نقد و نظر

صائمہ شاہ

محفلین
دریف 'تو کیا ہے' آخری امید کو ٹوٹنے نہیں دے رہی' شاعر نا`امیدی سے امید کی روشنی نہ سہی لیکن What could be the worst ۔۔ سے دلاسے کی فضا بنا رہے ہیں۔
یا پھر شاعر ڈینائل کی کیفیت میں ہے جہاں تو کیا ہے سے خود کو تسلی تو دی جاسکتی ہے
 

عاطف مرزا

محفلین
واہ کیا علمی و ادبی بحث ہے۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔
ممنون (غیر صدریہ ) و متشکر ہوں قابل صد ہزار احترام جناب محمد یعقوب آسیؔ صاحب کا کہ اس جامعۂ ادبیہ سے متعارف کرایا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
احباب محفل اردو السلام علیکم !

کسی تلاش و بسیارکا سلسلہ مجھے اردو محفل میں لے آیا -بہت ہی خوبصورت محفل ہے -انشاء الله اب آنا جانا لگا رہے گا -میں انٹرنیٹ کی دیگرادبی محافل میں تو پرانا ہوں البتہ یہاں نیا ہوں اور آغازمحترم
ا یّوب ناطق صاحب کی اس اہم 'مفید اور ضروری لڑی سے کر رہا ہوں گویا یہ میرا پہلا مراسلہ ہے 'خدا کرے یہی آخری نہ ہو:p -آمین

لڑی کا عنوان ' اس کا موضوع 'پھر محفل کے استاد شاعرکی عالی ظرفی اور بلند حوصلگی سے اپنی غزل کا بیلاگ تبصروں کے لئے پیش کرنا ' گویا ہم جیسے طالب علموں کوایک ماحول فراہم کرنے کی طرف ایک جرّات مندانہ قدم ہے - فکر بآواز بلند کی ایک کوشش میں بھی کر کے دیکھتا ہوں 'انشاء الله سیکھنے کی راہیں اسی طرح کھلیں گی - محترمی یعقوب آسی صاحب لکھنے کی اجازت پہلے ہی دے چکے ہیں لہٰذا شروع کرتا ہوں -


آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے

"اشکوں کا سایوں کو بھگونا " کچھ غیر مانوس سی ترکیب محسوس ہوئی- آپ کے ملاحظے سے ممکن ہے کہیں گذری ہو-اساتذه کے کلام سے اگر کوئی نظیر ملے تو کیا ہی اچھا ہو -


ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے

کون لب پر بات نہیں لایا؟ صراحت ہونی چاہیے -میں شاید یوں کہتا :
وہ دل کی اگر منھ سے نہ کہہ پائے تو کیا ہے


غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

شعر میں ابہام محسوس ہوتا ہے -مصرع ثانی کو یوں بدلنے سے کچھ ابہام میں کمی واقع ہوتی ہے :
"فرمائے تو کیونکر ہو نہ فرمائے تو کیا ہے " یعنی غمزہ بیزباں ہے -اس کا فرمانا بعید از قیاس ہے اور نہ فرمائے تو بھی تعجّب نہیں -


کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے

مصرع اولیٰ میں "تجھے اس سے سروکار " کا اضافہ ردیف "توکیا ہے " کے ہوتے ہوئے زائد از ضرورت محسوس ہوا -



جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے


نثر کی جائے تو کچھ یوں بنے گی کہ جو بلند اڑیں گے وہ گریں گے جو فرش پہ بیٹھا ہے وہ گر جائے تو کوئی بات نہیں - نثر شعر میں عجز بیان کی طرف اشارہ کر رہی ہے -


امید ہے اراکین محفل اردو بالخصوص محترم و مکرّم یعقوب آسی میرے اشکالات رفع فرمائینگے -
 

ایوب ناطق

محفلین
دوسرا شعر
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے​
اکثر احباب نے اس شعر پر کسی نہ کسی زاویے سے دبے لفظوں میںتنقید کی ہے' اور ان دوستوں کے سوالات کا بغور جائزہ لینے سے تین اعتراضات سامتے آتے ہیں--
پہلے مصرعے میں کیا لفظ 'تو' کے بغیر بھی بات مکمل ہوتی ہے
دوسرے مصرعے میں 'اک' سے ابہام میں اضافہ ہوا
اور مجموعی طور پر شعر کا مضمون روائتی ہے
اگر پہلے مصرعے میں ''ان'' کو الف کی کسرہ کے ساتھ پڑھے تو شعر کا مفہوم ابھر تو آتا ہے لیکن ''اک بات'' کے ساتھ تو ''اس'' کا استعمال آنا چائیے تھا' اور وہ اایک بات ہے کیا ؟ کیا اظہارِ محبت ؟
لگتا ہے کہ ہمیں شعر کی کلید نہیں مل رہی' محترم سید شہزاد ناصر کے رائے جان جاننے کی کوشش کرتے ہیں
 

ایوب ناطق

محفلین
محفل کے معتبر اساتذہ کرام بالخصوص جناب الف عین صاحب اور جناب محمد وارث صاحب سے رہنمائی اور شریک گفتگو ہونے کی استدعا کی جاتی ہیں کہ بحث کو ایک نہج مل سکے اور چند سوالات جو سب کو پریشان کیے ہوئے ہیں' کا منطقی جواب مل سکے ۔۔
ساتھ ہی محفل کے فعال اور معتبر ارکان جناب
محمد خلیل الرحمٰن
محب علوی
فارقلیط رحمانی
فلک شیر
سید فصیح احمد
نوید صادق
مزمل شیخ بسمل
عبدالقیوم چوہدری
منیر انور
نیرنگ خیال
کو دعوت دیتا ہوں کہ اس گفتگو میں شریک ہو کر اس سلسلے کی کامیابی میں حصہ دار اور ہم جیسے طالب علموں کی تعلیم کا ذریعہ ہو۔
جناب مہدی نقوی حجاز صاحب سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اپنی شرکت صرف اسے پڑھنے تک محدود نہ رکھے' بلکہ شریکِ جرم ہو کہ یہی حقِ دوستی ہے

 
آخری تدوین:
سب سے پہلے تو ٹیگ کرنے پر ممنون ہوں معذرت کہ مصروفیت کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہو گئی
اب آتے ہیں آپ کے اعتراضات کی طرف
پہلے مصرعے میں کیا لفظ 'تو' کے بغیر بھی بات مکمل ہوتی ہے
میری ناقص رائے میں "تو" کے بغیر شعر کا حسن مانند پڑ جاتا ہے کسی طور پر بھی اضافی محسوس نہیں ہوتا
دوسرے مصرعے میں 'اک' سے ابہام میں اضافہ ہوا
جب پہلے مصرعے میں وضاحت کر دی ہے
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اور یہ ہی "اک بات" ہے جو وہ لب پر لانے سے گریزاں ہیں اس میں ابہام والی کوئی بات نہیں
آپ کے تیسرے اعتراض کی مجھے سمجھ نہیں آئی لہذا اس کی وضاحت سے معذور ہوں
بہت سی دعائیں :)
 

ایوب ناطق

محفلین
تیسرا شعر
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے
خوبصورت خیال کا حسین اظہار ' سچ پوچھے تو مجھے کوئی ابہام محسوس نہیں ہوا' جناب یاسر شاہ شاید لفظ اغماض سے چشم پوشی کر گئے کہ یہاں غمزہ کی وضاحت یا تعریف مقصود نہیں بلکہ اس کے نظر انداز ہونے کے کرب کا بیان ہے' غمزہ کرنا محاورہ ہے بمعنی ناز و عشوہ کرنے کے
ناز و ادا کو ترک مرے یار نے کیا
غمزہ نیا یہ ترکِ ستمگار نے کیا (آتش)​
یہاں ایک اور خوبی (استادانہ کمال کہہ لیجیے) کہ لفظ غمزہ کے معنی چشم ابرو سے اشارہ کرنا ہے اور اغماض کے معنی چشم پوشی کرنے کے ہے' اب خوبصورتی دیکھیے کہ ''چشم'' پوشی کی گئی تو اشارہء چشم کی کیا حیثیت رہ گئی ؟ خوبصورت اظہار ہے ' بس اہلِ زبان سے غمزہ کرنا اور غمزہ فرمانا کے ایک ہونے کی سند درکار ہے کہ میں تو پٹھان ہوں' احباب رائے دے
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
تمام تبصرے پڑھ کر سوچتی ہوں کہ اگر ہر شعر کو پڑھنے والے کی صوابدید کے مطابق بدل دیا جائے تو اس غزل میں یعقوب آسی کہاں ہوں گے یہ خیالات اور طریقہ اظہار گو ہماری انفرادیت کا عکاس ہے مگر شاعر کے تخیل کا نہیں
 

صائمہ شاہ

محفلین
ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کسی تخلیق کو پڑھتے ہیں ہیں تو کیا اسے تخلیق کار کے ذہنی اور علمی معیار پر رکھ کر پڑھتے ہیں یا اپنے ذہن اور علمی قابلیت سے ؟ بعض اوقات لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کا علمی اور ذہنی فاصلہ تخلیق سے انصاف نہیں کر پاتا
 

نایاب

لائبریرین
ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کسی تخلیق کو پڑھتے ہیں ہیں تو کیا اسے تخلیق کار کے ذہنی اور علمی معیار پر رکھ کر پڑھتے ہیں یا اپنے ذہن اور علمی قابلیت سے ؟ بعض اوقات لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کا علمی اور ذہنی فاصلہ تخلیق سے انصاف نہیں کر پاتا
مجھ ایسے تبصرہ کرنے والے اور اعتراض اٹھانے اور داد دینے والے تو بلاشبہ صرف اپنے ذہن سے ابھرنے والی سوچ و خیال پر کسی بھی" تخلیق " کو ناپتے ہیں ۔ اور جتنی ہماری علمی استعداد ہوتی ہے اسی کے زیر اثر تبصرہ کرتے ہیں ۔ میرے ناقص خیال میں لکھنے اور پڑھنے والے کا " علمی و ذہنی تفادت " ابلاغ کی ترسیل و تفہیم میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ کوئی بھی تخلیق جب منصہ شہود پر آتی ہے ۔ تو خود اپنا ابلاغ کرتی ہے ۔ جو کہ دیکھنے والے کی ذہنی علمی اور مشاہداتی سطع پر استوار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کسی تخلیق کو پڑھتے ہیں ہیں تو کیا اسے تخلیق کار کے ذہنی اور علمی معیار پر رکھ کر پڑھتے ہیں یا اپنے ذہن اور علمی قابلیت سے ؟ بعض اوقات لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کا علمی اور ذہنی فاصلہ تخلیق سے انصاف نہیں کر پاتا
کسی بھی مطالعے کی بنیاد تو حقیقتاً ہماری علمی اور فکری استعداد پر ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا تجزیاتی اور منفعلی پہلو تخلیق کرنے والے کے تراشیدہ پہلؤوں پر بھی لامحالہ ہوتا ہے اور اس تمام تعامل میں پوشیدہ لطف عیاں ہی تب ہوتا ہے جب قاری تخلیق کے ان تراشیدہ پہلوؤں سے اپنی فکر کے زاویوں کو سنورتا ہوا محسوس کرپائے۔جہاں تک انصاف کرنے کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے البتہ اس میں علمی سطح اور فکری نقطہ ءنگاہ دونوں عوامل اہم ہو تے ہیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
مجھ ایسے تبصرہ کرنے والے اور اعتراض اٹھانے اور داد دینے والے تو بلاشبہ صرف اپنے ذہن سے ابھرنے والی سوچ و خیال پر کسی بھی" تخلیق " کو ناپتے ہیں ۔ اور جتنی ہماری علمی استعداد ہوتی ہے اسی کے زیر اثر تبصرہ کرتے ہیں ۔ میرے ناقص خیال میں لکھنے اور پڑھنے والے کا " علمی و ذہنی تفادت " ابلاغ کی ترسیل و تفہیم میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ کوئی بھی تخلیق جب منصہ شہود پر آتی ہے ۔ تو خود اپنا ابلاغ کرتی ہے ۔ جو کہ دیکھنے والے کی ذہنی علمی اور مشاہداتی سطع پر استوار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں نایاب بھائی سوال بذاتِ خود علم کی ہی ایک کڑی ہے سوال نہیں اٹھے گا تو جواب کیسے آئے گا وضاحت ، تفصیل ، باریکیاں یہ سب علم کے ہی سلسلے ہیں اور بے شک ہم سب اپنی استطاعت کے مطابق سوال کرتے ہیں اور جواب دینے والا اپنی فراست سے ہمارے سوال کو مزید سوالوں میں بھی تقسیم کر سکتا ہے اور مزید تشنگی بھی پیدا کر سکتا ہے حاصل یہ کہ سب علم کے حصول کے ذریعے ہیں یہ جستجو یہ کرید اس کے بغیر علم کا وجود ہی کہاں ہے
 

صائمہ شاہ

محفلین
کسی بھی مطالعے کی بنیاد تو حقیقتاً ہماری علمی اور فکری استعداد پر ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا تجزیاتی اور منفعلی پہلو تخلیق کرنے والے کے تراشیدہ پہلؤوں پر بھی لامحالہ ہوتا ہے اور اس تمام تعامل میں پوشیدہ لطف عیاں ہی تب ہوتا ہے جب قاری تخلیق کے ان تراشیدہ پہلوؤں سے اپنی فکر کے زاویوں کو سنورتا ہوا محسوس کرپائے۔جہاں تک انصاف کرنے کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے البتہ اس میں علمی سطح اور فکری نقطہ ءنگاہ دونوں عوامل اہم ہو تے ہیں۔
شاعر نے کہا تھا
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حُسن، ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں

ایک تخلیق کار کا اپنی تخلیق کے پہلو اجاگر کرنا نئے دروازوں کو کھولنے کے مترادف ہے
:) :)
 
Top