پیا رنگ کالا کیسی ہے ؟

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فقہ حنفیہ کے مطابق نماز مادری زبان میں پڑھی جا سکتی ہے۔
حیران کن ہے اور بہت حد تک مشکوک، کیونکہ نماز میں قرآن پاک کی آیات پڑھنا فرض ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن پاک کو اپنی اپنی زبان میں سمجھا جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا اصل متن تبدیل نہ ہونے دیا جائے، ۔ قرآن پاک کو اسی لیے تمام حفاظ پوری دنیا میں ایک ہی جیسی حرکات کے ساتھ پڑھتے ہیں اور یہی ہمارے اسلامی اتحاد کی مضبوط ترین بنیادوں میں سے ایک ہے۔ اب نماز اپنی مادری زبان میں پڑھی جائے گی تو قرآن کا بھی ترجمہ کیا جائے گا اور ایک اٹل حقیقت یہاں دیوار بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہوجائے گی کہ قرآن پاک کا کسی بھی زبان میں ایسا ترجمہ کہاں سے لایا جائے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ کیونکہ قرآن کی زبان اتنی فصیح و بلیغ ہے کہ دنیا کا کوئی مترجم اس کا درست ترجمہ کرنے پر قادر نہیں۔ تفسیر کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں، کم ہیں۔ آج تک تفاسیر لکھی جارہی ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں، پھر بھی مکمل طور پر نہ سمجھ سکے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر کوئی بہت بڑا مقصد پیش نظر نہ ہو تو بلاضرورت جزئیات میں جانا زیادہ مناسب نہیں۔

یوں بھی علامہ فرما گئے،

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

معاملہ یہ ہے کہ آج کل مذہب کے نام پر سیاست چمکائے جانے کا سلسلہ شدومد سے جاری ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ مسابقت اور کمرشلائزیشن کے جملہ اثرات سب سے زیادہ ملاؤں پر پڑ گئے ہیں۔ شاید انہی دین فروش ملاؤں کی وجہ سے معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور مزید یہ کہ ان انتہاپسند کٹھور ملاؤں کی وجہ سے جید علمائے کرام کی باتوں پر بھی عامۃ الناس کان نہیں دھرتے۔ گلی محلے میں فی سبیل اللہ فساد کا سلسلہ پھیلانے کا عمل زور و شور سے جاری ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ امن پسند افراد تصوف کی طرف مائل ہو رہے ہیں تاہم یہاں کا معاملہ بھی دیکھے جانے کے لائق ہے۔ بہرصورت، ہر طبقے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کیا کیا جائے؟ ماسوائے صبر کے۔
 
قرآن مجید کی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے " بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے"۔۔۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صل اللہ علیہ وسلم تک کے تمام انبیاء کو جس ہدایت کے ساتھ مبعوث کیا گیا اس پر نظر ڈالیں تو کچھ امور ایسے ملیں گے جو مشترکہ ہیں اورجن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔۔۔۔یہی اسلام ہے اور یہی دین کا لب’ِ لباب ہے اور یہی اٹل اور ناقابلِ تغیر دین ہے۔
لیکن بعض دیگر امور ایسے ملیں گے جو انسانی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے ارتقاءاور ماحول کے مطابق مختلف زمانوں میں مختلف رہے ہیں۔ یقینا میری پیاری بہن نور سعدیہ شیخ کا اشارہ انہی تغیر پذیر امور کی طرف تھا۔۔۔۔
بات کچھ زیادہ سنجیدہ ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ اگر شوخیء طبع کی کچھ اجازت ہو تو اس کو ایک جملے میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح آج سے سو سال قبل تقریبا تمام علماء کے نزدیک تصویر اور لاؤڈسپیکر وغیرہم حرام تھے ، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔۔۔چنانچہ یہی وہ قابلِ تغیر امور ہیں ۔
 

عدنان عمر

محفلین
اسلام کی بنیاد دو طرح کے حقوق پر رکھی گئ. ایک حقوق جو اٹل قسم کے ہیں. جن پر دوسری بات نہیں ہوسکتی ہے. ان کو حقوق اللہ کہتے ہیں. دوسری قسم کے حقوق: حقوق العباد ہیں. ان حقوق کے بارے میں " بنیاد " قران پاک میں موجود ہے. اسلام چونکہ انسانیت سے منسلک اک مذہب ہے. صرف کلمہ کا اقرار ہمیں مسلمان ہونے کا شرف بخشتا ہے. خرد سے واجب الادا لفظ: ''لا الہ الا اللہ " کے بعد ہم پر شرع کا نفاذ ہوجاتا ہے.شریعت سے مراد انسانی قانون کے مطابق زندگی گزارنا ہے. اسلامی قانون کے درج ذیل ماخذ ہیں. جن میں سے کچھ بنیادی اور کچھ ماخوذ ہیں ....

  • سنت اور کتاب اللہ ...یہ دو بنیادی ہیں ...
  • اجماع
  • استحصان
  • قیاس ..
  • روایت

حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت آپ سے ملنے آئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی بابت قسم کھائی تھی اور حج ادا کیا بغیر وفات پاگئی تو کیا میں حج ادا کروں ۔۔۔؟

قران پاک اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے قیاس سے کام لیتے ہوئے کہا: باپ مرجائے تو اس کے قرض کی ادائیگی کون کرے گا ؟ تو اس عورت نے کہا کہ وہ کرے گی تو اس لحاظ سے حج کا ادا کرنا محتسن عمل قراد دیا گیا ۔۔۔۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے اس عمل سے سب سے پہلے امام ابو حنفیہ نے ''قیاس '' سے کام لیا ۔ آپ ایک کام کیا کرتے کہ کوئی بات قران پاک اور سنت دونوں میں موجود ہو تو آپ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے عمل کو اس پر ترجیح دیتے تھے ۔۔۔

قران پاک میں تعزیزات اور سزا کے بارے میں قوانین بتائے گئے ۔۔۔تعزیرات وہ سزائیں جن پر چھوٹ دی جاسکتئ ہے جبکہ سزا یا حد کا نفاذ ان قوانین پر ہوتا ہےجس سے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس لحاظ سے اعمال کو درج ذیل میں کیٹیگزائر کر دیا گیا ہے
  • حلال
  • محتسن
  • مباح
  • مکروہ
  • حرام
اس لحاظ حرام کیسے ایسے ہیں جن پر حد کا نفاذ ہوتا ہے ۔۔۔۔ مگر ان قوانین میں بدالاؤ کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ حضرت عمر فاروق رض نے دوران جنگ قطع یدع کا منع فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔چوری کے عمل کی سزا کے لیے کئی مواقع پر باوجود سفارشات کے قرار پایا ۔۔ایک کام جو جناب رسول پاک صلی علیہ والہ وسلم کرچکے تھے اس کو ہم کیسے بدل سکتے ہیں اس کے لیے ''اجماع '' کو عمل میں لایا گیا ۔۔۔اجماع کو ''consensus of opinion'' بھی کہتے ہیں ۔اجماع پوری امت کی مرضی سے بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے اور مجتہد بندوں کی ایک جماعت بھی ایک رائے پر متفق ہوتے اجماع کرسکتی ہے ۔ یہ اجماع کی رائے اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کمیٹی کے تمام ارکان میں سے ایک بھی زندہ رہے ۔۔۔

  • جیسے امام ابن تیمیہ نے اجماع کیا : اسلامی مملکت میں چرچ یا مندر کا بننا حرام ہے ۔اس بات پر متفق ہوتے ایک قانون بن گیا ۔۔۔
  • طلاق بائن یا ایک سے زائد شادی یا واراثت یا سزا کے قوانین و قصاس کے باتیں انہی اصولوں کے تحت بدلے جاسکتے ہیں ۔۔۔حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں تصاویر نہیں تھیں مگر ان کو بتوں سے قیاس کرتے قوانین بنا لیا گیا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔اس کی بہت سی مثالیں اسلامی قانون میں مل جائیں گی ۔۔۔اگر ادھر لکھنے بیٹھوں تو پوسٹ بہت لمبی ہوجائے گی۔۔۔
  • روایات کا استعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عربوں میں بہت سی روایات ایسی تھیں جن کو حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے جاری رہنے دیا مگر کچھ بدل دی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ان پر قیاس کرتے ہوئے ہم موجود زمانے کے لحاظ سے قوانین بنا سکتے ہیں ۔۔
  • اسلام کے دو چیزیں ''سنت اور قران پاک '' بنیاد ہیں جیسے ایک درخت کی لکڑی بمع جڑ ۔۔۔اس کے پتے وہ حصہ ہیں جو زمانہ حال کے ساتھ بدلتے جاتے ہیں ۔۔یوں اسلام ایک مستقل مذہب بھی ہیں اور ایک لچک دار معاشرت کا حامل نظام بھی جس میں کوئی جبر نہیں ہے ۔۔۔۔
  • پرانے زمانے میں دو شادیوں یا اس سے زائد شادی کی اجازت اس وجہ سے مل جاتی تھی ( یہ صرف ایک وجہ ہے ) کہ لوگ جنگوں میں شہید ہوجاتے تھے اورعورتوں کی کثرت جبکہ بچوں کے ذریعے نسل بڑھانے کے لیے اس کی اجازت کے اس کو ''مباح '' قراد دیا گیا مگر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ اب چونکہ جنگیں بدل گئیں ہیں تو یہ قانون بھی بدل چکا ہے یا بدلا جاسکتا ہے
  • طلاق بدعت : اس کا قران پاک یا سنت میں کہیں رواج نہین ہے ۔۔یہ بھی اموی بادشاہوں کے اجماع کا نتیجہ ہے ۔۔۔
  • میرے نزدیک اسلام کے مستقل اور بدلتے رہنے کا اشارہ اس ضمن میں تھا ۔۔۔مگر اس کا بڑا نقصان اس صورت میں ہوتا جب علماء کی بڑی جماعت مفاد پرست ہو ۔۔۔جیسا کہ اگر عورتوں کے حق میں پارلیمنٹ سے بل پاس ہوا ہے تو علماء حضرات نے قران پاک کی سورہ النساء کی آیت کا حوالہ دیتے ''یضربون '' سے اخذ کیا ہے کہ عورت کو اتنا مارا جاسکتا ہے کہ اس کی ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔ عورت چاہے اس مار سے مرجائے مگر ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔ عقل سے کام لیتے امام ابو حنفیہ کی زندگی کی بہت سی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے قیاس یا اجماع کے نتیجے میں حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی عملی زندگی کو ترجیح دی ۔۔۔جیسا کہ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی پر کبھی ہاتھ اٹھایا ؟ اس کے حق میں کوئی بھی دلیل نہیں دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • قانون بنانے والے یا مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ بالغ ، عاقل ، اور عربی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ ، جملہ قوانین اسلام کا عامل ہو
میں نے اپنے علم کے مطابق وضاحت دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی ہے ۔۔میں تو بہت سے حوالے عبدالرحیم شاہ ، یا ایف ۔ڈی کے دی سکتی ہوں یا کسی قانون کے حوالے سے احادیث کی روایت کرسکتی ہوں مگر میں ان ابحاث سے دور بھاگتی ہوں جہاں سے اختلاف زیادہ نکلیں ۔۔۔
نور سعدیہ شیخ بہن، میرے ذاتی موقف سے قطع نظر، آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مفصل جواب دیا، میں اس پر آپ کا مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
بر سبیلِ تذکرہ، ایک سے زائد شادیوں کے خلاف قانون سازی والی بات پسند نہیں آئی، اسے متنازعہ امور کی فہرست میں ڈال دینا چاہیے۔:)
 

نوشاب

محفلین
کسی شخصیت، حاضر یا غائب کی تضحیک ہمارا مقصود نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے جو بیان کیا وہ متعلقہ اقتباس کے رد عمل کے طور پر کافی ہے۔ آپ کے اس سوال کا متوقع جواب اس لڑی کے مزاج سے باہر کی چیز ہو گی۔ :) :) :)
متفق ۔
لیکن میرے سوال کا مقصد ان کی تضحیک ہرگز نہ تھی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اسلام کی بنیاد دو طرح کے حقوق پر رکھی گئ. ایک حقوق جو اٹل قسم کے ہیں. جن پر دوسری بات نہیں ہوسکتی ہے. ان کو حقوق اللہ کہتے ہیں. دوسری قسم کے حقوق: حقوق العباد ہیں.
مزے کی بات ہے کہ حقوق اللہ میں کمی کوتاہی قابلِ معافی ہے جب کہ حقوق العباد کی معافی نہیں حتٰی کہ شہید کے ذمّہ بھی اگر قرض ہے تو اُس کی ادائیگی ضروری ہے۔
 

حسن ترمذی

محفلین
دین کے جو احکامات فرض کہلاتے ہیں ۔۔ ان کے ساتھ جو انسان رحمدلی، تحقیق، صبرو تحمل ، سخاوت اور جستجو میں پڑ جاتا ہے وہ تصوف کا راہی ہوا نا ۔. آسانیاں فراہم کرنے والی بات اشفاق صاحب کی کتنی سادہ ہے لیکن اس کا اثر اتنا ہی گہرا ہے.. یہاں پہ جو لوگ تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال و جواب کر رہے ہیں اپنی طبع کے خلاف.. کہیں نہ کہیں صوفی ہوئے نا وہ بھی.. یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو عملی طور نبھانے والا ہوا راہ سلوک کا مسافر
 

نور وجدان

لائبریرین
مزے کی بات ہے کہ حقوق اللہ میں کمی کوتاہی قابلِ معافی ہے جب کہ حقوق العباد کی معافی نہیں حتٰی کہ شہید کے ذمّہ بھی اگر قرض ہے تو اُس کی ادائیگی ضروری ہے۔

اللہ نے انسان کو بھیجا زمانے میں پہچان کے لیے ...ہر نقش میں صورت یار ہے. اس کی خدمت عبادت کے جیسی ہے. شہید اگر جہاد اکبر میں مصروف ہو روح کی بندش کھلتی نہیں ہے جب تک حقوق العباد ادا نہ ہو جائیں .... .. ہر دو صورتوں میں اللہ تعالی کو یہ.گنوارا کہاں اس کا محبوب بندہ مقروض اس کی بارگاہ میں تشریف لائے. محبت پر دلالت شہادت " دینے" کی متقاضی ہے، تقسیم کی .......کجا " لینے " کی ....
 

محمد امین

لائبریرین
آپ امین کا کمنٹ دیکھیے اس کے لئے ، ان کا کہنا تھا کہ جو شریعت کا پابند نہیں وہ صوفی یا ولی نہیں ہوسکتا ۔

دیکھیں، اگر کسی "سائنس کے صوفی" کی بات ہورہی ہو تو اس کو بھی تو سائنس کے قواعد و ضوابط کے تحت یہ تصوف اختیار کرنا ہوتا ہے نا؟ مثال کے طور پر آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی بظاہر تو عوام الناس کی بھلائی کے لیے تھی، یہی چیز اس دھاگے میں ہر کوئی بیان کر رہا ہے کہ کوئی انسانیت کی بھلائی کے لیے خلوصِ دل سے کام کرے تو وہ صوفی ہے۔ اس طرح آغا وقار بھی صوفی ہوا نا؟ اس کے خلوصِ دل پر تو بہت سے لوگوں کو شبہ نہیں تھا۔ ہاں وہ سائنس کے ساتھ جو سلوک کر رہا تھا اور لاز اوف تھرموڈائنامکس کی جو دھجیاں بکھیر رہا تھا وہ کسی کو بھی قابلِ قبول نہ ہوا۔

اسی طرح اس غیر روایتی اور جدید "صوفیاء" کا کردار ہے۔۔۔ ان کو اور ان کے اعمال کو بھی ایک کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اور وہ کسوٹی اسی دریا کی ہوگی کہ جس دریا کے وہ شناور کہلانے کے دعوے دار ہونگے۔۔۔
 
ہمارا خیال ہے کہ پیا رنگ کالا ہے بلکہ کالا سیاہ ہے۔ لہٰذا تین اقدامات فی الفور عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے:
  1. دھاگے کا عنوان بدل کر پیا رنگ کیسا ہے کر دیا جائے۔
  2. چونکہ ہمارے جواب کو خود فاضل مصنف کی تائید حاصل ہے اس لیے ہمیں بھاری انعام سے نوازا جائے۔
  3. دھاگا ہٰذا کو مزید جوابات کے لیے مقفل کر دیا جائے۔
آمین۔
 

حسن ترمذی

محفلین
ہمارا خیال ہے کہ پیا رنگ کالا ہے بلکہ کالا سیاہ ہے۔ لہٰذا تین اقدامات فی الفور عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے:
  1. دھاگے کا عنوان بدل کر پیا رنگ کیسا ہے کر دیا جائے۔
  2. چونکہ ہمارے جواب کو خود فاضل مصنف کی تائید حاصل ہے اس لیے ہمیں بھاری انعام سے نوازا جائے۔
  3. دھاگا ہٰذا کو مزید جوابات کے لیے مقفل کر دیا جائے۔
آمین۔
یار یہ دھاگہ مقفل کردینا بڑی نا انصافی ہوتی ہے ویسے
 
مستیِ کردار
صُوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
شاعر کی نوَا مُردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار ہیں سرمست ، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پَے میں فقط مستیِ کردار
(علامہ اقبال)
 
ہمارہاں عمومی طور پر کتاب ہاتھ میں لیکر اسے پڑھنے کو "پڑھنا" کہا جاتا ہے۔ میں کوئی عالم فاضل ادیب لکھاری تو نہیں ہوں، بس ذاتی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں- کتاب سے متعلق میری رائے ہے کہ کوئی بھی کتاب ہو کسی بھی شے سے متعلق کسی بھی موضوع اور مضمون کی، اسے ہاتھ میں تھام کے محض پڑھنے سے زیادہ اسے محسوس کیا جائے لفظوں کے ساتھ بات کی جائے اور انہیں اندر تک اترنے دیا جائے۔ کیونکہ اسی کے باعث لفظوں سے زیادہ آپ لکھاری کی سوچ تک نہ بھی پہنچیں، پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح "سر دیوار کی باتیں اور پس دیوار کی باتیں" بھی سمجھ آنے لگتی ہیں۔ اور یہ کتاب "پس دیوار" کی باتوں پر مشتمل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

حسن ترمذی

محفلین
ہمارہاں عمومی طور پر کتاب ہاتھ میں لیکر اسے پڑھنے کو "پڑھنا" کہا جاتا ہے۔ میں کوئی عالم فاضل ادیب لکھاری تو نہیں ہوں، بس ذاتی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں- کتاب سے متعلق میری رائے ہے کہ کوئی بھی کتاب ہو کسی بھی شے سے متعلق کسی بھی موضوع اور مضمون کی، اسے ہاتھ میں تھام کے محض پڑھنے سے زیادہ اسے محسوس کیا جائے لفظوں کے ساتھ بات کی جائے اور انہیں اندر تک اترنے دیا جائے۔ کیونکہ اسی کے باعث لفظوں سے زیادہ آپ لکھاری کی سوچ تک نہ بھی پہنچیں، پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح "سر دیوار کی باتیں اور پس دیوار کی باتیں" بھی سمجھ آنے لگتی ہیں۔ اور یہ کتاب "پس دیوار" کی باتوں پر مشتمل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
زبردست بات کی حسن محمود بھائی
 
حیران کن ہے اور بہت حد تک مشکوک، کیونکہ نماز میں قرآن پاک کی آیات پڑھنا فرض ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن پاک کو اپنی اپنی زبان میں سمجھا جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا اصل متن تبدیل نہ ہونے دیا جائے، ۔ قرآن پاک کو اسی لیے تمام حفاظ پوری دنیا میں ایک ہی جیسی حرکات کے ساتھ پڑھتے ہیں اور یہی ہمارے اسلامی اتحاد کی مضبوط ترین بنیادوں میں سے ایک ہے۔ اب نماز اپنی مادری زبان میں پڑھی جائے گی تو قرآن کا بھی ترجمہ کیا جائے گا اور ایک اٹل حقیقت یہاں دیوار بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہوجائے گی کہ قرآن پاک کا کسی بھی زبان میں ایسا ترجمہ کہاں سے لایا جائے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ کیونکہ قرآن کی زبان اتنی فصیح و بلیغ ہے کہ دنیا کا کوئی مترجم اس کا درست ترجمہ کرنے پر قادر نہیں۔ تفسیر کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں، کم ہیں۔ آج تک تفاسیر لکھی جارہی ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں، پھر بھی مکمل طور پر نہ سمجھ سکے۔


عرض یہ ہے کہ قرآن کلام الہی ہے۔ اور 1400 سال سے جس کسی نے بھی اس کا ترجمہ، تفسیر یا تشریح کی ہے وہ اللہ کی عطا سے، اپنے علم، معلومات، عقل اور فہم سے کی ہے۔ اب چاہے وہ ترجمہ و تفسیر یا تشریح عربی یا کسی بھی زبان میں کیوں نہ ہو۔ اور 1400 میں کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ اس نے منشا الہی کو سمجھ لیا ہے اور اس کی تشریح کی ہے۔ نہیں ایسا ہر گزنہیں ہے۔ منشا الہی کو اللہ و رسول ہی جانتے ہیں۔ لہذا ترجمہ کسی بھی زبان میں ہو کسی کا بھی کیا ہوا ہو وہ محض ایک شخص کے علم و فہم کی ترجمانی تو کرے گا لیکن بعینہ منشا الہی تک نہ پہنچائے گا۔ لہذا تراجم کا مختلف ہونا کوئی منفی پہلو نہیں بلکہ " اختلاف امتی رحمۃ" کے تحت علم کے دروازے کھولتا ہے۔ ہاں جذبات میں آنے کی بجائے علم حاصل کیا جائے اور دوسری کی رائے کو سمجھنے کی کوشش اور احترام کرنا چاہیے۔
۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عرض یہ ہے کہ قرآن کلام الہی ہے۔ اور 1400 سال سے جس کسی نے بھی اس کا ترجمہ، تفسیر یا تشریح کی ہے وہ اللہ کی عطا سے، اپنے علم، معلومات، عقل اور فہم سے کی ہے۔ اب چاہے وہ ترجمہ و تفسیر یا تشریح عربی یا کسی بھی زبان میں کیوں نہ ہو۔ اور 1400 میں کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ اس نے منشا الہی کو سمجھ لیا ہے اور اس کی تشریح کی ہے۔ نہیں ایسا ہر گزنہیں ہے۔ منشا الہی کو اللہ و رسول ہی جانتے ہیں۔ لہذا ترجمہ کسی بھی زبان میں ہو کسی کا بھی کیا ہوا ہو وہ محض ایک شخص کے علم و فہم کی ترجمانی تو کرے گا لیکن بعینہ منشا الہی تک نہ پہنچائے گا۔ لہذا تراجم کا مختلف ہونا کوئی منفی پہلو نہیں بلکہ " اختلاف امتی رحمۃ" کے تحت علم کے دروازے کھولتا ہے۔ ہاں جذبات میں آنے کی بجائے علم حاصل کیا جائے اور دوسری کی رائے کو سمجھنے کی کوشش اور احترام کرنا چاہیے۔
۔
تقریبا یہی بات میں نے کی۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ نماز اردو میں پڑھنا جائز ہے؟۔۔۔ اگر ہے تو میں نے جو پہلے تحریر کیا جس کا اقتباس آپ نے لیا، اس سیاق و سباق میں اس کا جائزہ لیجئے۔ اختلافِ امت علم کے دروازے ضرور کھولتا ہے لیکن علم کے دروازے عین علم نہیں ہیں۔علم کی روح قرآن ہے جس سے یہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے کو محض فہم کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔اسے قرآن کا نعم البدل سمجھنا درست نہیں ہوگا اور یہ محض رائے ہے۔ آپ اس سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ میں سے کس کس نے پیا رنگ کالا پڑھی ہے ۔ گوگل پر بابا یحیی خان کے متعلق لکھا ہوا ہے ان کا تعلق جدید دور کے صوفیوں ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ سے ہے ۔ صوفی اور ولی میں کوئی فرق ہیں کیونکہ بابا یحیی خان خود کو ولی اللہ لکھتے ہیں جبکہ آج تک کسی ولی اللہ نے خود کو ولی نہیں کہا ان کے جانے کے بعد دنیا میں اللہ کی جانب سے مشہور ہوگئے ۔ میں اس بارے ٹھوس دلائل چاہتی ہوں تاکہ میں جان سکوں کہ یہ سب کتنا سچ لکھتے ہیں ۔
پیا رنگ کالا۔۔ میں نے تھوڑی سی پڑھی، اس پر لوگوں کی آراء پڑھیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ اردو ادب کی دنیا میں انقلاب برپا کردینے والی کتاب ہے لیکن یہ نقطہ نظر محض ایک ادیب کا ہوسکتا ہے۔ جدید دور کے صوفی آپ نے ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو لکھا۔ یہ لوگ بھی تقریبا سب ادیب ہیں۔ علم تصوف پر ان کی گہری نظر کو تو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ صوفی اور ولی میں فرق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بابا کے خود کو ولی اللہ کہنے پر مت کیجئے۔ ولی اللہ ہر مسلمان خود کو کہہ سکتا ہے اگر وہ خدا کی عطا کردہ صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ تصوف ایک الگ دنیا ہے۔ اس پر چلنا شریعت کے سیدھے راستے پر چلنے سے زیادہ کٹھن ہے کیونکہ پہلے یہ لوگ شریعت کو سمجھتے ہیں۔ اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے بعد عشق کی منازل طے کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے مقامات اور راہیں الگ الگ ہوسکتی ہیں اور اسی اعتبار سے ان کے درجات ہیں۔ بابا کی کتاب کا موضوع کچھ بھی ہو اور اندازِ بیان کتنا ہی جاندار کیوں نہ ہو، انہیں ولی اللہ قرار دینے کے لیے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی یہ تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی نوبت آسکتی ہے کہ وہ ولی اللہ تھے یا محض خود کو ولی اللہ کہتے تھے۔ ولی اللہ کیسے ہوتے تھے، یہ جاننے کے لیے تذکرۃ الاولیا سے بہتر کتاب مجھے آج تک نہیں ملی۔ اگر کسی کی نظر میں ہو تو ضرور بتائے ۔۔
 
تقریبا یہی بات میں نے کی۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ نماز اردو میں پڑھنا جائز ہے؟۔۔۔ اگر ہے تو میں نے جو پہلے تحریر کیا جس کا اقتباس آپ نے لیا، اس سیاق و سباق میں اس کا جائزہ لیجئے۔ اختلافِ امت علم کے دروازے ضرور کھولتا ہے لیکن علم کے دروازے عین علم نہیں ہیں۔علم کی روح قرآن ہے جس سے یہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے کو محض فہم کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔اسے قرآن کا نعم البدل سمجھنا درست نہیں ہوگا اور یہ محض رائے ہے۔ آپ اس سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔

دراصل آپ کے قول اول کو میں سمجھ نا پایا۔ در اصل حقیقت یہی ہے کہ ترجمہ قرآن محض فہم کا راستہ ہے۔ آپ ترجمہ قرآن کو نا قرآن کہہ سکتے ہیں نا اس کا ادب اس طرح ہوگا جیسا قرآن کا ہوتا ہے۔ دوسری بات کے عین علم نہیں تو علم کائنات کی سب سے افضل ہستی آقائے کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے پاس بھی عطائے ربی ہے۔ عین علم تو خالق کائنات کو ہی ہے۔ تیسری بات پہلے سے متصل کہ نماز میں قرآن پڑھنا فرض ہے، اور دوسری زبان قرآن نہیں، لہذا نماز دوسری کسی زبان میں نہیں پڑھی جاسکتی۔ باقی اس پر علما کی ہی رائے لی جائے تو وہی معتبر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 
Top