ناسمجھ

سلمان حمید

محفلین
"ہم پردیس میں بیٹھے ہوئے آزاد نہیں ہوتے"۔

یہ بات میں نے واٹس ایپ پر اس سے پچھلے آدھے گھنٹے سے جاری تحریری بحث کے دوران لکھی تھی۔
لیکن وہ اپنی بات پر بضد تھا، اسے بھی جرمنی آنا تھا اور میری طرح آزاد پنچھی بن کر یورپ کی پرکیف فضاؤں میں اڑان بھرنی تھی۔

"تم آزاد نہیں ہو تو کہاں قید ہو؟ کسی جیل میں؟ میں تو فیس بک پر آئے دن تمہاری تصاویر دیکھتا ہوں اور ہر تصویر نت نئے بیک گراؤنڈ کے ساتھ تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ لیے ہوتی ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تم وہاں بہت خوش ہو۔" اس کی جنجھلاہٹ اس کے میسیج سے جھلک رہی تھی۔

میں اس کو سمجھانا چاہتا تھا لیکن مجھے قوی امکان تھا کہ میرے ہر میسیج پر وہ طنزیہ ہنسے گا اور پھر لکھے گا کہ یہ کتابی باتیں اپنے پاس رکھو، اگر گھر والے اتنا یاد آتے ہیں تو وہاں کیوں ٹھہرے ہو۔ اتنا ہی شوق ہے والدین کی خدمت کا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس کیوں نہیں آ جاتے۔ ہر سال چکر لگا کے جاتے ہو، وہاں اور یہاں دونوں جگہوں کے مزے لوٹ رہے ہو، اب تو روپے بھی بھیجنے لگے ہو جن کو تھام کر امی رونے لگتی ہیں اور سب کو خوشی سے بتاتی ہیں کہ میرے بیٹے نے اپنی تنخواہ ملنے پر بھیجے ہیں اور ظاہر ہے میں پاکستان میں رہ کر ان کو روپے دوں بھی تو وہ یوروز کے مقابلے میں کس کھاتے میں لکھے جائیں گے۔ تم جو خدمت کرنا چاہتے ہو وہ وہاں بیٹھ کر بھی کر سکتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔

موبائیل کے لرزنے پر میں ان "کتابی سوچوں" سے باہر نکل آیا۔ میرے پاس اس کی ابھی تک جاری اس ضد کا کوئی حل نہیں تھا سو میں نے "اچھا" لکھ کر بات ختم کردی۔

میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا واقعی امی میرے بھیجے روپے لے کر جو آنسو بہاتی ہیں وہ خوشی کے ہوتے ہیں؟ کیا وہ ان روپوں کو تھام کر اپنے لاڈلے بیٹے کا لمس محسوس کرتی ہیں؟ کیا مجھے دیکھ دیکھ کر جینے والی میری ماں کو ہر ماہ موصول ہونے والی رقم سے مطلوبہ آکسیجن مل جاتی ہے؟ کیا میری یہ خدمت ان کے لیے کافی ہے؟ میں جانتا تھا کہ وہ یقیناً اثبات میں جواب دے گا اور ساتھ ہی روپے پیسے کی افادیت پر لمبا چوڑا میسیج لکھے گا۔ لیکن میں اس کی بات کیسے مان لوں جبکہ میری ماں روز فون پر روتے ہوئے ایک ہی بات دہرائے جاتی ہے کہ تو میرا لاڈلا تھا، میں نے بڑے پیار سے تجھے پالا تھا اور تو ہی اتنی دور چلا گیا۔ ماں کے آنسو تو جھوٹ نہیں بولتے نا۔

لیکن وہ میری بات سمجھ نہیں سکتا تھا کیوںکہ وہ جرمنی میں نہیں تھا اور ناسمجھ بھی تھا۔

میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ جب میں گھر کے نمبر پر فون کروں اور روز جو فون پہلی گھنٹی پر اٹھا لیا جائے وہ کسی دن کوئی نہ اٹھائے تو کیسے بھیانک خیال آنے لگتے ہیں، کیسے کانپتی انگلیوں سے باری باری سب بھائیوں کو فون ملاتا ہوں اور ایک ایک کر کے جس دن کوئی بھی جواب نہ دے تو پھر ٹانگیں بھی لرزنے لگتی ہیں اور صوفے پر ڈھے جاتا ہوں۔
ابو کے بیمارہو کر بستر پر پڑ جانے کی خبر گلے میں پھانس کی طرح اٹکتی ہے۔ اور پھر پچھلے سال ان کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر تم لوگوں کے مجھ سے چھپا لینے کے باوجود کزن سے پتہ چلی تو کیا قیامت ٹوٹی تھی مجھ پر۔

اسے بتانا چاہتا تھا کہ آج جب ایک دوست کا فون یہ بتانے کے لیے آیا تھا کہ علی کے ابو کی پاکستان میں ڈیتھ ہو گئی ہے تو کیسے میری آواز بند ہو گئی تھی۔

"علی کی کیا حالت ہے؟" میری آواز بمشکل نکلی تھی تو میرا دوست ٹھنڈی آہ بھر کر بولا تھا کہ پچھلے دو دن سے وہ ہسپتال میں تھے اور اس کے گھر والے بار بار کہہ رہے تھے کہ علی آ جا پاکستان مگر اس کو عید کے رش کے وجہ سے ٹکٹ نہیں ملی اور آج دوپہر کو ان کا انتقال ہو گیا۔ کل کی ٹکٹ ملی ہے اسے لیکن جنازہ آج شام میں ہو جائے گا۔

میں ویسے ہی کانپنے لگا تھا جیسے پردیس میں بیٹھ کر دماغ میں آنے والے طرح طرح کے وسوسے مجھے رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا علی اپنے باپ کی شکل بھی نہیں دیکھ پائے گا؟ وہ باپ جس نے علی کے پہلی بار آنکھیں کھولتے ہی اسے گود میں بھر لیا ہو گا کیا علی اس باپ کی بند آنکھیں چوم بھی نہیں سکے گا؟

"یہ خبر علی پر قیامت بن کر ٹوٹی تھی یار"۔ دوست فون پر روہانسا ہو رہا تھا۔

"ہم سب ایسی ہی ایک خبر کے منتظر ہیں میرے دوست۔ جلد یا بدیر، ایسا فون تو ہم سب کو آنا ہے۔ دعا کر کہ وقت پر پہنچ پائیں ورنہ یہ ڈوری جس سے ہم سب بندھے ہوئے ہیں یہ ہمیں کبھی آزاد نہیں ہونے دے گی۔"

میں صرف اتنا ہی کہہ پایا تھا اور فون بند کر دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا دوست میری بات سمجھ گیا ہو گا کیونکہ وہ پچھلے تین سال سے جرمنی میں تھا اوروہ ناسمجھ بھی نہیں تھا۔


نوٹ- یہ تحریر ایک دوست علی کے والد کے انتقال کی اطلاع ملنے پر لکھی گئی ہے۔ ہر پڑھنے والے سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ دوست کے گھر والوں کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی دعا بھی کر دیجئے گا۔ شکریہ
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم سلمان بھائی

چھاگئے ہو جی آپ ۔۔۔۔۔۔
مجبوریوں کے تحت اپنوں سے دوری جھیلنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی تحریر

اللہ پاک خیر و عافیت میں رکھے ہمیشہ آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 

S. H. Naqvi

محفلین
بہت خوب جی مگر دنیا بڑی ظالم ہے اور سے زیادہ ظالم انسان کی ضروریات اور خواہشیں۔۔۔۔۔۔۔ روپے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہی کچھ لوگ پاس رہ کر بھی پردیسی ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہونی کی وجہ سے بھی پردیسی۔۔۔۔۔۔! وقت کے ساتھ انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں جو نہ ہو کمی اسی کی محسوس ہوتی ہے اسی تناظر میں اچھی تحریر ہے
 

سلمان حمید

محفلین
السلام علیکم سلمان بھائی

چھاگئے ہو جی آپ ۔۔۔۔۔۔
مجبوریوں کے تحت اپنوں سے دوری جھیلنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی تحریر

اللہ پاک خیر و عافیت میں رکھے ہمیشہ آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
وعلیکم السلام ۔ بہت شکریہ اور دعا کے لیے جزاک اللہ :)
 
آخری تدوین:

سلمان حمید

محفلین
بہت خوب جی مگر دنیا بڑی ظالم ہے اور سے زیادہ ظالم انسان کی ضروریات اور خواہشیں۔۔۔۔۔۔۔ روپے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہی کچھ لوگ پاس رہ کر بھی پردیسی ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہونی کی وجہ سے بھی پردیسی۔۔۔۔۔۔! وقت کے ساتھ انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں جو نہ ہو کمی اسی کی محسوس ہوتی ہے اسی تناظر میں اچھی تحریر ہے
سچ کہا آپ نے۔ ترجیحات بدلتی ہی رہتی ہیں۔ تعریف کے لیے شکریہ :)
 

عینی شاہ

محفلین
بہت اچھی سٹوری ہے سلمان بھائی ۔۔ ویری سینسیٹیو ایشو :)
تھوڑا سا دل خراب ہوا اور وہ وقت یاد آیا جب میرے بھائی بھی باہر گئے تھے تو ہم سب گھر والوں کی کیا حالت ہوئی تھی اور وہ خود بھی بہت اداس ہو کے گئے تھے ۔
پیار کرنے والے لوگوں کو یوں چھور کر جانا بہت ٹف ہوتا ہے لیکن مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کہ جانا پڑتا ہے :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
لاجواب
ابو کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ہی پاکستان سے واپس آئی تھی اور ایک ہفتے بعد ان کی ڈیتھ ہو گئی میں نہیں جا سکی تھی اور مجھے آج تک ایسا ہی لگتا ہے کہ ابو کہیں گئے ہی نہیں امی فون اٹھانے میں دیر کردیں تو ہزار وسوسے دل میں اٹھتے ہیں ہم لوگوں کا المیہ یہ ہے جو لوگ چلے جاتے ہیں ہم انہیں کبھی بھیج ہی نہیں پاتے وہ جدائی جو پاکستان رہنے والوں کے لیے ایکبار ہی آتی ہے وہ ہمارا ساتھ ہی نہیں چھوڑتی ہر بار ایک فرد ، ایک چہرہ بچھڑ جاتا ہے اب تو پاکستان واپسی سے ائیرپورٹ پر ہی سوچنا شروع کر دیتی ہوں اگلی بار جانے کونسا چہرہ نہیں دیکھ پاوں گی
 

سلمان حمید

محفلین
بہت اچھی سٹوری ہے سلمان بھائی ۔۔ ویری سینسیٹیو ایشو :)
تھوڑا سا دل خراب ہوا اور وہ وقت یاد آیا جب میرے بھائی بھی باہر گئے تھے تو ہم سب گھر والوں کی کیا حالت ہوئی تھی اور وہ خود بھی بہت اداس ہو کے گئے تھے ۔
پیار کرنے والے لوگوں کو یوں چھور کر جانا بہت ٹف ہوتا ہے لیکن مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کہ جانا پڑتا ہے :)
ارے اتنا خوش خوش رہنے والی عینی مینی کو میں نے اداس کیسے کر دیا۔ یہ تحریر ان لمحات میں لکھی گئی جب اداسی کا شدید غلبہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کے گھر والوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ دعاؤں میں یاد رکھنا :)
 

سلمان حمید

محفلین
لاجواب
ابو کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ہی پاکستان سے واپس آئی تھی اور ایک ہفتے بعد ان کی ڈیتھ ہو گئی میں نہیں جا سکی تھی اور مجھے آج تک ایسا ہی لگتا ہے کہ ابو کہیں گئے ہی نہیں امی فون اٹھانے میں دیر کردیں تو ہزار وسوسے دل میں اٹھتے ہیں ہم لوگوں کا المیہ یہ ہے جو لوگ چلے جاتے ہیں ہم انہیں کبھی بھیج ہی نہیں پاتے وہ جدائی جو پاکستان رہنے والوں کے لیے ایکبار ہی آتی ہے وہ ہمارا ساتھ ہی نہیں چھوڑتی ہر بار ایک فرد ، ایک چہرہ بچھڑ جاتا ہے اب تو پاکستان واپسی سے ائیرپورٹ پر ہی سوچنا شروع کر دیتی ہوں اگلی بار جانے کونسا چہرہ نہیں دیکھ پاوں گی
بالکل ایسے ہی ہے۔ میں تو ہر بار واپسی پر سب سے ملتے وقت بے یقینی سے پوچھتا ہوں بلکہ یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اگلی بار تندرست ملنا ہے اور ضرور ملنا ہے۔
ہر سال خاندان یا محلے کا ایک فرد کم ہو جاتا ہے جس کی فون پر اطلاع ملتی ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اگلی باری جانے کس کی ہو۔ اللہ آپ کے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور آپ کی والدہ سمیت ہم سب کے والدین جو حیات ہیں، ان کو زندگی اور تندرستی عطا کرے۔ آمین۔

کل یہیں پر ایک انکل سے فون پر بات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ ایسے ہی ان کے والد کا انتقال ہوا اور وہ جا نہ سکے اور بس آج تک وہ ان کو رخصت نہیں کر پائے۔ ان کی یہ بات ٹھاہ کر کے دل کو لگی کہ سلمان جب کہ میں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں نہیں اتارا اور اپنی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھا تو اب کیسے یقین کروں کہ وہ نہیں رہے؟ :(
 

نایاب

لائبریرین
ہم کہ رزق کی تلاش میں نکلے پنچھی ۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیا خبر کس موڑ پہ کیا خبر پائیں ۔
رمضان میں پردیسیوں کو رلانا نہیں اچھا محترم سلمان بھائی
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
لاجواب
ابو کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ہی پاکستان سے واپس آئی تھی اور ایک ہفتے بعد ان کی ڈیتھ ہو گئی میں نہیں جا سکی تھی اور مجھے آج تک ایسا ہی لگتا ہے کہ ابو کہیں گئے ہی نہیں امی فون اٹھانے میں دیر کردیں تو ہزار وسوسے دل میں اٹھتے ہیں ہم لوگوں کا المیہ یہ ہے جو لوگ چلے جاتے ہیں ہم انہیں کبھی بھیج ہی نہیں پاتے وہ جدائی جو پاکستان رہنے والوں کے لیے ایکبار ہی آتی ہے وہ ہمارا ساتھ ہی نہیں چھوڑتی ہر بار ایک فرد ، ایک چہرہ بچھڑ جاتا ہے اب تو پاکستان واپسی سے ائیرپورٹ پر ہی سوچنا شروع کر دیتی ہوں اگلی بار جانے کونسا چہرہ نہیں دیکھ پاوں گی
اللہ تعالی آپ کے والد محترم کو اپنی رحمتوں برکتوں بھری آسانیوں سے نوازتے جنت عالیہ کے بلند باغوں میں بسیرا عطا فرمائے آمین
بلا تفریق سب ہی پردیسی ایسی اذیت بھری خبر کے انتظار میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

سلمان حمید

محفلین
ہم کہ رزق کی تلاش میں نکلے پنچھی ۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیا خبر کس موڑ پہ کیا خبر پائیں ۔
رمضان میں پردیسیوں کو رلانا نہیں اچھا محترم سلمان بھائی
بہت دعائیں
معذرت خواہ ہوں نایاب بھائی لیکن جب سے یہ خبر سنی ہے مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا اور سوچا کہ اور کوئی جگہ نہیں جہاں لکھ سکوں تو محفل میں ہی سہی۔
دعاگو ہوں کہ اللہ آپ اور ہم جیسے پردیسوں کو پردیس میں بیٹھ کر دیس سے آنے والی ہر بری خبر سے محفوظ رکھے۔ آمین
 

عینی شاہ

محفلین
ارے اتنا خوش خوش رہنے والی عینی مینی کو میں نے اداس کیسے کر دیا۔ یہ تحریر ان لمحات میں لکھی گئی جب اداسی کا شدید غلبہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کے گھر والوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ دعاؤں میں یاد رکھنا :)
آمین آمین :)
 
Top