سورج نے اونگھنا شروع کر دیا۔۔۔!!!

شمشاد

لائبریرین
ماہر فلکیات کی نئی تحقیق کے مطابق کائنات کی مجموعی وسعت ایک سو چھپن ارب نوری سال ہے۔
یہ اعداد و شمار اس خلائی جہاز کی مدد سے حاصل کئے گئے ہیں جو کائنات میں تابکاری کی بازگشت کا مطالعہ کر رہا ہے۔
ایک جدید سائنسی نظریے کے مطابق کائنات میں جاری تابکاری کی بازگشت اپنے تئیں وہ تفصیلات سمیٹے ہوئے ہے جو کائنات کے وجود میں آنے اور اس کی نوعمری سے متعلق ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کائنات تیرہ اعشاریہ سات عرب سال قبل وجود میں آئی تھی لیکن بِگ بینگ کے بعد خلا میں توسیع ہونے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فاصلے کی پیمائش کے عام نظریات کا اطلاق خلائی فاصلوں پر نہیں ہوتا۔
کائنات کی عمر دو انفرادی مطالعوں سے اخذ کی گئی ہے جن میں ستاروں کی عمر اور کائنات میں توسیع جیسے نظریات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
یہ طریق کار اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے ابتدائی دور سے جاری ہو کر ہم تک پہنچنے والی تابکاری دراصل تیرہ عرب برس سے زائد عرصے سے مسافت طے کر رہی ہے۔
ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ بِگ بینگ کے بعد کائنات میں مسلسل وسعت کا عمل جاری ہے۔(بی بی سی)

سات عرب سال نہیں بلکہ سات ارب سال
 
محدود اور لامحدود کو ایسے سمجھئے کہ ہمارے پاس کچھ شرائط کے تحت ایک نظام موجود ہے جو ان شرائط پر چل رہا ہے۔ اسی طرح ہماری معلومات کے مطابق بنیادی قوتیں اور فزکس کے بنیادی قوانین کائنات کی ابتداء کے بعد بنے۔ اب ان قوانین کی مدد سے ہم اس وقت تک تو جا سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ جب یہ قوانین پیدا ہوئے تو اس وقت یہ کائنات کیسی رہی ہوگی۔ لیکن جب وقت مطلق صفر ہوگا تو اس وقت موجودہ قوانین بے کار ہو کر رہ جائیں گے۔ یعنی ہماری عقل یا ہماری سائنس کی وہ حد ہے جس کی پیمائش ہو سکتی ہے، اس سے آگے، چاہے وہ ایک سیکنڈ کا انتہائی قلیل ترین عرصہ ہی کیوں نہ ہو، وہ ہمارے محدود علم سے باہر ہوگا، اسے آپ بے شک لامحدود کہہ لیجئے :)

اسے آپ بے شک لامحدود کہہ لیجئے

اور اگر اسے ہم محدود کہہ لیں تو کیا ہی برا ہے؟ :)
یوں بھی جس چیز کو ناپنا ہمارے اختیارات کی وجہ سے ممکن نہیں اسے لامحدود فرد واحد کے لیے تو کہنا ممکن ہوسکتا ہے لیکن کائناتی شعور کے تحت اسے لامحدود کہنا کیسے ممکن ہے؟
اس کے علاوہ یہ بھی تو اہم ہے کہ ابھی کائنات کا ایسا کوئی حصہ نہیں جہاں وقت مطلق "صفر" ہو۔ :rolleyes:
 
کائنات کو ذرا ایک طرف رکھیے۔
قدرتی اعداد کے سیٹ پر غور کریں۔ {.............,1,2,3,4} کتنے اعداد ہیں اس سیٹ میں ؟۔۔۔ لامحدود!
اس سیٹ میں سے لامحدود اعداد منہا کریں۔ یعنی تمام لامحدود طاق اعداد نکال دیجیے۔
{.........,2,4,6} = {.......,1,3,5} - {.......,1,2,3,4}
جواب کیا آیا؟ ۔۔۔ لامحدود جفت اعداد۔
یعنی لامحدود - لامحدود = لامحدود!

یہ حساب کائنات کی وسعت سے غیر متعلق ہے۔ کیونکہ یہ حساب لسٹنگ پر تو اپلائی ہوسکتا ہے لیکن کسی خاص نمبر پر نہیں۔
مثلاً میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ کائنات میں ایک سیارے پر 10 افراد رہتے ہیں۔ اس طرح
1۔ 10
2۔ 10
3۔ 10
4۔ 10
5۔ 10
6۔ 10
آپ اس کو بڑھا کر لا محدود کردیں۔ اور اس پر وہ جفت و طاق والا حساب اپلائی کرکے اسے تفریق بھی کردیں۔ لیکن جب تمام سیاروں کو ملایا جائے گا تو وہ ایک ہی نمبر بنے گا۔
اس کے باوجود اس کو محض قیاس تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی مثال حقیقی خارجی شعور کے تحت ممکن کہاں ہے؟
 
ممکن ہے!
بلکہ ایک کھرب سال تو کیا۔۔ کائنات کی ابتدائی سینگولیرٹی اپنے ابتدائی لمحہ ہی میں لامحدود پھیلی!
پھر یہ کہ کائنات کا پھیلاؤ اسراع میں ہے۔ یعنی پھیلاؤ کی رفتار ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ پھیلاؤ کہ رفتار لامحدود ہوجائے گی۔

اگر یہ ہائپوتھیسس سچ ہو تو ہمیں بگ بینگ تھیوری کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ اور ظاہر ہے کہ بگ بینگ تھیوری کو خیر باد کہنا نا ممکن نہیں تو اتنا آسان بھی بہر حال نہیں۔
کیونکہ کائنات کا پھیلاؤ جس اسراع کے تحت ہے اس کے پیچھے جو فورس اور انرجی ہے اس کا ادراک بھی ضروری ہے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آجائے گا کہ یہ اسراع ختم ہوجائے گا۔ اس صورت میں کائنات میں موجود تمام قوت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس صورت میں کائنات کا پھیلنا بھی رک جائے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر یہ ہائپوتھیسس سچ ہو تو ہمیں بگ بینگ تھیوری کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ اور ظاہر ہے کہ بگ بینگ تھیوری کو خیر باد کہنا نا ممکن نہیں تو اتنا آسان بھی بہر حال نہیں۔
کیونکہ کائنات کا پھیلاؤ جس اسراع کے تحت ہے اس کے پیچھے جو فورس اور انرجی ہے اس کا ادراک بھی ضروری ہے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آجائے گا کہ یہ اسراع ختم ہوجائے گا۔ اس صورت میں کائنات میں موجود تمام قوت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس صورت میں کائنات کا پھیلنا بھی رک جائے گا۔
بگ بینگ کی جگہ سڈن ایکسپینشن یا سڈن انفلیشن سمجھ لیجئے :)
کائنات کے پھیلاؤ کے پیچھے جو فورس اور انرجی ہے، اس کا نوے فیصد سے بھی زیادہ حصہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی سے آتا ہے جو ہمیں نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ہم اس کی پیمائش کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا کائنات پھیل رہی ہے، سکڑ رہی ہے کہ اپنی مرضی کر رہی ہے
واضح رہے کہ اگر کائنات سکڑنا شروع ہوگی تو سب سے پہلے ہمیں چار سال کے بعد قنطورس اول (زمین سے سورج کے بعد دوسرا نزدیک ترین سیارہ جو 4 نوری سال سے کچھ زیادہ دور ہے) کے رکنے اور پھر لوٹنے کا ادراک ہوگا۔ لیکن وہ کہکشائیں جو ہم سے ایک لاکھ، ایک کروڑ یا ایک ارب نوری سال کے فاصلے پر ہیں، وہ ہمیں قنطورس اول کی واپسی کے باوجود بالترتیب ایک لاکھ، ایک کروڑ یا ایک ارب نوری سال تک ہم سے دور جاتی دکھائی دیں گی، پھر جا کر ہمیں ان کی واپسی کا ادراک ہوگا :)
 
ماہر فلکیات کی نئی تحقیق کے مطابق کائنات کی مجموعی وسعت ایک سو چھپن ارب نوری سال ہے۔
یہ اعداد و شمار اس خلائی جہاز کی مدد سے حاصل کئے گئے ہیں جو کائنات میں تابکاری کی بازگشت کا مطالعہ کر رہا ہے۔
ایک جدید سائنسی نظریے کے مطابق کائنات میں جاری تابکاری کی بازگشت اپنے تئیں وہ تفصیلات سمیٹے ہوئے ہے جو کائنات کے وجود میں آنے اور اس کی نوعمری سے متعلق ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کائنات تیرہ اعشاریہ سات عرب سال قبل وجود میں آئی تھی لیکن بِگ بینگ کے بعد خلا میں توسیع ہونے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فاصلے کی پیمائش کے عام نظریات کا اطلاق خلائی فاصلوں پر نہیں ہوتا۔
کائنات کی عمر دو انفرادی مطالعوں سے اخذ کی گئی ہے جن میں ستاروں کی عمر اور کائنات میں توسیع جیسے نظریات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
یہ طریق کار اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے ابتدائی دور سے جاری ہو کر ہم تک پہنچنے والی تابکاری دراصل تیرہ عرب برس سے زائد عرصے سے مسافت طے کر رہی ہے۔
ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ
(بی بی سی)​

بِگ بینگ کے بعد کائنات میں مسلسل وسعت کا عمل جاری ہے۔

یہی سب سے بڑی سائنسی حقیقت ہے جو کائنات کی عمر اور اسکی وسعت دونوں کو محدود کرتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
روشنی کی رفتار سے فاصلے کتنے بڑے ہوتے ہیں، یہ دیکھئے
ایک سیکنڈ میں روشنی کا طے کردہ فاصلہ: 3 لاکھ کلومیٹر تقریباً (اصل میں یہ دو لاکھ نناوے ہزار سات سو بیانوے کلومیٹر ہے)
ایک گھنٹے میں روشنی کا طے کردہ فاصلہ: 1080000000 ملین کلومیٹر یعنی ایک ارب آٹھ کروڑ کلومیٹر
اس لئے ہم آسانی کی خاطر سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کو ایک آسٹرانومیکل یونٹ یعنی اے یو یعنی فلکیاتی اکائی کہتے ہیں۔ اس فاصلے کو طے کرنے میں روشنی کو تقریباً 8 آٹھ منٹ اور 17 سیکنڈ لگتے ہیں۔ ایک دن میں 173 اے یو جتنا فاصلہ روشنی طے کرتی ہے
بر سبیل تذکرہ۔
فلکیاتی اجسام کا مدار کیوں کہ گول نہیں ہوتا بلکہ بیضوی ہوتا ہے چنانچہ آٹھ منت اور سترہ سیکنڈز در اصل ایک پورے سال کی ایک اوسط مقدار ہے۔ زمین اور سورج کا فاصلہ کیون کہ ہمہ وقت بدلتا بھی رہتا ہے چطانچہ اس سے روشنی کم از کم آٹھ منٹ اور چھے سیکنڈ اور زیادہ سے زیادہ آٹھ منٹ ستائیس سیکنڈ لیتی ہے۔۔ زمین کے اس بیضوی مدار میں سب سے کم فاصلہ ایک سو چھیالیس ملین کیلومیٹر اور سب سے زیادہ فاصلہ ایک سو باون کیلو میٹر ہے۔
نیز زمین جس قدر سورج کے قریب ہوتی ہے اسی قدر اسکی رفتار تیز ہوتی ہے اور جتنی سورج سے دور ہوتی جاتی ہے اتنی ہی رفتار سست ہوتی رہتی ہے۔یہ تفصیل دریافت کرنے والا سائنسدان کیپلر تھا۔اور یہ تمام اجرام فلکی کے بارے میں ہے جو بیضوی مدار میں متحرک ہیں۔
 
جی، کائنات کے بارے ایک بات تو یہ اہم ہے کہ کائنات کے آس پاس یا اردگرد اور کچھ بھی نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک لکیر میں سفر کرتے کرتے دنیا کے اس پار چلے جائیں جہاں بندہ نہ بندے کی ذات ہو (شاعرانہ ٹچ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ آپ اس سے لطف اندوز ہو سکیں) تو ایسا کوئی مقام ممکن نہیں کہ جہاں کائنات کی حد ختم ہو اور ہم جیسے غلاف سے سر باہر نکال کر دیکھیں، آہا، تو یہ تھا ہمارے کائنات کا اختتام۔ یعنی کائنات جتنی تھی، ہے اور ہوگی، اپنے پھیلنے اور سکڑنے (اگر سکڑے تو) کے ساتھ ساتھ مکاں کو بالترتیب پیدا اور ختم کرتی جائے گی۔ اس جگہ پھر کئی متبادل خیالات ہیں کہ آیا یہ کائنات ہمیشہ اسی طرح پھیلتی رہے گی، ایک حد تک پھیل کر پھر سکڑنا شروع ہوگی یا پھر ہمیشہ اسی طرح رہے گی جیسے ابھی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ سائنس دان یہ بھی سوچتے ہیں کہ دراصل ہماری کائنات ایک بڑے کائناتی جسم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور اس بڑے کائناتی حجم میں ہماری کائنات جیسی بے شمار کائناتیں پیدا اور ختم ہو رہی ہیں
یہ وہ نقطہ ہے جہاں سائنس اور مذہب انتہائی مختلف انداز سے ہم خیال ہوتے ہیں :)

متفق۔
مسئلہ سارا صرف اتنا سا ہے کہ کائنات کی پیمائش کی ضروری اجزاء ہمارے بس سے باہر ہیں۔ آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ کائنات کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں کنارہ ہو اور ہم اس تک پہنچ کر غلاف سے باہر منہ نکال کر اپنی کامیابی کی چیخ ماریں۔ البتہ یہی توجیہ اگر زمین کے لیے قائم کریں تو زمین بھی لامحدود ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ سائنس دان یہ بھی سوچتے ہیں کہ دراصل ہماری کائنات ایک بڑے کائناتی جسم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور اس بڑے کائناتی حجم میں ہماری کائنات جیسی بے شمار کائناتیں پیدا اور ختم ہو رہی ہیں
باات وہیں ہے کہ اس بارے میں ہمارے پاس صرف قیاس ہے۔ دلیل کوئی نہیں۔ اور سارے فساد کی جڑ یہ ہے کہ ہم اس رفتار سے سفر نہیں کرسکتے جس سے کائنات پھیل رہی ہے۔
مثلاً جس طرح سے آج کا بلیک ہول اگر کل وورم ہول بھی ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ ہمیں کئی سوالوں کے جواب مل جائیں۔
اب ہمارے پاس جو قیاس ہے وہ دونوں طرف جاتا ہے کہ کائنات محدود ہے یا لامحدود۔؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسبوق الذکر میں ہمارے پاس ثبوت زیادہ ہیں۔ یعنی کائنات محدود ہی ہے۔ اگر اسے بڑی کائنات کا چھوٹا حصہ تصور کریں تب بھی۔ اور دوسری صورت میں بھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
۔
{أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ}۔۔۔۔۔ [الأعراف 54].۔۔۔۔
خبردار ۔۔۔اسی کے ہاتھ میں پیدا کر نا ہے اور اسی کے ہاتھ میں چلانا ہے۔
 
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
۔
{أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ}۔۔۔ ۔۔ [الأعراف 54].۔۔۔ ۔
خبردار ۔۔۔ اسی کے ہاتھ میں پیدا کر نا ہے اور اسی کے ہاتھ میں چلانا ہے۔

کائنات کی اور اس میں موجود تمام اشیاء کی سب سے بڑی حقیقت خدا کی ذات ہے۔
خدا ہر استدال کی بنیاد ہے۔
 
ہماری عقل لامحدود کا تصور نہیں کرسکتی۔۔۔اسلئیے یہ کہنا کہ کائنات محدود ہے، یہ لازمی نہیں کہ درست ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ جواب عقل کے عاجز رہ جانے سے فرض کرلیا گیا ہو۔۔۔۔جو لوگ عقل کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات محدود ہے، وہ براہِ کرم یہ بتائیں کہ اچھا اگر محدود ہے تو جہاں اسکی سرحدیں ختم ہوتی ہیں اس سے آگے کیا ہے؟
 
یہ بات بھی عقل سے ماوراء ہے۔۔۔ ۔
میری عقل تو بچپن سے صرف ایک یہی بات جانتی ہے کہ اللہ ہے اور یہ بھی کہ وہ لامحدود ہے۔ اور میرا دین دنیا کا واحد دین ہے کہ جس میں خدا ہے لیکن خدا کا تصور نہیں ہے اور وہ لا محدود ہے اسی لئے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
 
میری عقل تو بچپن سے صرف ایک یہی بات جانتی ہے کہ اللہ ہے اور یہ بھی کہ وہ لامحدود ہے۔ اور میرا دین دنیا کا واحد دین ہے کہ جس میں خدا ہے لیکن خدا کا تصور نہیں ہے اور وہ لا محدود ہے اسی لئے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
آپ جو بات بچپن سے جانتے ہیں ، وہ بات ایمانیات نے بتائی ہے۔۔۔۔۔عقل اس معاملے میں خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔
 
Top