عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
حالتِ دل بیاں نہیں ہوتی
کس کے مُنہ میں زباں نہیں ہوتی

مَیں طلبگار اُس وفا کا ہُوں
جو سُنا ہے یہاں نہیں ہوتی

باغِ رضواں کی بات کیا کیجئے
اُن کی خُوشبو کہاں نہیں ہوتی

درد ایسا ہے میرے اِس دل میں
راحتِ دِل بیاں نہیں ہوتی

ایک صورت عیاں وہی تو ہے
وہ جو صورت عیاں نہیں ہوتی

باعثِ فخر جس کو جانا، مَیں
وہ یہ آہ و فغاں نہیں ہوتی

ہم نے مانا عظیم صاحب سی
حالتِ دِل بیاں نہیں ہوتی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دل سے خیالِ یار بھلایا نہ جائے گا
ہم سے یہ کاروبار چلایا نہ جائے گا

کہتے ہیں جل چُکا ہو، جو الفت کی آگ میں
آتِشِ دوزخاں میں جلایا نہ جائے گا

لاشہ ہماری چاہ کا ہم سے ہزار بار
اُٹھنے پہ اِس جہاں سے اُٹھایا نہ جائے گا

ایسا بھی کیا ہو ہم سے تغافل اے مہرباں
خود سے بھی کوئی عہد نبھایا نہ جائے گا

بارے میں دل کے ہم کو یہ کیسا گمان تھا
بخشا ہوا یہ ماٖل چرایا نہ جائے گا

جائیے حضور شوق سے جائیے ہمیں سے دور
لیکن رہے خیال کہ جایا نہ جائے گا

یارب ! یہ زندگی ہے تو زندہ رہوں میں کیوں
مُجھ سے یہ بارِ ہست اُٹھایا نہ جائے گا

اللہ وہ اُن کی شوخیِ گفتار کی قسم
ہم سے ہمارا حال سنایا نہ جائے گا

صاحب زمیں کی گود میں بیٹھے ہیں سوچتے
ہم پر یہ آسمان گرایا نہ جائے گا
 

عظیم

محفلین
تمہارے غم کے علاوہ ملال کیا ہوگا
ہمیں کسی کا بهلا اب خیال کیا ہوگا

خُدا کرے کہ نہ دیکھیں وصال کا دِن، ہم
وگرنہ ہجر میں اُن کے سوال کیا ہوگا

ہُوا یہ حال محبت میں ہم غریبوں کا
نہ جانے عشق میں اپنا یہ حال کیا ہوگا

بُھلائے بیٹھے ہیں، چاہت میں تیری ہم دُنیا
ہمارے واسطے جینا محال کیا ہوگا

طلب تمہاری، تمہارا ہی نام ہے لب پر
تمہاری دید کو میرا خیال کیا ہوگا

کبھی تو پردہِ ظاہر کو اے اُٹھا ڈالو
کہ تُجھ بِنے ہمیں کوئی کمال کیا ہوگا

غزل سرا ہیں محمد عظیم صاحب آج
وہ مِیرزاؤں کا جانیں تو حال کیا ہوگا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہُوا یہ حال محبت میں ہم غریبوں کا
نہ جانے عشق میں اپنا یہ حال کیا ہوگا
محبت اور عشق میں فرق ہے کیا؟ ہاں
ہو ایہ حال ذرا سے لگاؤ میں اپنا
کر دو تو فرق بھی پیدا ہو جائے اور غریبوں کے خواہ مخواہ اضافے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔

طلب تمہاری، تمہارا ہی نام ہے لب پر
تمہاری دید کو میرا خیال کیا ہوگا
÷÷؟؟؟ میرا خٰال کی بجائے ’اپنا‘ ہی لایا جائے

کبھی تو پردہِ ظاہر کو اے اُٹھا ڈالو
کہ تُجھ بِنے ہمیں کوئی کمال کیا ہوگا
÷شعر سمجھ میں نہیں آیا، یہ بیچ میں ’اے‘ کیا ہے؟ اسی طرح ’بنا‘ کی جگہ ’بنے‘ کا کیا محاورہ ہے؟
 

عظیم

محفلین
ہُوا یہ حال محبت میں ہم غریبوں کا
نہ جانے عشق میں اپنا یہ حال کیا ہوگا
محبت اور عشق میں فرق ہے کیا؟ ہاں
ہو ایہ حال ذرا سے لگاؤ میں اپنا
کر دو تو فرق بھی پیدا ہو جائے اور غریبوں کے خواہ مخواہ اضافے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔

طلب تمہاری، تمہارا ہی نام ہے لب پر
تمہاری دید کو میرا خیال کیا ہوگا
÷÷؟؟؟ میرا خٰال کی بجائے ’اپنا‘ ہی لایا جائے

کبھی تو پردہِ ظاہر کو اے اُٹھا ڈالو
کہ تُجھ بِنے ہمیں کوئی کمال کیا ہوگا
÷شعر سمجھ میں نہیں آیا، یہ بیچ میں ’اے‘ کیا ہے؟ اسی طرح ’بنا‘ کی جگہ ’بنے‘ کا کیا محاورہ ہے؟

جی بابا : )
بنے ایویں استادی :ROFLMAO:
 

عظیم

محفلین
عشق ہے تو ، آہ و زاری کیوں کریں
آرزو بھی ہم تمہاری کیوں کریں

زندگی بخشی ہے یا کوئی عذاب
ہم بسر یہ عمر ساری کیوں کریں

لیلی و مجنوں کی چھیڑیں داستاں
بس تمہاری رازداری کیوں کریں

اور بھی ہیں غم تمہارے غم کے جُز
اک تمہارے غم سے یاری کیوں کریں

عاشقی میں بُھول جائیں خُود کو کیوں
ہم فقط خواہش تمہاری کیوں کریں

گر یہ مجبوری تمہارا جبر ہے
صبر بھی اب اختیاری کیوں کریں

صاحبِ جاں سوز دِل برداشتہ
ہم کسی کی دل عذاری کیوں کریں
 

عظیم

محفلین
مگر کِس کے لئے ہم مُسکراتے
خُوشی سے زندگی کیسے بِتاتے

یہاں رکھا ہی کیا تها اپنی خاطر
زمانے سے بَھلا کیوں دِل لگاتے

یہ کہنا تھا رقیبوں کا ہمارے
ہُوا ہے عشق تو کرکے نبھاتے

اگر جانے پہ جاتے دُور تُم سے
بتاؤ تُم ہی آخر جا بھی پاتے

ہمیں تُم نے دِیئے ہیں زخم ایسے
دِکھاتے بھی کسی کو کیا دِکھاتے

یہ شعر و شاعری بس کی نہیں ہے
وگرنہ شعر ایسے ہم سُناتے

چلو بہتر ہے مانا ہم غلط تھے
خطائیں پر ہماری تُم گِناتے

عظیم اپنی بَلا سے آئیں دُشمن
مگر کُچھ دوستوں کو ساتھ لاتے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غم بُھلانے بھی تُم نہیں دیتے
مُسکرانے بھی تُم نہیں دیتے

پاس رہتے ہو دُور ہو کر بھی
دُور جانے بھی تُم نہیں دیتے

میری بربادیوں کے دکھڑے کو
بُھول جانے بھی تُم نہیں دیتے

مَیں ہُوں نوحہ گری پہ مائل اور
نغمہ خانے بھی تُم نہیں دیتے

اُس پہ بخشی یہ تِیرگی مُجھ کو
دِل جلانے بھی تُم نہیں دیتے

اپنے بیمار کو ، تعجب ہے
زہر کھانے بھی تُم نہیں دیتے

چُپ کی ٹھانے ہو خُود بھی بیٹھے اور
غُل مچانے بھی تُم نہیں دیتے

تُم نہ کرتے ہو زندگی آسان
مر ہی جانے بھی تُم نہیں دیتے

کُچھ نہ اپنا پتا ہی دیتے ہو
ڈھونڈ لانے بھی تُم نہیں دیتے

حال دِل کا عظیم صاحب کو
کہہ سُنانے بھی تُم نہیں دیتے
 

عظیم

محفلین
تمہیں کہہ دو ہماری کیا خطا ہے
ہمیں گر عشق تُم سے ہو گیا ہے

خبر اپنی نہ دُنیا کا پتا ہے
ہمارا آپ ہم سے کھو گیا ہے

نہ جانے آرزو ہے کِس کی ہم کو
نہ جانے عشق کس سے ہو گیا ہے

رہا کیا یہ جہاں اُس کی نظر میں
جو تیری جستجو میں کھو گیا ہے

جگا ہے یوں نصیبا ہائے اپنا
کہ جیسے نیند ابَدی سو گیا ہے

کسی بُت نے کِیا ہم پر وہ جادُو
خُدا سے واسطہ سا ہو گیا ہے

نہیں روئے مگر غم پر تُمہارے
زمانہ ساتھ اپنے رو گیا ہے

چلا بھی آ سکونِ قلب ہم کو
گُماں آنے کا تیرے ہو گیا ہے

تھا دِل جانا کہ دیکھو جاں بھی جائے
اُسی جانب یہ دل جس کو گیا ہے

کریں صاحب گلہ کیا آسماں سے
مقدر تو زمیں کا سو گیا ہے
 

عظیم

محفلین
ہے تِرا غم متاعِ جاں میری
تیری چاہت ہے داستاں میری

کیا کروں مَیں بیان حالِ دِل
کانپ اُٹھتی ہے یہ زُباں میری

تُجھ کو سونپا تو اور بھی بگڑی
وائے حالت اے آسماں میری

چُھپ گیا آئینوں میں میرا عکس
مُجھ پہ صورت ہوئی عیاں میری

مَیں نہ سمجھوں تمہاری خاموشی
تُم سمجھتے نہیں زُباں میری

تُجھ بچھڑنے کا خوف رہتا ہے
ورنہ کیا چیز ہے یہاں میری

اے مِرے دوست تُم ہُوئے دُشمن
دوستی مُجھ سے ہو کہاں میری

زندگی کو تلاش کرتا تھا
موت بھی کھو گئی یہاں میری

مُجھ کو جینے کا حوصلہ بخشو
عمر باقی ہے اِک وہاں میری

تُم سمجھتے ہو بات اِس دل کی
تُم ہی کہہ دو اے رازداں میری

ہیں مِری مشکلیں عظیم ایسی
سانس آنے پہ جائے جاں میری
 
Top