تعلیم اور ادب و فن کے رشتے - احمد ندیم قاسمی

محمد وارث

لائبریرین
فہرست



1- بچوں کا ادب

2- پاکستانی بچوں کیلیے کتابیں

3- ادب کی تعلیم اور اساتذہ

4- ادب کی تعلیم کا مسئلہ

5- نصابِ تعلیم میں سے اقبال کا اخراج

6- پاکستان کی نئی نسل اور جدید ادب

7- شعر و شاعری کا "فائدہ"

8- فن کا اثبات

9- مادی ترقی اور قومی ثقافت

10- سائنس کے اثبات کیلیے شاعری کی نفی کیوں؟

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حرفے چند

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، شاعر، افسانہ نویس، مدیر، صحافی اور ماہرِ تعلیم۔

مذکورہ کتاب، قاسمی صاحب کے دس فکر انگیز مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے پچھلی صدی میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تحریر کیے۔ یہ کتاب "تحقیقی و ترقیاتی مرکز برائے نصابِ تعلیم، محکمہ تعلیم، پنجاب" کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں سنِ اشاعت تو نہیں لکھا ہوا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973 میں چھپی ہوگی۔

یہ کتاب چونکہ قاسمی صاحب نے محکمہء تعلیم کو بلا معاوضہ شائع کرنے کی اجازت دی تھی، اسلیے مجھے بہتر معلوم ہوا کہ اسکو یہاں پر پیش کیا جائے تاکہ قاسمی صاحب کے یہ نادر و نایاب مضامین محفوظ رہ سکیں۔

گو کہ مضامین پرانے ہیں لیکن ان میں قاسمی صاحب نے جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے نظامِ تعلیم کی جن خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ نہ صرف اسی طرح موجود ہیں بلکہ شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں اسلئے ان مضامین کی حقانیت ویسے ہی ہے جیسے کہ تیس، چالیس سال پہلے تھی۔

یہ مضامین، جیسے کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، تعلیم، ادب اور فن کے متعلق ہیں۔ تعلیم میں بھی قاسمی صاحب نے بچوں کے تعلیم اور انکے ادب کے متعلق خصوصی توجہ دلائی ہے، اور ہمارے نظامِ تعلیم کا یہ عجب المیہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات پچاس، ساٹھ سال پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں، گو اب بچوں کو تعلیم دلانے کے مواقع اور وسائل پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں، مگر "کمرشل ازم" نے اسکولوں کا حلیہ اور معیار بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

فن اور ادب کے حوالے سے بھی کافی دلچسپ مضامین آپ کو پڑھنے کو ملیں گے، خاص طور پر "شعر و شاعری کا فائدہ" اور دیگر۔

ان مضامین کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک کام میں نے یہ کیا ہے کہ مضامین کے آخر میں انکی تحریر کا زمانہ لکھا ہوا تھا اسکو میں نے مضامین کے عنوان کے ساتھ شروع میں ہی دے دیا ہے تاکہ جو اعداد و شمار یا واقعات زمانی بعد سے تبدیل ہو چکے ہیں یا ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں، وہ قارئین کو کسی قسم کی پریشانی میں نہ ڈال دیں اور پہلے ہی وضاحت ہو جائے۔

آخر میں قاسمی صاحب کا ایک خوبصورت شعر انکے اپنے فن کے بارے میں:

صرف اک حسرتِ اظہار کے پرتو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے


(محمد وارث)
 

محمد وارث

لائبریرین
بچوں کا ادب


(دسمبر 1972 کو قومی تربیتی سیمینار لاہور میں پڑھا گیا)

ہم دنیا کی شاید واحد قوم ہیں جو اپنے بچوں کی اکثریت کی طرف سے مکمل طور پر غافل ہے۔ میں جب اپنی قوم کے بے شمار بچوں کو شہروں میں گندی نالیوں کے کنارے اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس، اور دیہات کی ویران گلیوں میں کھیلتا دیکھتا ہوں۔ اور جب میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت میری قوم کے جتنے بچے مدرسوں مین بیٹھے پڑھ رہے ہیں، ان سے کئی گنا زیادہ بچے اپنے گھروں اور اپنے محلوں اور اپنے ملک کے پورے مستقبل کیلیئے عذاب بنے ہوئے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے زخموں پر حریر و دیبا کے پھاہے رکھ کر اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ وہ تو تندرست ہے۔ بعینہ ہم مدارس کی تعداد کا اعلان کرنے میں تو بہت تیز ہیں مگر ہماری شماریات کی حس ان بچوں کی گنتی پر قادر نہیں ہے جنہیں ہم نے یا ہمارے مروجہ نظامِ معیشت نے بڑی سیر چشمی کے ساتھ برباد ہونے کیلیے نظر انداز کر رکھا ہے۔

آج بھی ہم اپنے شہروں میں ہاتھ ہاتھ بھر کے بچوں کو سائیکلوں کے پہیوں میں ہوا بھرتے، بڑے بڑے کڑاہو مانجھتے، ورکشاپوں میں اپنے ہاتھ منہ سیاہ کئے کام کرتے اور بیگم صاحبہ کیلئے گھر کا سودا لانے کی خاطر دوکانوں پر بھٹکتا دیکھتے ہیں تو اسے معمول کی بات سمجھتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ ہم صرف پندرہ فیصد خواندہ قوم ہیں اور ہماری آبادی کا باقی پچاسی فیصد حصہ اپنے دستخظ تک کرنے کا اہل نہیں ہے۔ ہم اپنے جرم سے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ آخر ہمارے ملک کی معیشت زرعی ہے اور زراعت پیشہ آبادی کیلیئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے کہ ہل چلانے اور فصل بونے وغیرہ کیلیئے کتابی علم کی کچھ ایسی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا کہتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سب ایک جمہوری مملکت کے افراد ہیں اور ہم میں سے ہر فرد کو سیاسی اور تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے باشعور ہونا چاہیئے اور باشعور ہونے کیلیے خواندگی ضروری ہے اور صد فی صد خواندگی کیلیے اس نظامِ معیشت میں حقیقت پسندانہ اور عادلانہ انقلاب کی ضرورت ہے جس نے ہمارے پچاسی فیصد حصہء جسم کو شل کر رکھا ہے۔ اس حقیقت سے کسی خود فریب شخص ہی کو انکار ہوگا کہ ہماری مستقبل کی نسلوں کی ہمہ گیر تربیت و اصلاح اور انکے شعور و ادراک کا مسئلہ ہمارے نظامِ معیشت میں متوازن اور مناسب تبدیلیوں کا مسئلہ ہے۔ جب تک دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام نہیں ہوتا اور جب تک ہر طبقے کے لوگوں کو آگے بڑھنے کیلیے یکساں مواقع میسر نہیں آتے، پاکستانی بچوں کی اکثریت یوں ہی سرگرداں رہے گی۔ اور نتیجتاً ہم اپنے مستقبل کے بارے میں خود اعتمادی کے ساتھ کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں گے۔

ہمارے بچوں کی غالب اکثریت تو ذہنی طور پر یوں پراگندہ ہوئی لیکن بچوں کی جس معمولی اقلیت کو تعلیم کی سہولتیں حاصل ہیں انکے ساتھ بھی ہمارا سلوک ایک آزاد قوم کے شایانِ شان نہیں ہے۔ انکیلیے ہم نے جو طریقہء تعلیم گھڑ رکھا ہے وہ انکی انفرادی صلاحیتوں کو ابھرنے ہی نہیں دیتا۔ ساتھ ہی ہم انکیلیے نصاب کی جو کتابیں مرتب کرتے ہیں انہیں اگر مولانا محمد حسین آزاد کی مرتب کردہ نصابی کتابوں کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اگر ہم میں اخلاقی جرأت ہے تو ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم بچوں کیلیے نصابی کتب مرتب کرنے کے معاملے میں مسلسل زوال پذیر رہے ہیں۔ ہمارے موضوعات یقیناً بدل گئے ہیں لیکن ان موضوعات کیساتھ شاید ہی کہیں انصاف ہوتا ہو۔ غیر ذمے داری انکی سطر سطر سے ٹپکی پڑ رہی ہے۔ یہ احساس کسی کو بھی نہیں کہ جب ہم کوئی نصابی کتاب مرتب کرتے ہیں تو دراصل اس طرح اپنے ملک اور اپنی قوم کے مستقبل کی تابانی میں اضافے کا سامان کرتے ہیں۔ پھر ان موضوعات پر لکھنے والوں کی نہ وہ زبان ہے، نہ بچے کی طرح سوچنے کی وہ حیرت اور معصومیت ہے اور نہ انکی نفسیات کا وہ لحاظ ہے جو کسی تحریر کو بچوں کے مطالعے کے قابل بناتا ہے۔ مولانا آزاد پچھلی صدی میں جو کچھ کر گئے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھنا تو بجائے خود رہا، ہم تو چند قدم پیچھے ہی ہیں۔ اور اسکی کوئی وجہ اگر سمجھ میں آتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ہم سب "ٹھیکے" پر کام کرنے کی ذہنیت کے اسیر ہیں۔ مقصد کے ساتھ وہ لگن ختم ہوچکی ہے جو معیاروں کے قائم رکھنے کی ضامن ہوتی ہے۔ چند گنے چنے مصنفین بچوں کی ہر نصابی کتاب میں موجود ہوتے ہیں اور انکی جو تحریریں منتخب کی جاتی ہیں انکے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض بسلسلہ ضرورت لکھی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظم ہو یا نثر، ان پر آورد مسلط ہوتی ہے اور ایک بھاری پن جو کسی تحریر کو ہضم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ اپنی قوم کے بچوں کے ساتھ صاف اور صریح بدسلوکی ہے۔ جو لوگ بچوں کی کتابیں مرتب کرنے کے ٹھیکے دیتے ہیں اور وہ لوگ جو یہ ٹھیکے لیتے ہیں، سب ہماری "انٹیلیجنسیا" کے افراد ہیں۔ پھر جب ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنی قوم کے مستقبل کے سلسلے میں اس حد تک بے حسی کا شکار ہے تو ہم گلہ کریں تو کس سے کریں۔ ویسے ان حضرات کو یہ بتانا ہمارا فرض ہے کہ آپ کا یہ تساہل اور تغافل ملک دشمنی کے مترادف ہے، زندہ قوم کے افراد اپنے ملک کے بچوں کے نام پر دولت نہیں کماتے۔ وہ اپنا سب کچھ ان بچوں پر قربان کر دیتے ہیں۔ سو عرض یہ ہے کہ نصابی کتابیں یقیناً آپ ہی مرتب کیجیئے اور سلسلے میں عام ٹینڈر طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر قوم اور اس کے مستقبل کے ساتھ مذاق نہ کیجیئے کہ یہ قوم کچھ کر دکھانے کیلیے عالمِ وجود میں آئی ہے۔

(جاری ہے)
 

فاتح

لائبریرین
وارث!
یہاں ربط بذاتِ خود خراب حال لگ رہا ہے یا میری بصارت کی بدحالی سے تشبیہ دے لیجئے کہ مجھے ان مضامین کا ربط کہیں نظر نہیں آرہا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ صحیح کہہ رہے ہونگے فاتح، لیکن تعلیم، ادب اور فن میں بذات خود ایک گہرا ربط ہے اور یہ مضامین انہی "اندیشہ ہائے دورودراز" کے متعلق ہی ہیں۔ ویسے ربط نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر "گائے" اور "دستر خوان" کے ناموں سے کوئی ربط ڈھونڈھنے چل نکلے تو پھر مل گیا ربط۔

یا پھر بقولِ پروین شاکر

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں;)

ویسے یہ وضاحت اسلیے کر دی کہ مصنف مرحوم اور ناشر لا پتہ، وگرنہ اس سوال کا بہتر جواب تو وہ ہی دے سکتے تھے۔ :)

۔
 
وارث بہت عمدہ موضوعات کو برقیانے کا سوچا ہے آپ نے اور بے صبری سے انتظار ہے کہ آپ ہمیں ان تحاریر سے روشناس کروائیں اور اس سنجیدہ موضوع پر کچھ مواد سب کو پڑھنے کو میسر آ سکے۔
 

فاتح

لائبریرین
آپ صحیح کہہ رہے ہونگے فاتح، لیکن تعلیم، ادب اور فن میں بذات خود ایک گہرا ربط ہے اور یہ مضامین انہی "اندیشہ ہائے دورودراز" کے متعلق ہی ہیں۔ ویسے ربط نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر "گائے" اور "دستر خوان" کے ناموں سے کوئی ربط ڈھونڈھنے چل نکلے تو پھر مل گیا ربط۔

یا پھر بقولِ پروین شاکر

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں;)

ویسے یہ وضاحت اسلیے کر دی کہ مصنف مرحوم اور ناشر لا پتہ، وگرنہ اس سوال کا بہتر جواب تو وہ ہی دے سکتے تھے۔ :)

استغفراللہ۔۔۔ میری یہ مجال کہ میں خدانخواستہ ان مضامین کو بے ربط کہوں۔ حضرت اگر یہی کہنا چاہتا تو پھر بصارت نہیں بصیرت کی بدحالی کا رونا روتا۔ مانا کہ لاعلم ہوں مگر کیا آپ کو مجھ سے واقعی یہی توقع تھی؟:(
ربط سے میری مراد فہرست مضامین کے "لنکس" سے تھی۔ (ایچ ٹی ٹی پی لنکس)

مجھے اپنے سوال کے غلط ہونے کا اندازہ محب صاحب کے جواب سے ہوا کہ آپ تو برقیانے جا رہے ہیں ابھی۔ معذرت خواہ ہوں کہ میری کم فہمی اور صحیح طور پر ما فی الضمیر بیان نہ کرنے کے باعث آپ کو اتنا تفصیلی "محبت نامہ" :grin: لکھنا پڑا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استغفراللہ۔۔۔ میری یہ مجال کہ میں خدانخواستہ ان مضامین کو بے ربط کہوں۔ حضرت اگر یہی کہنا چاہتا تو پھر بصارت نہیں بصیرت کی بدحالی کا رونا روتا۔ مانا کہ لاعلم ہوں مگر کیا آپ کو مجھ سے واقعی یہی توقع تھی؟:(
ربط سے میری مراد فہرست مضامین کے "لنکس" سے تھی۔ (ایچ ٹی ٹی پی لنکس)

مجھے اپنے سوال کے غلط ہونے کا اندازہ محب صاحب کے جواب سے ہوا کہ آپ تو برقیانے جا رہے ہیں ابھی۔ معذرت خواہ ہوں کہ میری کم فہمی اور صحیح طور پر ما فی الضمیر بیان نہ کرنے کے باعث آپ کو اتنا تفصیلی "محبت نامہ" :grin: لکھنا پڑا۔

لا حول و لا قوہ ۔۔۔

اور اردویائے انگریزی ٹرمز کو، اگر آپ "ربط" کی جگہ "لنک" لکھ دیتے تو میں چین سے تو سوتا رات کو۔ :mad:

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بہت عمدہ موضوعات کو برقیانے کا سوچا ہے آپ نے اور بے صبری سے انتظار ہے کہ آپ ہمیں ان تحاریر سے روشناس کروائیں اور اس سنجیدہ موضوع پر کچھ مواد سب کو پڑھنے کو میسر آ سکے۔

شکریہ محب، میں مقدور بھر کوشش کرتا رہوںؓ گا کہ جلد از جلد یہ کام مکمل ہوجائے۔

۔
 

فاتح

لائبریرین
لا حول و لا قوہ ۔۔۔
اور اردویائے انگریزی ٹرمز کو، اگر آپ "ربط" کی جگہ "لنک" لکھ دیتے تو میں چین سے تو سوتا رات کو۔ :mad:

خوب! مزیدبرآں ستم در ستم یہ کہ آپ نے اپنی بے خوابی پر بھی موردِ الزام ہمیں ہی ٹھہرا دیا۔

ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

:grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی لیے فرمایا تھا شاید قبلہ و کعبہ نے

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بچوں کا ادب

(گذشتہ سے پیوستہ)


نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کیلیے جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے اس کا بیشتر حصہ کسی صورت میں بھی ہمارے بچوں کے مطالعے کے لائق نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ادباء اور ماہرینِ تعلیم از خود ایک کمیشن مقرر کرکے بچوں کے اس ادب کا جائزہ لیں جو ہر مہینے ڈھیروں میں شائع ہوتا ہے تو ان پر اور ان کے ذریعے پورے ملک پر یہ انکشاف ہوگا کہ اردو میں بچوں کے ادب نے ابھی گھٹنوں چلنا بھی نہیں سیکھا۔ بچوں کے جو شاعر ہیں انہیں یہی معلوم نہیں کہ کون سی بحر بچوں میں زیادہ مقبول ہوگی۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی نظموں میں ایسی باتیں کہیں گے جو غیر شعوری طور پر بچے کے کردار کی تعمیر کریں گی، یکسر بیکار ہے، یہی عالم نثر نگاروں کا ہے ابھی تک جنوں بھوتوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بیشتر کتابوں میں وہی پرانے دیو ہتھیلی پر پہاڑ اٹھائے پھرتے ہیں۔ میں بچوں کی کتابوں کے ان کرداروں کا مخالف نہیں ہوں۔ اگر یہ کردار ظلم اور برائی کی نمائندگی کرتے ہی اور آخر کار انصاف اور نیکی کی قوتوں کے ہاتھوں انہیں شکست ہوتی ہے تو انہیں بچوں کے ادب سے خارج نہیں کرنا چاہیئے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ بے شمار گمنام مصنفین ان کرداروں سے بچوں کو محض ڈرانے کا کام لیتے ہیں۔ یہی عالم پریوں کا ہے۔ پری دنیا بھر کے بچوں کے ادب کا ایک نہایت پیارا کردار ہے۔ پری کا نام آتے ہی بچے کا ذہن خواب دیکھنے لگتا ہے اور جس ذہن سے خواب دیکھنے کی قوت سلب کرلی جائے وہ تخلیقی لحاظ سے ٹھس ہو کر رہ جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں کی پری ہماری کہانیوں کیلیے مصیبت بن کر رہ گئی ہے۔ اس سے وہ کام کبھی نہیں لیا گیا جو مثلاً "ایلس ان ونڈر لینڈ" میں لیا گیا ہے۔ وہ پری ہمارے بچوں کو نہ ہنساتی ہے نہ گدگداتی ہے، نہ ان کے دلوں میں اڑنے اور اونچا اڑنے، اور بھی اونچا اڑنے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔ نہ رحمت بن کر آتی ہے کہ صحراؤں میں پھول کھلیں اور نہ شفقت بن کر ظاہر ہوتی ہے کہ مظلوموں اور مسکینوں کے آنسو پنچھیں۔ یہ پری تو بس شہزادے کی مدد سے دیو کو مارنے کے بعد شہزادے سے نکاح کرلیتی ہے اور کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ادب میں حقیقت پسندی کی تحریک کی برکت سے زندگی کے جیتے جاگتے کرداروں پر بچوں کی کہانیاں تعمیر کرنے کا رجحان بھی عام ہوا ہے۔ مگر صرف اس حد تک جیسے یہ کہانی بڑوں کیلیے لکھی گئی تھی، لیکن اب اسکی زبان کو سلیس بنا کر بچوں کے حوالے کردیا گیا ہے کہ لو تم بھی پڑھ لو۔

بچوں کیلیے لکھنا یقیناً آسان کام نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم اپنے اخبار "کامریڈ" کے بہت لمبے لمبے اداریے لکھتے تھے، کسی دوست نے عرض کیا کہ قبلہ، آپ مختصر اداریے کیوں نہیں لکھتے؟ مولانا نے جواب دیا: "مختصر اداریے لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں ہوتا"۔ مولانا نے اس جواب میں اختصار کے ساتھ لکھنے کی دشواری کی طرف نہایت بلیغ اشارہ فرمایا۔ میں سمجھتا ہوں یہی عالم بچوں کے ادب کا ہے، عموماً یوں سوچا جاتا ہے کہ آخر بچوں کا ادب ہی تو ہے۔ مگر بچوں کیلیے بچہ بن کر، بچوں کی زبان اور لہجے میں بڑوں کا کوئی بات کہنا اتنا مشکل کام ہے کہ اگر ملک کے بیشتر بڑے بڑے ادیبوں کی بھد اڑانا مقصود ہو تو انسے بچوں کیلیے ایک کہانی لکھنے کو کہیے اور پھر دیکھئے کہ یہ اشہبِ قلم کے شہسوار کیسی کیسی بھونڈی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان بھر میں بچوں کا ادب لکھنے والا کوئی ادیب ہے ہی نہیں۔ مصیبت صرف یہ ہے کہ بہت کم نے اس طرف توجہ کی ہے۔ توجہ نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ پوری قوم کا موڈ ہی بچوں سے اور اسلیے بچوں کے ادب سے غفلت برتنے کا ہے۔ جب اس معاملے میں ہر طرف رطب و یابس کی کی مانگ ہو تو کوئی بڑا ادیب اس سطح پر کیسے اترے؟ اور اگر اپنی سطح برقرار رکھے تو اسے چھاپے کون؟ لیکن اگر بڑے ادیب اس قسم کی رکاوٹوں کو بھی خاطر میں لائیں تو وہ بڑے کس طرف سے ہوئے؟ بڑے تو وہ ہوتے ہیں جو مروجہ ڈھرے سے ہٹ کر پوری جرأت اور خود اعتمادی کے ساتھ نئی راہیں تراشتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تاریخ کے دھاروں کو موڑتے اور وقت کی رفتار کو پابند کرلیتے ہیں۔ پھر انہیں بچوں کا اچھا ادب پیدا کرنے سے کونسی طاقت روک سکتی ہے؟ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ بھی اپنی قوم کی طرح بچوں کے سلسلے میں تساہل اور تغافل کا شکار ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ بڑے ادب کی صورت میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اسے مستقبل میں بہت کم لوگ پڑھیں گے کیونکہ اس وقت تک قوم کے ذوق کا معیار مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہوگا۔

(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بچوں کا ادب

(گذشتہ سے پیوستہ)


پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں سے میری استدعا ہے کہ وہ بچوں کیلیے بھی لکھنے کی عادت ڈالیں، وہ نہیں لکھیں گے تو پھر وہی حضرات لکھتے رہیں گے جنکی تحریروں سے بچوں کی نصابی کتب مرتب ہوتی ہیں اور جن میں بچوں کیلیے صرف یہ کشش ہوتی ہے کہ وہ انہیں رٹ لیں گے تو سالانہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بچوں کے کرداروں کی تعمیر صرف شاعر اور ادیب ہی کرسکتا ہے۔ مگر تعمیر کے لفظ سے میرے دوستوں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوجانا چاہیئے۔ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ وہ پند و نصائح سے لبریز نظمیں اور کہانیاں لکھیں اور ہر نظم اور کہانی کے آخر میں ایک اخلاقی درس دیں یہ تو بچوں کو بور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ وہ بچوں کو صرف ہنسا کر بھی ان کے ذہنوں کو گداز کرسکتے ہیں۔ مگر یہ ہنسی صحت مندانہ ہونی چاہیے۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے بچوں کی ایک کہانی پڑھی جس میں چند بھائی اپنے چھوٹے بھائی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسے شادی کا لالچ دیکر لے جاتے ہیں۔ اور انکا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ دریا پار کرتے ہوئے وہ چھوٹے بھائی کو پانی میں گرادیں گے۔ چھوٹا بہت کائیاں ہے، وہ انکی نیت بھانپ لیتا ہے اور کسی بہانے وہاں سے چلا آتا ہے، راستے میں وہ ایک گڈریے کو اپنا بھائی سمجھ کر دریا میں ڈبو دیتے ہیں۔ یہ چھوٹا بھائی جو ایک گڈریے کی موت کا بلاواسطہ سبب بنا ہے اور جو اسے مار کر مویشیوں کا مالک بن بیٹھا ہے اس کہانی کا ہیرو ہے۔ مگر مصنف نے اسے ہوشیار ثابت کرنے کی کوشش میں بچوں کو ایک بے گناہ انسان کی موت پر قہقہے مارنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ مریضانہ ہنسی ہے، ایسی ہنسی سے ظلم میں بھی رومان نظر آنے لگتا ہے، اور میری تمنا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر جب بچوں کیلے لکھنے بیٹھیں تو اس نوع کی کمزوریوں کی زد میں نہ آئیں جو بظاہر بے ضرر کمزوریاں ہیں، مگر جو پنپ کر کٹے ہوئے سروں کے میناروں پر بھی قہقہے مارسکتی ہیں۔

میں یہاں صرف ایک مثال عرض کروں گا۔ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں پاکستانی قومیت کا جذبہ بیدار کرنے کی تھی۔ صرف اس صورت میں ہم پاکستانیت کو ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی حقیقت بنا سکتے تھے، جو ہماری آزادی اور ہماری قوت کی سب سے مضبوط ضمانت ثابت ہوتی۔ مگر ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم تو گذشتہ ایک چوتھائی صدی میں یہی طے نہیں کرسکے کہ کیا پاکستانی قوم کا کوئی منفرد قومی کلچر بھی ہے؟ اِکا دکا لوگوں نے، جن میں یہ عاجز بھی شامل ہے، قومی کلچر کی واضح طور پر نشاندہی کی اور عرض کیا کہ پاکستانی قوم کی تہذیبی انفرادیت کو گومگو کے عالم میں رکھنا دراصل ایک بین الاقوامی سازش ہے اور یہ سازش وہ لوگ کررہے ہیں جو برصغیر پر پاکستان کے آزاد وجود کو گوارا نہیں کرسکتے۔ باربار التجا کی گئی کہ ان عناصر سے خبرادا رہنے کی ضرورت ہے جو بھارت اور پاکستان کی تہذیبی یکسانیت کا پرچار کرتے ہیں اور یوں برصغیر کے مسلمانوں کی ایک صدی کی جِدوجہد پر نہایت چالاکی سے خطِ تنسیخ کھینچ دیتے ہیں۔ اس التماس کی طرف کسی نے توجہ نہ فرمائی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ہمارا ملک آدھا رہ گیا ہے۔ ہمارے بقیہ ملک میں ایک قوم کی بجائے چار قوموں کی موجودگی کا ڈھکوسلا کھڑا کیا جارہا ہے۔ غیر ملکی مصنفین کی ایسی کتابیں ہمارے ہاں برسرِعام بِک رہی ہیں جن میں پاکستان کو نہایت دریدہ دہنی سے چار پانچ قوموں کا ملک مگر بھارت کو صرف ایک قوم کا ملک ثابت کیا گیا ہے۔ یعنی جنوبی بھارت کے مراٹھے اور شمالی بھارت کے سکھ تو ایک نسل اور اسلیے ایک قوم کے افراد ہیں مگر پشاور کے پٹھان اور لاہور کے پنجابی دو الگ الگ قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم 1947-48 میں ہی اپنی نئی نسل کو نصابی کتابوں کے ذریعے یہ نکتہ ذہن نشین کرانا شروع کرتے کہ ہم نے اپنی منفرد تہذینی انفرادیت کی بحالی اور ترقی نیز سامراج اور پھر سامراج کی اقتصادی اسیری سے مکمل رہائی کیلیے پاکستان قائم کیا ہے اور مسلمان قوم نسلی امتیازات سے چودہ سو سال پہلے ہی بلند ہوچکی تھی تو آج یہ صورت پیدا ہوتی کہ ہم پنجابیوں، سندھیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کے حقوق کیلیے کمربستہ ہورہے ہیں مگر پاکستان کا، پاکستانی قوم کا، اس قوم کی پاکستانیت کا کہیں دور دور تک تذکرہ نہیں ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے اور اس امر کا اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس المیے کی صورت پذیری میں ہمارے نصاب ساز بھی شریک ہیں۔ آج پاکستان میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اس ربع صدی کی افسوسناک فروگزاشت کی تلافی کریں اور کم سے کم آئندہ نسل کو تو پاکستان اور پاکستانیت کے معاملے میں خوداعتمادی سے بہرہ یاب کریں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں بچوں کے اچھے ادب کا وجود ہی نہیں ہے، بعض اداروں نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی بچوں کی بعض نہایت وقیع کتابیں چھاپی ہیں، مگر قوم کے لاکھوں کروڑوں بچوں کیلیے اتنی سی کتابیں قطعی نا کافی ہیں۔ تمام ناشرینِ کتب کا فرض ہے کہ جہاں وہ موٹے موٹے بیکار اور بے معنی ناول چھاپ کر ہزارہا کماتے ہیں، وہاں ایک ننھا سا تعمیری کام بھی کرلیا کریں اور ہر ضخیم ناول کی "پخ" کی صورت میں ہی سہی، بچوں کی ایک ایسی کتاب بھی چھاپ ڈالا کریں جو ایک آزاد قوم کے بچوں کے مطالعے کے لائق ہو۔ یقیناً انکی راہ میں مشکلات بھی ہیں۔ بچے کے ہاتھ میں صاف ستھری کتاب ہونی چاہئیے، مگر کاغذ، طباعت اور کتابت کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ کتاب مہنگے داموں بیچنی پڑے گی اور ظاہر ہے کہ کم بکے گی، کیونکہ ہمارے بیشتر بچوں کیلیے تو اسکول کے کام کیلیے ایک کاپی خریدنا بھی باقاعدہ ایک مسئلہ ہے، پھر ہمارے کمرشل مصور بھی بچوں کی کتابوں کو مصور کرنے کے عادی نہیں ہیں اور جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے وہ بھی یورپ اور امریکہ کی کتابوں کے چربے اڑاتے ہیں، اور اگر خود سوچ کر کوئی تصویر بناتے ہیں تو اسکی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ یہ اور اس قسم کی دیگر مشکلات مسلم، مگر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہم سب قانع ہو کر بیٹھ جائیں اور اپنے فلم پروڈیوسروں کا سا طرزِ استدلال اختیار کرلیں کہ عوام یہی چاہتے ہیں اسلیے یہی حاضر ہے۔ یہ اندازِ فکر اس طبقے کو تو زیب نہیں دیتا جو کتابیں لکھنے اور چھاپنے کا وہ کام کرتا ہے جو تہذیبی لحاظ سے مقدس ترین کام ہے۔



(ختم شد، بچوں کا ادب)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستانی بچوں کےلئے کتابیں


( اپریل 1968 )


یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ پاکستان میں بچوں کی کتابیں بہت کم تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ادب کے نام پر پاکستانی بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی روا رکھی جارہی ہے اور انہیں عموماً ایسی کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے بغیر وہ زیادہ بہتر شہری بن سکتے ہیں۔ اب یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ توجہ تو بہت زیادہ دی جا رہی ہے مگر اس توجہ کا رخ سرے سے غلط ہے۔ ذرا ان دکانوں میں جا کر جھانکئے جہاں بچوں کی کتابیں پانچ پانچ، دس دس پیسے کے عوض کرایے پر دی جاتی ہیں۔ یہ دکانیں بچوں کی کتابوں سے اٹی پڑی ہیں، مگر آپ کو انکے ناموں اور انکے ٹائیٹلوں ہی سے اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔ یہ کتابیں عموماً جنوں بھوتوں، دیوؤں، روحوں، ڈاکوؤں اور قزاقوں سے متعلق ہوتی ہیں اور انکے سرورق انسانی چہرے میں سے نکلے ہوئے لمبے نکیلے دانتوں، چلتے ہوئے ریوالوروں اور بہتے ہوئے خون سے آراستہ ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایسا ادب ہم اس نسل کو پڑھنے کیلیے دے رہے ہیں جسے ربع صدی بعد پاکستان کی ترقی و تعمیر کا نگران بننا ہے۔

ہمارے ہاں پہلے ہی جنوں، بھوتوں اور دیوؤں کی کہانیوں کی کمی نہ تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کے "کومکس" کے زیرِ اثر انسانوں نے ہی دیوؤں اور جنوں کا کردار ادا کرنا شروع کردیا اور انکی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی مار دھاڑ اور قتل و غارت کی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے بچوں کے ایک مقبول رسالے میں بھوپت ڈاکو کی کہانی بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بچے اسے شوق سے پڑھتے رہے۔ بچے غیر معمولی واقعات سے بھری ہوئی کہانیاں ہمیشہ شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں کیونکہ اس طرح انکی بے پناہ قوتِ تخیل کو تسکین ملتی ہے مگر اس نوع کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور کردار پر جو اثر مرتب کرتی ہیں انکے بارے میں ان مصنفینِ کرام اور ناشرینِ عظام نے شاذ ہی سوچا ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بازاروں میں بچوں کی جو کہانیاں دھڑا دھڑ بک رہی ہیں یا کرائے پر پڑھی جا رہی ہیں وہ ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر بگاڑنے کا کام تیزی سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو یکایک کیا ہوگیا ہے۔ اور وہ اپنے سے پہلی نسل سے اتنی ناگوار حد تک مختلف کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفاوت کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں نسلوں کو بچپن میں جو ادب پڑھنے کو ملتا رہا ہے وہ موضوع و مواد کے معاملے میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ حیرت ہے کہ اس صورتِ حال سے متعلق اِکا دکا بیانات نظر سے ضرور گزرتے رہتے ہیں مگر حکامِ تعلیم یا مصنفین یا ناشرین نے اجتماعی طور پر اس صورت کی اصلاح کیلیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستانی بچوں کےلئے کتابیں


(گذشتہ سے پیوستہ)


ناشرین اپنے حقوق کیلے تو متفق ہوجاتے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ دراصل اس امر کی علامت ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس آزادی سے ملنے والی سہولتوں کا شعور حاصل ہے، چنانچہ ناشرین کو اپنے حقوق کی یقیناً حفاظت کرنی چاہیے، مگر حقوق کے علاوہ ہر آزاد شہری کے فرائض بھی تو ہوتے ہیں۔ اب تو ناشرین میں ماشاءاللہ بڑے پڑھے لکھے اور باشعور افراد شامل ہیں، اگر وہ طے کرلیں کہ وہ بچوں کا ایسا ادب نہیں چھاپیں گے جو بچوں کی ذہنی تعمیر کی بجائے انکی تخریب کرے اور اگر وہ ایسے ناشرین کا مقاطعہ کرنے کا فیصلہ کریں جو محض معمولی سی مالی منفعت کی خاطر پاکستان کی پوری نسل کو اور یوں بالواسطہ طور پر پاکستان کے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کا جو خطرناک ادب ان دنوں شائع ہو رہا ہے اسکا کماحقہ تدارک ہوجائے گا۔ اسی طرح مصنفین کے ادارے بھی اپنی برادری کی حد تک یہ فرض ادا کرسکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک بچے کے ہاتھ میں "بچوں کا ایک ناول" دیکھا جو لیلٰی مجنوں کی داستانِ عشق پر مبنی تھا۔ یہ ناول بظاہر سلیس زبان میں لکھا گیا ہے مگر لیلٰی مجنوں کا عشق اتنی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جیسے مصنف کے نزدیک بچوں کا ان تفصیلوں پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ انکی ذہنی نشو و نما رک جائے گی۔

رہ گئے حکامِ تعلیم تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض نادر مستشنیات کو چھوڑ کر یہ حضرات کتابیں پڑھتے ہی نہیں ہیں اور اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں بچوں کیلیے کیا لکھا جارہا ہے۔ کیا چھپ رہا ہے اور نئی نسل اس ادب سے کیا کیا اثرات قبول کررہی ہے اس حقیقت کی گواہ وہ فہرستِ کتب ہے جو محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کیلیے منظور کی تھی اس فہرست کو غور سے دیکھیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں کو کتابوں کی نوعیت کے معیار پر منتخب نہیں کیا گیا بلکہ کتابیں شائع کرنے والے اداروں کی رسوخ و رسائی کو اس انتخاب کا معیار بنایا گیا ہے۔ بعض ادارے جنہوں نے معیاری کتابیں شائع کی ہیں اور انکے اس اعلٰی معیار کا گواہ پورا ملک ہے اس فہرست میں سے صرف اسلئے غائب ہیں کہ انہوں نے اپنی کتابیں انتخاب کیلیے پیش کردیں، اور یہ سمجھا کہ کتاب کا انتخاب تو کتاب کے معیار کے مطابق ہی ہوگا۔ اسکے برعکس اسی فہرست میں ایسی ایسی کتابیں شامل کی گئی ہیں جو مروجہ اخلاقی قدروں کے سراسر منافی ہیں مگر جنکا انتخاب اس لئے عمل میں آیا کہ انہیں شائع کرنے والے ادارے دنیائے نشر و اشاعت کے "شرفا" میں شمار ہوتے ہیں۔ منظور شدہ کتابوں کی اس فہرست کا جائزہ اگر مسترد شدہ کتابوں کی فہرست کو سامنے رکھ کر لیا جائے تو ہمارے حکامِ تعلیم کے معیارِ ادب کی قلعی بڑے بھیانک انداز میں کھلے گی۔ کیا کوئی ایسا کمشن مقرر کیا جاسکتا ہے جو اس دھاندلی کا جائزہ لے سکے؟ یہ استفسار اس لئے کیا جارہا ہے کہ جب مسئلہ پوری نسل اور ساتھ ہی پورے ملک کے مستقبل کا ہو تو چند با اثر ناشرین کی خوشنودی کا لحاظ رکھنا پرلے درجے کی عاقبت نااندیشی اور تعلیم دشمنی ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان رائٹرز گلڈ کا سا ادارہ، جو مصنفین کے حقوق کے تحفظ کیلیے وجود میں آیا تھا، اس سلسلے میں بے حس ہے اور میرے خیال میں اسکے کارپردازوں کو علم ہی نہیں ہوگا کہ چند برس پہلے حکامِ تعلیم، مصنفین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ چکے ہیں۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستانی بچوں کےلئے کتابیں


(گذشتہ سے پیوستہ)


پاکستانی اور اسلامی تاریخ کے بے شمار واقعات بچوں کیلیے کہانیوں کے موضوع بن سکتے ہیں۔ اور اس طرف توجہ بھی دی گئی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ محض خوارق کی حد تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخی ناولوں کی طرح تاریخی کہانیوں میں بھی ایک مجاہد ایک ہزار کفار کو تہہِ تیغ کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ستمبر 1965 کی جنگ میں پاکستانی افواج نے جو کارنامے انجام دیئے، انہیں بعض سبز پوش گھڑ سواروں کا مرہونِ منت قرار دے ڈالا گیا۔ یقیناً عقیدے میں بڑی قوت ہے، مگر اب ایک ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہمیں افواج کی تربیت اور جدید اسلحہ کی فراہمی اور فنونِ جنگ کی تعلیم اور ہمہ وقت چوکنا اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اسکے ساتھ ہی اگر عقیدے کی قوت بھی شامل ہو تو سبحان اللہ، مگر بچوں کیلیے اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ انہیں عصرِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلیے تیار نہیں کرتیں، بلکہ سبز پوش گھوڑوں پر تکیہ کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ عقیدے کے سے پاکیزہ جذبے سے غلط کام لینے کی ایک کوشش ہے جسے نظر انداز کرنا درست نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر غیبی امداد کا یہ تصور پختہ ہوجائے تو بچہ جسے چھوٹی سی چھوٹی بات کی بھی کرید رہتی ہے، ذرا سا بڑا ہونے کے بعد اس چکر میں پڑ جائے گا کہ آخر مصر اور اردن اور شام پر یہودیوں کو کیوں فتح حاصل ہوگئی اور جب مسلمانوں کا قبلہء اول اسرائیل کے قبضے میں جا رہا تھا تو زمین کیوں نہ پھٹ پڑی اور آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا اور یاد رکھئے کہ وہ خطہء ارض تو سر زمینِ انبیاء ہے جس کے تحفظ کو ہم لوگ بھی جو وہاں سے ہزاروں میل ادھر بیٹھے، اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں۔ عقل اور منطق سے بچوں کے ذہنوں کو نابلد رکھنے کا نتیجہ بے حد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور جب وہ کچھ بڑے ہوتے ہیں تو حقیقت کے تصادم سے انکی شخصیتیں ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہیں۔

ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچوں کے ادب کا موضوع چاہے پاکستانی اور اسلامی تاریخ کے واقعات ہوں یا روزمرہ زندگی کے نقوش ہوں یا اخلاقی قدریں ہوں یا بچوں کی قوتِ متخیلہ کو تیز کرنے کے سلسلے میں تخیئلی اور علامتی کہانیاں ہوں ہم اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہمارے ذمے بچوں کی ذہنی تعمیر ہے۔ اس مقصد کیلیے اول تو براہِ راست قسم کے وعظ و نصیحت کا انداز درست نہیں ہے کہ بچہ اس انداز سے متاثر ہونے کی بجائے بور ہوتا ہے۔ دوم ہمارے مدِ نظر ہمیشہ خیر و برکت اور حسن و توازن کی قدریں ہونی چاہیئں۔ ہمیں اپنے بچوں کو انسان اور انسانیت کا احترام سکھانا چاہیئے۔ انہیں بہادر بنانا چاہیئے۔ مگر ساتھ ہی ان پر یہ واضح کرنا چاہیئے کہ چھرے سے راہ چلتے کا پیٹ پھاڑ کر اس کا بٹوا نکال لے جانے والا بہادر نہیں ہے، بزدل ہے، غنڈہ ہے، اخلاقی مجرم ہے اور سارے معاشرے کی مذمت کا سزاوار ہے، اسی طرح اس حقیقت کو بچوں کے سامنے واضح طور سے آنا چاہیے کہ:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اس ضمن میں خود اسلامی تاریخ میں متعدد واقعات موجود ہیں۔ مثلاً ایک شخص حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا کہ تمھارا اونٹ کہاں ہے وہ بولا کہ مدینے کے باہر چراگاہ میں چھوڑ آیا ہوں اور اللہ کے توکل پر چھوڑ آیا ہوں۔ اس پر حضور (ص) نے فرمایا کہ جاؤ پہلے جا کر اونٹ کا گھٹنا باندھو اور اسکے بعد اسے اللہ کے توکل پر چھوڑ آؤ۔ اس روایت سے انسان کی ذاتی کوشش اور محنت کی اولیت کا جو پہلو نکلتا ہے، اسے نہایت سلیقے سے ایک کہانی کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے اور یاد رکھئے کہ اس قسم کے واقعات کی سلجھی ہوئی کہانی بچوں کیلیے اس سبق کے مقابلے میں کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہے کہ بچو محنت کرو اور خدا پر تکیہ کرو۔


(ختم شد)

۔
 

تفسیر

محفلین
واہ ۔۔۔ کمال کی تخلیق ہے۔ اور اس کو یہاں پیش کرنے والے کہ تو کہنے ہی کیا :)
کیا مجھےدانشکدہ میں نقل کرنے کی اجارت ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی پسندیدگی کیلیے بہت شکریہ تفسیر صاحب۔

آپ ضرور اسے پیش کریں اپنے دانش کدہ پر، بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ کو قاسمی صاحب کے مضامین پسند آئے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ادب کی تعلیم اور اساتذہ


( نومبر 1968 )


نہ جانے ادب کے بعض نقادوں کی یہ کونسی نفسیاتی کیفیت ہے کہ وہ ان لوگوں کو ادب کی تنقید کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں جو یونیورسٹیوں، کالجوں یا اسکولوں میں ادب کی تعلیم دیتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اساتذہ کے خلاف اس تعصب کا آغاز کس نے کیا، لیکن جس نے بھی کیا اس نے ادب اور ادیب سے ہمدردی کے پردے میں اپنے کسی نفسیاتی خلا ہی کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں کے معاشی نظام کی مجبوریوں کے باعث ہمارے ادیب صرف ادب تخلیق کرکے عزت مندانہ زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ ان ادیبوں میں سے جسطرح بعض سرکاری محکموں کے اہلکار ہیں، بعض دوکاندار ہیں اور بعض صحافی ہیں، اسطرح بعض اساتذہ بھی ہیں۔ پھر جب ہم کسی ادیب کی سرکاری ملازمت یا دوکانداری یا صحافت کی وجہ سے اسکی ادبی تنقید پر معترض نہیں ہوتے، تو اساتذہ سے ایسا کونسا جرم سرزد ہوگیا ہے کہ وہی "غیر استاد" نقادوں کے ہدف بنتے ہیں اور انکا باقاعدہ مذاق اڑانے کا بھی فیشن چل نکلا ہے۔ حالانکہ اگر بے تعصبی اور غیر جانب داری سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو ادب کے استاد کو ادب کی تنقید پر دوسروں سے کچھ زیادہ ہی حاوی ہونا چاہئیے۔

دورِ حاضر میں ادب کے حوالے سے اساتذہ پر اعتراض کا آغاز جناب محمد حسن عسکری سے ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ علامہ اقبال کے فن کے کسی پہلو پر پروفیسر خواجہ منظور حسین نے ایک مقالہ لکھا جس پر عسکری صاحب معترض ہوئے اور ظاہر ہے کہ انہیں اعتراض کرنے کا حق حاصل تھا۔ مگر جب وہ اس اختلاف کا اظہار کرنے بیٹھے تو پروفیسروں کی پوری نسل کے معیارِ تنقید کو کچھ اس شدت سے لتاڑا کہ انکے ہر ارشاد پر بے سوچے سمجھے آمناً صدقناً کہنے والوں نے اس اعتراض کو گرہ میں باندھ لیا اور اپنی تحریروں کی مدد سے ایک ایسی فضا قائم کرنے میں لگ گئے جس میں کسی پروفیسر یا ٹیچر کی زبان یا قلم سے ادب کا نام لینا بھی گناہِ کبیرہ سمجھا جانے لگا۔ مشکل یہ ہے کہ یہ صورت اب تک قائم ہے۔ آج بھی پروفیسروں اور ٹیچروں میں سے کوئی اگر ادب کے کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو یار لوگ اسکے لتے لے ڈالتے ہیں کہ میاں تمھیں ادب کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ تم بچوں کو پڑھاتے ہو اور ادھر لطیفہ یہ ہوا کہ عسکری صاحب پروفیسروں پر خوب ٹوٹ کر برسنے کے بعد خود بھی پروفیسر بن گئے اور جب سے اب تک وہ بھی بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہ مذاق صرف عسکری صاحب ہی کے ساتھ نہیں ہوا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک صاحب ادب کے نام پر صحافت کو برا بھلا کہتے رہے مگر آخرکار خود صحافی بننے پر مجبور ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو انکے صحافی بننے سے انکے ادب کا "حقِ خود اختیاری" انسے چھنا اور نہ عسکری صاحب پروفیسر بن جانے سے ادبی تنقید کا حق گنوا بیٹھے۔

پچھلے دنوں ایک صاحبِ ذوق سے پروفیسروں اور دوسرے اساتذہ کے خلاف میں نے ایسی ہی باتیں سنیں تو میں نے انکے سامنے اردو کے مشہور اور مستند نقادوں کی فہرست مرتب کی۔ اس فہرست سے ثابت ہوا کہ ہمارے نوے فیصد نقاد تدریس ہی کے پیشے سے متعلق ہیں۔ پھر انگریزی زبان کے نقادوں پر ایک نظر ڈالی تو انکی بھی خاصی تعداد اسی پیشے سے متعلق پائی۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ملکوں اور دوسری زبانوں میں بھی مدرس نقادوں کی تعداد کم و پیش یہی ہوگی اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونا قدرتی ہے۔ ادب کے استاد کا موضوع ہی ادب کی تاریخ، اسکا ماضی و حال اور اسکے امکانوں اور خامیوں کا جائزہ ہے۔ پھر نوجوان طلبا کی صورت میں ادب کے ذہین قارئین کے ساتھ اسکا روزانہ سابقہ پڑتا ہے۔ یوں ادب سے متعلق اسکی معلومات میں ایک نمایاں اور نہایت قیمتی حصہ اسکے براہِ راست مشاہدے اور تجربے کا ہوتا ہے۔ اسطرح وہ زیادہ گہرائی میں جا کر ادب کا جائزہ لے سکتا ہے۔ پھر ادب کا نقاد یا ادیب چاہے یونیورسٹی یا کالج کا پروفیسر ہو، چاہے صحافی ہو، چاہے سرکاری ملازم ہو اور چاہے دوکاندار ہو (اور چاہے بیکار ہو) ہم اسکی تحریروں کو اسکے پیشے کے حوالے سے برا یا بھلا نہیں کہہ سکتے۔ ستم یہ ہے کہ ادب کے نقادوں پر پروفیسری کا اعتراض کرکے انکی تنقیدوں کو گھٹیا ثابت کرنے والے بیشتر حضرات اس مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس کا اصول یہ ہے کہ کسی ادب کے بارے میں غور کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ اس میں کیا کہا گیا ہے۔ قاری کو تو صرف اس سے غرض ہونی چاہئیے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، کیسے کہا گیا ہے۔ نہ جانے اس "کیسے" میں کسی کی پروفیسری کیسے گھس آتی ہے۔


(جاری ہے)

۔
 
Top