کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

عثمان

محفلین
کیا خدا دوہرے قتل کے جرم میں ایک شخص کو دو مرتبہ موت دینے پر قادر نہیں ؟ محدود جرائم کی سزا لامحدود اذیت کیوں ؟
کیا منصفانہ سزا کا یہ تقاضا نہیں کہ لامحدود سزا کے لیے پہلے لامحدود جرم واقع ہونا ثابت کیا جائے ؟
ایک شخص نے اپنے پر ظلم ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس نے خود ہی قوانین ترتیب دیے۔ خود ہی دلائل ثابت کیے اور خود ہی منصف بن کر ملزم کے خلاف ابدی اذیت کا فیصلہ سنا دیا۔
کیا انصاف کا یہ ڈھانچہ منصفانہ ہے ؟ کیا آپ ایسی عدالت میں پیش ہونا پسند کریں گے جہاں مظلوم ہی منصف ہے؟
انسان معاشرے میں قوانین اس لیے نافذ کرتے ہیں تاکہ انسانوں کے مابین ظالم اور مظلوم میں انصاف ہوسکے۔ مظلوم کی جو حق تلفی ہوئی اس کا ازالہ ہوسکے۔
خدا کا انکار کرنے سے خدا کی حق تلفی کیسے ہوئی؟ کیا خدا مظلوم ہے؟ خدا کا انکار کرنے والے نے کس پر ظلم کیا ؟ کس کا حق چھینا ؟ خدا کا خود کہنا ہے کہ وہ بے نیاز ہے۔ تو پھر آخر خدا کا ایسا کیا بگڑا جو اس نے سزا میں ایسی انتہا دی ؟
کیا بھلا استدلال کی بنیاد غیر عقل غیر دلیل اور غیر وجود پر مبنی لامتناہی مفروضات پر بھی رکھی جاسکتی ہے ؟
 
کیا خدا دوہرے قتل کے جرم میں ایک شخص کو دو مرتبہ موت دینے پر قادر نہیں ؟ محدود جرائم کی سزا لامحدود اذیت کیوں ؟
کیا منصفانہ سزا کا یہ تقاضا نہیں کہ لامحدود سزا کے لیے پہلے لامحدود جرم واقع ہونا ثابت کیا جائے ؟
ایک شخص نے اپنے پر ظلم ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس نے خود ہی قوانین ترتیب دیے۔ خود ہی دلائل ثابت کیے اور خود ہی منصف بن کر ملزم کے خلاف ابدی اذیت کا فیصلہ سنا دیا۔
کیا انصاف کا یہ ڈھانچہ منصفانہ ہے ؟ کیا آپ ایسی عدالت میں پیش ہونا پسند کریں گے جہاں مظلوم ہی منصف ہے؟
انسان معاشرے میں قوانین اس لیے نافذ کرتے ہیں تاکہ انسانوں کے مابین ظالم اور مظلوم میں انصاف ہوسکے۔ مظلوم کی جو حق تلفی ہوئی اس کا ازالہ ہوسکے۔
خدا کا انکار کرنے سے خدا کی حق تلفی کیسے ہوئی؟ کیا خدا مظلوم ہے؟ خدا کا انکار کرنے والے نے کس پر ظلم کیا ؟ کس کا حق چھینا ؟ خدا کا خود کہنا ہے کہ وہ بے نیاز ہے۔ تو پھر آخر خدا کا ایسا کیا بگڑا جو اس نے سزا میں ایسی انتہا دی ؟
کیا بھلا استدلال کی بنیاد غیر عقل غیر دلیل اور غیر وجود پر مبنی لامتناہی مفروضات پر بھی رکھی جاسکتی ہے ؟

تصور جزا و سزا اور فلسفہ دین !

بنیادی طور پر ہر انسان کی جان قیمتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ مذہب اور انسانیت کا متفقہ اصول ہے لیکن کیا ہر انسان کی جان یکساں قیمتی ہے یہاں مختلف پیمانے ہیں اسکو کسی بھی علمی عملی اور عقلی اعتبار سے ثابت کرنا امر محال ہے ....

ایک ایسا شیر خوار بچہ جو سننے بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے قاصر ہو اسکی جان اور ایک ایسا شخص جو اپنے کنبے کا واحد کفیل ہو اسکی جان کیا یکساں اہمیت کی حامل ہوگی ...

اگر یہ سوال ایک ماں سے کیا جاوے تو وہ ہر حال میں فوقیت اپنی اولاد کو دے گی لیکن اگر یہ سوال عموم سے کیا جاوے تو انکے نزدیک وہ شخص زیادہ اہم ہے جو اپنے کنبے کا واحد کفیل ہے .....

ایسے ہی ایک شخص مظبوط جسامت کا مالک ہے اعلی ذہنی صلاحیتیں رکھتا ہے اچھی تعلیم بھی اس کے پاس ہے دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جو معذور ہے اب کامن سینس کے مطابق پہلا شخص زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ وہ پہلا شخص قاتل ہے اشتہاری ہے تو قانونی اعتبار سے دوسرے شخص کی زندگی زیادہ اہم ہوگی ......

قانون فطرت قانون ریاست اور قانون مودت الگ الگ فیصلے صادر کرینگے اور اس معاملے میں انسانی ذہن کوئی بھی ١٠٠ فیصد مقبول ترین کلیہ بنانے سے ہمیشہ قاصر ہی رہے گا.

اب اگر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصول الگ الگ ہیں تو منطقی اعتبار سے ہر جان کسی نہ کسی اصول کے مطابق کوئی نہ کوئی قیمت ضرور رکھے گی .....

پھر اگر مذہبی نکتہ نظر سے ہی دیکھیں تو کیا خالق نے تخلیق لایعنی کی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے اور بیشک ایسا نہیں ہے تو پھر خالق کی ہر تخلیق ضرور اہم ہے ہاں اب اگر کوئی احسن تقویم سے اسفل سافلین میں جا گرے تو اور بات ہے لیکن وہ خالق کی نگاہوں سے گرے گا مگر اسکی عمومی حیثیت ختم نہیں ہوگی خالق نے ہمیں یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم کسی کے متعلق فیصلہ سنا کر اسکو لا شے قرار دے ڈالیں

جہاں بات قانونی معاملات کی ہے وہاں ایک گونگے بہرے اندھے شخص کی جان کا قصاص ایک تندرست و توانا کی جان کے قصاص کے برابر ہی ہوگا اور ہر دو میں کوئی فرق نہیں کیا جاوے گا یعنی قانون کی نگاہ میں دونوں ایک ہی ہیں ......

لیکن منطق دونوں میں تفریق کرے گی اشکالات اٹھائے گی سوالات پیدہ کرے گی قانونی اصول اپنے الگ پیمانے رکھتے ہیں اور منطقی اصول الگ ہیں

جہاں معاملہ ہے رجال کی یا رجل کی اہمیت کا تو ہر دو میں فرق ہے کسی بھی شخصیت کا دائرہ کار جتنا وسیع ہے اسکی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے کوئی قومی مفاد کیلئے کام کرتا ہے تو کوئی گروہی مفاد کیلئے کوئی انسانی مفاد کیلئے تو کوئی الہی مفاد کیلئے ہر کسی کی اہمیت اسکے کام کے اعتبار سے ہے ایک ایسی شخصیت جسکی وجہ سے پوری قوم راہ لگ رہی ہے اسکی حفاظت کیلئے آپ ہزاروں افراد کو آسانی سے قربان کر دینگے لیکن ایک عامی کی حفاظت کے لیے شاید ایک شخص بھی کھڑا نہ ہو ......

لیکن اگر ایسی کسی شخصیت سے کوئی جرم سر زد ہوگا تو پھر وہ عامی اور وہ شخصیت دونوں قانون کی نگاہ میں برابر شمار ہونگے.....
 
سوال یہ ہے کہ آپ جس (Authority) کا انکار کر رہے ہیں اسکی کیا حیثیت اور مقام ہے ....
امریکہ میں رہتے ہوے وہاں کے قانون و آئین کا انکار اگر جرم ہو سکتا ہے تو اس کائنات کے خالق کے بنائے ہوئے قوانین کا انکار جرم کیوں نہیں .......

دوسری بات اگر کسی کو سزا کی مقدار پر ہی اعتراض ہے لیکن وہ خالق کے ہونے اور اس کی قدرت کو تسلیم کرتا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر وہ سزا کی مقدار پر یہ مقدمہ قائم کرنا چاہے کہ کوئی خالق ہے ہی نہیں تو بات الگ ہے
 

فاتح

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ آپ جس (Authority) کا انکار کر رہے ہیں اسکی کیا حیثیت اور مقام ہے ....
امریکہ میں رہتے ہوے وہاں کے قانون و آئین کا انکار اگر جرم ہو سکتا ہے تو اس کائنات کے خالق کے بنائے ہوئے قوانین کا انکار جرم کیوں نہیں .......

دوسری بات اگر کسی کو سزا کی مقدار پر ہی اعتراض ہے لیکن وہ خالق کے ہونے اور اس کی قدرت کو تسلیم کرتا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر وہ سزا کی مقدار پر یہ مقدمہ قائم کرنا چاہے کہ کوئی خالق ہے ہی نہیں تو بات الگ ہے
یہی تو مسئلہ ہے حسیب صاحب کہ پہلے کسی شے یا ہستی کی موجودگی ثابت کرنا پڑتی ہے اس کے بعد حیثیت یا مقام متعین کروانے کی باری آتی ہے۔ پہلے خالق کا وجود تو ثابت کر لیں اس کے بعد اس کی پوجا یا پیروی کی باری بھی آ جائے گی
 

arifkarim

معطل
یہی تو مسئلہ ہے حسیب صاحب کہ پہلے کسی شے یا ہستی کی موجودگی ثابت کرنا پڑتی ہے اس کے بعد حیثیت یا مقام متعین کروانے کی باری آتی ہے۔ پہلے خالق کا وجود تو ثابت کر لیں اس کے بعد اس کی پوجا یا پیروی کی باری بھی آ جائے گی
میرے خیال میں اس پوسٹ نے تمام مذہبی جنونیوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیا ہے :) :) :)
 

arifkarim

معطل
امریکہ میں رہتے ہوے وہاں کے قانون و آئین کا انکار اگر جرم ہو سکتا ہے تو اس کائنات کے خالق کے بنائے ہوئے قوانین کا انکار جرم کیوں نہیں .......
کیونکہ خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین کی تشریح انسان ہی کرتے ہیں، خدا نہیں۔ سعودی شریعت اور ایرانی شریعت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

دوسری بات اگر کسی کو سزا کی مقدار پر ہی اعتراض ہے لیکن وہ خالق کے ہونے اور اس کی قدرت کو تسلیم کرتا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر وہ سزا کی مقدار پر یہ مقدمہ قائم کرنا چاہے کہ کوئی خالق ہے ہی نہیں تو بات الگ ہے
کیا خالق کا کام محض شرعی سزائیں دلوانے تک محدود ہو گیا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
کیونکہ خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین کی تشریح انسان ہی کرتے ہیں، خدا نہیں۔ سعودی شریعت اور ایرانی شریعت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
طالبانوں، داعشوں اور بوکو حرامیوں سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ حلفیہ بیان دیں گے کہ وہ بھی محض اور محض اللہ کا قانون اور اسلامی شریعت ہی نافذ کر رہے ہیں
 

ربیع م

محفلین
یہی تو مسئلہ ہے حسیب صاحب کہ پہلے کسی شے یا ہستی کی موجودگی ثابت کرنا پڑتی ہے اس کے بعد حیثیت یا مقام متعین کروانے کی باری آتی ہے۔ پہلے خالق کا وجود تو ثابت کر لیں اس کے بعد اس کی پوجا یا پیروی کی باری بھی آ جائے گی

ان کا بنیادی مسئلہ ہی دہریت اور خالق کائنات سے انکار ہے باقی باتیں تو بعد کی ہیں۔
 

عثمان

محفلین
دوسری بات اگر کسی کو سزا کی مقدار پر ہی اعتراض ہے لیکن وہ خالق کے ہونے اور اس کی قدرت کو تسلیم کرتا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر وہ سزا کی مقدار پر یہ مقدمہ قائم کرنا چاہے کہ کوئی خالق ہے ہی نہیں تو بات الگ ہے
خدا کے وجود کا قبول یا انکار میرا ایجنڈا نہیں ہے۔ مذہب پر مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ایک مفروضہ قبول کروایا جاتا ہے اور پھر اسی مفروضہ کو دلیل قرار دے کر مزید لامتناہی مفروضات تعمیر کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔۔ یہاں تک کہ دلیل گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
مثلا میں اگر یہاں اقرار کرتا ہوں کہ میں خدا کے وجود پر ایمان رکھتا ہوں تو آپ کا اصرار یہ ہوگا کہ چونکہ میں خدا کے خالق ہونے پر ایمان لا چکا۔۔ تو بس خالق کے نظام جزا و سزا کی کاملیت پر بھی ایمان لے آؤں۔ ایمان رکھوں کہ وہ انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے گا۔
میں خدا پر اس لیے ایمان نہیں رکھتا کہ میرے نزدیک یہ دلائل سے ثابت شدہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ میں اپنے فطری خوف اور خواہش کی بنیاد پر خدا پر ایمان لایا۔ اب اس نکتہ پر دلائل سے عاری مزید مفروضات قائم کرنا ایک slippery slope ہے۔

کسی فرد سے ہونے والی ذیادتی کا منصفانہ بدلہ ایک فطری بشری احساس ہے۔ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے گریز کرتے ہوئے بھی انصاف کے کچھ بنیادی ترین تقاضات کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ ملزم کو سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مظلوم کی حق تلفی ثابت ہو۔ سزا اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ ازخود ظلم بن جائے۔
اگر شیطان کو کائنات کا سب سے ظالم شخص تصور کر لیا جائے تب بھی اس کے کئے گئے ظلم محدود ہیں۔ ایک محدود زمان و مکان میں، محدود تعداد اور محدود اثرات کے ساتھ کئے گئے۔ تو پھر کیا انصاف کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سزا جرم کے بروزن ہو ؟ لامحدود اذیت شیطان کا مقدر کیسے ٹھہری؟
پھر ابھی تک ایک بنیادی سوال کی تشفی نہیں ہوئی۔ کہ خدا کے وجود سے انکار پر خدا کی ایسی کونسی حق تلفی ہوئی کہ لامحدود اذیت منکر کا مقدر ٹھہری ؟

موضوع اور مکالمے کو سمیٹ کر رکھنے کے واسطے کچھ ایسے نکات پر تبصرے سے گریز کر رہا ہوں جو میری رائے میں موضوع پر دلیل نہیں۔
 
انکار تو بہت بعد کی بات ہے۔ آپ پہلے منطقی اور عقلی طور پر اس کا وجود ثابت تو کریں !
حیران کن طور پر اس فورم میں مجھے تمام تر منفی درجہ بندیاں ان افراد کی جانب سے ہی ملی ہیں جو خود کو کسی بھی مذہبی تقسیم میں مقید نہیں سمجھتے ویسے اس درجے کی منفی حرکتیں کم از کم اہل علم کو زیب نہیں دیتیں دیسی دہریوں کا یہ قدیم مسلہ ہے ہاں جہاں جہاں میں نے مغربی ملحدین سے مکالمہ کیا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس بیماری سے کم از کم پاک ہیں ........
میں مخالفین کو کسی بھی مکلمے میں منفی قرار دینے کا قائل نہیں مخالفین مجھے اس درجے گرا ہوا نہ پائینگے آپ جس درجے کی بھی اختلافی بات کیجئے میں کسی کو منفی مارک کرنے کا قائل نہیں ..

پہلی بات اس پوسٹ کے حوالے سے جو بحث اٹھی اس میں کہیں بھی یہ سوال اٹھایا ہی نہیں گیا کہ کوئی " خدا " ہے بھی یا نہیں یعنی جو کچھ بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے وہ ایک بنیادی اور اصل مقدمے کی فروع سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں تھے ......

دوسری بات اہل مذہب سے یہ سوال ہی سرے سے غلط ہے کہ اپنے خدا کو ثابت کیجئے کیونکہ انسانی وجود کی ابتدا سے آج تک ہم اکثریت میں رہے ہیں سو وہ چند افراد جو خدا کے وجود کے منکر ہیں دلیل انکے ذمے ہے ہمارے نہیں ........
 

فاتح

لائبریرین
دوسری بات اہل مذہب سے یہ سوال ہی سرے سے غلط ہے کہ اپنے خدا کو ثابت کیجئے کیونکہ انسانی وجود کی ابتدا سے آج تک ہم اکثریت میں رہے ہیں سو وہ چند افراد جو خدا کے وجود کے منکر ہیں دلیل انکے ذمے ہے ہمارے نہیں ........
کسی شے یا وجود کی موجدگی کی دلیل بھی اسی کے ذمے ہوتی ہے جو اس کی موجودگی کی بات کرتا ہے خواہ وہ ایک ہو یا ایک کھرب۔
دوم یہ کہ "انسانی وجود کی ابتدا سے" کی بات بھی آپ بغیر کسی ثبوت کے محض اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:
خدا کے وجود کا قبول یا انکار میرا ایجنڈا نہیں ہے۔ مذہب پر مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ایک مفروضہ قبول کروایا جاتا ہے اور پھر اسی مفروضہ کو دلیل قرار دے کر مزید لامتناہی مفروضات تعمیر کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔۔ یہاں تک کہ دلیل گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
مثلا میں اگر یہاں اقرار کرتا ہوں کہ میں خدا کے وجود پر ایمان رکھتا ہوں تو آپ کا اصرار یہ ہوگا کہ چونکہ میں خدا کے خالق ہونے پر ایمان لا چکا۔۔ تو بس خالق کے نظام جزا و سزا کی کاملیت پر بھی ایمان لے آؤں۔ ایمان رکھوں کہ وہ انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے گا۔
میں خدا پر اس لیے ایمان نہیں رکھتا کہ میرے نزدیک یہ دلائل سے ثابت شدہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ میں اپنے فطری خوف اور خواہش کی بنیاد پر خدا پر ایمان لایا۔ اب اس نکتہ پر دلائل سے عاری مزید مفروضات قائم کرنا ایک slippery slope ہے۔

کسی فرد سے ہونے والی ذیادتی کا منصفانہ بدلہ ایک فطری بشری احساس ہے۔ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے گریز کرتے ہوئے بھی انصاف کے کچھ بنیادی ترین تقاضات کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ ملزم کو سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مظلوم کی حق تلفی ثابت ہو۔ سزا اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ ازخود ظلم بن جائے۔
اگر شیطان کو کائنات کا سب سے ظالم شخص تصور کر لیا جائے تب بھی اس کے کئے گئے ظلم محدود ہیں۔ ایک محدود زمان و مکان میں، محدود تعداد اور محدود اثرات کے ساتھ کئے گئے۔ تو پھر کیا انصاف کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سزا جرم کے بروزن ہو ؟ لامحدود اذیت شیطان کا مقدر کیسے ٹھہری؟
پھر ابھی تک ایک بنیادی سوال کی تشفی نہیں ہوئی۔ کہ خدا کے وجود سے انکار پر خدا کی ایسی کونسی حق تلفی ہوئی کہ لامحدود اذیت منکر کا مقدر ٹھہری ؟

موضوع اور مکالمے کو سمیٹ کر رکھنے کے واسطے کچھ ایسے نکات پر تبصرے سے گریز کر رہا ہوں جو میری رائے میں موضوع پر دلیل نہیں۔
یہاں موجود ملاحدہ سے گفتگو کے بعد کم سے کم درجے میں آپ اس درجے معقول اور مناسب دکھائی دیتے ہیں کہ آپ منطقی گفتگو کرنے کے قائل ہیں .....

پہلی بات تو یہ کہ آپ نے فرمایا

" مثلا میں اگر یہاں اقرار کرتا ہوں کہ میں خدا کے وجود پر ایمان رکھتا ہوں تو آپ کا اصرار یہ ہوگا کہ چونکہ میں خدا کے خالق ہونے پر ایمان لا چکا۔۔ تو بس خالق کے نظام جزا و سزا کی کاملیت پر بھی ایمان لے آؤں۔ ایمان رکھوں کہ وہ انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے گا "

یہاں ایک شدید ابہام پیدا ہوتا ہے اور اس کو دور کیے بغیر منطقی اعتبار سے مزید گفتگو کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ......

اگر کوئی " خدا " ہے تو کیا وہ اس کائنات کا خالق بھی ہے یا بعد میں ظلم کے ساتھ اس دنیا پر مسلط ہوا ہے اگر ایسا بعد میں ہوا ہے تو یقینی طور پر یہ ایک ظلم کا معاملہ ہوگا لیکن یہ دعوے کا کوئی عقلی ثبوت درکار ہوگا .........

لیکن اگر خدا " خالق " بھی ہے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مخلوق خالق کی حکمت بالغہ کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا نہیں .......

دوسری جانب آپ نے فرمایا کہ " میں اپنے فطری خوف اور خواہش کی بنیاد پر خدا پر ایمان لایا "
اب سوال یہ ہے کہ وہ خالق جو اپنی مخلوق کی رگ رگ سے واقف ہے اس کے نزدیک اس جھوٹے ایمان کی کیا حیثیت ہوگی لازمی بات ہے صفر سو ایسے ایمان سے انکار زیادہ منطقی بات ہے .....

اب بات کرتے ہیں آگے کی کہ انصاف اپنی اصل میں ہے کیا اور انصاف کی وہ کون سی مستند ترین تعریف ہے کہ جو بیان کی جا سکے اور تمام انسانیت کے نزدیک متفق علیہ ہو .......

دوسری بات اگر کیا عقلی اور عملی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ ہر جرم کی سزا اس کی (directly proportional) ہو اور اس میں کسی بھی درجے کمی یا بیشی ممکن نہ ہو ..........

پھر آخری سوال یہ کہ جرم (crime) ہے کیا چیز اور اس کی کون سی ایسی متفق علیہ تعریف ہو سکتی ہے کہ جس پر تمام انسانیت مجتمع ہو ...........
 
کسی شے یا وجود کی موجدگی کی دلیل بھی اسی کے ذمے ہوتی ہے جو اس کی موجودگی کی بات کرتا ہے خواہ وہ ایک ہو یا ایک کھرب۔
دوم یہ کہ "انسانی وجود کی ابتدا سے" کی بات بھی آپ بغیر کسی ثبوت کے محض اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
سائنس کے نزدیک ہر وہ شے جس کا وجود ثابت نہ ہو چکا ہو اس کا انکار ممکن نہیں کے اسکے ہونے کا ایک احتمال ضرور موجود ہے رہتا ہے .........
آپ کا سوال سائنس کا تناظر میں ہے یا فلسفے کے ......... ؟
 

زیک

مسافر
اہل مذہب سے یہ سوال ہی سرے سے غلط ہے کہ اپنے خدا کو ثابت کیجئے کیونکہ انسانی وجود کی ابتدا سے آج تک ہم اکثریت میں رہے ہیں سو وہ چند افراد جو خدا کے وجود کے منکر ہیں دلیل انکے ذمے ہے ہمارے نہیں
کیا آپ نے مذہب اور سپرنیچرل کو نیوروسائنس، کاگنٹیو سائنس اور ارتقاء کے تناظر میں پڑھا ہے؟
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
حیران کن طور پر اس فورم میں مجھے تمام تر منفی درجہ بندیاں ان افراد کی جانب سے ہی ملی ہیں جو خود کو کسی بھی مذہبی تقسیم میں مقید نہیں سمجھتے ویسے اس درجے کی منفی حرکتیں کم از کم اہل علم کو زیب نہیں دیتیں
منفی ریٹنگ سے پریشان نہ ہوں۔ میری تقریباً ہر پوسٹ پر کچھ لوگ منفی ریٹنگ دیتے رہتے ہیں اور افسوس کہ وہ ملحد بھی نہیں۔
 
Top