سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین
اگر جناب آدم 6 ہزار سال قبل تشریف لائے، تو پھر یہ کون ہے؟

الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کہتے ہیں کہ جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے ڈھانچے جناب آدم سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں؟

Mc_me-C8A-BOjrjbm71V1rbdqMJDKE0hNH6Se3XFdBkmfWjbYWQ1mkRFt3TZo07KWaAZe41x8IEjuisAqpc3MgiHbJb03ps2Fete2Ge6yXFEOgT4tdH_tB_Jt4Q1EL-_Vw


یہ آج کا انسان نہیں ہے، بلکہ یہ "نیندرتھال" ہے، جو کہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں 99 فیصد انسان تھے، اور انکے دماغ کا سائز انسانی دماغ کے سائز کے برابر ہے۔

نیندرتھال کی نسل آج سے 28 ہزار سال پہلے ختم ہو گئی۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے انسان میں نیندرتھال کا ڈی این اے پایا جاتا ہے۔

Everyone living outside of Africa today has a small amount of Neanderthal in them, carried as a living relic of these ancient encounters. A team of scientists comparing the full genomes of the two species concluded that most Europeans and Asians have between 1 to 4 percent Neanderthal DNA. Indigenous sub-Saharan Africans have no Neanderthal DNA because their ancestors did not migrate through Eurasia.



کیا الہامی مذاہب کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انسان کی اس تاریخ کے متعلق کچھ بتلا پاتے؟

سوال بہت سادہ سا ہے۔۔۔۔ اگر ہم جناب آدم کی اولاد ہیں،۔۔۔۔ تو پھر اس 28 ہزار سال پہلے ختم ہو جانے والی اس نسل "نیندرتھال" کے "ڈی این اے" آج کی شمالی ایشیائی اور یورپین انسانی نسل میں کیسے آ گئے؟

نیندرتھال نامی یہ نسل فقط یورپ اور شمال مغربی ایشیا میں پائی جاتی تھی (ٹھنڈے علاقے میں)۔ ان علاقوں میں نیندرتھال اور انسان کچھ ہزار سال اکھٹے زندگی گذارتے رہے۔ جبکہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا نیندرتھال سے کبھی سامنا نہیں ہوا، اس لیے ان میں نیندرتھال کے کوئی ڈی این اے نہیں ملتے۔



۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔۔

اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔

دیکھئے معتبر ترین سائیٹ اسلام سوال جواب، جس کو براہ راست سعودیہ کے مفتی حضرات چلا رہے ہیں(لنک):
http://islamqa.info/ur/20612) ۔


اس لنک پر موجود مواد کو پڑھ لیجئے۔ آپکے 14 طبق روشن ہو جائیں گے۔

ایک بار پھر زبردست طریقے سے سائنس و مذہب کا ٹکراؤ سامنے ہے۔ کس پر یقین کیا جائے۔

یہ ہے فرعون کا ڈھانچہ ، جو مسلمانوں سے کہیں قبل کا ہے، مگر اسکا قد وہی ہے جو کہ آجکے انسان کا ہے۔


ZuecN2ivzpk4ultiZwaIkuG-CH-uF1Y2N8wl6Axh56MNn_aF-4jHsZ0qaGNHE8PZf_JdBn-v9WgICmNEHENcDlimF3EsMExHlJS8N1Xx3irdsT-FXTAIdqU74IS3DTPEZw



ایک کیا، سینکڑوں ہزاروں انسانی ڈھانچے برآمد ہو چکے ہیں جو کہ اسلام کی آمد سے قبل کے ہیں اور 2 لاکھ سال پہلے تک جا رہے ہیں، مگر ان سب کا قد 30 میٹر لمبا نہیں، بلکہ آجکے انسان جتنا ہی ہے۔


پرانے زمانے کے انسانوں کی عمر ہزار سال

جناب نوح نے 950 سال تبلیغ کی اور جب 950 سال کے بعد طوفان آیا تو انکے بیوی اور بچے اور کمیونٹی سب موجود تھے جو کہ ان ہی ساتھ طویل عمریں جی رہے تھے۔

لیکن آج سائنس ثابت کر رہی ہے کہ پرانے زمانے کے انسان کی عمر ہرگز آج کے انسان سے مختلف نہیں تھی، بلکہ پچھلے 2 لاکھ سال سے یہ اوسطا ایک ہی جیسی قائم ہے۔

آج سینکڑوں اور ہزاروں پرانے ڈھانچوں پر سائنس تحقیق کر چکی ہے جو کہ 5 ہزار سے لے کر 2 لاکھ سال پرانے ہیں، مگر ان میں سے کسی کی عمر بھی ہزاروں سال نہیں تھی۔


چنانچہ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔۔

جب مذہب کا ٹکراؤ ہو فطرت سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو عقل سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو سائنس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آپ اپنے دلوں کو کیسے دلاسے دیں گے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اوکے، اگرچہ کہ یہ ٹاپک کچھ ہٹ کر تھا، مگر مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس مسئلے پر ہم سب کے لب یوں سِل جائیں گے اور ہمیں یوں نظریں پھیر کر اپنا منہ ریت میں دبانا پڑ جائے گا۔
 

عثمان

محفلین
مذہبی جنونیوں کے ہاں اپنے دلوں کو دلاسہ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سائنسی حقائق کا ہی یکسر انکار کر دیتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
اگر جناب آدم 6 ہزار سال قبل تشریف لائے، تو پھر یہ کون ہے؟
الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کہتے ہیں کہ جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے ڈھانچے جناب آدم سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں؟
اسلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ حضرت آدم پہلے انسان تھے۔ یہ بعض علماء کا خیال ہے اس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ حضرت آدم پہلے نبی تھے۔ جبکہ انسان کے متعلق تو قرآن خود بتاتا ہے کہ حضرت آدم سے پہلے بھی انسان موجود تھے۔

۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔ ۔
اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔
یہ بھی بعض علماء کا ذاتی خیال ہے۔ اسلام کی آخری کتاب قرآن شریف میں اسکا کوئی ذکر نہیں۔ ضعیف روایات کا شاخسانہ لگتا ہے۔

پرانے زمانے کے انسانوں کی عمر ہزار سال
جناب نوح نے 950 سال تبلیغ کی اور جب 950 سال کے بعد طوفان آیا تو انکے بیوی اور بچے اور کمیونٹی سب موجود تھے جو کہ ان ہی ساتھ طویل عمریں جی رہے تھے۔
قرآن میں یہ ذکر ہے کہ نوح ان میں 950 سال رہا۔ اس سے مراد ان کی نبوت کا زمانہ ہے۔ یعنی ان کی تعلیمات ہیں کہ ان کی تعلیمات ان کی قوم میں 950 سال تک رہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ قوم اتنے عرصے تک نوح کے تابع رہی اور پھر امتداد زمانہ سے تعلیمات بگڑ گئیں۔ کیونکہ جب تک کوئی قوم اپنی نبی کی تعلیمات کے تابع زندگی گزارتی ہے اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ اس نبی کے تابع ہے چاہے وہ نبی جسمانی طور پر وفات ہی پاچکا ہو۔ یہ محاورہ آج کی دنیا میں بھی نظر آتا ہے کہ کوئی لیڈر مرنے کے بعد بھی اپنی قوم میں ایسا زندہ رہے کہ قوم اسکے دیئے ہوئے اصولوں کو جان سے عزیز رکھے ہوئے ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں لیڈر تو ابھی تک اپنی قوم میں زندہ ہے۔

چنانچہ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ۔۔۔ ۔۔
جب مذہب کا ٹکراؤ ہو فطرت سے ۔۔۔ ۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو عقل سے ۔۔۔ ۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو سائنس سے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تو پھر آپ اپنے دلوں کو کیسے دلاسے دیں گے؟
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام کی کسی بھی بات کا سائنس سے ٹکراؤ نہیں ہے۔ جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے اسی نے قوانین قدرت بھی بنائے تھے اور قرآن نازل کرنے سے بھی پہلے وہ یہ قوانین قدرت بنا چکا تھا۔ لہذا یہ ناممکن ہے کہ سائنس اور مذہب (اسلام) میں کہیں ٹکراؤ پیدا ہو کہ قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل۔ اور خدا کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا۔ جہاں تضاد نظر آتا ہے وہ قرآن کی بعض آیات یا اسلام کی بعض تعلیمات کی غلط تشریخ سے پیدا ہوتا ہے جس سے قرآن یا اسلام بری الذمہ ہیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
محترمہ ،آپ کو پہلے بھی کئی بار باور کروایا جا چکا ہے کہ براہ کرم مذہبی، الہامی کتب میں جدید سائنس یا تاریخ تلاش کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔ یہ سائنسی و تاریخی کتب نہیں ہیں، روحانی و اخلاقی کتب ہیں حضرت انسان کی اصلاح و ہدایت کیلئے۔ وگرنہ 7کروڑسال قبل معدوم ہوجانے والے جانوروں کی نسل ڈائنوسارز کی دریافت کیلئے زمینی کھدائی کی ضرورت نہ پڑتی۔ سیدھا الہامی کتب سے انکی زمین میں موجودگی کا پتا لگ جاتا! کچھ سمجھ آئی یا پہلی بھی گئی؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Dinosaur
 

عثمان

محفلین
تعجب ہے کہ جہاں مذہبی شدت پسندی کا پرچار کرنے پر محفل میں عرصہ دراز سے کھلی چھوٹ ہے وہاں اس دھاگہ کو لایعنی موڈریشن کے مراحل میں لٹکا رکھا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تعجب ہے کہ جہاں مذہبی شدت پسندی کا پرچار کرنے پر محفل میں عرصہ دراز سے کھلی چھوٹ ہے وہاں اس دھاگہ کو لایعنی موڈریشن کے مراحل میں لٹکا رکھا ہے۔

موڈریٹرز بھی انسان ہیں قبلہ ان کو محفل میں آنے کی دیر سویر ہو سکتی ہے۔ جہاں تک لایعنی کا تعلق ہے تو یہ پورا زمرہ ہی موڈریشن کے تحت ہے، ارسال کنندہ نے یہ زمرہ پسند کیا تو اب اسطرح تو ہوگا ہی۔
 

نایاب

لائبریرین
قران پاک اور سائنس میں کہیں بھی کوئی تعارض نہیں ۔۔
جناب آدم علیہ السلام کے بارے قران پاک جو کچھ بیان فرماتا ہے ۔ وہ تخلیق آدم علیہ السلام میں استعمال ہوئی مٹی کی اقسام ۔۔۔ آدم کے لیئے سب فرشتوں کو سجدے کا حکم ۔ شیطان کی نافرمانی اور اللہ سے آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی اک تخصیص کے ہمراہ مہلت پانا ۔جناب آدم علیہ السلام کا ممنوعہ شجر کے قریب جانا نافرمانی کرنا ۔ معافی مانگنا ۔ بطور سزا جنت کا چھوٹنا ۔ زمین پر آنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قران میں کہیں بھی جناب آدم علیہ السلام کے قد بارے یا ان کی تخلیق کے سن بارے کوئی علامت یا شہادت نہیں ملتی ۔
جناب نوح علیہ السلام کے 950 سال تک اپنی قوم میں رہنے تبلیغ کرنے طوفان کے آنے بارے بھی کوئی مخصوص سن کا بیان نہیں ملتا ۔
جناب آدم علیہ السلام لاکھوں سال پہلے خلق ہو کر اس زمین پر پہنچے یا پھر ہزاروں سال قبل ۔۔ اس بارے کوئی بھی شہادت قران پاک سے میسر نہیں ۔
ویسے سائنس طوفان نوح بارے کس سن کا تعین کرتی ہے ۔ اس سوال کا جواب تلاش کر لیا جائے تو شاید اس عقدے کو بھی حل کی منزل مل جائے ۔۔۔۔۔۔

۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔ ۔

اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔
محترم بہنا مجھے یہاں کچھ ٹائپو سا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
کیا واقعی اللہ اور جناب آدم کے قد بارے یہ ذکر آپ نے کہیں پڑھا ۔۔۔۔۔؟
اگر ممکن ہو تو حوالہ دے دیں ۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں
 

زیک

مسافر
قران پاک اور سائنس میں کہیں بھی کوئی تعارض نہیں ۔۔
جناب آدم علیہ السلام کے بارے قران پاک جو کچھ بیان فرماتا ہے ۔ وہ تخلیق آدم علیہ السلام میں استعمال ہوئی مٹی کی اقسام ۔۔۔ آدم کے لیئے سب فرشتوں کو سجدے کا حکم ۔ شیطان کی نافرمانی اور اللہ سے آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی اک تخصیص کے ہمراہ مہلت پانا ۔جناب آدم علیہ السلام کا ممنوعہ شجر کے قریب جانا نافرمانی کرنا ۔ معافی مانگنا ۔ بطور سزا جنت کا چھوٹنا ۔ زمین پر آنا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
قران میں کہیں بھی جناب آدم علیہ السلام کے قد بارے یا ان کی تخلیق کے سن بارے کوئی علامت یا شہادت نہیں ملتی ۔
جناب نوح علیہ السلام کے 950 سال تک اپنی قوم میں رہنے تبلیغ کرنے طوفان کے آنے بارے بھی کوئی مخصوص سن کا بیان نہیں ملتا ۔
جناب آدم علیہ السلام لاکھوں سال پہلے خلق ہو کر اس زمین پر پہنچے یا پھر ہزاروں سال قبل ۔۔ اس بارے کوئی بھی شہادت قران پاک سے میسر نہیں ۔
ویسے سائنس طوفان نوح بارے کس سن کا تعین کرتی ہے ۔ اس سوال کا جواب تلاش کر لیا جائے تو شاید اس عقدے کو بھی حل کی منزل مل جائے ۔۔۔ ۔۔۔


محترم بہنا مجھے یہاں کچھ ٹائپو سا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔ ۔۔ ؟
کیا واقعی اللہ اور جناب آدم کے قد بارے یہ ذکر آپ نے کہیں پڑھا ۔۔۔ ۔۔؟
اگر ممکن ہو تو حوالہ دے دیں ۔۔۔ ۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں
سائنس طوفان نوح کو نہیں مانتی
 
قرآن میں یہ ذکر ہے کہ نوح ان میں 950 سال رہا۔ اس سے مراد ان کی نبوت کا زمانہ ہے۔ یعنی ان کی تعلیمات ہیں کہ ان کی تعلیمات ان کی قوم میں 950 سال تک رہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ قوم اتنے عرصے تک نوح کے تابع رہی اور پھر امتداد زمانہ سے تعلیمات بگڑ گئیں۔ کیونکہ جب تک کوئی قوم اپنی نبی کی تعلیمات کے تابع زندگی گزارتی ہے اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ اس نبی کے تابع ہے چاہے وہ نبی جسمانی طور پر وفات ہی پاچکا ہو۔ یہ محاورہ آج کی دنیا میں بھی نظر آتا ہے کہ کوئی لیڈر مرنے کے بعد بھی اپنی قوم میں ایسا زندہ رہے کہ قوم اسکے دیئے ہوئے اصولوں کو جان سے عزیز رکھے ہوئے ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں لیڈر تو ابھی تک اپنی قوم میں زندہ ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ، فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"
950 سال کے بعد طوفان آیا اور حضرت نوح اس کے بعد بھی زندہ رہے
 

قیصرانی

لائبریرین
عجیب دوغلی سائنس ہے سونامی دیکھ کر بھی طوفان نوح کو نہیں مانتی۔(خیر اس کے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے مستقبل میں یہی سائنس آج کی سائنس کو نہیں مانے گی۔
سائنس کی مجبوری یہ ہے کہ اس وقت اگر کرہ ارض پر موجود تمام برف پانی بن جائے، تمام آبی بخارات بھی بارش کی شکل میں برس جائیں، تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ اونچے اونچے پہاڑ تو کجا، زمین کا زیادہ تر حصہ بھی زیر آب آ سکے
اگر آپ چاہیں تو میں ایک عیسائی دوست کی طرف سے اٹھائے گئے طوفان نوح کے بارے سوالات پیش کر سکتا ہوں، اگر فتویٰ مجھ پر نہ لگے تو :)
 

نایاب

لائبریرین
سائنس طوفان نوح کو نہیں مانتی
میرے محترم بھائی
سائنس طوفان نوح کو نہیں مانتی ۔۔۔۔۔۔ میرے لیئے انتہائی معلوماتی ہے ۔
کیا سائنس اس کو جھٹلاتی ہے کہ ایسا کوئی طوفان نہیں آیا ۔
یا ایسا طوفان آنا سائنس کی نگاہ میں نا ممکنات میں ہے ۔۔
کچھ تفصیل سے آگاہ کریں تاکہ علم میں اضافہ ہو سکے ۔
اک التجا کسی انگلش سائٹ کا ربط نہ دے دیجئے گا ۔ گوگل چاچا کا ترجمہ بس کام چلاؤ ہی محسوس ہوتا ہے ۔
ابھی پچھلے دنوں ہی کہیں پڑھا تھا کہ نوح علیہ السلام کی کشتی آثار قدیمہ والوں نے دریافت کر لی ہے ۔
 

رانا

محفلین
ایک اقتباس شئیر کررہا ہوں:
قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو اور پھر اس سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ 30) میں زمین میں ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اگر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہنا چاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اور لوگ پہلے سے زمین میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے اور یہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولقد خلقنٰکم ثم صورنٰکم ۔۔۔ (الاعراف 11) یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے نسل انسانی! میں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ صورنٰکم میں نے تمہیں ترقی دی، تمہارے دماغی قوٰی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہوگئی تو میں نے ایک آدمی کھڑا کردیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے کیونکہ خلقنٰکم اور صورنٰکم پہلے ہوا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہوا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میں سے آدم کے متعلق ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے۔
(سیر روحانی از مرزا بشیرالدین محمود احمد۔ صفحہ 30-31)
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
جناب آدم کتنے سال قبل دنیا میں تشریف لائے؟


۔1۔ رسول اللہ (ص) اور جناب عیسی میں فاصلہ

ان انبیاء کے آنے کے وقت کے متعلق پچھلے 2 الہامی مذاہب ایک ہی ہیں جبکہ اسلام بھی انکی پیروی کرتا نظر آ رہا ہے۔

عیسوی کیلنڈر کے مطابق رسول اللہ (ص) 1400 سال قبل تشریف لائے جبکہ جناب عیسی 2000 سال قبل تشریف لائے۔ یعنی پہلے 2 الہامی مذاہب کے مطابق ان میں 600 سال کا فرق ہے۔

یہی چیز صحیح بخاری میں آئی ہے جسکے مطابق جناب سلمان فارسی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سوبرس کی مدت ہے ۔


۔2۔ موسی اورعیسی علیہما السلام کی درمیانی مدت کا وقفہ :۔


نصاری کے مطابق جناب عیسی اور جناب موسی کے مابین سترہ سو سال کا فرق ہے۔


محمد بن سعد نے اپنی کتاب " الطبقات " میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کیا ہے کہ موسی بن عمران اورعیسی بن مریم علیہما السلام کےدرمیان ایک ہزار سات سوسال کی مدت ہے لیکن ان کے درمیان کوئ وقفہ نہیں بلکہ ان دونوں کی درمیانی مدت میں بنی اسرائیل میں ایک ہزار نبی بھیجے گئے یہ ان کے علاوہ ہیں ہیں جودوسروں میں بھیجے گئے ، اورعیسی اورنبی علیہما السلام کی پیدائش کےدرمیان پانچ سوننانوے بر س کی مدت ہے ۔ تفسری قرطبی (6/121) ۔


۔3۔ آدم اورنوح علیہم السلام کے درمیان مدت :۔

یہود و نصاری کے مطابق جناب آدم اور جناب نوح میں 1 ہزار سال (950 سال) کا فرق ہے۔

ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں وہ نبی مکلم تھے ، وہ شخص کہنے لگا ان کے اورنوح علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ توانہوں نے فرمایا دس صدیاں ۔

اسے ابن حبان نے صحیح ابن حبان ( 14 / 69 ) اورامام حاکم نے مستدرک حاکم ( 2 / 262 ) میں روایت کیا ہے اورامام حاکم نے اسے صحیح اورمسلم کی شرط پرکہا ہے ، اور امام ذھبی نے بھی اس کی موافقت کی ہے


۔4۔ نوح اورابراھیم علیہما السلام کی درمیانی مدت :۔

اہل کتاب کے مطابق یہ فاصلہ 900 سال تھا۔

جبکہ ابوامامۃ ہی کی حدیث ہے جس میں ہے کہ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نوح اورابراھیم علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہزاربرس ۔

اسے امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے مستدرک ( 2 / 288 ) میں نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پرہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا ، اورامام طبرانی نے معجم الکبیر( 8 / 118 ) میں روایت کیا ہے ، اس حدیث کے بعض راویوں پرضعیف ہونے کے بارہ میں کلام کی گئ ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے شواھد کی بنا پراسے صحیح قرار دیا ہے ۔


۔5۔ جناب ابراہیم اور جناب موسی میں درمیانی مدت:۔

اہل کتاب کے مطابق یہ مدت 245 سال ہے۔ جناب ابراہیم کی 2 بیٹے اسمعیل اور اسحق تھے۔ جناب اسحق کے بڑے بیٹے لاوی تھے، اور لاوی کے بیٹے قاھث تھے، قاھث کے بیٹے عمران تھے اور عمران کے بیٹے جناب موسی تھے۔

ابن کثیر نے جناب موسی کے باپ کا نام عمران اور انکے داداکا نام لاوی بتایا ہے۔

ابن جریر طبری نے بھی اپنی کتاب میں (الطبري، تاريخ الطبري، ذكر نسب موسى بن عمران وأخباره) موسی علیہ السلام کے نسب کے حوالے سے روایت نقل کی ہے جس میں جناب موسی کا نسب جناب یعقوب تک یوں بیان کیا گیا ہے (لنک

قد ذكرنا أولاد يعقوب , إسرائيل الله , وعددهم وموالدهم ، فحَدَّثَنَا ابن حميد ، قَالَ : حَدَّثَنَا سلمة بن الفضل ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إسحاق ، قَالَ : " ثم إن لاوى بن يعقوب نكح نابتة ابنة ماري بن يشخر ، فولدت له : غرشون بن لاوى ومرزى بن لاوى ومردى بن لاوى وقاهث بن لاوى ، فنكح قاهث بن لاوى فاهى ابنة مسين بن بتويل بن إلياس ، فولدت له : يصهر بن قاهث ومردي ، فتزوج يصهر شميث ابنة بتاديد بن بركيا بن يقسان بن إبراهيم ، فولدت له : عمران بن يصهر ، وقارون بن يصهر , فنكح عمران يحيب ابنة شمويل بن بركيا بن يقسان بن إبراهيم ، فولدت له : هارون بن عمران ، وموسى بن عمران , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


چنانچہ ان سب کو جمع کر لیں تو جناب آدم کا زمانہ آج سے 6 ہزار سال کے لگ بھگ بنتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ

یہ سعودیہ کے مفتی حضرا ت کا آفیشل ویب سائیٹ ہے۔
http://islamqa.info/ur/20612

آدم علیہ السلام کی لمبائ سے تعجب ہے
سوال:۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 246 ) میں یہ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئ تو ان کی لمبائ تیس ( 30 ) میٹر تھی ۔
میری سمجھہ میں یہ نہیں آرہا یا میں اسے اپنے خیال میں نہیں لاسکتا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی شرح کردیں ۔

جواب:۔
الحمد للہ
اول :
یہ الفاظ ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ کی حدیث میں ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے فرمایا :

( آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیدا فرمیا توان کی لمبائ ساٹھ ھاتھ تھی پھر اللہ تعالی نے انہیں فرمایا کہ جاؤ ان فرشتوں کوسلام کرو توجو وہ جواب دیں اسے سنو کیونکہ وہی تیرااور تیری اولاد کا سلام ہوگا ، توآدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا توانہوں نے جواب میں رحمۃ اللہ کا اضافہ کرکے علیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) ۔

اورمسلم کے لفظ یہ ہیں (توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا اوراس کی لمبائ ساٹھ ھاتھ ہوگی ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے )۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) کے بارہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:

یعنی ہرنسل اوردورمیں قد پہلے دور سے کم ہوگا اور قدکی یہ کمی امت محمدیہ پر آکر ختم ہوچکی ہے اور یہ معاملہ یہاں پر آکر ٹھر چکا ہے ۔ ا ھ۔ ۔ فتح الباری ( 6 / 367 ) ۔

تومسلمان پر ضروری اوروجب ہے کہ وہ ہر اس خبر جس کی دلیل قرآن وسنت میں مل جائے اور حدیث بھی صحیح ہو تو اس پر ایمان لائے
 
Top