بیسویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ ۔ اردو سافٹ ویر

arifkarim

معطل
ن پیج کی طرح صدف کا مقصد بھی صرف کاروباری تھا۔ ان پیچ اس وقت کم از کم 8 سال پرانا تھا جب صدف کا پہلا ورژن بکا۔ خلیل احمد اقبال اور میں دونوں صدف کاروباری نکتہ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کہ اس حقیقت سے فائیدہ کیسے اٹحایا جائے کہ ان پیج جیسے سافٹ وئیر کی قیمت کروڑوں میں تھی اور جس کے لئے بہت مہنگے کمپیوٹر استعمال ہوتے تھے ہم کم قیمت میں یہی کچھ فراہم کرنا چاہتے تھے۔
اصل ان پیج کروڑوں کا تھا؟ تو عام صارفین تک یہ 95 کے بعد کیسے پہنچا؟ اسوقت مارکیٹ میں اور کون کون سے سافٹوئیر تھے۔ کیا ونڈوز پر صرف ان پیج ہی چل سکا؟ باقی اردو سافٹوئیر کہاں گئے؟
 
عارف تمہارے سوال کرنے کا شکریہ ۔ جی ان پیج کا کمرشل رزلٹ بہتر تھا۔ لیکن یہ وجہ نہیں تھی صدف پر کام روکنے کی۔ تٍصیلات دیکھئے۔

بہت عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ
ان پیج کی طرح صدف کا مقصد بھی صرف کاروباری تھا۔ ان پیچ اس وقت کم از کم 8 سال پرانا تھا جب صدف کا پہلا ورژن بکا۔ خلیل احمد اقبال اور میں دونوں صدف کاروباری نکتہ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کہ اس حقیقت سے فائیدہ کیسے اٹحایا جائے کہ ان پیج جیسے سافٹ وئیر کی قیمت کروڑوں میں تھی اور جس کے لئے بہت مہنگے کمپیوٹر استعمال ہوتے تھے ہم کم قیمت میں یہی کچھ فراہم کرنا چاہتے تھے۔ صدف ڈوس 2 پر بنایاتھا، ونڈوز کا وجود نہیں تھا۔ ونڈوز 6 یا 7 ڈسک پر آتا تھا اور ڈوس بوٹ کرنے کے بعد ونڈوز ستارٹ کرنا پڑتا تھا۔ تو صدف ہم نے ڈوس پر لکھا تھا ، خلیل پاسکال میں ایک ایڈیٹر تھا ، جس کا سورس کوڈ ہم دونوں نے دو ہزار ڈالر میں خریدا تھا۔ تو خلیل اس کو اردو میں تبدیل کرنے میں لگا رہتا تھا اور میں اسمبلی میں نستعلیق بنانے کا سوفٹ وئیر پر کام کرتا تھا۔ شروع میں ہم نے ویڈیو کارڈز کے ای پرام پروگرام کرکے اردو کے کیریکٹر اس میں ڈالے بعد میں بہتر کارڈز آگئے تو ان میں ہم اردو کا فانٹ نسخ میں ڈاؤن لوڈ کرلیتے تھے ۔ صدف یہ کام خود ہی انجام دیتا تھا۔ یعنی نستعلیق سکرین پر نظر نہیں آتی تھی ۔ چھاپنے کے وقت پرنٹ ڈرائیور ایچ پی کے پرنٹر کی ایک پی سی ایل فونٹ پرنٹر میں ڈاؤن لوڈ کرتا تھا ۔ فونٹس کی ڈسکس الگ ہوتی تھیں کیوں کے یہ فونٹ تھے تو ٹرو ٹائپ لیکن ہم ان سے بٹ میپ فونٹس جنریٹ کرکے بہت سے سائز کے فانٹس فراہم کرتے تھے۔ کمپیوٹر کی ساری استعمال کے قابل میموری 640 کلو بائیٹ ہوتی تھی۔

صدف کا ونڈوز ورژن ہم نے لکھنا شروع کیا تو اس کو ایم ایس ورڈ جیسا بنانا چاہتے تھے ۔ فونٹ اس وقت تک یونی کوڈ میں نہیں تھے، خط رعنا اور خط ریما کے ٹرو ٹائپ فانٹس ہم نے بنائے تھے جو ونڈوز میں استعمال کرنا شروع کئے۔ چونکہ میرا طرز فکر کاروباری رہا ہے تو جب میں نے دیکھا کہ ایسی ٹٰکنالوجیز ڈویلپ ہورہی ہیں جن کی مدد سے ہم چینی، جاپانی اور کورین فانٹس میں ان زبانوں کے لگیچرز ڈال سکیں گے اور ان فانٹس کو کسی طور بیچنا ممکن نہیں ہوگا تو میں نے اس پر کام کرنا چھوڑ دیا ۔ اور صدف کے سورس کو اور اس کے خط رعنا اور خط ریما کے فانٹس کو پبلک ڈومین میں ڈال دیا۔ تاکہ دوسرے کچھ سیکھ سکیں یا کچھ بھی استفادہ حاصٌ کرسکیں۔ یہ کوئی احسان نہیں کسی پر۔ کہ اب یہ کاروباری نکتہ نگاہ سے مزید کچھ دے نہیں سکتا تھا۔ یہ وجہ ہے کہ صدف پر مزید کام نہیں ہوا۔ یہ تو لمبا جواب ہوا عارف کریم کے سوال کا۔

مزید تفصیل یہ ہے اس جواب کی کہ میں نے کیوں صدف پر کام بند کردیا۔
اپریل 1992 سے میں نے اوریکل کی نیشنل لینگویج سپورٹ کی ڈویلپمنٹ کا ڈویژن جوائین کیا۔ اس ڈویژن شامل لوگوں نے بہت کام کیا۔ زبانوں کو تقسیم کیا کہ کونسا حصہ سرور میں ہو کہ سارٹنگ اور سرچنگ کرتے وقت اوریکل سارا متن ڈھونڈھ سکے۔ اور کونسا حصہ فانٹس میں ہو کہ ساری زبانیں ساتھ لکھی اور پڑھی جاسکیں۔ اس سافٹ وئیر کے پیچھے بہت سے تحقیقی مضامین تھے۔ میں نے اردو عربی ، فارسی زبانوں کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا اس میں اپنا حصہ ڈالا اور ان میلنگ لسٹ پر رہا جہاں یہ کچھ پل بڑھ رہا تھا۔ بہت شروع کی بحثوں میں سے ایک بات جو میں نے سامنے رکھی وہ یہ تھی کہ کیریکٹر چھاپنے کے بعد کرسر صرف ایکس ڈائریکشن میں ہی فلائیٹ نا لے بلکہ واءٰ ڈائریکشن میں بھی فلائیٹ لے تاکہ کیریکٹر چھاپنے کے بعد اگلا کیریکٹر کس جگہ چھپے گا اس کے ایکس اور وائی کوآرڈی نیٹ دونوں پر رینڈرنگ انجن کو کنٹرول ہو۔ کیوں کہ میری معلومات میں نستعلیق کی ضرورت تھی کہ ایک کیریکٹر چھاپنے کے بعد اگلا کیریکٹر چھاپنے کے لئے کتنا ایکس اور کتنا وائی جانا ہوگا۔ مثلاً لفظ "تم " لکھنے کے لئے جب بڑا "میم" چاپ دیا تو ایکس اور وائی فلائیٹ ہوگی اور پھر "ت" چھپے گا۔ وائی ڈائریکشن میں کرسر کیوں فلائی کرے ، یہ بات ذرا دیر میں باقی لوگوں کو ہضم ہوئی۔ بہر حال کسی وقت یہ بھی سفارشات میں شامل ہو ہی گئی۔ بات بہت معمولی سے ہے۔ لیکن بہت ضروری تھی۔ ورنہ کیریکٹر بیسڈ نستعلیق اوپن ٹائپ میں ممکن نا ہوتی۔ سب کمپنیز اپنا اپنا کوڈ اور اپنی اپنی بات کرتی رہیں ، زیادہ تر بات انگلش اور انگلش سے ملتی جلتی زبانوں پر ہوتی تھی۔ جے سی کے زبانوں کے گلیفس بھی صرف اور صرف ایکس کورڈینیٹس پر چھپ جاتے ہیں اور اردو کے گلفس کے لئے آج وائی ڈائریکشن کی ضرورت نہیں ۔

اس دوران میں نے دیکھ لیا تھا کہ ایسی ٹٰکنالوجیز ڈویلپ ہورہی ہیں جس کے بعد کسی بھی فونٹ کو فروخت کرنا بہت مشکل ہوگا ۔ اپل ، مائیکرو سوفٹ ، اوریکل اور اسی طرح کی دوسری کمپنیاں فونٹ سے پیسہ کمانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے کام کا فائیدہ اٹھانے کے لئے صرف اور صرف وہ کچھ اوپن سورس کرنا چاہتی تھیں جو باقی کام میں رکاوٹ نا بنے۔ اسی لئے اوپن ٹائپ کنسورشئیم بنا۔ یہ دیکھتے ہوئے میں نے صدف پر خود کام بند کردیا ۔ کہ اس میں پیسے کمانے کا کوئی طریقہ ممکن نہیں تھا۔ کم از کم اس مارکیٹ میں نہیں تھا جس میں اردو آج جاری ہے۔

اس کام میں کتنی توانائی لگتی ہے ، میں خوب جانتا ہوں ۔ اسی لئے جب آپ لوگ جب کچھ بھی کوئی نیا کام کرتے ہٰں تو میں اس کو "زبردست " قرار دیتا ہوں ، دل سے آپ کے کام کے عزت کرتا ہوں اور دل سے آُپ لوگوں کو سات سلام کرتا ہوں۔ جب امجد نے اپنی نستعلیق فانٹ جاری کی تو اس کو انعام دے کر حوصلہ افزائی کی۔ یہ صرف میری طرف کی کہانی ہے ۔ مقصد اس سے درازی نفس نہیں ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ اگر مرزا جمیل احمد اپنے ہاتھ سے ترسیمے نہیں لکھتے تو کوئی اور لکھتا ۔ گو کہ خط رعنا کے کیریکٹر خط دہلوی ہونے کی وجہ سے نوری نستعلیق سے ملتے جلتے ہیں لیکن یہ اس خظ سے بالکل نہیں لئے گئے ۔ یہ میں نے کراچی کے ایک خطاط سے لکھوائے تھے ، یہ صاحب مرزا جمیل احمد کے پریس کے لئے بھی کام کیا کرتے تھے اور یہ امر میں نے صدف جاری کرنے سے پہلے ہی مرزا جمیل احمد صاحب کو بتا دیا تھا۔ کہ دیکھئے یہ آپ کے کام کی چوری نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ میں نوری نستعلیق سے بہت ملتا جلتا خط بنوانا چاہتا تھا۔ مرزا جمیل احمد سے آخری ملاقات میں جناب نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے ترسیموں کی ایک بڑی تعداد کی اصل شیٹس مجھے تحفتاً عطا فرمائیں۔ جو میرے پاس محفوظ ہیں ۔ مرزا جمیل احمد سے ملاقات کی تصاویر آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔

ان تمام باتوں سے درازیء نفس مقصود نہیں ہے میں بہت ہی عاجزی سے بھرپور بندہ ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امجد علوی ، عارف کریم ، نبیل،، ابرا ر حسین اور بہت سے دوسرے جنہوں نے نستعلیق پر کام کیا ہے ان سب کے پاس اس سے بھی اچھی کہانیاں ہوں گی ۔ تو استدعا یہ ہے آپ بھی اپنے تجربات شئیر کیجئے۔ آج سے سو سال بعد ہماری آئندہ نسلیں پڑھیں گی اور جانیں گی کہ کس طرح یہ کام ہوا۔ تازہ ترین کرننگ کام جو ہوا ہے وہ تو بہت ہی زبردست ہے۔

خلیل احمد اقبال کچھ عرصے سے علیل ہے، اس کو گردوں میں کچھ تکلیف ہے ، آپ سب دعا کیجئے۔ اب ساٹھ کے پیٹے میں کچھ نا کچھ تو سٹھیا ئے گا :) آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمت کے ساتھ ساتھ صحت بھی دے تاکہ آپ سب کی محنتیں رنگ لائیں۔

تمام تر محبتوں ، شفقتوں اور خلوص کے ساتھ،

والسلام

واہ! دو اتنی لمبی تحریریں۔ لیکن ابھی گفتگو ماضی تک ہی محدود ہے۔ حال سے اتصال باقی ہے۔
اور ہاں فاروق سرور خان صاحب! اگر مرزا احمد جمیل کے ہاتھ کے لکھے کتبے یہاں شیئر کر دیں تو بڑی عنایت!!!!
 
اصل ان پیج کروڑوں کا تھا؟ تو عام صارفین تک یہ 95 کے بعد کیسے پہنچا؟ اسوقت مارکیٹ میں اور کون کون سے سافٹوئیر تھے۔ کیا ونڈوز پر صرف ان پیج ہی چل سکا؟ باقی اردو سافٹوئیر کہاں گئے؟
جی اصل ان پیج ، سافٹ وئیر اور ہارڈ ئیر کرورّ سے زیادہ کا بکتا تھا۔ جنگ اور نوائے وقت کے علاوہ بہت کم اخبارات اس کو خرید پائے۔ 1992 میں ہم نے صدف کے ونڈوز ورژن پر کام بند کردیا تھا۔ اسی ٹایم فریم میں ان پیج کا ونڈوز ورژن جاری ہوا، جس کے ساتھ 70 سے زیادہ ٹرو ٹائپ فونٹس کی فائیلوں میں نوری نستعلیق موجود تھی۔ یہ سوفٹ وئیر کم قیمت کا تھا لیکن پھر بھی مہنگا تھا۔ اس کے بعد یہی فانٹس اوپن ٹائپ میں ایک سے زیادہ لوگوں نے ڈالے ۔ اس ٹائم فریم میں باقی سافٹ وئیر مارکیٹ سے اٹھتے چلے گئے۔ مارکیٹ میں ان پیج کی پائیریٹڈ کاپیاں بہت دستیاب ہوچکی تھیں۔ ہم کمرشل پرنٹنگ پریس نہیں چلاتے تھے اور نا ہی کمرشل پبلشنگ کرتے تھے اس لئے اس کے پائیریٹڈ ورژن میں کبھی کوئی انٹریسٹ نہیں رہا ۔ ونڈوز پر یقیناً دوسرے سافٹ وئیر بھی ہوں گے لیکن میری نظر سے گزرے نہیں ۔ اپریل 1992 کے بعد سے میرا انٹرسٹ ورڈ پراسیسر میں کچھ بھی نہیں رہا۔
 
آخری تدوین:
واہ! دو اتنی لمبی تحریریں۔ لیکن ابھی گفتگو ماضی تک ہی محدود ہے۔ حال سے اتصال باقی ہے۔
اور ہاں فاروق سرور خان صاحب! اگر مرزا احمد جمیل کے ہاتھ کے لکھے کتبے یہاں شیئر کر دیں تو بڑی عنایت!!!!

صدف کا پہلا ورژن 1988 میں جاری ہوا اور 1992 کے شروع میں اس پر کام روک دیا۔ اس کے بعد قابل قدر کام اوپن ٹائپ میں ہوا ، جس میں میرا حصہ کچھ بھی نہیں ۔ :) اس کے لئے آپ کو دوسرے حضرات کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اوپن ٹائپ کے کام کے بارے میں عارف کریم ، نبیل وغیرہ بہتر بتا سکیں گے۔
 
صدف کا پہلا ورژن 1988 میں جاری ہوا اور 1992 کے شروع میں اس پر کام روک دیا۔ اس کے بعد قابل قدر کام اوپن ٹائپ میں ہوا ، جس میں میرا حصہ کچھ بھی نہیں ۔ :) اس کے لئے آپ کو دوسرے حضرات کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اوپن ٹائپ کے کام کے بارے میں عارف کریم ، نبیل وغیرہ بہتر بتا سکیں گے۔

جو شیٹس آپ کو مرزا احمد جمیل نے گفٹ کی تھیں ان کے فوٹو یہاں شیئر کرنے کو کہا تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
کمپیوٹر پر اردو تحریر خصوصاً نستعلیق کی ایک کلک ایبل ٹائم لائن بنائی جانی چاہیے کہ کب کیسے اور کون سا نستعلیق فونٹ یا سافٹ ویئر بنایا گیا اور کون سا فونٹ کس فونٹ سے نکلا یا کس نے کس کا بیس انجن یا ترسیمے وغیرہ استعمال کیے۔
 
مرزا جمیل احمد صاحب، نوری نستعلیق کے اصل ترسیمے کا ایک حصہ مجھے تحفتاً عطا فرما رہے ہیں۔
DSC_3017.JPG
 
اور یہ ہیں وہ چند سو ترسیمے جو جناب مرزا جمیل احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے مجھے عطا فرمائے۔ ان میں سے کچھ آج میرے گھر میں دیوار کی زینت ہیں۔
DSC_3018.JPG
 
وہ چند سو ترسیمے جو محترم مرزا جمیل احمد صاحب نے مجھے تحفتاً عطا فرمائے، ہر شیٹ کے بعد ایک سفید کاغذ ہے تاکہ اصل خراب نا ہوجائے۔
DSC_3019.JPG
 
کیا نوری نستعلیق کے تمام ترسیمے اسی پیج سائز پر لکھوائے گئے تھے؟ ان سب میں اتنی یکسانیت کیسے لائی گئی؟

تمام اصل ترسیمے اسی سائز پر لکھے گئے تھے۔ یکسانیت لانے کے لئے پروجیکٹر کا استعمال کیا گیا تھا ، جو کہ الیٹ پرنٹنگ پریس میں ایک سے زیادہ تھے۔ یہ پرنٹنگ پریس مرزا جمیل احمد کی ملکیت تھا۔ میری یادواشت کے مطابق نوری نستعلیق کے ترسیمے لکھنے اور ان کو طبع کرنے کا کام 1975 میں شروع ہوا تھا۔ اس کی تاریخ کے لئے کہیں اور دیکھئے۔
زیادہ تر ترسیمے جناب مرزا جمیل احمد صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے لکھے تھے اور کچھ ترسیموں کو پروجیکٹ کرکے اور کاٹ کر کاغذ پر چپکا کر اس کی تصویر لی گئی تھی ۔ جب بھی کوئ نیا ترسیمہ شامل کیا جاتا تھا تو دو تین لفظ پرنٹ کرکے ان کو کاٹ کر نیا ترسیمہ بنا کر اس کی تصویر لی جاتی تھی ۔ شروع میں ترسیمے صرف اور صرف بٹ میپ فانٹ تھے اور بعد میں ان کو بیزئیر کاروز میں آؤٹ لائین کی شکل میں تبدیل کرلیا گیا تھا۔

میں واضح کرتا چلوں کے نوری نستعلیق کی ڈویلوپمنٹ میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا ۔ اور ناہی مرزا جمیل احمد نے کبھی یہ ترسیمے پبلک ڈومین میں دئے ۔ مرزا صاحب میرے کام سے بخوبی واقف تھے۔ جناب مرزا جمیل احمد سے میری واقفیت میرے ایک کلاس فیلو اظہر بشیر کی وجہ سے تھی۔ صدف اردو نستعلیق کی مکمل کتاب صدف پر ہی طبع ہوئی تھی ۔ میں نے ایک کتاب ، مرزا جمیل احمد کو تحفتاً دی تھی ، جس کو دیکھ کر جناب بہت خوش ہوئے تھے ، وہ اس حقیقت سے بہت خوش تھے کا ہم نے کیریکٹرز کو جوڑنے کا کام ان کی توقع سے بڑھ کر کیا تھا ۔ انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ لفظ "کشمکش" لکھوں اور پھر اسی میں دوبارہ کشمکش کو ملا کر لکھوں اور صدف سے چھاپ کر دکھاؤں۔ اس کے رزلٹ سے جمیل صاحب بہت ہی خوش ہوئے تھے۔ اور کئی دوسرے الفاظ جیسے "کچے کیلے کی گیلی سیلی جڑ" کو ملا کر لکھنے کے لئے کہا تھا اور نتیجہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔

یہ سابقہ یادیں ، اردو نستعلیق کی 1975 سے آگے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
جب بھی کوئ نیا ترسیمہ شامل کیا جاتا تھا تو دو تین لفظ پرنٹ کرکے ان کو کاٹ کر نیا ترسیمہ بنا کر اس کی تصویر لی جاتی تھی ۔
فیض نستعلیق کے ترسیموں میں غالبا یہ اصول نہیں اپنایا گیا اسلئے اس کے ترسیمے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔
 

arifkarim

معطل
تمام اصل ترسیمے اسی سائز پر لکھے گئے تھے
۸۰ کی دہائی میں فوٹو اسکیننگ ٹیکنالوجی کافی کمزور تھی۔ اتنے بڑے سائز میں ایک ایک ترسیمہ لکھنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔
ان ترسیموں کا چناؤ کس بنیاد پر کیا گیا؟ کیا اس زمانہ میں اردو ورڈ لسٹ مختلف لغات سے حاصل کی گئی؟
 
1970 اور 1980 میں اسکیننگ کی ٹیکنالوجی کمزور نہیں تھی ، بہت مہنگی تھی اور کمپیوٹرز بھی بہت مہنگے تھے ۔ ورڈ لسٹ کے پیچھے صرف ایک لغت نہیں تھی بلکہ ایک سے زیادہ لوگوں کا زبانی کنٹری بیوشن بھی تھا۔ مرزا جمیل احمد کی خطاطی بہت ہی اعلی تھی۔ ان کو 1943 میں آل انڈیا آرٹ اور انڈسٹری کا اعلی ترین ایوارڈ ملا تھا ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ اگر آپ ان کے جذبے کو بھی ملا لیجئے تو صاحب ہر ایک ترسیمہ مصوری کا ایک اعلی شاہکار ہے۔

احمد مرزا جمیل سے لے کر آج تک شائع شدہ ہر نستعلیق اور نسخ کا فونٹ میں حصہ ڈالنے والا، اردو زبان کے تاریخی ورثہ کا ایک عالی شان حصہ ہیں۔ میں آپ سب کو تہہ دل سے سلام کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

باسم

محفلین
احمد مرزا جمیل صاحب نے ترسیمے خود لکھے یا لکھوائے ایک بات بہرحال تسلیم کرنی ہوگی کہ انہوں نے اس پر رقم بہت خرچ کی تھی اگرچہ لکھوانے کی صورت میں کاتب کا بھی نام آنا چاہیے تھا
 
تمام اصل ترسیمے اسی سائز پر لکھے گئے تھے۔ یکسانیت لانے کے لئے پروجیکٹر کا استعمال کیا گیا تھا ، جو کہ الیٹ پرنٹنگ پریس میں ایک سے زیادہ تھے۔ یہ پرنٹنگ پریس مرزا جمیل احمد کی ملکیت تھا۔ میری یادواشت کے مطابق نوری نستعلیق کے ترسیمے لکھنے اور ان کو طبع کرنے کا کام 1975 میں شروع ہوا تھا۔ اس کی تاریخ کے لئے کہیں اور دیکھئے۔
زیادہ تر ترسیمے جناب مرزا جمیل احمد صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے لکھے تھے اور کچھ ترسیموں کو پروجیکٹ کرکے اور کاٹ کر کاغذ پر چپکا کر اس کی تصویر لی گئی تھی ۔ جب بھی کوئ نیا ترسیمہ شامل کیا جاتا تھا تو دو تین لفظ پرنٹ کرکے ان کو کاٹ کر نیا ترسیمہ بنا کر اس کی تصویر لی جاتی تھی ۔ شروع میں ترسیمے صرف اور صرف بٹ میپ فانٹ تھے اور بعد میں ان کو بیزئیر کاروز میں آؤٹ لائین کی شکل میں تبدیل کرلیا گیا تھا۔

میں واضح کرتا چلوں کے نوری نستعلیق کی ڈویلوپمنٹ میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا ۔ اور ناہی مرزا جمیل احمد نے کبھی یہ ترسیمے پبلک ڈومین میں دئے ۔ مرزا صاحب میرے کام سے بخوبی واقف تھے۔ جناب مرزا جمیل احمد سے میری واقفیت میرے ایک کلاس فیلو اظہر بشیر کی وجہ سے تھی۔ صدف اردو نستعلیق کی مکمل کتاب صدف پر ہی طبع ہوئی تھی ۔ میں نے ایک کتاب ، مرزا جمیل احمد کو تحفتاً دی تھی ، جس کو دیکھ کر جناب بہت خوش ہوئے تھے ، وہ اس حقیقت سے بہت خوش تھے کا ہم نے کیریکٹرز کو جوڑنے کا کام ان کی توقع سے بڑھ کر کیا تھا ۔ انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ لفظ "کشمکش" لکھوں اور پھر اسی میں دوبارہ کشمکش کو ملا کر لکھوں اور صدف سے چھاپ کر دکھاؤں۔ اس کے رزلٹ سے جمیل صاحب بہت ہی خوش ہوئے تھے۔ اور کئی دوسرے الفاظ جیسے "کچے کیلے کی گیلی سیلی جڑ" کو ملا کر لکھنے کے لئے کہا تھا اور نتیجہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔

یہ سابقہ یادیں ، اردو نستعلیق کی 1975 سے آگے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

نوری نستعلیق کے لگیچرز میں حروف کی یکسانیت کا راز آج پتا چلا۔
 
Top