"کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون"

تفریق ہونی ہی کیوں چاہیے؟ فرق کس بات کا ہو؟
بھیا۔۔۔!
آزادئ اظہار کا حق سب کو ہے۔۔۔۔۔۔ اسلئے آپ کسی کے غیر متفق کہہ دینے سے دل چھوٹا مت کیجئے اور کُھل کے اپنا مؤقف بیان کیا کیجئے۔۔۔ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اور فرق تو ہے۔۔۔
جسمانی بھی اور ایکولوجیکل نِچ میں بھی۔۔۔۔
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے۔۔۔
مگر اس حقیقت کی آڑ میں بہت سے ڈھونگ اس معاشرے میں رچائے جا رہے ہیں۔۔۔۔
(اگر آپ میری بات سے متفق نہ ہوں تو غیر متفق کلک کر سکتے ہیں۔۔۔مجھے کوئی غم نہیں)
 
بھیا آپ مذہب پر کیسے جنسی تفریق کا الزام عائد کر سکتے ہیں ایسا کون سا مقام ہے جہاں آپ کو لگا مذہب نے عورت کی حق تلفی کی ہے
باقی آپ اگر غیر متفق والی ریٹنگز سے پریشان ہیں تو میں یہ ختم کر دیتی ہوں ریٹنگ کا مطلب آپ کی اس بات سے غیر متفق ہونا ہے آپ کی ذات سے نہیں. آپ بشک مجھے غیر متفق والی ریٹنگ دیں کوئی پابندی نہیں ہے
شاید انہوں نے حق تلفی نہیں کہا۔۔۔
بلکہ تفریق کہا ہے۔۔۔
فرق کرنا۔۔۔۔
فرق ہے تو تفریق تو ہو گی۔۔۔
مگر ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں نا۔۔۔۔۔
یہ تفریق فائدے کہ تھی۔۔۔اللہ کی طرف سے مگر ان دنیاوی ناخداؤں نے جینا دو بگر کر دِیا اس تفریق کے ساتھ اتنے ردیف اور لاحقے لگا لگا کر کہ اصل بات ملبے تلے دب کے رہ گئی شاید
 
بھیا آپ مذہب پر کیسے جنسی تفریق کا الزام عائد کر سکتے ہیں ایسا کون سا مقام ہے جہاں آپ کو لگا مذہب نے عورت کی حق تلفی کی ہے
باقی آپ اگر غیر متفق والی ریٹنگز سے پریشان ہیں تو میں یہ ختم کر دیتی ہوں ریٹنگ کا مطلب آپ کی اس بات سے غیر متفق ہونا ہے آپ کی ذات سے نہیں. آپ بشک مجھے غیر متفق والی ریٹنگ دیں کوئی پابندی نہیں ہے
ویسے سرخ رنگ پروفائل پر اچھا نہیں لگتا ورنہ مجھے بھی اس کا کوئی غم نہیں ہے
حق تلفیاں بھی ہوئیں ہیں مگر میں نے ان کا ذکر نہیں کیا میں نے تفریق کا ذکر کیا ہے۔
 
بھیا آپ مذہب پر کیسے جنسی تفریق کا الزام عائد کر سکتے ہیں ایسا کون سا مقام ہے جہاں آپ کو لگا مذہب نے عورت کی حق تلفی کی ہے
باقی آپ اگر غیر متفق والی ریٹنگز سے پریشان ہیں تو میں یہ ختم کر دیتی ہوں ریٹنگ کا مطلب آپ کی اس بات سے غیر متفق ہونا ہے آپ کی ذات سے نہیں. آپ بشک مجھے غیر متفق والی ریٹنگ دیں کوئی پابندی نہیں ہے
شاید انہوں نے حق تلفی نہیں کہا۔۔۔
بلکہ تفریق کہا ہے۔۔۔
فرق کرنا۔۔۔۔
فرق ہے تو تفریق تو ہو گی۔۔۔
مگر ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں نا۔۔۔۔۔
یہ تفریق فائدے کہ تھی۔۔۔اللہ کی طرف سے مگر ان دنیاوی ناخداؤں نے جینا دو بگر کر دِیا اس تفریق کے ساتھ اتنے ردیف اور لاحقے لگا لگا کر کہ اصل بات ملبے تلے دب کے رہ گئی شاید
 
تفریق ہونی ہی کیوں چاہیے؟ فرق کس بات کا ہو؟
میں یہاں چوہدری خالد سیف اللہ صاحب کا ایک آرٹیکل کاپی کر رہی ہوں جو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا کافی تلاش کرنے کے بعد مجھے ملا
ماہرین حیاتیات بڑے خوش ہیں کہ انہوں نے قدرت کا یہ عظیم راز معلوم کر لیاہے کہ مردوں اور عورتوں کے طرز عمل (Behaviour) صلاحیتوں اور دلچسپیوں میں جو فرق ہوتا ہے اس کی وجہ ان کے دماغ کی بناوٹ کا اختلاف ہے۔ مائیکل جوزف اپنی کتاب Brain Sex میں (جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے) لکھتے ہیں کہ مردوں عورتوں دونوں میں کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ خامیاں ہیں۔ بعض معاملات میں مرد عورتوں سے آگے نکلے ہوئے ہیں اور بعض میں عورتیں مردوں سے آگے ہیں ۔ اسی طرح بعض باتوں میں مرد عورتوں سے کمزور ہیں اور بعض میں عورتیں ۔ مردوں کے دماغ میں جگہ (Space) زیادہ کھلی ہوتی ہے اور کچھ مردانہ سیکس ہارمون(Testosterone)کے اثرات ہیں جو اس اختلاف کا باعث بنے ہیں۔

مرد جسمانی مشقت کے لئے زیادہ موزوں ہیں ۔ ان کا میدان کھیت اور کارخانے ہیں۔ وہ بہترین مکینک ، ماہر حساب دان ، میوزک کمپوزر اور شطرنج کے کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں ۔مردوں کے دماغ کی کھلی جگہ ا ن کو کھلے ماحول میں کام کرنے پر ابھارتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ادھر ادھرکھلا دوڑا پھرے۔ اگر مرد کے ہاتھ میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہوگا تو وہ اسے گھماتا پھرے گا جبکہ عورت اپنا پسندیدہ پروگرام آرام سے دیکھے گی اور ادھر اُدھر نظریں نہیں گھمائے گی۔ مرد گاڑی چلاتے ہوئے باربار لین تبدیل کر ے گا جبکہ عورت کی خواہش ہوگی کہ ایک ہی لین میں چلتی چلی جائے۔ مردوں کی نگاہ مجمل ہوتی ہے اورعورت کی مفصل ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دے گی ۔ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں اورا ن میں خوبصورتی کو محسوس کرنے کاملکہ زیادہ ہوتا ہے۔

پھر وہ لکھتے ہیں کہ عورتوں کے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں ان کے سونگھنے ، چکھنے، سننے اور بولنے کی طاقتیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہیں اسی لئے وہ مردوں کی نظروں کو فوراً پہچا ن لیتی ہیں ۔زبانیں سیکھنے کے لئے عورتیں زیادہ موزوں ہیں ۔چونکہ قدرت نے عورتوں کو بات کرنے کا زیادہ ملکہ عطا کیا ہے اس لئے وہ بولنے چالنے میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔

سائنس دانوں کی تحقیق سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے کام کرنے کے دائرے مختلف ہیں اور وہ مختلف کاموں کے لئے زیادہ موزوں ہیں سوائے استثنائی حالات کے جیسے ذاتی مجبوری یا قومی ضرورت ۔ ورنہ بالعموم یہی بات درست ہے کہ ایک کو دوسرے کے دائرہ میں گھسیڑنا ایسے ہی ہے جیسے لوہار سنار کے اوزاروں سے اور سنار لوہار کے ہتھیاروں سے کام کرنا شروع کر دے۔جب عورت اور مرد کی مساوات قدرت ہی نے قائم نہیں کی اورایک کو دوسرے پر بعض امور میں فضیلت دے دی ہے تو اس کے خلاف کام کرنا ایک غیر طبعی بات ہے۔

اللہ نے ہر مخلوق کو اس کے کاموں کی مناسبت سے قویٰ عطا کئے ہیں جیسے فرمایا (وَخَلَقَ کُلّ شَیئٍ فَقَدَّّرَہٗ تَقْدِیرَاً)(الفرقان 25:3)۔ یعنی اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کے لئے ایک خاص اندازہ (قویٰ اور بناوٹ وغیرہ کا) مقرر کر دیا ہے۔ آج کے بہت سے سماجی ، معاشی ، اخلاقی اور اقتصادی مسائل مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے کے دائرہ میں گھسنے سے پیدا ہوئے ہیں۔اگر مغربی ممالک کی عورتیں آج اپنے گھروں کو سنبھال لیں تو بے کاری بھی ختم ہوجائے ۔ بچوں کی تربیت بھی بہتر انداز میں ہونے لگے اور بے شمار اجڑے گھروں کا سکون بھی پھر لوٹ آئے۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)
 
میں یہاں چوہدری خالد سیف اللہ صاحب کا ایک آرٹیکل کاپی کر رہی ہوں جو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا کافی تلاش کرنے کے بعد مجھے ملا
ماہرین حیاتیات بڑے خوش ہیں کہ انہوں نے قدرت کا یہ عظیم راز معلوم کر لیاہے کہ مردوں اور عورتوں کے طرز عمل (Behaviour) صلاحیتوں اور دلچسپیوں میں جو فرق ہوتا ہے اس کی وجہ ان کے دماغ کی بناوٹ کا اختلاف ہے۔ مائیکل جوزف اپنی کتاب Brain Sex میں (جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے) لکھتے ہیں کہ مردوں عورتوں دونوں میں کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ خامیاں ہیں۔ بعض معاملات میں مرد عورتوں سے آگے نکلے ہوئے ہیں اور بعض میں عورتیں مردوں سے آگے ہیں ۔ اسی طرح بعض باتوں میں مرد عورتوں سے کمزور ہیں اور بعض میں عورتیں ۔ مردوں کے دماغ میں جگہ (Space) زیادہ کھلی ہوتی ہے اور کچھ مردانہ سیکس ہارمون(Testosterone)کے اثرات ہیں جو اس اختلاف کا باعث بنے ہیں۔

مرد جسمانی مشقت کے لئے زیادہ موزوں ہیں ۔ ان کا میدان کھیت اور کارخانے ہیں۔ وہ بہترین مکینک ، ماہر حساب دان ، میوزک کمپوزر اور شطرنج کے کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں ۔مردوں کے دماغ کی کھلی جگہ ا ن کو کھلے ماحول میں کام کرنے پر ابھارتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ادھر ادھرکھلا دوڑا پھرے۔ اگر مرد کے ہاتھ میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہوگا تو وہ اسے گھماتا پھرے گا جبکہ عورت اپنا پسندیدہ پروگرام آرام سے دیکھے گی اور ادھر اُدھر نظریں نہیں گھمائے گی۔ مرد گاڑی چلاتے ہوئے باربار لین تبدیل کر ے گا جبکہ عورت کی خواہش ہوگی کہ ایک ہی لین میں چلتی چلی جائے۔ مردوں کی نگاہ مجمل ہوتی ہے اورعورت کی مفصل ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دے گی ۔ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں اورا ن میں خوبصورتی کو محسوس کرنے کاملکہ زیادہ ہوتا ہے۔

پھر وہ لکھتے ہیں کہ عورتوں کے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں ان کے سونگھنے ، چکھنے، سننے اور بولنے کی طاقتیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہیں اسی لئے وہ مردوں کی نظروں کو فوراً پہچا ن لیتی ہیں ۔زبانیں سیکھنے کے لئے عورتیں زیادہ موزوں ہیں ۔چونکہ قدرت نے عورتوں کو بات کرنے کا زیادہ ملکہ عطا کیا ہے اس لئے وہ بولنے چالنے میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔

سائنس دانوں کی تحقیق سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے کام کرنے کے دائرے مختلف ہیں اور وہ مختلف کاموں کے لئے زیادہ موزوں ہیں سوائے استثنائی حالات کے جیسے ذاتی مجبوری یا قومی ضرورت ۔ ورنہ بالعموم یہی بات درست ہے کہ ایک کو دوسرے کے دائرہ میں گھسیڑنا ایسے ہی ہے جیسے لوہار سنار کے اوزاروں سے اور سنار لوہار کے ہتھیاروں سے کام کرنا شروع کر دے۔جب عورت اور مرد کی مساوات قدرت ہی نے قائم نہیں کی اورایک کو دوسرے پر بعض امور میں فضیلت دے دی ہے تو اس کے خلاف کام کرنا ایک غیر طبعی بات ہے۔

اللہ نے ہر مخلوق کو اس کے کاموں کی مناسبت سے قویٰ عطا کئے ہیں جیسے فرمایا (وَخَلَقَ کُلّ شَیئٍ فَقَدَّّرَہٗ تَقْدِیرَاً)(الفرقان 25:3)۔ یعنی اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کے لئے ایک خاص اندازہ (قویٰ اور بناوٹ وغیرہ کا) مقرر کر دیا ہے۔ آج کے بہت سے سماجی ، معاشی ، اخلاقی اور اقتصادی مسائل مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے کے دائرہ میں گھسنے سے پیدا ہوئے ہیں۔اگر مغربی ممالک کی عورتیں آج اپنے گھروں کو سنبھال لیں تو بے کاری بھی ختم ہوجائے ۔ بچوں کی تربیت بھی بہتر انداز میں ہونے لگے اور بے شمار اجڑے گھروں کا سکون بھی پھر لوٹ آئے۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)
انتہائی جانبدارانہ تجزہی ہے معذرت کے ساتھ۔ مگر کوئی نیوٹرل آدمی اس سبجیکٹ پر نہیں ملے گا۔
 
انتہائی جانبدارانہ تجزہی ہے معذرت کے ساتھ۔ مگر کوئی نیوٹرل آدمی اس سبجیکٹ پر نہیں ملے گا۔
اللہ نے نہیں بنائے کسی کے سینے میں دو دِل۔۔۔۔۔ مفہوم ہے ایک آیت کا۔۔۔۔
کسی بھی مسئلہ پر غیر جانبدار ہونا بذاتِ خُود ایک مسئلہ ہے۔۔۔۔!
"واقعۃانا الحق" میں بھی جو غیر جانبدار تھے وہ سزا کے مستحق قرار پائے تھے بالآخر۔۔۔
مجھے اس پہلو پہ تحقیق حاصل نہیں۔۔۔۔اس لیے شاید آپکو سیٹسفائے نہ کر پاؤں۔۔مگر میرا مطالعہ یہی کہتا ہے کہ نیوٹرل نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔۔ مذہبی، نفسیاتی، دینی و اخروی۔۔۔۔ہر اعتبار سے
وللہ اعلم
 
حقیقت میں عورتیں اب ہر اس فیلڈ میں کام کر رہی ہیں جدھر مرد کیا کرتے تھے اور معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ رہی بات گھر سنبھالنے کی تو وہ عورت اور مرد کو مل کر کرنا ہے۔
 
اللہ نے نہیں بنائے کسی کے سینے میں دو دِل۔۔۔۔۔ مفہوم ہے ایک آیت کا۔۔۔۔
کسی بھی مسئلہ پر غیر جانبدار ہونا بذاتِ خُود ایک مسئلہ ہے۔۔۔۔!
"واقعۃانا الحق" میں بھی جو غیر جانبدار تھے وہ سزا کے مستحق قرار پائے تھے بالآخر۔۔۔
مجھے اس پہلو پہ تحقیق حاصل نہیں۔۔۔۔اس لیے شاید آپکو سیٹسفائے نہ کر پاؤں۔۔مگر میرا مطالعہ یہی کہتا ہے کہ نیوٹرل نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔۔ مذہبی، نفسیاتی، دینی و اخروی۔۔۔۔ہر اعتبار سے
وللہ اعلم
ہم تو سزا والوں کے ہی ساتھ ہیں۔
منم عثمانِ مروندی کہ یارِ شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
 

ناصر رانا

محفلین
ویسے دیکھا جائے تو مذہب ہی جنسی تفریق کا ذمے دار ہے۔
مذہب نے بصورتِ انسان عورت کو کبھی عزت نہیں دی۔
کسی کی ماں بہن بیٹی کے ہی طور پر دی ہے۔
غیر متفق ہوں اپ کی بات سے۔
تفصیلی تبصرہ فی الحال دشوار ہے کہ بندہ نوکر آدمی ہے اور ابھی آن ڈیوٹی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
شکر ہے بطور استاد بھی اِس مسلۂ پہ آواز اُٹھائی ہے۔ بچیوں کی راہنمائی کی ہے۔ (جس قدر ہو سکتا ہے،کرتے ہیں) اللہ کا شکر ہے۔ طلباء کو پڑھانے کا موقع ملا تو اُن سےبھی باتیں ہوئی ہیں۔

مذہب پرستی واقعی ایک پناہ ہے۔۔۔۔۔
جیسے کوئی بھی آفت آئے تو بچہ ماں کی گود میں چھپ جاتا ہے دوڑ کر یا ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے۔۔۔۔
میرے خیال میں نفسیاتی طور پر مذہب کا کردار وہی ہے۔۔۔
اور اسلام۔۔۔۔ ( دا لیٹسٹ ورژن)
ستّر ماؤں جتنی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بکہ ستّر ماؤں سے بڑھ کر پناہ دینے والا رحیم و کریم اللہ۔۔۔!
مجھے اس تحقیق سے اتفاق ہے مگر۔۔۔۔
انسان کیوں نہ پائے طلب سے بڑھ کر؟؟؟؟؟
دنیا کا کوئی شعبہ ، کوئی بادشاہ یا کوئی زمانہ ہمیں طلب سے بڑھ کر نہیں دے پاتا۔۔۔۔
لیکن وہ اہ جس کے سوا کوئی معبود ہےےےےے ہی نہیں۔۔۔۔! وہ ہمیشہ طلب سے بڑھ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔
اسی لئے تو ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔ کم از کم میں اپنی زندگی کی وجہ یہی سمجھتی ہوں۔۔۔۔ مادی زندگی بھی اور روحانی زندگی بھی۔۔۔۔۔ ہاں ! میں بہت کچھ سہنے، دیکھ لینے، آگہی، ستم ظریفی ۔۔۔اس معاشرے میں رہنا ایک پرسنٹ بھی آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔ سب کے باوجود میں زندہ ہوں تو اسی لئے کیونکہ مذہبی پناہ نے ہمیشہ اس سے بڑھ کر لوٹایا ہے جو مرا اصل تھا۔۔۔اور اس سے بڑھ کر تھمایا ہے جو مری طلب تھی۔۔۔۔۔
بہت ناقص عقل اور ناقص ترین اعمال کے باوجود اللہ تعالی نے عطا کے خزانوں کے در ہمیشہ وا کیے رکھے۔۔۔۔
وہ حقیقی محبوب ہے جس کی طرف ایک قدم بڑھاؤ تو وہ 10 قدم بڑھاتا ہے میری طرف۔۔۔
اور جن کو طلب سے کم ملتا ہے اور موت کہ طرف بڑھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ تمام انسان۔۔۔۔۔
سب سے پہلے اپنے آپ لو پہچانیں۔۔۔۔۔۔کہ وہ ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں؟
اور پھر قبلہ درست کریں۔۔۔۔اور صرف کرنے کا فائدہ بہت کم ہے۔۔۔قبلہ درست "رکھیں"

قبلہ اور عقیدہ بیج کا کام کرتا ہے ایمان کے پودے کہ افزائش کیلیء۔۔۔۔
اور میرا ہرگز یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ میرا قبلہ "ہی" درست ہے۔۔۔۔
نہ نہ نہ۔۔۔۔
مطلب فقط اتنا ہے کہ میری جستجو یہ کہتی ہے۔۔۔۔۔
اور میرا مشاہدہ گواہ ہے۔۔۔۔!

تفریق ہونی ہی کیوں چاہیے؟ فرق کس بات کا ہو؟

فرق فرق سب کہتے رہے اقبال اور اکبر الٰہ آبادی نے تو تعلیم کی بھی مخالفت کی علما نے کہا اتنا نہ پڑھاؤ کہ لکھنا جان جائیں وغیرہ وغیرہ پھر خود ہی وقت کے ہاتھوں مجبور ہوگئے اور مذہبی تعلیمات کو بھی اس کے مطابق ڈھال دیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی تعلیمات کو اگلے لیول تک ڈھالیں اور مرد اور عورت کو برابر قرار دیں۔

ایک وجہ اس مسئلے کی جنریشن گیپ بھی ہے ۔جیسا کہ مریم نے عرض کیا کہ اگر شاہدہ کے والد کوئی متبادل تفریح اور وقت فراہم کردیتے تو نوبت یہاں تک نہیں آتی ۔
بعض اوقات ایسے حالات خود کُشی کی طرف لے جاتے ہیں اور بعض اوقات جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور جسم کے کسی حصے کو متاثر کرتا موت تک ہمکنار کردیتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں موت یقین کے قریب ہوجاتی ہے ۔ ایسا کیا ہونا چاہیے کہ والد برابر کی توجہ دیں۔
میں اس سلسلے میں اپنی مثال سامنے رکھتے بات کرتی ہوں کہ میری امی کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں پسند ہیں اس لیے جب بہن پیدا ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئی جبکہ پورا گھر ناراض تھا ۔۔ کیا ایک عورت تب خوشی محسوس کرسکتی ہیں جبکہ اس کے پورے گھر کے افراد ناراض ہوں ؟ کیا اس بیٹی کی یا باقی بچوں کی تعلیم پر زور دے سکتی ہے جب اس خاندان میں کسی فرد واحد کی تعلیم پر توجہ نہ دی گئی ہو۔لڑکے کاروبار کریں گے اور لڑکیوں کی شادی ہوجائے گی ۔۔ بس '' جنریشن گیپ نہیں تھا۔میری مدر کہتی ہیں اپنی کلاس فیلوز سے زیادہ مجھ پر بھروسہ کرو کہ ماں سے بہتر دوست کیوں نہیں ہوتا ۔ اور ہم جب اسکول سے واپس آتے تب امی کو منتظر پاتے وہ کہتی سکول کا حرف بہ حرف مجھے بتاؤ۔۔ یوں ہمارے سارے مسائل سنتے وہیں حل کردیا کرتی ۔ میری مدر نے کبھی مجھے سمجھایا نہیں تھا کہ تم نے گھر کی عزت کی لاج رکھنی ہے میں نے ان کو اچھا عامل پایا اور ان کو دیکھتے ہوئے اپنی راہ متعین کرتی رہتی کہ اس'' مقام پر میری امی نے ایسا کیا ہوگا یا ایسا کریں گی !!!!۔مجھے اب ایسا کرنا چاہیے''۔سوال یہ ہے کہ والدین بچوں کو اپنے سے دور کیوں رکھتے ہیں ۔ان کو اپنا دوست کیوں نہیں بناتے؟؟؟؟ آج والدین کہتے ان کو عزت چاہیے یا ان کے پاؤں میں سر ہونا چاہیے جبکہ کبھی سوچا ! جب حضرت فاطمہ الزاہرا رض تشریف لاتی تو جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم اپنی چادر بچھا لیا کرتے اور ان کی عزت میں کھڑا ہوجایا کرتے۔یہ فاصلہ تب نہ تھا تو آج کیوں ہے؟؟؟


جاسمن بہنا۔۔۔۔آپ کا کردار بحثیت استاد مثالی نظر آرہا ہے ۔کبھی آپ کی رہنمائی کی کسی طالب علم کو ضرورت پڑی اور کس معاملے اور اگر پڑی تو آپ نے کیسے رہنمائی کی۔
ریحان بھائی
اقبال نے تعلیم نسواں کی مخالفت کیوں کیااور وہ کیا نظریہ رکھتے تھے تعلیم کے بارے میں ۔گفتگو میں جب تبصرہ کریں تو کھل کے واضح طور پر موقف بیان کریں ۔۔۔۔ ایک معنی خیز گفتگو کا یہی جزو ہونا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم بہنا۔۔۔
مذہب ایک پناہ بن جانا اور دنیا سے تنگ آجانا۔۔۔۔۔۔انسان کی قسمت وقت کے پہیے کی مانند گھومتی ہے ایک وقت ایسا ہوگا یا آتا ہے جب دنیا پوری قوت سے آپ کے یاسیت سے نکال دیتی ہے جب ہم یاسیت سے ڈر کے سکون مذہب میں پاتے ہیں تب وہ پردہ خوشی کے بعد سراب ہوجاتا ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ پایا ہی نہیں ۔۔۔۔ اس طرح جب احتیاج کی توبہ ہو تو انسان کتنی دفعہ خالی ہونا چاہے گا ؟ کیا ایک دفعہ راضی ہونے کے مقام پر آتے دنیا چلا لو بجائے پناہ لینے کے
 

نور وجدان

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ لڑکی کو بچپن سے اچھی تربیے لرنے کیلئے ہمیشہ کام کاج پہ لگایا جاتا ہے وہ پڑھتی بھی ہے اور کام بھی کرتی ہے۔۔۔۔بہتتت کام نہ سہی۔۔۔لیکن یہ اسکی ڈذمہ داری ہی گِنی جاتی ہے کہ اس نے کام کرنا ہے اور اگر وہ نہ کرے تو یہ اسکی اپنے فرائض سے شدید کوتاہی ہے ۔۔۔۔ لیکن لڑکے۔۔۔۔۔۔ انکا کام صرف پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔ انکو کیوں نہیں بچپن سے کسی کاریگر کے ساتھ لگا کہ ہنر سکھایا جاتا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تیسری بات جو نایاب انکل نے کہی کہ لڑکی کالج جائے تو اس کو بٹھا کہ سمجھایا جاتا ہے ہماری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے اور یہ سببببب کچھ۔۔۔۔۔جس لڑکی کے ذہن میں یہ بات سرے سے ہوتی ہی نہیں وہ بھی آ جاتی ہے۔۔۔۔ لیکن باہر یا کالج جاتے ہوئے لڑکوں کے ٹشن نرالے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان پہ دباؤ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔

اس بات کو ذرا مثبت لیں تو یوں بنتی ہے کہ ایک عورت ماں کے ساتھ باپ بھی بن جاتی ہے جبکہ باپ کبھی ماں نہیں بن سکتا یا بہت کم۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اگر اس کی عملی اصطلاح دیکھیں تو عورت کی ذمہ داری بحثیت بہو بیوی بیٹی بہن کے زیادہ ہوتی ہے کہ ان کے سر پر خاندان چلتے ہیں یہ ایک ابتدائی تجربہ گاہ ہوتی ہے۔۔۔۔

سچ پوچھیں تو میں ڈھیٹ اور کھلنڈری لڑکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کیا تو ہاتھ بٹا دیا ورنہ بھائی کے ساتھ سارا دن کھلیتی رہتی تھی ۔۔۔ مرد کی اہمیت یا افادیت کیا ہے یہ تو میں نے لٹریچر سے پایا سب
 
ایک وجہ اس مسئلے کی جنریشن گیپ بھی ہے ۔جیسا کہ مریم نے عرض کیا کہ اگر شاہدہ کے والد کوئی متبادل تفریح اور وقت فراہم کردیتے تو نوبت یہاں تک نہیں آتی ۔
بعض اوقات ایسے حالات خود کُشی کی طرف لے جاتے ہیں اور بعض اوقات جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور جسم کے کسی حصے کو متاثر کرتا موت تک ہمکنار کردیتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں موت یقین کے قریب ہوجاتی ہے ۔ ایسا کیا ہونا چاہیے کہ والد برابر کی توجہ دیں۔
میں اس سلسلے میں اپنی مثال سامنے رکھتے بات کرتی ہوں کہ میری امی کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں پسند ہیں اس لیے جب بہن پیدا ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئی جبکہ پورا گھر ناراض تھا ۔۔ کیا ایک عورت تب خوشی محسوس کرسکتی ہیں جبکہ اس کے پورے گھر کے افراد ناراض ہوں ؟ کیا اس بیٹی کی یا باقی بچوں کی تعلیم پر زور دے سکتی ہے جب اس خاندان میں کسی فرد واحد کی تعلیم پر توجہ نہ دی گئی ہو۔لڑکے کاروبار کریں گے اور لڑکیوں کی شادی ہوجائے گی ۔۔ بس '' جنریشن گیپ نہیں تھا۔میری مدر کہتی ہیں اپنی کلاس فیلوز سے زیادہ مجھ پر بھروسہ کرو کہ ماں سے بہتر دوست کیوں نہیں ہوتا ۔ اور ہم جب اسکول سے واپس آتے تب امی کو منتظر پاتے وہ کہتی سکول کا حرف بہ حرف مجھے بتاؤ۔۔ یوں ہمارے سارے مسائل سنتے وہیں حل کردیا کرتی ۔ میری مدر نے کبھی مجھے سمجھایا نہیں تھا کہ تم نے گھر کی عزت کی لاج رکھنی ہے میں نے ان کو اچھا عامل پایا اور ان کو دیکھتے ہوئے اپنی راہ متعین کرتی رہتی کہ اس'' مقام پر میری امی نے ایسا کیا ہوگا یا ایسا کریں گی !!!!۔مجھے اب ایسا کرنا چاہیے''۔سوال یہ ہے کہ والدین بچوں کو اپنے سے دور کیوں رکھتے ہیں ۔ان کو اپنا دوست کیوں نہیں بناتے؟؟؟؟ آج والدین کہتے ان کو عزت چاہیے یا ان کے پاؤں میں سر ہونا چاہیے جبکہ کبھی سوچا ! جب حضرت فاطمہ الزاہرا رض تشریف لاتی تو جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم اپنی چادر بچھا لیا کرتے اور ان کی عزت میں کھڑا ہوجایا کرتے۔یہ فاصلہ تب نہ تھا تو آج کیوں ہے؟؟؟


جاسمن بہنا۔۔۔۔آپ کا کردار بحثیت استاد مثالی نظر آرہا ہے ۔کبھی آپ کی رہنمائی کی کسی طالب علم کو ضرورت پڑی اور کس معاملے اور اگر پڑی تو آپ نے کیسے رہنمائی کی۔
ریحان بھائی
اقبال نے تعلیم نسواں کی مخالفت کیوں کیااور وہ کیا نظریہ رکھتے تھے تعلیم کے بارے میں ۔گفتگو میں جب تبصرہ کریں تو کھل کے واضح طور پر موقف بیان کریں ۔۔۔۔ ایک معنی خیز گفتگو کا یہی جزو ہونا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم بہنا۔۔۔
مذہب ایک پناہ بن جانا اور دنیا سے تنگ آجانا۔۔۔۔۔۔انسان کی قسمت وقت کے پہیے کی مانند گھومتی ہے ایک وقت ایسا ہوگا یا آتا ہے جب دنیا پوری قوت سے آپ کے یاسیت سے نکال دیتی ہے جب ہم یاسیت سے ڈر کے سکون مذہب میں پاتے ہیں تب وہ پردہ خوشی کے بعد سراب ہوجاتا ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ پایا ہی نہیں ۔۔۔۔ اس طرح جب احتیاج کی توبہ ہو تو انسان کتنی دفعہ خالی ہونا چاہے گا ؟ کیا ایک دفعہ راضی ہونے کے مقام پر آتے دنیا چلا لو بجائے پناہ لینے کے
جی جی۔۔۔۔ایسے مقامات بارہا آتے ہیں کہ دنیا سراپا آس بن جاتی ہے۔۔۔یاسیت سے نکال باہر کرتی ہے۔۔۔۔ مگر تب۔۔۔۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ مذہب کی پناہ کہ وجہ سے ممکن ہو پایا۔۔۔۔۔ اگر مجھے اس وقت پناہ نہ ملتی اور مر جاتی تو وقت کے اس چکر تک زندہ کیسے رہتی؟ شکر ۔۔۔صد ہزار شکر۔۔۔۔۔۔!!!!
ویسے مجھے آپکے سوال کی صحیح ظرح سمجھ نہیں آ سکی شاید۔۔۔۔
 
اس بات کو ذرا مثبت لیں تو یوں بنتی ہے کہ ایک عورت ماں کے ساتھ باپ بھی بن جاتی ہے جبکہ باپ کبھی ماں نہیں بن سکتا یا بہت کم۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اگر اس کی عملی اصطلاح دیکھیں تو عورت کی ذمہ داری بحثیت بہو بیوی بیٹی بہن کے زیادہ ہوتی ہے کہ ان کے سر پر خاندان چلتے ہیں یہ ایک ابتدائی تجربہ گاہ ہوتی ہے۔۔۔۔

سچ پوچھیں تو میں ڈھیٹ اور کھلنڈری لڑکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کیا تو ہاتھ بٹا دیا ورنہ بھائی کے ساتھ سارا دن کھلیتی رہتی تھی ۔۔۔ مرد کی اہمیت یا افادیت کیا ہے یہ تو میں نے لٹریچر سے پایا سب
میں بہت زیادہ عملی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔۔۔ لیکن مجھے احساس بہت زیادہ ہے۔۔۔۔شدید۔۔۔۔۔ میں سب سے بڑی بہن ہوں اور ایک ہی ہوں۔۔۔۔۔ اور امّی پر سارا بوجھ۔۔۔۔۔ اور میرا فرض۔۔۔۔ جو کہ میں کبھی ٹھیک طرح نبھا نہیں پائی۔۔۔۔کوشش کے باوجود۔۔۔۔
مجھے ہمیشہ اس بات کا قلق رہا۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ تفریق فائدے کہ تھی۔۔۔اللہ کی طرف سے مگر ان دنیاوی ناخداؤں نے جینا دو بگر کر دِیا اس تفریق کے ساتھ اتنے ردیف اور لاحقے لگا لگا کر کہ اصل بات ملبے تلے دب کے رہ گئی شاید

فائدے کی تفریق ؟ یعنی دنیا میں تضاد ہی اصل حسن ہے جب جسمانی لحاظ سے اتنی ساختیاتی تبدیلیاں ہیں تو حقوق اسی کے لحاظ سے ہونے چاہیے ۔۔۔
حق تلفیاں بھی ہوئیں ہیں مگر میں نے ان کا ذکر نہیں کیا میں نے تفریق کا ذکر کیا ہے۔

حق تلفیاں اگر ذکر کردیں تو آپ کا اصل موقف وجوہات کے ساتھ جانتے کچھ اخذ بھی کرسکیں
میں یہاں چوہدری خالد سیف اللہ صاحب کا ایک آرٹیکل کاپی کر رہی ہوں جو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا کافی تلاش کرنے کے بعد مجھے ملا

بہت اچھی شراکت کی ۔۔۔ماشاء اللہ ! آپ کی سوچ کافی حد تک مطمئن ہے جب کہ شروع میں آتے ہوئے مجھے لگا آپ جستجو لیے ہوئے ہو ۔۔۔۔۔ انسان ہوتا ہی جستجو اور تکمیل کے ساتھ ہے اور ترقی بھی یونہی کرتا ہے

انتہائی جانبدارانہ تجزہی ہے معذرت کے ساتھ۔ مگر کوئی نیوٹرل آدمی اس سبجیکٹ پر نہیں ملے گا۔
جانبدارنہ کو اپنے مطابق مولڈ کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد ہو یا عورت دنوں مین دو ہارمونز کا اخراج اس مین مرادنہ یا عورت کے خواص پیدا کرتا ہے ۔۔ان کے نام testosterone اور
، oestrogen and progesterone ہیں ۔۔۔ کچھ مردوں میں ایسٹروجن زیادہ پیدا ہوجاتے اور ان کے خواص عورتوں سے ملتے جلتے بن جاتے ہیں اور کچھ خواتین میں ٹیسٹو ۔۔۔۔ یوں کوئی بھی مکمل مرادنگی لیے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے ایسے ہارمونز دونوں میں پیدا کرنے کا نظام رکھا ہے ۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں وہ نسبتا مرد ہے یا نسبتا عورت ہے ۔ اس نسبت کی ایک حد ہمارے لیے مرد اور عورت کا معیار بناتی ہے ۔۔۔ اس لیے مغرب نے سب تضاد اس تحقیق سے ختم کردیے کہ عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے درحقیقت یہ شخصیت کو تباہ کر رہی ہے مگر ہمیں کسی بھی قیمت پر اس تفریق کا ایک معیار مقرر کرنا ہے تاکہ ہمارے اقدار ملبے تلے دونوں صورتوں میں مل نہ جائیں

مغربی ممالک کو اپنے جیسا ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی ان لوگوں کو۔
مغرب نصیحت کرتا نہیں ہمیں تحقیق دیتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں مگر جانتے کہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔

"واقعۃانا الحق" میں بھی جو غیر جانبدار تھے وہ سزا کے مستحق قرار پائے تھے بالآخر۔۔۔

انسان کا غیر جانبدرا ہونا اس کو دار کی طرف کیسے لے جاتا ہے آج کے دور میں ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر مجھے اس وقت پناہ نہ ملتی اور مر جاتی تو وقت کے اس چکر تک زندہ کیسے رہتی؟

میرا سوال اتنا ہی تھا جتنا کہ آپ نے جواب دیا ہے ۔۔ انسان پر ایسے حالات آتے ہیں کہ اگر وہ مذہب کی طرف نہ مڑے تو وہ شاید مر ہی جائے مگر اس طرح مڑنا کیا عقلمندی ہے کیونکہ ہم زمانے چھوڑ دیتے اس سے اجنبی بن جاتے ہیں چونکہ مذہب نام ہے علم سے عمل کا ۔ جب تک ہم علم نہیں کرتے ہم سکو ن نہیں پا سکتے ۔ جب میں اجنبیت اختیار کروں گی اور ایک حد کے بعد مجھے مذہب سے تسکین ملنا بند ہوجائے گی تب میں پریشان ہوکے دو طرف مڑسکتی ہوں: یا تو مرجاؤں یا لوگوں سے رابطے بحال کرتے بلا کسی غرض کے ان کی خدمت کرتے عامل ٹھہروں ۔۔۔۔۔مجھے اس صورت میں تفریق تنگ نہیں کرے گی اور کوئی تکلیف رنج نہیں دے گی کہ جب اللہ نے اتنا سکون دے دیا ہے مجھے قابل عمل کردیا ہے تو میں کیا اور میری اوقات کیا ۔۔۔۔۔۔کرم ہوگیا اور مقرب ہوا بندہ ۔۔۔پھر کیا چاہیے ؟ اگر اسطرح کا ربط انسان عامل بنتے پیدا کرلے تو معاشرے میں المیے جنم نہیں لیتے اور معاشرے میں تفریق سے دل میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور نہ تب آپ کو تعریف کی تمنا ہوتی ہے
 
Top