نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار ہم نے کب اور کس عید کی آمد پر "ہرّا! عید آگئی۔۔۔۔ " قسم کا نعرہ مارا تھا۔ نیا جوتا پہن کر مسجد جانے کی رسم بھی ایک عقیدت مند نے چھڑوا دی تھی۔ گو کہ ہم سید نہیں لیکن جوتوں سے کس کو پتا چلتا ہے۔ واللہ اس کی نیت بری نہ رہی ہوگی۔ جذبات و عقیدت کے بہتے دھارے نے مہلت ہی نہ دی ہوگی کہ رک کر کھرا کھوٹا سمجھتا۔ ہائے لوٹا گیا ظالم۔۔۔ صحیح جوتی کی تلاش میں نجانے کتنی الماریاں بھر دیں ہوں گی۔ شاید اب مایوس ہوگیا ہوگا۔ اللہ اس کے دل کی مراد بر لائے۔ لیکن اس کی عقیدت مندی کی بدولت جو ہم پتھروں پر چل کے گھر آئے تو اپنے گھر کے بارے میں صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں آئی۔

"انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آؤ"​

لہذا ایک پرانی خدمتگار جوتی جو خطا معاف ہونے کی امید لیے آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کو اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا۔ ہر عید مسجد وہی پہن کر جانی شروع کر دی۔ جہاں اتارتے تھے۔ وہیں واپسی پر اسے منتظر پاتے۔ سوائے ایک بار کے جب ایک گستاخ نے برستی بارش سے بچنے کے لیے اس کے اوپر اپنی جوتی رکھ دی تھی۔ اس کی اس گستاخی سے دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ جب تک اس جوتی کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر دو چھلانگیں نہیں لگائیں۔ اور اس کو اچھی طرح مٹی اور گارے میں نہلا نہیں دیا۔ سکون نہ ملا۔

نئے کپڑے پہن کر عیدنماز پر جانے کی رسم البتہ ہنوز قائم ہے اور قائم رہے گی جب تک کوئی عقیدت مند ہمارے اس فضول رسم سے چھٹکارے کا بندوبست نہیں کرتا۔ شادی سے قبل ہم نئے کپڑوں میں ہی آکر دراز ہوجایا کرتے تھے۔ یہ دراز و نیم درازی کی کیفیت عشاء کے بعد رات کو سونے کی دعا پڑھنے پر ختم ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد ہمارے اس مزاج میں ایک تبدیلی آگئی اور ہم عید نماز کے بعد کپڑے بدل کر دراز ہونے لگے۔ کیوں کہ امیر خانگی امور کا یہ فرمانا تھا کہ "جب لیٹنا ہی ہے تو نئے کپڑے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔" البتہ باقی معمولات میں کچھ تغیر نہیں آیا۔

عید کے روز ہمارا زیادہ تر وقت بستر پر گزرتا ہے۔ زیادہ تر کا لفظ اس لیے کہ ہمارے سربراہان مملکت ِ خاندان ہنوز طرز کہن پر پرواز کر رہے ہیں اور لیٹ کر کھانے پینے کو سخت معیوب سمجھتے ہیں۔ کسی مہمان کی غیر متوقع آمد پر کبھی اس کے ساتھ بیٹھنا پڑ جاتا تو ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر تھوڑا سا دراز ہوتے ہوتے بالکل لیٹ گئے۔ان حرکتوں کی وجہ سے کئی بار ہمیں آداب محفل پر طویل درس سننے پڑے تھے ۔لیکن اس بار بات بڑھ گئی اور دشمنوں کو ہمارے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا۔

ہوا یوں کہ عید نماز سے واپسی پر ہم سب سے چھپتے چھپاتے گھر پہنچے۔ دیکھا تو ٹی وی کے سامنے ایک بستر لگا ہوا تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارا ہی منتظر تھا۔ ہم نے فوراً ٹی وی کے ریموٹ اور بستر پر قبضہ کر لیا۔

ابھی مؤذن نے دوپہر کا اعلان نہ کیا تھا کہ ایک عزیز عید ملنے آن پہنچے۔ عید ملنے کے بعد وہ ہمارے سامنے رکھے ایک صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم بغیر کسی سہارے کے بستر پر سیدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر گزری کہ ہمیں خیال آیا اگر ہم تکیے کو موڑ کر گاؤ تکیے کی شکل دے لیں تو یقیناً آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان محترم سے گفتگو بھی جاری تھی۔ ابھی اس تکیے کے سہارے بیٹھے ہمیں زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ محسوس ہوا تکیہ اس انداز میں دہرا کیے جانے پر نوحہ کناں ہے۔ سو ہم نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس کو اور خود کو سیدھا کر لیا۔ یہاں اس بات کی تکرار ضروری ہے کہ گفتگو جاری تھی اور شرکاء کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں اندھیرا ہوگیا ہے۔ ہم نے اس اندھیرے کو غیبی مدد سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنے پر اندھیرے کا راز منکشف ہوگیا۔ ہم نے خود کو ٹی وی کی طرف یوں متوجہ کر لیا جیسے وہاں کوئی بہت ضروری چیز چل رہی تھی او رپھر بہانے سے کمرے میں موجود شرکاء کی گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن گفتگو آگے نکل چکی تھی۔ اب یہ شغل سا بن گیا۔ ہم ٹی وی کی طرف رخ کرتے تو کمرے میں اندھیرا ہو جاتا اور پھر کمرے میں جاری گفتگو کی طرف رخ کرتے تو کچھ سمجھ نہ آتا۔ اب کی بار جو ٹی وی کی طرف رخ کیا تو اندھیرا بہت گہرا ہوگیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اندھیرے میں کوئی ہم سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ یا حیرت! جب ہم نےکمرہ روشن ہونے پر واپس شرکاء کی طرف دیکھا تو وہاں اس عزیز کے علاوہ سب لوگ موجود تھے۔

"ہیں! یہ کدھر چلے گئے۔" اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ یہ پوچھے جانے والی بات نہ تھی لیکن ہمارے دشمنوں کو ہماری جگ ہنسائی کا موقع مل چکا تھا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار ہم نے کب اور کس عید کی آمد پر "ہرّا! عید آگئی۔۔۔۔ " قسم کا نعرہ مارا تھا۔ نیا جوتا پہن کر مسجد جانے کی رسم بھی ایک عقیدت مند نے چھڑوا دی تھی۔ گو کہ ہم سید نہیں لیکن جوتوں سے کس کو پتا چلتا ہے۔ واللہ اس کی نیت بری نہ رہی ہوگی۔ جذبات و عقیدت کے بہتے دھارے نے مہلت ہی نہ دی ہوگی کہ رک کر کھرا کھوٹا سمجھتا۔ ہائے لوٹا گیا ظالم۔۔۔ صحیح جوتی کی تلاش میں نجانے کتنی الماریاں بھر دیں ہوں گی۔ شاید اب مایوس ہوگیا ہوگا۔ اللہ اس کے دل کی مراد بر لائے۔ لیکن اس کی عقیدت مندی کی بدولت جو ہم پتھروں پر چل کے گھر آئے تو اپنے گھر کے بارے میں صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں آئی۔

"انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آؤ"​

لہذا ایک پرانی خدمتگار جوتی جو خطا معاف ہونے کی امید لیے آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کو اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا۔ ہر عید مسجد وہی پہن کر جانی شروع کر دی۔ جہاں اتارتے تھے۔ وہیں واپسی پر اسے منتظر پاتے۔ سوائے ایک بار کے جب ایک گستاخ نے برستی بارش سے بچنے کے لیے اس کے اوپر اپنی جوتی رکھ دی تھی۔ اس کی اس گستاخی سے دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ جب تک اس جوتی کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر دو چھلانگیں نہیں لگائیں۔ اور اس کو اچھی طرح مٹی اور گارے میں نہلا نہیں دیا۔ سکون نہ ملا۔

نئے کپڑے پہن کر عیدنماز پر جانے کی رسم البتہ ہنوز قائم ہے اور قائم رہے گی جب تک کوئی عقیدت مند ہمارے اس فضول رسم سے چھٹکارے کا بندوبست نہیں کرتا۔ شادی سے قبل ہم نئے کپڑوں میں ہی آکر دراز ہوجایا کرتے تھے۔ یہ دراز و نیم درازی کی کیفیت عشاء کے بعد رات کو سونے کی دعا پڑھنے پر ختم ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد ہمارے اس مزاج میں ایک تبدیلی آگئی اور ہم عید نماز کے بعد کپڑے بدل کر دراز ہونے لگے۔ کیوں کہ امیر خانگی امور کا یہ فرمانا تھا کہ "جب لیٹنا ہی ہے تو نئے کپڑے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔" البتہ باقی معمولات میں کچھ تغیر نہیں آیا۔

عید کے روز ہمارا زیادہ تر وقت بستر پر گزرتا ہے۔ زیادہ تر کا لفظ اس لیے کہ ہمارے سربراہان مملکت ِ خاندان ہنوز طرز کہن پر پرواز کر رہے ہیں اور لیٹ کر کھانے پینے کو سخت معیوب سمجھتے ہیں۔ کسی مہمان کی غیر متوقع آمد پر کبھی اس کے ساتھ بیٹھنا پڑ جاتا تو ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر تھوڑا سا دراز ہوتے ہوتے بالکل لیٹ گئے۔ان حرکتوں کی وجہ سے کئی بار ہمیں آداب محفل پر طویل درس سننے پڑے تھے ۔لیکن اس بار بات بڑھ گئی اور دشمنوں کو ہمارے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا۔

ہوا یوں کہ عید نماز سے واپسی پر ہم سب سے چھپتے چھپاتے گھر پہنچے۔ دیکھا تو ٹی وی کے سامنے ایک بستر لگا ہوا تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارا ہی منتظر تھا۔ ہم نے فوراً ٹی وی کے ریموٹ اور بستر پر قبضہ کر لیا۔

ابھی مؤذن نے دوپہر کا اعلان نہ کیا تھا کہ ایک عزیز عید ملنے آن پہنچے۔ عید ملنے کے بعد وہ ہمارے سامنے رکھے ایک صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم بغیر کسی سہارے کے بستر پر سیدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر گزری کہ ہمیں خیال آیا اگر ہم تکیے کو موڑ کر گاؤ تکیے کی شکل دے لیں تو یقیناً آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان محترم سے گفتگو بھی جاری تھی۔ ابھی اس تکیے کے سہارے بیٹھے ہمیں زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ محسوس ہوا تکیہ اس انداز میں دہرا کیے جانے پر نوحہ کناں ہے۔ سو ہم نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس کو اور خود کو سیدھا کر لیا۔ یہاں اس بات کی تکرار ضروری ہے کہ گفتگو جاری تھی اور شرکاء کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں اندھیرا ہوگیا ہے۔ ہم نے اس اندھیرے کو غیبی مدد سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنے پر اندھیرے کا راز منکشف ہوگیا۔ ہم نے خود کو ٹی وی کی طرف یوں متوجہ کر لیا جیسے وہاں کوئی بہت ضروری چیز چل رہی تھی او رپھر بہانے سے کمرے میں موجود شرکاء کی گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن گفتگو آگے نکل چکی تھی۔ اب یہ شغل سا بن گیا۔ ہم ٹی وی کی طرف رخ کرتے تو کمرے میں اندھیرا ہو جاتا اور پھر کمرے میں جاری گفتگو کی طرف رخ کرتے تو کچھ سمجھ نہ آتا۔ اب کی بار جو ٹی وی کی طرف رخ کیا تو اندھیرا بہت گہرا ہوگیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اندھیرے میں کوئی ہم سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ یا حیرت! جب ہم نےکمرہ روشن ہونے پر واپس شرکاء کی طرف دیکھا تو وہاں اس عزیز کے علاوہ سب لوگ موجود تھے۔

"ہیں! یہ کدھر چلے گئے۔" اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ یہ پوچھے جانے والی بات نہ تھی لیکن ہمارے دشمنوں کو ہماری جگ ہنسائی کا موقع مل چکا تھا۔
واہ صاحب کیسے شریف لوگ آپ کے حلقہء احباب میں ہیں جو آپ کے تجاہلِ عارفانہ کی ترقی کے یوں معاون و مددگار ہیں. ہمارے والے تو ایسی کسی کوشش کو آج میں اوپر آسماں نیچے کا عملی نمونہ بنا دیں اور شاید اِسی لیے وہ جاں نثار ہمہ یاراں دوزخ و ہمہ یاراں دوزخ کی تکرار بھی سہہ جاتے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند اگر موقعہ پر پکڑے جائیں تو خود کو ضرورت مند بتاتے ہیں ایک بار آٹوگراف کے طالبینِ حق میں گھرے ہوئے ایک مقدر کے سکندر نے اپنے تعارف میں ایک لازوال جُملہ کہا " مجھے معاف کر دیں میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں" ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ صاحب کیسے شریف لوگ آپ کے حلقہء احباب میں ہیں جو آپ کے تجاہلِ عارفانہ کی ترقی کے یوں معاون و مددگار ہیں. ہمارے والے تو ایسی کسی کوشش کو آج میں اوپر آسماں نیچے کا عملی نمونہ بنا دیں اور شاید اِسی لیے وہ جاں نثار ہمہ یاراں دوزخ و ہمہ یاراں دوزخ کی تکرار بھی سہہ جاتے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند اگر موقعہ پر پکڑے جائیں تو خود کو ضرورت مند بتاتے ہیں ایک بار آٹوگراف کے طالبینِ حق میں گھرے ہوئے ایک مقدر کے سکندر نے اپنے تعارف میں ایک لازوال جُملہ کہا " مجھے معاف کر دیں میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں" ۔
حضور۔۔۔ یہ تو نصیب اپنا اپنا والی بات ہے۔۔ ۔باقی جو بات موقع پر ذہن میں آجائے اس پر قائم رہنا ہی استادوں کا درس رہا ہے۔۔۔ :p
 

محمدظہیر

محفلین
ایک گستاخ نے برستی بارش سے بچنے کے لیے اس کے اوپر اپنی جوتی رکھ دی تھی۔ اس کی اس گستاخی سے دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ جب تک اس جوتی کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر دو چھلانگیں نہیں لگائیں۔ اور اس کو اچھی طرح مٹی اور گارے میں نہلا نہیں دیا۔ سکون نہ ملا۔
ہاہا ہا بہت زبردست !
واقعی قلبی تکلیف ہوتی ہے برسات میں مسجدوں کے باہر کوئی ہماری جوتیوں پر گندے چپل رکھ دیتا ہے
 
بہت خوب، نیرنگ خیال بھائی!
ایک قطعہ یاد آ گیا:
کہا اک مولوی نے دیکھ کر جوتا مرے آگے
اگر ہو سامنے جوتا تو پھر سجدہ نہیں ہوتا
کہا ہم نے بجا ہے آپ کا ارشاد یہ لیکن
اگر پیچھے رکھیں جوتا تو پھر جوتا نہیں ہوتا
 

x boy

محفلین
زبردست تحریر
میرے نزدیگ عوام الناس 75 فیصد کے ساتھ یہی ہوتا ہے اسلئے پسندیدہ،
تحریر میں بہت خوبصورتی کے ساتھ چپل چوروں کی کہانی بتائی گئے ایک پرمزاح بھی ہے اور غمزدہ بھی۔
میں آپ کو سب اچھے ریٹنگ دے دیتا ہوں،،،
 
نیرنگ خیال جی بہت ہی عمدہ تحریر ہے مزاح سے بھرپور بھی ہے سوچنے کیلئے بھی بہت کچھ ہے....

خاص کار جوتا والا واقعہ تو بہت ہی عمدہ ہے ایک بار پھر سے تعارف کروں گی بہت ہی عمدہ تحریر ہے.. اسے جوتے والی بات سے ایک واقعہ یاد آیا جو سچ پر مبنی ہے یہ واقعہ میرے ابو جان اور بڑے بھائی کے ساتھ پیش آیا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ بھائی اور ابو جان صبح کی نماز ادا کرنے مسجد میں گے جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو دیکھا جتنے بھی نمازی تھے مسجد میں سب کی جوتیاں غائب تھیں ابو اور بھائی ننگے پاؤں گھر آئے تو میں بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوچکی تھی ابو اور بھائی سے پوچھا کہ جوتیاں کہاں ہیں تو ابو نے بتایا کے سب نمازوں کی جوتیاں غائب ہوگئیں اج مسجد سے.. امی نے کہا کہ یہ کام جنات کا ہے لیکن ابو نے کہا یہ کسی کی شرارت ہے جب اس واقعے کی تحقیقات کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کام مسجد کے خادم کا ہے کیونکہ کے ایک دن پہلے تو اس کا نیا جوتا غائب ہو تھا اور اس نے سب نمازیوں کی جوتی غائب کر دیں غصے میں....
 

جاسمن

لائبریرین
حقائق سے مزاح تراشنا آپ کا زبردست کارنامہ ہے۔ ذہنی "پالیوشن" کے اِس دور میں تازہ ہواؤں جیسی تحریر کے لئے "جزاک اللہ!"
 

محمدظہیر

محفلین
کہا اک مولوی نے دیکھ کر جوتا مرے آگے
اگر ہو سامنے جوتا تو پھر سجدہ نہیں ہوتا
کہا ہم نے بجا ہے آپ کا ارشاد یہ لیکن
اگر پیچھے رکھیں جوتا تو پھر جوتا نہیں ہوتا
زبردست! کل ہمارے دوست معیاری جوتا لینے سے گھبرا رہے تھے کیوں کہ حال ہی میں ان کی قیمتی سینڈل مسجد سے چوری ہوگئی۔ میرے اصرار پر لیا انہیں مسجدوں میں احتیاط سے رکھنے کو کہا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب، نیرنگ خیال بھائی!
ایک قطعہ یاد آ گیا:
کہا اک مولوی نے دیکھ کر جوتا مرے آگے
اگر ہو سامنے جوتا تو پھر سجدہ نہیں ہوتا
کہا ہم نے بجا ہے آپ کا ارشاد یہ لیکن
اگر پیچھے رکھیں جوتا تو پھر جوتا نہیں ہوتا
حضور۔۔۔ آپ تو ماشاءاللہ سے اس قطعہ پر بھی ایک لاجواب نثر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ :) پذیرائی پر سپاسگزار ہوں۔

زبردست تحریر
میرے نزدیگ عوام الناس 75 فیصد کے ساتھ یہی ہوتا ہے اسلئے پسندیدہ،
تحریر میں بہت خوبصورتی کے ساتھ چپل چوروں کی کہانی بتائی گئے ایک پرمزاح بھی ہے اور غمزدہ بھی۔
میں آپ کو سب اچھے ریٹنگ دے دیتا ہوں،،،
حسن ظن ہے آپ کا :)

نیرنگ خیال جی بہت ہی عمدہ تحریر ہے مزاح سے بھرپور بھی ہے سوچنے کیلئے بھی بہت کچھ ہے....

خاص کار جوتا والا واقعہ تو بہت ہی عمدہ ہے ایک بار پھر سے تعارف کروں گی بہت ہی عمدہ تحریر ہے.. اسے جوتے والی بات سے ایک واقعہ یاد آیا جو سچ پر مبنی ہے یہ واقعہ میرے ابو جان اور بڑے بھائی کے ساتھ پیش آیا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ بھائی اور ابو جان صبح کی نماز ادا کرنے مسجد میں گے جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو دیکھا جتنے بھی نمازی تھے مسجد میں سب کی جوتیاں غائب تھیں ابو اور بھائی ننگے پاؤں گھر آئے تو میں بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوچکی تھی ابو اور بھائی سے پوچھا کہ جوتیاں کہاں ہیں تو ابو نے بتایا کے سب نمازوں کی جوتیاں غائب ہوگئیں اج مسجد سے.. امی نے کہا کہ یہ کام جنات کا ہے لیکن ابو نے کہا یہ کسی کی شرارت ہے جب اس واقعے کی تحقیقات کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کام مسجد کے خادم کا ہے کیونکہ کے ایک دن پہلے تو اس کا نیا جوتا غائب ہو تھا اور اس نے سب نمازیوں کی جوتی غائب کر دیں غصے میں....
حوصلہ افزائی پر شکرگزار ہوں۔

حقائق سے مزاح تراشنا آپ کا زبردست کارنامہ ہے۔ ذہنی "پالیوشن" کے اِس دور میں تازہ ہواؤں جیسی تحریر کے لئے "جزاک اللہ!"
آپ کی حوصلہ افزائی پر بہت شکرگزار ہوں۔ :)

زبردست! کل ہمارے دوست معیاری جوتا لینے سے گھبرا رہے تھے کیوں کہ حال ہی میں ان کی قیمتی سینڈل مسجد سے چوری ہوگئی۔ میرے اصرار پر لیا انہیں مسجدوں میں احتیاط سے رکھنے کو کہا۔
یہ بھی خوب رہی۔۔۔۔۔ :)
 
Top