ایطائے خفی کو کیسے پہچانا جائے؟

اس موضوع پر آتے ہی کتابوں والے دانا اور بینا کی مثال دے کر بغیر وضاحت کے موضوع بدل لیتے ہیں.
حیراں ہوں دل کو رؤوں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
کیا اس شعر میں ایطا ہے اگر نہیں تو کیا تمام غزل کے قوافی میں گر نہیں آنا چاہیے تھا؟
اور
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس میں تو مرزا یاس کے اصول کے حساب سے ایطائے جلی ہے . ہندو اور گل دونوں با معنی الفاظ ہیں.
 

ابن رضا

لائبریرین
اس موضوع پر آتے ہی کتابوں والے دانا اور بینا کی مثال دے کر بغیر وضاحت کے موضوع بدل لیتے ہیں.
یہ ایطائے خفی کی مثال ہے جسے جائز شمار کیا جاتا ہے

حیراں ہوں دل کو رؤوں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
کیا اس شعر میں ایطا ہے اگر نہیں تو کیا تمام غزل کے قوافی میں گر نہیں آنا چاہیے تھا؟
یہاں بھی دونوں قافیوں کو دیکھا جائے تو ایک قافیہ واحد لفظ جگر ہے جب کہ دوسرا قافیہ نوحہ گر ہے جو کہ ایک ترکیب ہے دونوں میں صرف ایک حرف گاف کی تکرار ہے محض۔ جو اتنی نمایاں نہیں اس لیے اسے بھی ایطائے خفی میں شمار کیا جائےگا۔ ہاں اگر دونوں مصرعوں میں کچھ ایسا قافیہ ہوتا جیسے دولت مند اور حاجت مند تو یہ دونوں تراکیب ایطائے جلی کی طرف اشارہ کرتی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس میں تو مرزا یاس کے اصول کے حساب سے ایطائے جلی ہے . ہندو اور گل دونوں با معنی الفاظ ہیں
صرف ہم معنی الفاظ ہونا ایطا کی نشانی نہیں ۔ گلستاں اور ہندوستاں ہم معنی کی جو بات آپ نے کی اس کا مدعا کچھ اور ہے وہ یہ کہ ایک ہی لفظ دونوں مصرعوں میں قافیہ کیا جائے اور معنی بھی ایک باندھا جائے یہاں لفظ ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ لفظ ہیں ان کے معنی ایک ہونا بھی دور کی کوڑی ہے کہ ہندوستاں ایک ملک کا نام ہے اور اگر ملک کا نام نہ بھی ہوتا تو بھی یہ ایک الگ لفظ ہے۔ ہاں اگر دونوں مصرعوں میں ایک سا قافیہ جیسے گلستاں ہی استعمال کیا جاتا اب چونکہ معنی بھی ایک ہی اور لفظ بھی ایک تو یہ یاس کی تائید ہوتی۔
 
جناب میں نے ہم معنی نہیں با معنی کہا تها. جیسے درد مند اور حاجت مند سے مند خارج کر دیا جائے تو حاجت اور درد دو با معنی الفاظ بچتے ہیں. جو کہ ایطاے جلی کی نشانی ہے بقول یاس . اسی طرح گلستاں اور ہندوستاں سے ستاں جو کہ مشترک ہے خارج کیا جائے تو ہندو اور گل با معنی الفاظ بچتے ہیں جن میں حرف روی مشترک نہیں ہے اس لیے یہ بهی ایطائے جلی میں شمار
ہونا چاہیے.
 
ہم تم ایسا کریں تو ایطا ہے، غالب اور اقبال کریں تو واہ واہ!!
یہی تو "کمال" ہے صاحب! اور یہی "سببِ زوال" بھی ہے اگر دیکھا جائے! مگر ہمارے پاس تاویلات کے ڈھیر ہیں، جس ناک کو چاہے موم کی بنا دیں اور جسے چاہے فولاد کی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
غالب

اگر یہ ایطا "کبھی کبھار" غالب کے لیے جائز ہے تو میرے لیے بھی کبھی کبھار جائز ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس موضوع پر آتے ہی کتابوں والے دانا اور بینا کی مثال دے کر بغیر وضاحت کے موضوع بدل لیتے ہیں.
حیراں ہوں دل کو رؤوں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
کیا اس شعر میں ایطا ہے اگر نہیں تو کیا تمام غزل کے قوافی میں گر نہیں آنا چاہیے تھا؟
اور
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس میں تو مرزا یاس کے اصول کے حساب سے ایطائے جلی ہے . ہندو اور گل دونوں با معنی الفاظ ہیں.


ریحان بھائی ! اقبال کےمطلع میں ایطائے جلی موجود ہے ۔ آپ نے ایطائے جلی معلوم کرنے کے جس طریقے کا ذکر کیا ہے وہ بالکل درست ہے ۔ ایطائے جلی عموما تبھی واقع ہوتا ہے جب مطلع کے قوافی مرکب الفاظ پر مشتمل ہوں ۔ یعنی ان میں کوئی لاحقہ موجود ہو جیسے اقبال کے محولہ بالا شعر میں ستاں کا لاحقہ ۔ یا جیسا کہ آ پ نے حاجت مند اور دردمند کی مثال دی ۔ اس عیب کو جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک بڑا عیب ماناگیا ہے کیونکہ اس عیب کی وجہ سے مطلع میں حرفِ روی کا تعین ہی نہیں ہوپاتا جبکہ مطلع میں حرفِ روی کا اعلان قافیہ قائم کرنے کے لئے بنیادی شرط ہے ۔ اس کی مزید تفصیل اس ربط پر دیکھ لیجئے ۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/خواب-آنکھوں-میں-کئے-ایسے-کسی-نے-روشن.87718/

غالب کے مطلع میں ایطائے خفی ہے ۔ ایطائے خفی کو ایک عیب گردانا گیا ہے ۔ ایطائے خفی قافیہ کی تمام شرائط کو پورا کرتا ہے یعنی ان دونوں قوافی میں حرفِ روی کا اتحاد اور اعلان موجود ہوتا ہے چنانچہ غزل کے بقیہ اشعار کے لئے قافیہ درست طریقے سے قائم ہوجا تا ہے ۔ لیکن دونوں قوافی میں حرفِ روی سے پہلے ایک یا ایک سے زیادہ حروف کی تکرار نظر آتی ہے ۔ جس کے باعث قاری کو یہ گمان گزرتا ہے کہ اب آنیوالے شعر میں روی کے ساتھ ان تمام ماقبل حروف کی تکرار بھی لازمی ہوگی ۔ جبکہ درحقیقت یہاں حرفِ روی کے علاوہ اور کسی ماقبل حرف کی تکرار ضروری نہیں ۔ مثال کے طور پر پاگل ، ہلچل ، بوجھل، آنچل ، بیکل تمام ہم قافیہ حروف ہیں جن کا حرفِ روی لام ہے ۔ لیکن اگر آپ مطلع میں ہلچل اور آنچل کو قوافی بنالیں تو یہاں ایطائے خفی کا عیب واقع ہوجائے گا ۔ اب قاری توقع کرے گا کہ آئندہ قوافی میں حرفِ روی لام کے ساتھ ماقبل چ کی پابندی بھی ضروری ہے حالانکہ ایسی کوئی پابندی نہیں ۔ چنانچہ غزل کے بقیہ اشعار میں پاگل ، بوجھل اور دلدل کے قوافی دیکھ کر قاری کے ذہن میں ایک خلجان سا رہے گا کہ یہ قوافی ہلچل اور آنچل کی صوتی حالت پر پورا نہیں اترتے ۔ اسی لئے ایطائے خفی کو ایک عیب مانا گیا ہے ۔

ایطائے خفی کی ایک دوسری مثال دیکھئے ۔ احسان ، دہقان ، بے جان ، درمان ، انسان ، شیطان ، ریحان سب کے سب ہم قافیہ ہیں جن کا حرف روی نون ہے ۔ نوٹ کیجئے کہ اس حرفِ روی سے ماقبل الف موجود ہے ۔ (حرفِ روی سے پہلے آنے والے حرفِ علت الف، واؤ اور یائے کو اصطلاح میں حرفِ ردف کہا جاتا ہے اور روی کے ساتھ حرفِ ردف کی پابندی بھی ہر قافیے میں لازم ہوتی ہے )۔ لیکن اگر مطلع میں انسان اور احسان کے قوافی استعمال کر لئے جائیں تو ایطائے خفی کا عیب واقع ہوجائے گا ۔ یعنی بظاہر یوں معلوم ہوگا کہ اب بقیہ تمام قوافی کے آخر میں سان کے حروف آنا لازمی ہیں حالانکہ ایسا کرنا ضروری نہیں ۔ صرف الف اور نون کی تکرار لازمی ہے ۔ یہی چھوٹا سا عیب (خفی) غالب کے مطلع میں موجود ہے ۔ جگر اور نوحہ گر درست قوافی ہیں لیکن حرفِ روی سے پہلے گ کی تکرار سے ایطائے خفی کا عیب درآیا ۔

بھائی ، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اساتذہ کے لئے عروضی قوانین اور ہیں اور ہم جیسوں کے لئے اور تو یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے بلکہ کسی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ عروضی قوانین سب کے لئے برابر ہیں ۔ بلا استثناء ہر شاعر کی شاعری میں کچھ عیوب پائے جاتے ہیں ۔لسانی و عروضی لحاظ سے بھی اور محاسنِ کلام کے اعتبار سے بھی ۔ یہ عیوب کسی کی شاعری میں بہت کم کسی میں زیادہ اور کسی مین بہت زیادہ ہیں ۔ اور ان اغلاط اور عیوب کا تناسب ہی اچھے اور برے شاعر کو ممیز کرتا ہے ۔ اساتذہ کے کلام میں لسانی اور عروضی عیوب بہت کم ملیں گے اور اانہیں اساتذہ کہنے کی ایک وجہ یہی ہے ۔ لیکن کسی استاد کی غلطی ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ۔ دلیل اور حجت صرف اور صرف وہی اصول ہیں جنہیں بحیثیت مجموعی تمام اساتذہ اورعلمائے فن کی عملی تائید حاصل ہے ۔ اساتذہ کے ہزاروں لاکھوں اشعار میں سے دو چار اشعار میں کسی عیب کا پایا جانا ایک استثناء کو ظاہر کرتا ہے دلیل اور حجت نہیں بن سکتا ۔ ایک اور بات غور کرنے کی یہ بھی ہے کہ یہ اساتذہ پیدائشی طور پر اساتذہ نہیں تھے ۔ یہ بھی ہماری طرح اکتساب اور پختگی کے تمام مراحل سے گزرے ہیں ۔ ہر استاد کا کلام شروع سے آخر تک ایک جیسی پختگی اور کمالِ فن کا حامل نہیں رہا ۔ یہ عام بات ہے کہ اکثر اساتذہ اپنے اولین ادوار کا کلام بعد میں ضائع کردیا کرتے تھے ۔ ( یہ الگ بات کہ اب محققین اس رد کئے ہوئے کلام کو بھی اکثر کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالتے ہیں اور وہ شائع ہوجاتا ہے )۔ اگر اساتذہ کی غلطیوں کو بھی اپنے لئے حجت اور دلیل بنا لیا جائے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ پھر کسی قسم کا کوئی عروضی یا لسانی مسئلہ باقی ہی نہیں رہے گا ۔ ہر چیز جائز قرار پائے گی ۔ میر و غالب کے ہاں تو رکاکت آمیز اور ابنذال سے بھرپور مضامین بھی مل جائیں گے۔ عطار کے لونڈے اور بھوں پاس آنکھ والے اشعار کو اگر دلیل بنالیا جائے تو شعریت اور جمالیات کی تعریف ہی بدل جائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ۔ حاصلِ کلام یہ کہ اساتذہ کی خطائیں ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتیں ۔ صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ بے عیب کلام کسی بشر کا نہیں ۔ عیبِ تنافر کس استاد شاعر کے ہاں نہیں ؟ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان اس سے بچنا چاہیئے ۔ بحیثیت طالبانِ علم و ادب ہمارا کام یہ ہے کہ ان عیوب سے جتنا ممکن ہوسکے بچا جائے ۔ اگر نہ بچ سکیں تو کوئی تھانہ پولس کی نوبت نہین آجائے گی ۔ کوئی شہر بدر نہین کرے گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اہلِ علم ان عیوب کی نشاندہی ضرور کریں گے اور اسی سنجیدہ نقد و نظر سے جہاں کلام کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے وہیں شاعر کے کلام میں بہتری بھی پیدا ہوتی ہے ۔
 
بھائی ، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اساتذہ کے لئے عروضی قوانین اور ہیں اور ہم جیسوں کے لئے اور تو یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے بلکہ کسی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ عروضی قوانین سب کے لئے برابر ہیں ۔ بلا استثناء ہر شاعر کی شاعری میں کچھ عیوب پائے جاتے ہیں ۔لسانی و عروضی لحاظ سے بھی اور محاسنِ کلام کے اعتبار سے بھی ۔ یہ عیوب کسی کی شاعری میں بہت کم کسی میں زیادہ اور کسی مین بہت زیادہ ہیں ۔ اور ان اغلاط اور عیوب کا تناسب ہی اچھے اور برے شاعر کو ممیز کرتا ہے ۔ اساتذہ کے کلام میں لسانی اور عروضی عیوب بہت کم ملیں گے اور اانہیں اساتذہ کہنے کی ایک وجہ یہی ہے ۔ لیکن کسی استاد کی غلطی ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ۔ دلیل اور حجت صرف اور صرف وہی اصول ہیں جنہیں بحیثیت مجموعی تمام اساتذہ اورعلمائے فن کی عملی تائید حاصل ہے ۔ اساتذہ کے ہزاروں لاکھوں اشعار میں سے دو چار اشعار میں کسی عیب کا پایا جانا ایک استثناء کو ظاہر کرتا ہے دلیل اور حجت نہیں بن سکتا ۔ ایک اور بات غور کرنے کی یہ بھی ہے کہ یہ اساتذہ پیدائشی طور پر اساتذہ نہیں تھے ۔ یہ بھی ہماری طرح اکتساب اور پختگی کے تمام مراحل سے گزرے ہیں ۔ ہر استاد کا کلام شروع سے آخر تک ایک جیسی پختگی اور کمالِ فن کا حامل نہیں رہا ۔ یہ عام بات ہے کہ اکثر اساتذہ اپنے اولین ادوار کا کلام بعد میں ضائع کردیا کرتے تھے ۔ ( یہ الگ بات کہ اب محققین اس رد کئے ہوئے کلام کو بھی اکثر کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالتے ہیں اور وہ شائع ہوجاتا ہے )۔ اگر اساتذہ کی غلطیوں کو بھی اپنے لئے حجت اور دلیل بنا لیا جائے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ پھر کسی قسم کا کوئی عروضی یا لسانی مسئلہ باقی ہی نہیں رہے گا ۔ ہر چیز جائز قرار پائے گی ۔ میر و غالب کے ہاں تو رکاکت آمیز اور ابتذال سے بھرپور مضامین بھی مل جائیں گے۔ عطار کے لونڈے اور بھوں پاس آنکھ والے اشعار کو اگر دلیل بنالیا جائے تو شعریت اور جمالیات کی تعریف ہی بدل جائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ۔ حاصلِ کلام یہ کہ اساتذہ کی خطائیں ہمارے لئے حجت اور دلیل کا درجہ نہیں رکھتیں ۔ صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ بے عیب کلام کسی بشر کا نہیں ۔ عیبِ تنافر کس استاد شاعر کے ہاں نہیں ؟ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان اس سے بچنا چاہیئے ۔ بحیثیت طالبانِ علم و ادب ہمارا کام یہ ہے کہ ان عیوب سے جتنا ممکن ہوسکے بچا جائے ۔ اگر نہ بچ سکیں تو کوئی تھانہ پولس کی نوبت نہین آجائے گی ۔ کوئی شہر بدر نہین کرے گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اہلِ علم ان عیوب کی نشاندہی ضرور کریں گے اور اسی سنجیدہ نقد و نظر سے جہاں کلام کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے وہیں شاعر کے کلام میں بہتری بھی پیدا ہوتی ہے ۔

اللہ آپ کا بھلا کرے؛ آپ نے بہت عمدہ پیرائے میں بہت اصولی بات کر دی! بہت سی دعائیں!
 
Top