِل کے بہلانے کو کیا کیا چاہیے

اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے

کتنا زخمی آج انساں ہوگیا
اس کو اب کوئی مسیحا چاہیے

اجنبی ہیں راستے، تنہا سفر
شکل کوئی اب شناسا چاہیے

اِس بھری محفِل میں تنہا ہیں خلیل
آج تو بس کوئی اپنا چاہیے

حضرتِ داغ کی ضمین میں ایک غزل

’’حضرتِ دل آپ ہیں کِس دھیان میں‘‘
یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں

وہ لجا کر کچھ اگر کہہ نہ سکے
کہہ دیا کِس نے ہماے کان میں

روکنے کا یوں بہانہ ہوگیا
ہم نے پیالہ رکھ دیا سامان میں

خلق اُن کے دیکھنا ہوں گر تمہیں
دیکھ لو بس جھانک کر قرآن میں

ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
 
آخری تدوین:

Abbas Swabian

محفلین
اب ہم دعوتِ کلام دے رہے ہیں جناب عباس صوابین کو کہ وہ اپنا کلام پیش کریں۔
بہت بہت شکریہ سر جی۔
السلام علیکم۔
غزل
میرا اب درد کم نہیں ہوتا
پھر بھی چہرے پہ غم نہیں ہوتا
دل تو میرا اداس ہے لیکن
آنکھ میں میری نم نہیں ہوتا
درد سینے میں دفن رہتا ہے
ہاتھ میں جب قلم نہیں ہوتا
دل سے جو بات بھی نکلتی ہے
اثر اس کا عدم نہیں ہوتا
سلسلہ تیری آہ کا شاہین
اک ذرا بھی تو کم نہیں ہوتا
 
سلسلہ تیری آہ کا شاہین
اک ذرا بھی تو کم نہیں ہوتا​

یہ تھے جناب عباس صوابین، جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔
اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں مشاعرے کے ایک اور منتظم جناب محمد بلال اعظم صاحب کو ، کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں۔
جناب بلال اعظم
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد

سب سے پہلے ایک نعت کے دو اشعار

جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کچھ متفرق اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا

پھر وہی شامِ غریباں کا دھواں آنکھوں میں
پھر وہی ہاتفِ غیبی کی صدا، جانے دے

میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم چاند کی کرنوں کو سنبھالے ہوئے رکھو
وہ نور کی صورت سرِ محرابِ دعا آئے

لفظوں کا اجالا ہے جو تم دیکھ رہے ہو
خوشبو سی سماعت ہے، تمہیں کون بتائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا

ایک دنیا ہے مرے درپئے آزار جدا
پھر بھی ملتا نہیں مجھ کو کوئی غم خوار جدا

کچھ مرے عہد کی قسمیں بھی جدا ٹھہری ہیں
کچھ مرے دوست، ترا وعدۂ ایثار جدا

کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا

کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا
 
کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یہ تھے جناب محمد بلال اعظم، کہ جنہوں نے اپنے خوبصورت کلام سے قارئین کو محظوظ کیا.

اب میں دعوت دے رہا ہوں جناب سیدسجاداطهرموسوی. صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پئش کریں.
جناب سید سجاد اطہر موسوی
 
بسم الله الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم ورحمه الله و برکاته

اردو محفل فورم کے محترم منتظمین اور محفلین کو محفل کے گیارھویں سالگره بهت بهت مبارک ھو

ایک طرحی اور ایک غیر طرحی کلام آپ کی بصارتوں کی نذر اور التماس دعا

طرحی کلام

"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے

میری میت میں سبب کیوں ڈھونڈتے ہو موت کا
قتل کا واضح اثر جب ترکش قاتل میں ہے

وقت کی رفتار کا کرتے ہو کیوں اکثر سوال
جب ضیاع وقت شامل عادت کاہل میں ہے

مجھ سے مت نالان ہونا تجھ سے جب مانگوں ہنسی
پیار کی خواہش ہمیشہ لہجہء سائل میں هے

ہر پریشانی سے ہٹ کر ہے تمہارا انتظار
ہجر سے تیرے ہماری زندگی مشکل میں ہے

موت سے میری اگر ممکن ہے پھولوں کی حیات
خوش رہو یہ زندگی پھر آخری منزل میں ہے

غم نہ کھا جو تجھ پہ گزرا ہے ستم کا مرحلہ
اس کی اعلان سزا , فکر شہہ عادل میں ہے

ڈھونڈتے ہو کیوں علاج غم ادھر کوئی ادھر
تیرے ہر غم کا مداوا نسخہ کامل میں ہے

میں رہوں یا نہ رہوں زنده رہے اہل ادب
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جو اس محفل میں ہے"

داستان عشق ہے اطہر رموز زندگی
میرا مقصود سخن , ہربیت کے حاصل میں ہے

سیدسجاداطہرموسوی
یکم اگست ٢٠١٦میلادی
---------------------------------------------
راحت جاں آجاؤ

رسم الفت سے ہوں انجان خدا خیر کرے
عشق برسا گیا باران خدا خیر کرے

درد ہے دل میں مگر آنکھوں کی خیرات ہوئی
اشک سے کرگئی درمان خدا خیر کرے

آنکھ روتی رہی زخموں کو چھپانے کے لئے
دل میں تھا اشکوں کا طوفان خدا خیر کرے

جب تلک پرده حیرت سے نہ نکلے سورج
ہے سدا شام غریبان خدا خیر کرے

روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے

عرش والے کی اجازت تو ضروری ہے مگر
کب تلک ہوگا یہ امکان خدا خیر کرے

ہجر کی حد ہوئی اے راحت جاں! آجاؤ
ساری دنیا ہے پریشان خدا خیر کرے

آفتاب فلک عدل و سخا ,دنیا میں
ظلم کا زور ہے ہر آن خدا خیر کرے

حامی بے کس و مظلوم یہاں کوئی نہیں
ہیں سبھی خستہ و نالان خدا خیر کرے

تیری الفت کی نشانی ہے کلام اطہر
یوں ہوا عشق کا سامان خدا خیر کرے

بهت شکریه
 
آخری تدوین:
موت سے میری اگر ممکن ہے پھولوں کی حیات
خوش رہو یہ زندگی پھر آخری منزل میں ہے​

یہ تھے جناب سید سجاد اطہر موسوی صاحب جنہوں نے اپنے خوبصورت کلام سے مشاعرے کو رونق بخشی.

اب میں دعوت دوں گا جناب نویدظفرکیانی صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں.
جناب نوید ظفر کیانی
 

جدید
بہت بہت شکریہ تابش صاحب
اہلیانِ اردو محفل فورم محفل کو گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔ ایک عدد طرحی اور ایک غیر طرحی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔


اب چراغاں کب کسی بھی آرزوئے دل میں ہے
زندگانی مسترد کردہ کسی فائل میں ہے

دل کا خوں ہونا کسی اپنے کے ہاتھوں ہے روا
جو بہت پیارا ہے ہم کو فرقہء قاتل میں ہے

دیکھ لی ہیں زندگی میں ہر طرح کی مشکلیں
اب تو جو مشکل بھی ہے معمول کی مشکل میں ہے

کشتیوں کے ساتھ کرتا ہے سفر اپنا شروع
یہ جو ہے گرداب یہ بھی کنبہء ساحل میں ہے

قہقہے ، موسیقی کی آواز، باتیں ۔۔۔۔ سب سراب
میں کہاں میرا اکیلا پن ہے جو محفل میں ہے

زندگی ہے وقت کے بے رحم صحرا میں مگر
بہرِ فردا اب بھی کوئی واہمہ محمل میں ہے


نویدظفرکیانی

--------------------------

دلِ درد آشنا رکھے ہوئے ہیں
بدن میں کربلا رکھے ہوئے ہیں

کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں
ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں

ہمیں تفہیمِ دنیا کے معمے
خلا اندر خلا رکھے ہوئے ہیں

کوئی منزل نہیں منزل ہماری
اِک آتش زیرِ پا رکھے ہوئے ہیں

لڑائی ظلمتِ شب سے ہے جاری
سرِ بام اک دیا رکھے ہوئے ہیں

ہمارے سامنے ہیں پر وہ یوں ہیں
نہ ہونے کی ادا رکھے ہوئے ہیں

جو موسم پہن کر آئے ہیں سورج
وہ دامن میں گھٹا رکھے ہوئے ہیں

دلیلِ خامشی کام آ رہی ہے
کسی کو بے نوا رکھے ہوئے ہیں

نویدظفرکیانی
 
کوئی منزل نہیں منزل ہماری
اِک آتش زیرِ پا رکھے ہوئے ہیں

لڑائی ظلمتِ شب سے ہے جاری
سرِ بام اک دیا رکھے ہوئے ہیں

یہ تھے جناب نوید ظفر کیانی صاحب جو اپنا خوبصورت کلام مشاعرہ میں پیش کر رہے تھے۔
اب میں دعوتِ کلام پیش کر رہا ہوں محترمہ مریم افتخار صاحبہ کو، کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں۔
محترمہ مریم افتخار
 
شکریہ تابش بھائی!
سب سے پہلے تو اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد!
میں اپنی پہلی غزل , اپنے شاعری کے سب سے پہلے استاد کے نام کرتی ہوں, جنہوں نے مجھے غزل لکھنا سکھایا اور علمی و ادبی میدان میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا . میری پہلی غزل محمد بلال اعظم بھائی کے نام!

عرض کِیا ہے:
اِک شور تھا جو اندر , وہ آج مچ گیا ہے
اُتنا ہی اب عیاں ہُوں, جِتنا کبھی نہاں تھا

مَیں تیری زندگی میں, اخبار گُزرے دِن کا
یُونہی پڑا یہاں تھا, یُونہی پڑا وہاں تھا

اتنا نہ ہو سکا تُم, میری خبر ہی لَیتے
میرا پتا وہی تھا, میرا وہی مکاں تھا

لو آگئی خبر یہ, وہ شخص مر رہا ہے
اور جب مَیں مر رہا تھا, وہ شخص تب کہاں تھا؟

ہاں! بدنصِیب ہُوں مَیں اور کب کا مر گیا ہُوں
ویسے بھی باغیوں کو, کب راس یہ جہاں تھا؟

آیا نہ راس مُجھ کو , اپنا ہی آپ, ہائے!
'تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا'

تھے اور بھی سخن ور, محفل میں آ کے بیٹھے
لیکن جو سب سے سادہ, میرا ہی وہ بیاں تھا
****----------------------

اور اب دوسری غزل مصرع طرح کی زمین میں:
انتساب: سب محفلین کے نام:)


حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے

زلف بکھرا کر نہ تُم آیا کرو یُوں سامنے
حوصلہ کب اِتنا تیرے عاشقِ عادل میں ہے؟

عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

شکریہ!
 
آخری تدوین:
جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"​

یہ تھیں محترمہ مریم افتخار صاحبہ، جنہوں نے اپنے کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائی.

اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں جناب صفی حیدر صاحب کو،کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں.
جناب صفی حیدر
 

صفی حیدر

محفلین
شکریہ تابش بھائی ۔۔۔۔ تمام محفلین و منتظمین کو محفل کی گیارہویں سالگرہ مبارک ہو ۔۔۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل کی زمین میں مصرع طرح پر ایک تخلیقی کاوش پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔۔۔۔ عرض کیا ہے ۔۔۔

یاد میری شمع بن کر اس کی بزمِ دل میں ہے
" ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے "
غیر کا پہلو نشیں وہ خوش ادا محفل میں ہے
کچھ کمی تو ہے جو میرے عشقِ لا حاصل میں ہے
میری فظرت ہے سرِ تسلیم خم کرنے کی خو
ناز پرور تم بتا ئو کیا تمھارے دل میں ہے
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے
جان لی تیغِ تبسم سے کئی عشاق کی
قتل کرنے کا سلیقہ خوب تر قاتل میں ہے
کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
لا تعلق ہوں میں خود سے بے خبر دنیا سے ہوں
بس ترا دیدار میری حسرتِ کامل میں ہے
ایک نقطے میں سمٹتا حسن ایسے ہے صفی
دلکشی بے مثل دیکھی اس کے لب کے تل میں ہے
 
غیرکا پہلو نشیں وہ خوش ادا محفل میں ہے
کچھ کمی تو ہے جو میرے عشقِ لا حاصل میں ہے

اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے
یہ تھے جناب صفی حیدر صاحب، جو اپنے خوبصورت کلام سے مشاعرہ میں خوشبو بکھیر رہے تھے.
اب میں دعوتِ کلام دوں گا محترمہ La Alma صاحبہ کو، کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں.
محترمہ لا المیٰ
 

La Alma

لائبریرین

عزیزانِ محفل !
آداب.
ہمارے ترکش میں تو چند ناوکِ نیم کش، صورتِ اشعار پڑے ہیں. اگر ہماری یہ مشقِ ستم (مشقِ سخن ) آپ کے ادبی ذوق کو خدا نخواستہ گھائل کر دے تو اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے. :)

دو پرانی غزلیں جو مجھے پسند ہیں ، پیشِ خدمت ہیں :

غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں

ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں

ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں

زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں

دمِ مرگ جتنے یقیں تھے
مرے وہ گماں سے گئے ہیں

محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں

دوسری غزل ...



اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی

ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی

سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی

اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی

کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی

صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی

جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی


اب ایک نگاه مصرع طرح پر کی گئی اس قافیہ پیمائی پر بھی ڈالیے.



ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے

اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے

پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے

اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے

غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے


بہت نوازش .



 

مقدس

لائبریرین
اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے

ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی

کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی

یہ تھی محترمہ La Alma صاحبہ۔

اب ہم گذارش کریں گے محترم محمد فائق صاحب سے کہ وہ اپنے دلنشیں کلام سے اہلِ محفل کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔

محترم محمد فائق صاحب۔
 

محمد فائق

محفلین
السلام علیکم
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ھو
میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے سخن شناس احباب کے درمیان مجھے بھی اپنے سیدھے سادھے اشعار پیش کرنے کا موقع ملا

ایک مطلع اور چند اشعار غزل کے حاضرِ خدمت ہیں
غزل
وہ اپنی ہتک آپ بلانے کو چلے تھے
جو نام و نشاں میرا مٹانے کو چلے تھے

سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے

افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے

جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
تھے

کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے

پتھر بھی جو روتے تو تعجب نہیں ہوتا
ہم حالِ شکستہ جو سنانے کو چلے تھے

اپنوں سے تو رکھا نہ تعلق کوئی فائق
رشتہ تو زمانے سے نبھانے کو چلے تھے

مصرع طرح. ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
مطلع
آرزو خود سے شناسائی کی میرے دل میں ہے
پر کہاں امکان اس کا حال و مستقبل میں ہے

بات دل کی کیا ہمارے وہ تمہارا ہے اسیر
کوئی وقعت بھی ہماری کیا تمہارے دل میں ہے

اس کی جانب جو گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
بس خدا جانے کشش کیسی تری محفل میں ہے

غیر ممکن ہے وہ آئے گا جنازے پر مرے
اہمیت کوئی کہاں میری دلِ قاتل میں ہے

کل بھی ہم مقتول تھے اور آج بھی مقتول ہیں
بوکھلاہٹ پھر بھی آخر کیوں صفِ باطل میں ہے

واجباً گرچہ نہیں ہے_احتیاطاً ہے_مگر
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے

اب اجازت چاہوں گا شکریہ
محتاجِ دعا
 
غیر ممکن ہے وہ آئے گا جنازے پر مرے
اہمیت کوئی کہاں میری دلِ قاتل میں ہے

کل بھی ہم مقتول تھے اور آج بھی مقتول ہیں
بوکھلاہٹ پھر بھی آخر کیوں صفِ باطل میں ہے

واجباً گرچہ نہیں ہے_احتیاطاً ہے_مگر
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

یہ تھے محترم محمد فائق صاحب جو اپنے منفرد انداز میں آپ سے مخاطب تھے.
اب میں زحمت کلام دوں گا محترم مانی عباسی صاحب کو. آپ تشریف لائیں اور محفل میں اپنا کلام پیش کریں
 

مانی عباسی

محفلین
آداب۔۔۔ ابتدا ایک فی البدیہہ غزل سے

مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں


پڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا
عوض قرضوں کے حرمت قوم کی بیچی نہ جاتی تھی
جسے اب فائدہ کہتے ہیں وہ نقصان ہوتا تھا
وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا
یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

آخر ميں ایک پرانی غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

اب اجازت چاہوں گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
نوٹ:بطور قاری شامل رہوں گا مشاعرے میں
 
مدیر کی آخری تدوین:
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں

کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
یہ تھے محترم مانی عباسی صاحب. جنہوں نے بھرپور انداز میں اپنے کلام سے محفل کو رونق بخشی.
اب اپنے ایوان سے اگلے مہمان شاعر محترم کاشف اسرار احمد صاحب کو دعوت سخن دوں گا، آپ تشریف لائیں اور محفل سے مخاطب ہوں.
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top