ام اریبہ

محفلین
ایک آدمی اپنی بیوی کو دفن کرکے گھر پہنچا تو اتنے میں بادل گرجنے لگے۔بجلی کڑکی اور طوفان آ گیا ۔آدمی بولا "لگدا اے پہنچ گئی اے "
 

ام اریبہ

محفلین
ایک مرد ہی مرد کی فطرت سمجھ سکتا ہے .
مثال کے طور پر ، گاہک : مجھے ایک لیڈیز سوٹ چاہئیں .
دوکاندار : بیگم کے لیے چاہئیں یا پِھر کوئی اچھا سا دکھاؤں ؟:grin:
 

ام اریبہ

محفلین
شریف بندہ
-----------

ایک شریف بندے کو کیا چاہیے
ایک بِیوِی جو پیار دے .
ایک بِیوِی جو اچھا كھانا بنائے .
ایک بِیوِی جو اس کی خدمت کرے .
ایک بِیوِی جو فضول خرچ نا ہو .
اور یہ چار بیویاں مل جل کر رہیں .
 

ام اریبہ

محفلین
کنجوس لڑکے کو کنجوس لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے .
لڑکی : جب ابو سو جائیں گے تو میں گلی میں سکہ پھینکوں گی آواز سن کر فوراً اندر آ جانا ، لیکن لڑکا سکہ پھینکنے کے ایک گھنٹے بعد آیا .
لڑکی : اتنی دیر کیوں لگا دی ؟
لڑکا : وہ میں سکہ ڈھونڈ رہا تھا .
لڑکی : پاگل وہ دھاگہ باندھ کر پھینکا تھا ، واپس کھینچ لیا_
 

ام اریبہ

محفلین
ایک فوجی نے اپنی شادی پہ اپنی یونٹ کا بینڈ بلایا۔
جب بینڈ دلہن کے گھر پہنچا تؤ یہ دھن بج رہی تھی ۔
اے مرد مجاہد جاگ ذرا وقت شہادت ہے آیا ۔۔۔:)
 
آخری تدوین:

ام اریبہ

محفلین
ایک نشئی کا باپ فوت ہوگیا، لوگ اسکی وفات پر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے، وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوگیا مگر بیٹا نہ جانے کہاں غائب تھا، محلے داروں نے کچھ لوگوں کو دوڑایا کہ جا کر اس خبیث نشئی کو تلاش کرکے لاؤ۔

تلاش کرتے کرتے آخر کار ایک نوجوان نے اسے قبرستان میں نشہ کرتے دیکھ لیا اور اسے کہنے لگا،
''شرم کرو یار ادھر تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے بیٹھے ہو؟
چلو جلدی سے گھر چلو اور اپنے باپ کی آخری رسومات ادا کرو۔

نشئی صاحب گرتے پڑتے گھر واپس آئے، ابا کو سپرد خاک کیا اور پھر غائب ہوگئے، ادھر مرگ والے گھر میں جیسے جیسے کسی کو پتہ چلتا وہ تعزیت کے لیئے آتا لیکن بیٹا غائب تھا اس لیئے تعزیت کس سے کی جاتی؟

چنانچہ محلے داروں نے ایک مرتبہ پھر اسکی تلاش شروع کی اور اسے پھر پکڑ لیا اور اسے شرم دلانے کی خاطر کہا،
'' تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے پڑے ہو؟،،،
چلو گھر جاؤ ہم تمہیں لینے آئے ہیں''

نشئی نے نشے سے مغلوب آنکھیں تھوڑی سی وا کیں اور بولا،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،ہیں ،،، ابا فیر مرگیا اے؟
 

شمشاد

لائبریرین
Husband-and-wife-Jokes-in-Punjabi-Husband-and-wife-ka-Anmole-Payar-Funny-Husband-and-Wife-Humor.jpg
 

ام اریبہ

محفلین
ایک کلرک چھٹی کی درخواست لئے جیسے ہی اپنے باس کے کمرے میں پہنچا‘ باس اس کی شکل دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ وہ چھٹی کی درخواست لایا لہٰذا غصے میں بولا۔ ”اب تم نے کیا بہانا بنایا ہے بیوی کو الوداع کہنے‘ بچی کو خسرہ نکلنے‘ بچے کو اسکول میں داخل کروانے اور ساس کے جنازے میں شرکت کرنے کے بہانوں سے تو تم پہلے ہی چھٹیاں لے چکے ہو؟“”سر! اب میں شادی کر رہا ہوں۔ کلرک نے سر جھکا کر جواب دیا۔
 

ام اریبہ

محفلین
پہلی کلاس میں ایک نئی بچی آئی تو سب بچوں نے اسے خالہ خالہ کہنا شروع کردیا۔ بچی نے میڈم سے شکایت کردی۔

میڈم نے کلاس میں تمام بچوں سے کہا : جس جس نے اس کو خالہ کہا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔

کلاس کے تمام بچے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے سوا ئے ایک چھوٹے بچے کے۔

میڈم : کیا تم سے اس بچی کو خالہ نہیں کہا تھا ؟
بچہ : نہیں۔
میڈم : کیوں۔
بچہ : کیونکہ میں کلاس کے تمام بچوں کا خالو ہوں۔
 

ام اریبہ

محفلین
اسکول کا اصلی ہوا مسٹر منگل سنگھ ہی تھے اردو پڑھانے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا اردو کا سبق وہ ٹھیٹ پنجابی میں دیا کرتے تھے اور اشعار کی تشریح کرنے میں ان کا اپنا ہی نرالا انداز تھا۔ایک بار غالب کا یہ شعرِ

سادگی و پرکاری ،بے خودی وہ ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

انہوں نے ہمیں یوں سکھایا۔

سادگی تے اس دے نال پرکاری بے خودی تے اس دے نال ہوشیاری حسن نوں تغافل دے وچ کیا پایا شاعر کہندا اے اس نے حسن نوں تغافل دے وچ جراب آزما پایا۔

لئو اپنی جئی گل سے غالب شعر بناندا بناندا مر گیا۔میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے تہاڈی کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نئیں پینا ہے اگے چلو۔

قدرت اللہ شہاب کی کتاب “شہاب نامہ“ سے اقتباس
 

ماہی احمد

لائبریرین
اسکول کا اصلی ہوا مسٹر منگل سنگھ ہی تھے اردو پڑھانے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا اردو کا سبق وہ ٹھیٹ پنجابی میں دیا کرتے تھے اور اشعار کی تشریح کرنے میں ان کا اپنا ہی نرالا انداز تھا۔ایک بار غالب کا یہ شعرِ

سادگی و پرکاری ،بے خودی وہ ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

انہوں نے ہمیں یوں سکھایا۔

سادگی تے اس دے نال پرکاری بے خودی تے اس دے نال ہوشیاری حسن نوں تغافل دے وچ کیا پایا شاعر کہندا اے اس نے حسن نوں تغافل دے وچ جراب آزما پایا۔

لئو اپنی جئی گل سے غالب شعر بناندا بناندا مر گیا۔میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے تہاڈی کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نئیں پینا ہے اگے چلو۔

قدرت اللہ شہاب کی کتاب “شہاب نامہ“ سے اقتباس
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
Top