اپنی برہنہ پائی پر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
مجھے چاہے جتنا رلائے تو ۔ تجھے دیکھ کر میں ہنساکروں
میں نبی ہوں مذہبِ عشق کا، ترے حق میں صرف دعا کروں
ترا نام دن کے نصاب میں، ترا نام رات کے خواب میں
ترا نام لوں تو میں سو سکوں، ترا نام لے کے جگا کروں
تیرا ایک چھوٹا سا پیار بھی مرا مایہ ہے مرا جام جم
تجھے سامنے جو نہ پاؤں میں تو اسی میں تجھ کو تکا کروں
ترا سرخ و سرمئی پیرہن مرے دل کی آنکھ میں سج گیا
میں بھی زخمِ دل کی قبا پہن، تری یاد بن کے سجا کروں
یہ مرا فلم مرے ہاتھ ہیں، تو نہیں تو یہ مرے ساتھ ہیں
انہیں اپنے ہونٹوں سے چوم کر تجھے روز چٹھی لکھا کروں
میں نہتّا ۔ بے سپر ۔ اسلحہ مرا صرف جلنے کی آرزو
میں چراغِ شب ہوں عجیب شے کہ غنیمِ شب سے لڑا کروں
زرِ ارض کے لیے دشت و در، سبھی چھان دیکھے، کمایا زر
یہ غزل ہے مفت کا اک ہنر کبھی یہ بھی کام کیا کروں

1982ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ زمیں کس کی ہے، یہ فصل بتا کس کی ہے
دل چمن ہو گیا یہ ’’کُن‘‘ کی صدا کس کی ہے
مختلف رنگ کے ہر سمت اڑے ہیں چھینٹے
کون اس راستے گزرا یہ قبا کس کی ہے
سانجھ اب ہو چلی چو دیس کہاں بیٹھے ہو
گھر چلو یہ اب بھی یہ امّید بھلا کس کی ہے
پردۂ شب سے لپٹ سو گئی ساری دنیا
جاگتی جاگتی سی ایک صدا کس کی ہے
سامنے آئے تو دیکھوں کہ برنگِ گُلِ تر
گرم رت میں یہ خنک بوئے حنا کس کی ہے
سرخ اور دھند بجز کچھ بھی نظر آتا نہیں
کس کا سر ہے لہو آلود، ردا کس کی ہے
بھول کھل اٹھتے ہیں جب یاد کوئی آتا ہے
چمن دل میں سُبک سیر صبا کس کی ہے
بے سُرا شور ہے ہر سو عجب آوازوں کا
یہ مگر ایک صدا سب سے جدا کس کی ہے

1983ء
 

الف عین

لائبریرین
(ناصر کاظمی کی روح کے لیے)

ہاتھوں میں تھے اس کے ہات کچھ دیر
ٹھہری رہی کائنات کچھ دیر
اک لمبی طویل رات کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک رات وہ آئی رات کچھ دیر
کرنوں کا جلوس، چاند ڈولی
آنگن میں رہی ہرات کچھ دیر
پھر پھول اگے بہار جاگی
مہکی سی رہی یہ رات کو دیر
کیا ماتھے کا چاند کھِل رہا تھا
بھولے رہے غم کی رات کچھ دیر
اے صحنِ چمن گواہ رہنا
وہ گل رہا میرے سات کچھ دیر
پو پھٹتے ہی کیا اُلٹ گئی ہے
بچھتی ہے سدا بساط کچھ دیر
۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹھو بھی ذرا رقیب پیارے
کرتے رہو اس کی بات کچھ دیر
اپنے کو لیے رہو گے کب تک
ہوتے ہیں تکلّفات کچھ دیر
اک شب تو حسابِ زخم دیکھوں
تھم جائیں جو حادثات کچھ دیر
اب آج دنوں پہ شعر کہہ کے
کچھ دِل کو ملا ثبات کچھ دیر

1983ء
***
 

الف عین

لائبریرین
یوں بھی ہوئی ہے غم سے محبّت کبھی کبھی
ہم سے ہوئی نہ اس کی شکایت کبھی کبھی
یوں گُم تھا دِل، شناخت نہیں کر سکے اُسے
جب آئی سامنے تری صورت کبھی کبھی
تڑخی ہوئی زمیں تھی جہاں، آج جھیل ہے
یوں بھی رحیم ہوتی ہے فطرت کبھی کبھی
اب تجھ کو کیا بتائیں، کہ اپنے ہی شعر میں
محسوس کی ہے تیری شباہت کبھی کبھی
یہ عشق اپنے واسطے سودا نہ تھا عبیدؔ
خوش بختوں کو ملی ہے یہ دولت کبھی کبھی

1984ء
 

الف عین

لائبریرین
جھونکے پہ تیرا شک ہو، یہ سوچا نہ تھا کبھی
میں منتظر رہا۔۔۔ مگر ایسا نہ تھا کبھی
خوش وقتوں کے ہجوم میں گاتے تھے جھوم جھوم
یہ بات تب کی ہے، تجھے دیکھا نہ تھا کبھی
اک گھر ہو جس میں چین کی بنسی بجائیں ہم
تب چاہتے تھے جب تجھے چاہا نہ تھا کبھی
راوی! کبھی تو چین بھی لکھ۔۔ کیا نصیب میں
اِس دِل سے اُس کی یاد بھُلانا نہ تھا کبھی؟
اے قیس!۔۔۔ اخی! بتا کہ ستاتا ہے یوں ہی عشق؟
ہم نے تو دل میں روگ یہ پالا نہ تھا کبھی
یاروں نے لکھ کے ناولیں رکھ دیں دوکان میں
ہم نے تو اُس کا نام بھی لکھّا نہ تھا کبھی

1984ء
 

الف عین

لائبریرین
پھر لوٹ کر آئے یا نہ آئے
ایسا نہ ہو شام بیت جائے
دو نام درختوں پر لکھے تھے
گوری رہی کنج میں لجائے
ہر گل کو بسا کے رکھ لوں دل میں
شاید کہ بہار پھر نہ آئے
بکھرے پھر موتی آنسوؤں کے
جیسے کوئی ہار ٹوٹ جائے
بیمارئِ دل عجب مرض ہے
اے چارہ گرو ۔ کوؑی اُپائے؟
شاید کہ میں تجھ کو بھول جاؤں
لب پر جو نہ تیرا نام آئے

1985ء
 

الف عین

لائبریرین
سفر میں درد کا سورج مجھے جلائے بھی
نہالِ غم کے تلے مجھ کو چین آئے بھی
ہیں اک خطِ متوازی یہ تیری یاد اور دل
کبھی قریب جو آئے تو دور جائے بھی
جو جاگتا ہوں تو یادوں کی تھپکیاں ہیں بہت
جو سو رہا ہوں تو کوئی مجھے جگائے بھی
نہیں ہے نور، سلگتا ہوا دیا ہوں میں
وہ پہلے پانی کی اک بوند اب تو آئے بھی
’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا‘‘
وہ بات شعر کے پردے میں چھپ کر آتے بھی

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
میں سوچتا تھا اسے آج ٹالنے کے لیے
پھر آئی یاد ، مرا گھر سنبھالنے کے لیے
مری سرشت نہیں تھی کہ منّتیں کرنا
خود آئی موج یہ موتی اچھالنے کے لیے
میں خود ہی پھانس چبھو بیٹھا دل میں، جاتا تھا
کسی کے پاؤں سے کانٹا نکالنے کے لیے
وہ موتیوں بھری موجیں مجھے ڈبو کے گئیں
میں مر رہا تھا سمندر کھنگالنے کے لیے
یہ غم تھا پہلے وہ پل بھر کو آ کے مل جائے
وہ آکے دے گیا دکھ اور پالنے کے لیے
وہ پرسں اپنا جھلاتی چلی گئی دفتر
مجھی کو چھوڑ گئی گھر سنبھالنے کے لیے

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
کبھی تو دھوپ کبھی ابر کی رِدا مانگے
یہ کشتِ غم بھی عجب موسم و ہوا مانگے
فقیر جھولی کی کلیاں لٹانے آیا ہے
امیر شہر کو ڈر ہے نہ جانے کیا مانگے
کبھی ہو دورِ قناعت تو حالِ بد میں بھی خوش
جو مانگنے پہ دل آئے تو بارہا مانگے
قدم رکیں تو لہو کا بہاؤ رک جائے
شکستہ پا بھی پہاڑوں کا سلسلہ مانگے
میں جس تلاش میں تھک کر خموش بیٹھ رہا
وہ مل گیا ہے خزینہ مجھے بِنا مانگے
جو میرے ہاتھوں میں ہاتھ آگئے وہ رنگ بھرے
یہ دل کہ بھاگتے لمحوں کو تھامنا مانگے

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
سنگم سے لے کے غارِ حرا تک چلا گیا
میں جادۂ وفا سے فنا تک چلا گیا
گم صم ہوں آج دیکھ کے ویرانئِ چمن
اب کی خزاں میں برگِ نوا تک چلا گیا
یوں سوختہ دلوں کی فلک تک رسا ہوئی
اٹھتا دھواں نواحِ خلا تک چلا گیا
مثلِ ہوا نہیں ہیں مری سرحدیں کہیں
میں جب بھی چل پڑا تو ورا تک چلا گیا
دریا میں کچھ نہیں ہے بجز شامِ زر نگار
اس آبِ زر میں نقشِ ہوا تک چلا گیا
بیکار ہی رہا مرا پیڑوں تلے قیام
عرفان کے لیے میں گیا تک چلا گیا

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
سیلاب نے جو پہلے کنارا مٹا دیا
ساحل کی گرتی ریت نے دریا مٹا دیا
ان رخ گُلوں کا ذکر ہی کیا ، وہ ہوا چلی
آندھی نے برگِ نقشِ کفِ پا مٹا دیا
میں تو نے کچھ کہا بھی نہ تھا ، ہاں بس ایک بار
کاغذ پر اس کا نام لکھا تھا، مٹا دیا
بکھرے ہیں چاروں سمت ہی پتّے ورق ورق
طفلِ خزاں نے کیا لکھا ، کیا کیا مٹا دیا
یاد آتی تھی وہ شکل بس اک پل کہ وقت نے
مدٓت پہ دل میں نقش بنا تھا، مٹا دیا
میں تھا بس ایک قطرہ شبنم پہ نوکِ خار
جس کو کہ تیز دھوپ نے پیاسا مٹا دیا

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
سوائے پیشۂ عشق اور معاش کیا کرتا
ترے بغیر کہیں بود و باش کیا کرتا
مدارِ پا مجھے پھِرتا تھا شہر شہر لیے
وہ شخص تھا مرے دل میں، تلاش کیا کرتا
وہ شخص تو مرا ہمزاد تھا ، مری جاں تھا
جو اس نے راز دیا تھا ، وہ فاش کیا کرتا
گدا سمجھ کے امیرانِ شہر دے گئے بھیک
میں تیرے در پہ پڑا تھا فراش ، کیا کرتا
یہ سوچنے کے سوا اور کچھ نہ کر پایا
یہ کرنا کاش ، وہ کرتا میں کاش ، کیا کرتا

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو اشکوں کا ہر اک قطرہ کراماتی ہے
چشمِ تر سوختہ دل کے لئے نا کافی ہے
لاکھ ناراض ہو وہ ہم سے، تسلّی رہے مگر
شعلۂ گل کے تلے سبزہ ابھی باقی ہے
بند2 کر دو کہ یہ تصویریں بکھر جائیں گی
اس دریچے سے بہت تیز ہوا آئی ہے
صرف اک ربطِ وفا، اور نہ کچھ میں مانگوں
تجھ کو ہر قول و عمل کے لیے آزادی ہے
’’میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں‘‘
جاں کہ پھر آبلۂ دل کی تمنّائی ہے
کیا عجوبہ ہے طنابیں تو تنی ہیں لیکن
خیمۂ جاں ہے کہ یہ شعلوں کی برساتی ہے

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
کیسا جادو ہے کہ ایسے بس دیوار کہاں تھا پہلے
دل وہ وحشی تھا کسی طور گرفتار کہاں تھا پہلے
اب ودیعت ہوا ورثہ مجھے قیس ابن ابی عامر کا
مرضِ عشق مری جان کا آزار کہاں تھا پہلے
اب یہ دستور نیا ہے کہ وہ شہ ہوگا لئے ہو جو صلیب
ایک اک شہر کا سردار سرِ دار کہاں تھا پہلے
دکھ کی بستی کو بسے ہو چکے یوں سال ہزاروں لیکن
اپنا یہ مرتبہ، یہ منصبِ شہ وار کہاں تھا پہلے
کیا نئی رُت ہے کہ کانٹوں کے گلستاں کے گلستاں اُگ آئے
اب سفر قریۂ جاں کو جو ہے دشوار کہاں تھا پہلے

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو ہم نے تجھ سے محبت بھی کی بہت
لیکن قبول جرم ، شرارت بھی کی بہت
لے کر کہاں کہاں پھِرے ابیات کی کتاب
ہم نے دیارِ غم کی سفارت بھی کی بہت
ہائے وفا میں آ ہی گئیں تھک کے لغزشیں
در دشتِ نجدِ عشق مسافت بھی کی بہت
آخر کو آکے جم ہی گئے دل کے گھر میں سب
ہم نے کچھ ان دُکھوں سے مروّت بھی کی بہت
یہ کاروبارِ عشق ہی سودا زیاں کا تھا
گو خرچِ نقدِ دل میں کفایت بھی کی بہت
ہم موتیوں کے ڈھیر لٹائیں یہاں وہاں
لوگوں نے شاعری کی تجارت بھی بہت

1986ء
 

الف عین

لائبریرین
مصحف اقبال توصیفی کی نذر

لہو کا سرخ سمندر رہا ہے آنکھوں میں
غروب شام کا منظر رہا ہے آنکھوں میں
یہ سوتی جاگتی سوچیں ، خیال ، یادیں ، نیند
عجیب عرصۂ محشر رہا ہے آنکھوں میں
تمام عمر معطّر ہماری جان رہی
وہ ماورائی گلِ تر رہا ہے آنکھوں میں
وہ ایک نام کہ ہونٹوں پہ جم گیا جیسے
وہ ایک دھندلا سا پیکر۔۔۔۔ رہا ہے آنکھوں میں
یہ کیا ہوا کہ مقفّل تھا دل کا دروازہ
ہے کون شخص جو آکر رہا ہے آنکھوں میں

1987ء
 

الف عین

لائبریرین
مری نوا کو خدا ایسی کچھ رسائی دے
میں چُپ رہوں بھی تو نغمہ مرا سنائی دے
گناہ میں تو مزا پہلے بھی نہ تھا۔ اب تو
ثواب میں بھی نہ لذت کوئی دکھائی دے
گدائی کے لیے حاضر ہیں ہم ۔ مگر پہلے
ملے یہ بھیک ، کوئی کاسۂ گدائی دے
جز ایک لفظ وفا کچھ نہ لکھنا چاہوں میں
مرے قلم میں خدا اتنی روشنائی دے
یہ ہو، گلی سے تری دور بھی نہ جا پاؤں
ہے گشت جرم، سزائے شکستہ پائی دے

1988ء
 

الف عین

لائبریرین
چھند دوہا

کیوں بیٹھے روتے اسے، جو تمہیں بھول گئی
تم تو بھلکڑ تھے بھلے۔ بھول بھی جاؤ بھئی
ابھی ابھی تو آخری، چوڑی ٹوٹی تھی
کالی بلیّ کلموہی، رستہ کاٹ گئی
گاؤں سارا خوش ہوا کچھ جھگڑا نہ ہوا
اللہ دیا کے ساتھ جو، چل دی رام دئی
سچ پوچھو اک شہر میں، تم ہی شاعر ہو
وہی پرانی بات ہے پھر بھی بات نئی
صبح کو یوں نہ لپیٹ دو، دوہوں کا بستر
کچھ عبیدؔ جی پھِر کہو، بیتے روز گئی

1989ء
 

الف عین

لائبریرین
گل ہوئی ہر روشنی، بس ایک در روشن رہا
شہرِ تاریکی میں اک آنکھوں کا گھر روشن رہا
ذہن سوکھی گھاس تھا، ننھی سی چنگاری تھی یاد
وہ الاؤ جل اٹھا جو رات پھر روشن رہا
سارے گھر کی بتّیاں ایک ایک کر کے بجھ گئیں
چھاؤں تھی تاروں کی بس ، اور ایک در روشن رہا
دن میں سایہ کُن رہیں بوڑھی دعائیں، رات کو
ایک چھوٹا سا دیا پیشانی پر روشن رہا
کشتئِ جاں تھی کہ سیلِ آب میں بہتی رہی
آندھیوں میں اک چراغِ بے سپر روشن رہا

1992ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ اشک روکنے کا فن مجھے کوئی سکھا گیا
اتھاہ بحرِ بے کراں تھا، شعر میں سما گیا
وہ جس کی یاد بھی مجھے نہ اشک بار کر سکی
نہ جانے مجھ کو یاد کر کے کس طرح رلا گیا
جو ہاتھ فصل لوٹتے رہے تھے شل کیے گیے
ہری بھری خدائی میں زمیں کو چین آگیا
مرے خدا نے دو جہاں کی روشنی جو بخش دی
مری عبادتوں کا نور کس طرف چلا گیا
جو موسموں کی طرح لوٹ آ رہا تھا سال سال
وہ قیس شہر ابِ ہمیشہ کے لیے چلا گیا
بس اتنا یاد ہے کہ پو پھٹے غزل تمام تھی
اک ایک شعر جانے مجھ سے کس طرح کہا گیا

1992ء
 
Top