از تپش‌های پرِ پروانه می‌آید به گوش
کاشنای شمع را بیرونِ محفل آتش است

کاشنا = که آشنا

بہتر ترجمہ: پروانے کے پر کی تپشوں سے سنائی دیتا ہے (یعنی معلوم ہوتا ہے) کہ آشنائے شمع محفل کے باہر آتش میں ہے۔
اِس شعر کا مضمون واضح نہیں ہے، لیکن جو مفہوم میرے ذہن میں متشکل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پروانہ، کہ شمع کا آشنا ہے، اپنی محفل یعنی شمع کے باہر مضطرب ہے اور اُس کے پروں کی پُراضطراب تپش و لرزش کی آواز سے شاعر کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ پروانہ وصالِ شمع کے بغیر گویا آتش میں جل رہا ہے اور اپنی محفل میں ورود کے لیے بے تاب ہے۔ یعنی اگر کوئی دیگر ہوتا تو وہ شمع کے نزدیک آنے پر جلتا، لیکن شمع کا عاشق پروانہ شمع سے دوری کے باعث جل رہا ہے۔
پس نوشت: یہ مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے پروانے کے پر کی تپشوں سے یہ عمومی نتیجہ نکالا ہے کہ جو کوئی بھی شمع کا آشنا ہو، وہ محفل سے باہر اضطراب کی حالت میں سوزاں رہتا ہے، یا یہ کہ بیرونِ محفل اُس کے لیے آتش کی مانند ہے۔
مفہوم تو میرے ذہن میں بھی پہلے والا تھا مگر میں نے اسے پرِ پروانہ می آید بہ گوش یعنی پروانے کا پر کان تک آتا ہے پڑھا۔
میں نے سوچا کہ شاید کوئی محاورہ ہو۔ تھوڑا زیادہ غور کرنا چاہیے تھا۔ تصحیح کے لیے شکر گزار ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مفہوم تو میرے ذہن میں بھی پہلے والا تھا مگر میں نے اسے پرِ پروانہ می آید بہ گوش یعنی پروانے کا پر کان تک آتا ہے پڑھا۔
میں نے سوچا کہ شاید کوئی محاورہ ہو۔ تھوڑا زیادہ غور کرنا چاہیے تھا۔ تصحیح کے لیے شکر گزار ہوں۔
به گوش آمدن = شنیده شدن، مسموع افتادن، مسموع شدن (لغت نامهٔ دهخدا)
یعنی سنائی دینا
 
در کنجِ دماغم مطلب جائے نصیحت
ایں گوشہ پر از زمزمہ چنگ و رباب است

میرے دماغ کے کونے میں نصیحت کی جگہ نہ طلب کر۔ یہ گوشہ چنگ و رباب کے زمزمے سے پر ہے۔

لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
کسی کز عارض و زلفِ تو گوید
همین بس وردِ صبح و شام او را
(امیر خسرو دهلوی)

جو شخص تمہارے رخسار و زلف کی بات کہتا ہے، اُس کے لیے صبح و شام کا یہی ورد کافی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
در حیرتم کہ دشمنیِ کفر و دیں ز چیست؟
از یک چراغ کعبہ و بتخانہ روشن است


(منسوب بہ) میرزا عبدالقادر بیدلؒ

میں اِسی حیرت میں سرگرداں ہوں کہ آخر کفر اور دین کی دشمنی کس وجہ سے اور کیوں ہے؟ کیونکہ کعبہ اور بتخانہ تو ایک ہی چراغ (کے نور) سے روشن ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
(رباعی)
شب نیست که از غمت دلم جوش نکرد
وز بهر تو زهرِ اندُهی نوش نکرد
ای جانِ جهان هیچ نیاوردی یاد
آن را که ترا هیچ فراموش نکرد
(سیف فرغانی)

کوئی شب ایسی نہیں جس میں تمہارے غم سے میرا دل بے تاب نہ ہوا اور تمہارے لیے کوئی زہرِ غم نوش نہ کیا؛ (لیکن) اے جانِ جہاں! تم نے اُس کو ذرا یاد نہیں کیا جس نے تمہیں ذرا فراموش نہ کیا۔
واہ!! بہت خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
باغ‌ها ای باغ‌های پُرگلِ شهرِ سِپاهان
زر ندارد آبرو در پیشِ خاکِ مُشک‌سُودت
(مهدی سهیلی)

باغو! اے شہرِ اصفہان کے پُرگل باغو! تمہاری عطرآگیں خاک کے سامنے زر آبرو نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دوشینه شبم بود شبیهِ یلدا
آن مونسِ غمگسار نامد عمدا
شب تا به سحر ز دیده دُر می‌سفتم
می‌گفتم رَ‌بِّ لا تَذَرْ‌نی فَرْ‌دا

(مهستی گنجوی)

کل میری شب یلدا (سال کی طویل ترین شب) کی مانند [طویل] تھی اور وہ غمگسار مونس جان بوجھ کر نہیں آیا؛ میں شب سے لے کر صبح تک آنکھوں سے [اشکوں کے] موتی پروتی رہی اور کہتی رہی کہ اے میرے رب مجھے تنہا مت چھوڑنا۔۔۔
آخری مصرعے میں 'رب لا تذرنی فردا' سورهٔ انبیاء کی آیت ۸۹ سے مقتبس ہے۔
اِس رباعی کے آخری مصرعے سے دو مفاہیم مراد لیے جا سکتے ہیں:
۱) اے رب، میرا مونس بن کر میری غمگساری کر اور مجھے اِس شبِ غم میں تنہا نہ چھوڑ۔
۲) اے رب، مجھے اِس شب تنہا مت رہنے دے بلکہ اُس وعدہ خلاف یار سے میرا وصل کرا کر مجھے 'فرد' سے 'زوج' کر دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا دردی‌ست اندر دل مُداوایش نمی‌دانم
ولی دانم که دردش را مُداوایی نمی‌باشد
(سلمان ساوجی)

میرے دل میں ایک درد ہے (اور) میں اُس کا علاج نہیں جانتا؛ لیکن میں جانتا ہوں کہ اُس کے درد کا کوئی علاج نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کاشکی قیمتِ انفاس بدانندی خلق
تا دمی چند که مانده‌ست غنیمت شمرند
(سعدی شیرازی)

اے کاش کہ لوگ سانسوں کی قیمت جانیں تاکہ جو چند لمحے باقی رہ گئے ہیں اُنہیں وہ غنیمت شمار کریں (اور اُن سے فائدہ اٹھائیں)۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برون زین گنبدِ دربسته پیدا کرده‌ام راهی
که از اندیشه برتر می‌پرد آهِ سحرگاهی

(اقبالِ لاهوری)
میں نے اِس گنبدِ دربستہ (یعنی آسمان) سے بیرون ایک راہ ڈھونڈ نکالی ہے کہ کوئی آہِ سحرگاہ فکر سے زیادہ بلند پرواز کرتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
میانِ کعبہ و بُتخانہ فرقِ یک گام است
میانِ شیخ و بَرَہمن ہزار ہا فرسنگ

(شاعر: نا معلوم)

کعبے اور بتخانے کے درمیان تو فقط ایک ہی گام کا فاصلہ ہے لیکن شیخ اور برہمن کے درمیان ہزار ہا میلوں کا فرق ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر بداند که چه شور است درین عالمِ خاک
کشتی از بحرِ خطرناک نیاید بیرون
(صائب تبریزی)

اگر کشتی جان لے کہ اِس عالمِ خاک میں کیسا آشوب ہے تو وہ بحرِ خطرناک سے بیرون نہ آئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کمر در خدمتَت عمریست می بندم، چہ شد قدرم
برہمن می شدم گر ایں قدَر زنار می بستم


نظیری نیشاپوری

میں ساری زندگی تیری خدمت کرنے میں اپنی کمر باندھے رکھے ہوں لیکن پھر بھی میری کیا قدر ہوئی؟ اگر میں نے اِس قدر زنار باندھا ہوتا تو اب تک برہمن ہو گیا ہوتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مدعی در گذر از دعویء طرز بیدل
سحر مشکل کہ بہ اندازہ ء اعجاز رسد

اے مدعی ، تو بیدل کے انداز کے دعوےکو چھوڑ ہی دے تو اچھا ہو
جادو،خواہ کتنا ہی موثر کیوں نہ ہومعجزے کےآگےبھلاکب ٹھہرتا ہے
ابو المعانی
 

حسان خان

لائبریرین
چاک در سینهٔ گردون نتواند انداخت
ناله‌ای کز دلِ صد چاک نیاید بیرون
(صائب تبریزی)

جو نالہ دلِ صد چاک سے بیرون نہیں آتا وہ آسمان کے سینے میں چاک نہیں ڈال سکتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بترس ازآہ مظلوماں کہ ہنگام دعاکردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ جس وقت وہ پکارتا ہے تو در حق سے قبول ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بترس ازآہ مظلوماں کہ ہنگام دعاکردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ جس وقت وہ پکارتا ہے تو در حق سے قبول ہوتی ہے۔
مکن ظلم و ستم ظالم بترس از آهِ مظلومان
که صبحِ روشنِ هر فرد شامِ تار هم دارد
(ژولیده خراسانی)

اے ظالم! ظلم و ستم مت کرو اور مظلوموں کی آہ سے ڈرو، کہ ہر فرد کی روشن صبح تاریک شام بھی رکھتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بترس ازآہ مظلوماں کہ ہنگام دعاکردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ جس وقت وہ پکارتا ہے تو در حق سے قبول ہوتی ہے۔
میری رائے میں دوسرے مصرعے کا دقیق تر اور شاعرانہ تر ترجمہ یہ ہو گا:
۔۔۔کہ دعا کے وقت خدا کے دربار سے (خود) اجابت استقبال کے لیے آتی ہے۔
 
Top