میلادالنبی ﷺ علماے عرب
تحریر: مولانا صدیق ہزاروی
تلخیص و ترتیب:ڈاکٹرمحمد حسین مشاہدرضوی
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ حصولِ نعمت پر اظہارِ مسرت کرتا اور زوالِ نعمت پر غم گین ہوجاتا ہے چوں کہ یہ دونوں باتیں فطری اور انسانی جبلت و طبیعت کا لازمی جز ہیں ، اس لیے ان کے حصول کے لیے کسی ترغیب کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ان سے باز رکھنے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ خداوندی ہے: ’’ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انھیں گن نہیں سکتے ۔‘‘
لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بل کہ تمام نعمتوں کی اصل سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہے۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت سے پورے کرۂ ارض پر ایک انقلاب بپا ہوا۔
گمراہی ہدایت سے بدلی ، کفر کی جگہ اسلام آیا، فحاشی و عیاشی کی جگہ اَخلاقِ حسنہ کا دور دورہ ہوا،یتیموں کو والی اور بے سہارا کو سہارا مِلا، عورتوں کی عزت و ناموس کو تحفظ حاصل ہوا، ظلم و تشدد کی جگہ عدل و انصاف کا عَلم بلند ہوا۔ غرض یہ کہ قرآنِ پاک کی زبان میں جہنم کے کنارے پر پہنچی ہوئی انسانیت جنت کی طرف رواں دواں ہوئی اور جہنم میں گرنے سے بچ گئی۔
ایسی عظیم المرتبت شخصیت جن کی آمد سے کائنات میں بہارِ جاوداں آئی ۔ اُن کی ولادتِ باسعادت پرکسے خوشی نہ ہوگی انسان تو درکنار ، بے زبان چوپاے بھی باعثِ تخلیقِ کائنات کی آمد پر شاداں و فرحاںہیں۔ کیوں کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادرِ رحمت کے سایے میں نہ صرف انسانوں کو جگہ دی بل کہ حیوانات اور پرندوں تک کو جگہ دی۔
لہٰذا عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اور اس پُر مسرت موقع کو عید قرار دینا یقینا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور تمام سلیم الفطرت انسان عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عیدوں سے بڑھ کر عید قرار دیتے ہیں اور اِسے منانے کے لیے پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ سے جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔
چناں چہ امام احمد بن قسطلانی شارح بخاری بہ زبانِ امام جزری روایت کرتے ہیں:
’’ اہل اسلام حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے مہینے میں ہمیشہ سے میلاد کی محفلیں منعقد کرتے چلے آرہے ہیں ۔ خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے اور دعوتیں کرتے۔ اِن راتوں میں قسم قسم کے صدقے اور خیرات کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں ، نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور آپ کا میلاد پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے رہے ہیں۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ کے فضلِ عمیم اور برکتوں کا ظہور ہوتا ہے اور میلاد شریف کے خواص میں سے آزمایا گیا ہے کہ جس سال میلاد شریف پڑھا جاتا ہے وہ سال مسلمانوں کے لیے حفظ و امان کا سال ہوتا ہے اور میلاد شریف منانے سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر بہت رحمتیں فرمائے جس نے ولادت کی مبارک راتوں کو خوشی و مسرت کی عیدیں بنالیا(آمین)۔‘‘
تفسیر روح البیان میں آیت کریمہ : محمد رسول اللّٰہ کے تحت لکھتے ہیں کہ :
’’ ابن حجر الہیتمی فرماتے ہیں کہ بدعتِ حسنہ کے مستحب ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور میلاد شریف منانا اور اس میں لوگوں کا جمع ہونابھی اسی طرح بدعتِ حسنہ ہے۔‘‘
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : ’’ہر طرف اور ہر شہر کے مسلمان مولود شریف کرتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کامیلاد پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس محفل کی برکتوں سے ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوتا ہے ۔ امام جوزی کہتے ہیں کہ:’’ میلاد کی تاثیر یہ ہے کہ سال بھر اس کی رحمت و برکت سے امن رہتا ہے اور حصولِ مراد کی خوش خبری حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
لیکن دنیا بھر کے مسلمان جہاں ربیع الاول شریف میں عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جشن مناتے اور اپنے ہادی و آقا کے حضور نذرانہ ہاے عقیدت کے دل کش پھول پیش کرتے ہیں وہیں کچھ لوگ اس تقریبِ سعید کو اچھا نہیں سمجھتے۔
عیدمیلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے منکرین اس بابرکت اور نورانی تقریب پر دو قسم کے اعتراض کرتے ہیں۔ اُن کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا بدعت ہے لہٰذا اس سے اجتناب کیاجائے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ منکرین نہ تو بدعت کی تعریف جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اگر یہ بدعت ہے توآیا یہ بدعتِ حسنہ کے زمرے میں آتی ہے یا بدعتِ سیِّئہ کے؟
لغوی معنی کے اعتبار سے ہر نئی بات کو بدعت کہا جاتا ہے ۔ لیکن اصطلاحی طور پر ہر و ہ عمل جس کی اصل دین میں نہ ہو اور وہ کسی سنت کے خاتمے کا باعث ہو بدعت ہے اور اس سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمرِنَا ھٰذا مَالَیسَ مِنہُ فَہُوَ رَدُّ‘ (جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا نیا کام جاری کیا جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں وہ امر مردود ہے۔)
تو کیا سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یاد میں کسی تقریب کا انعقاد کرنا ، اس میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا ،نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پڑھنا اور فضائل نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بیان کرنا دین کے خلاف ہے ؟ اور کیا دین میں اس کی کوئی اصل نہیں؟
درحقیقت سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں محافل کا انعقاد دینِ اسلام کی سربلندی ، شوکتِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ کے فروغ و استحکام کا ایک بہت بہترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان کو طاقت اور جِلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بدعت کے بارے میں مخالفین کے ’حکیم الامت‘ مولوی اشرفعلی تھانوی کا یہ فتوا یقینا قارئین کی دل چسپی کا باعث ہوگاوہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’ قاعدۂ کلیہ اس بات میں یہ ہے کہ کوئی امر کلیاً یا جزئیاً دین میں نہ ہو اس کو کسی شبہ سے جزوِ دین عِلماًو عملاً بنالینا جو بوجہِ مزاحمتِ احکامِ شریعہ کے بدعت ہے۔ دلیل اس کی خود حدیثِ صحیح ہے ، مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمرِنَا ھٰذا مَالَیسَ مِنہُ فَہُوَ رَدُّ‘ ۔
کلمہ ’ فی ‘ اور ’مِن‘ اس مدعا پر صاف صاف دلالت کررہے ہیںاور حقیقی بدعت ہمیشہ سیِّئہ ہی ہوگی اور بدعتِ حسنہ صوری بدعت ہے ۔ حقیقتاً بوجہ کسی کلیہ میں داخل ہونے کے سنت ہے۔ ‘‘
یہی مولوی اشرفعلی تھانوی صاحب محفلِ میلاد شریف کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں یوں لکھتے ہیں :’’ ذکرِ ولادتِ شریف نبی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے، اگر بدعات اور قبائح سے خالی ہو ، اس سے بہتر کیا ہے؟ ‘‘
میلاد شریف کے بارے میں جو کچھ مولوی اشرفعلی تھانوی صاحب نے لکھا ہے وہی اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ پاکیز ہ اور مقدس محفل ہر قسم کی برائی اور بدعت سے خالی ہونی چاہیے۔ یہاں بدعت سے کیامراد ہے؟ اس کے بارے میں بھی موصوف کا وہ قول پیشِ نظر رہے جو چند سطور پہلے مذکور ہوا کہ بدعت سے مراد بدعتِ سیِّئہ ہی ہے۔
منکرین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ چوں کہ اہل عرب محافلِ میلاد کا انعقاد نہیں کرتے لہٰذا ہمیں بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اس اعتراض کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہم شریعت کے پابند ہیں اہل عرب کے نہیں۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اہل عرب کے یہاں محافل میلاد کا انعقاد نہایت اَعلا درجے کے اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں علماے عرب کے اقوال کی روشنی میں اِس بابرکت تقریب کے انعقاد کے سلسلے میں اہل عرب کے جذبۂ ایمان سے آگاہی کے لیے درج ذیل سطور کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔
شیخ محمد رضا سابق وزیر مکتبہ جامعہ فواد قاہرہ (مصر) لکھتے ہیں:
’’ امام ابوشامہ شیخ نووی فرماتے ہیں ، ہمارے دور کی نئی مگر بہترین اختراع آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کا جشن منانا ہے۔ جس میں اس مبارک خوشی کی مناسبت سے صدقہ و خیرات ، محفلوں کی زیبایش اور آرایش اور اظہارِ مسرت کیا جاتا ہے۔ یہ مبارک تقریبات فقرا سے حسنِ سلوک کے علاوہ امتیوں کی سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت اور اہل محفل کے دل میں آپ (ﷺ) کی عظمت و فضیلت کی پختگی اور آپ کو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجنے والے کے قلبی شکر و امتنان کا احساس دلاتی ہیں۔ ‘‘
امام سخاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’ میلاد شریف (مروجہ) کا رواج رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے تین صدی بعد ہوا کہ اس کے بعد سے تمام ممالک و امصار میں مسلمانانِ عالم عید میلادالنبی مناتے چلے آرہے ہیں۔ سلاطینِ اسلام میں اس طریقہ کو رائج کرنے والے سب سے پہلے بادشاہ اربل سلطان مظفر ابو سعید تھے جن کی فرمایش پر حافظ ابن رحیہ نے اس موضوع پر ایک کتاب ’’ التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ لکھی تھی۔ ‘‘
ڈاکٹر علی الجندی دورِ رسالت ، خلفاے راشدین کے زمانے اور بنو امیہ کے دور میں عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اس اہتمام کے ساتھ نہ منانے کی وجوہات بھی بتاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔
’’ چوں کہ یہ تقریب خود سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ والا صفات سے متعلق ہے اور آپ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) دیگر سلاطین کی طرح اپنی تشہیر نہیں چاہتے تھے بل کہ تواضع اختیار فرماتے اس لیے آپ نے اس انداز میں عید میلاد کو رواج نہیں دیا۔
خلفاے راشدین میں سے پہلے دو خلفا کادور جہاد اور اسلامی حکومت کے قیام کا دور تھا۔ جب کہ تیسرے اور چوتھے خلیفہ کادورِ حکومت فتنہ و فساد کا زمانہ تھا اس لیے اُن کی کامل توجہ ان امور کی طرف رہی، اور جشنِ میلاد کی طرف زیادہ توجہ نہ ہوسکی۔
بنو امیہ کے دور میں فتوحات کا سلسلہ وسیع تھا نیز اِس دور میں بغاوتوںکے قلع قمع کرنے کی طرف توجہ زیادہ تھی لہٰذا اس طرف کما حقہ توجہ نہ دی جاسکی۔‘‘
ڈاکٹر علی الجندی مختلف سلاطین کے دورمیں ہونے والی اِ ن مبارک تقریباتِ میلاد کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ :’’ یہ تقریب سرکاری سطح پر نہایت دھوم دھام اور جوش و ولولے کے ساتھ منائی جاتی تھی۔ ‘‘
اس مختصر مقالے میں اُن تمام تفصیل کا ذکر کرنا تو ممکن نہیں البتہ اجمالاً اُن ادوار کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ سلاطینِ مصر اور دیگر حکمراں اپنے اپنے دور میں حکومتی سطح پر یہ تقریب مناتے تھے۔
ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ :’’ امام سیوطی کے بہ قول سب سے پہلے جشن میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم شاہِ اربل ابو سعید بن زین الدین علی بن بکتکین نے منایالیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تقریبِ سعید کا آغاز فاطمی دور سے ہوچکا تھا۔
فاطمی حکومت کے بعد ایوبیہ دورِ حکومت آیا تو سرکاری سطح پر تمام تقریبات کا اہتمام ختم کردیا گیالہٰذا یہ تقریب چھوڑ دی گئی لیکن مصری عوام نے اسے اپنے طور پر جاری رکھا۔ کیوں کہ یہ بات ناممکن ہے کہ مصری دین دار حضرات اپنے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں محافل میلاد کا انعقاد نہ کرتے۔ ایوبیہ حکومت کی عدم توجہ کے باوجودموصل کے حکمرانوں میںسے ایک اربل کے حکمراں مظفر الدین نے میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جشن کا اہتمام کیااور نہایت اچھے طریقے سے اسے منایا۔
مغربِ بعید میں سلطان شیخ ابوالعباس احمد المضور الغرفی جو صاحبِ سبتہ کہلاتے تھے جنھوں نے دسویں صدی ہجری کے آخر میں زمامِ حکومت سنبھالی ۔ انھوں نے اس بہترین عمل کو رواج دیااور حکومت کی سرپرستی میں جوش و کروش سے جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا۔
آل زیان کے حکمراں نہایت عمدہ طریقے پر اس محفل کا اہتمام کرتے تھے۔ بالخصوص ان میں سے ایک حکمراں ابو حمو موسیٰ بن یوسف زیانی نے تو اس سلسلے میں تمام حکمرانوں سے سبقت حاصل کرلی ۔ یہ بادشاہ ۱۲؍ ربیع الاول کی رات کو ایک عظیم الشان عمومی اجتماع منعقد کرتا تھا۔ دعوتِ عام ہوتی اور اس میں امیر و غریب، غنی و فقیر، شاہ و گدا سب جمع ہوتے تھے۔ ۸۷۲ھ میں سلطان الاشرف قانتابی نے جب مصری حکومت کی زمامِ اقتدار سنبھالی تو اس نے یہ میدان جیت لیا کیوں کہ اس دور میں میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جشن پچھلے دور کے تمام حکمرانوں کے انتظامات سے فوقیت اور برتری حاصل کرگیا۔ ‘‘
الظاہر برقو ق کے دورِ حکومت(۷۸۴ھ) میں بھی اس تقریبِ سعید کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور سلطان نے اس اہتمام کو حدِ کمال تک پہنچایا۔ سلطان چقمق (۸۴۲ھ) کے دور میں بھی جشنِ میلاد کا اہتمام بڑی خوش اسلوبی اور دل جمعی سے ہوتاتھا۔ علی پاشامبارک کہتے ہیں :
’’سلطان الظاہر ابوسعید کے دور میں مجلس میلاد کا اہتمام، برقوق کے دور سے بڑھ گیا تھابالخصوص صدقات و خیرات میں اضافہ ہوا۔ ‘‘
۹۰۷ھ میں ملِک اشرف ابونصر قالضوہ نے بھی اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی۔ یہ تھی وہ اجمالی رپورٹ جو مختلف سلاطینِ مصر اور دیگر حکمرانوں کے ادوار میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادتِ کی خوشی میں منائی جانے والی محفلِ میلاد سے متعلق تھی۔
آئیے ! ایک ہلکا سا جائزہ اس طریقِ کار کا بھی لیتے ہیں جو سلطان تلمسان کے دور میں اپنایا گیا۔ جس سے باقی تمام حکمرانوں کے بارے میں بھی اندازہ ہوجائے گاکہ وہ اس عظیم المرتبت اور مقدس و متبرک جشن کو کس عقیدت و عظمت اور محبت و الفت سے مناتے تھے۔
محمد رضا مصری لکھتے ہیں :’’سلطان تلمسان کے کارندے معززین کے مشوروں سے شبِ میلادالنبی میں ایک عام دعوت کا اہتمام کرتے تھے۔ جس میں بِلا استثنا ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ اس محفل میں اَعلا قسم کے قالینوں کے فرش اور منقش پھول دار چادریں بچھائی جاتیں۔ سنہرے کار چوبی غلافوں والے گاو تکیے لگائے جاتے ۔ ستونوں کے برابر بڑے شمع دان روشن کیے جاتے۔ بڑے بڑے دستر خوان بچھائے جاتے۔ بڑے بڑے گول اور خوش نما نصب شدہ بخور دانوں میں بخور سلگایا جاتا تھا جو دیکھنے والوں کو پگھلا ہوا سونا معلوم ہوتا تھا۔ پھر تمام حاضرین کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ موسمِ بہار میں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ایسے کھانے جن کی طرف دل کو رغبت ہو اور جنھیں دیکھ کر آنکھیں لذّت اندوز ہوں ان محفلوں میں اَعلا قسم کی خوشبوئیں بسا ئی جاتی تھیں جن کی مہک سے فضا معطر ہوجاتی تھی۔ مہمانوں کو حسبِ مراتب ترتیب وار بٹھایا جاتا تھا۔ یہ ترتیب جشن کی مناسبت سے دی جاتی تھیں، حاضرین پر عظمتِ نبوت کا جلال و وقار چھایا رہتا تھا۔ انعقادِ محفل کے بعد سامعین سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب و فضائل اور ایسے پاکیزہ خیالات ونصائح سنتے تھے کہ وہ گناہوں سے توبہ کرنے کی طرف راغب ہوجاتے۔ خطبا اسلوبِ بیان کے مدو جزر اور خطابت کے تنوع سے سامعین کے قلوب کو گرماتے اور سامعین کو لذّت اندوز کرتے تھے۔‘‘
کتاب ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے مؤلف شیخ محمد رضا مصری مزید فرماتے ہیں:
’’ہمارے زمانہ میں بھی مسلمانانِ عالم اپنے اپنے شہروں میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ مصر کے علاقوں میں یہ محفلیں مسلسل منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں برابر میلادِ نبوی سے متعلق بیانات ہوتے ہیں۔ فقرا و مساکین کو خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ خاص قاہرہ میں اس روز ظہر کے بعد ایک پیادہ جلوس کمشنر آفس کے سامنے سے گذرتا ہوا عباسیہ میدان کی طرف روانہ ہوتا ہے ان راستوں میں ہجوم بڑھتا جاتا ہے ۔ جلوس کے آگے پولیس کے سوار دستے اور دونوں طرف فوج کے کچھ افسر ہوتے ہیں۔ مصر میں یہ مبارک دن حکومت کی طرف سے منایاجاتاہے۔ چناں چہ عباسیہ میںوزرا اور حکام کے لیے شامیانے نصب کیے جاتے ہیں اور خود شاہِ وقت یا ان کے نائب جلسہ گاہ میں حاضر ہوتے ہیں ۔ شاہ کے پہنچنے پر فوج سلامی دیتی ہے۔ پھر وہ شامیانے میں داخل ہوتے ہیں اس کے بعد صوفیہ اور مشائخِ طریقت اپنے اپنے جھنڈے لیے وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ جن کا خود بادشاہ استقبال کرتے ہیں۔ اس کے بعدبادشاہ خود شیخ المشائخ کے شامیانے میں حاضر ہوکر ذکر میلادالنبی سماعت فرماتے ہیں۔ ختم محفل پر شاہ میلاد بیان کرنے والوں کو شاہانہ خلعت عطا کرتے ہیں ۔ پھر حاضرین میں شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ شربت پِلایا جاتاہے ۔ اس کے بعد توپوں کی گونج میں شاہانہ سواری واپس ہوتی ہے۔اس دن تمام دفاتر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔‘‘
اخوان المسلمین کے بانی حسن البنّاء نے اپنی ڈائری میں جشنِ میلادالنبی اور جلوسِ میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ایک ایسا واقعہ قلم بند کیا ہے جو دل کو گرمانے اور روح کو تڑپانے میں بڑا مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ مجھے یاد ہے کہ جب ربیع الاول کا مہینا آتا تو یکم ربیع الاول سے لے کر ۱۲؍ ربیع الاول تک معمولاً ہر رات ہم حصافی اخوان میں سے کسی ایک کے مکان پر محفلِ ذکر منعقد کرتے اور میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس بناکر باہر نکلتے ، اتفاق سے ایک رات برادرم شیخ شبلی الرجال کے مکان پر جمع ہونے کی باری آگئی۔ ہم عادتاً عشآ بعد ان کے مکان پر حاضر ہوئے دیکھا کہ پورا مکان خوب روشنیوں سے جگمگا رہا ہے، اسے خوب صاف و شفاف اور آراستہ و پیراستہ کیا جاچکا ہے۔ شیخ شبلی الرجال نے رواج کے مطابق تمام حاضرین کو شربت اور قہوہ اور خوشبو پیش کی۔ اس کے بعد ہم جلوس بن کر نکلے اور بڑی مسرت و انبساط کے ساتھ مروجہ مناقب اور نظمیں گاتے رہے۔ جلوس ختم کرنے کے بعد ہم شیخ شبلی الرجال کے مکان پر واپس آگئے اور چند لمحات ان کے پاس بیٹھے رہے۔ جب اٹھنے لگے تو شیخ شبلی نے بڑے لطافت آمیز اور ہلکے پھلکے تبسم کے ساتھ اچانک یہ اعلان کیا کہ : ’ ان شآء اللہ کل آپ حضرات میرے ہاں علی الصبح تشریف لے آئیں تاکہ روحیہ کی تدفین کرلی جائے۔‘
روحیہ شیخ شبلی کی اکلوتی بچّی ہے، شادی کے تقریباً ۱۱؍ سال بعد اللہ نے شیخ کو عطا کی ہے۔ اس بچّی کے ساتھ انھیں اس قدر شدید محبت و وابستگی ہے کہ دورانِ کام بھی اُسے جدانہیں کرتے یہ بچّی نشوونما پاکر اب جوانی کی حدود میں داخل ہوچکی ہے شیخ نے اس کا نام روحیہ تجویز کررکھا ہے۔ کیوں کہ شیخ کے دل میں اسے وہی مقام حاصل ہے جو جسم میں روح کو حاصل ہے۔ شیخ کی اِس اطلاع پر ہم بھونچکے رہ گئے۔ عرض کیا: ’ روحیہ کا انتقال کب ہوا؟‘ - فرمانے لگے: ’ آج ہی مغرب سے تھوڑی دیر پہلے۔‘ - ہم نے کہا:’ آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہ اطلاع دی ؟ کم از کم میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس کسی اور دوست کے گھر سے نکالتے؟‘ - کہنے لگے:’ جو کچھ ہوا بہتر ہوا اس سے ہمارے حزن و غم میں تخفیف ہوگئی اور سوگ مسرت میں تبدیل ہوگیا۔ کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی کوئی اور نعمت درکار ہے؟ ‘ ‘
حسن البنّاء کی ڈائری کا یہ ورق عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جشن اور جلوس کے بارے میں اُن کے زمانے کا اشاریہ ہے۔ اُن کے دور میں ۱؍ ربیع الاول سے ۱۲؍ ربیع الاول تک ہر دن جلوس نکلتا تھا اور ذکرِ ولادت کی بابرکت محفلیں تزک و احتشام سے آراستہ ہوتی تھیں، درج بالا واقعہ تو ایک ایسے مثالی کردار کو پیش کرتا ہے جس کی نظیر مشکل ہی سے ملے گی۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تئیں حضرت شیخ شبلی الرجال جیسا مخلصانہ رویہ اور ایثار و قربانی کا حسیٖن جذبہ اب کہاں ؟ اب تو اس بابرکت جشن کا ہی انکار کیا جارہا ہے، افسوس !!
شیخ الدلائل عبدالحق محدث الٰہ آبادی مہاجر مکی نے ’’الدارالمنظم فی حکم عمل مولد النبی الاعظم‘‘ میں جومیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایک جامع کتاب ہے، مکۂ مکرمہ کے مفتیانِ کرام( حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی) کے فتاویٰ نقل کیے ہیں۔ اگرچہ ان فتاویٰ میں بنیادی طور پر میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں کھڑے ہوکر سلام پڑھنے کے بارے میں اظہارِ خیال کیاگیا ۔ لیکن ہر فتوا میں محفل میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکۂ مکرمہ اور مدینۂ طیبہ کے علما محفلِ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قائل ہیں ۔ یہاں ان تمام فتاویٰ کو نقل کرنا ممکن نہیں البتہ صرف ایک فتوا نقل کرنے کے بعد ان مفتیانِ کرام کے اسماے گرامی ذکر کیے جائیں گے ۔
حضرت شیخ عبداللہ سراج حنفی مفتیِ مکۂ مکرمہ فرماتے ہیں: ’’میلاد شریف پڑھتے وقت جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا ذکر آئے تو اس وقت کھڑا ہونا بڑے بڑے ائمہ سے ثابت ہے ۔ ائمۂ اسلام اور حکام نے کسی انکار اور ردّ کے بغیر اسے برقرار رکھا۔ لہٰذا یہ مستحسن کام ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر تعظیم کا کون مستحق ہوسکتا ہے؟ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کافی ہے ۔ فرماتے ہیں: جس چیز کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے۔‘‘
جن دیگر مفتیانِ عظا م نے اس کے مطابق فتوا دیا اُن کے اسماے گرامی یہ ہیں:
٭ علامہ الشیخ جمال مفتیِ احناف مکۂ مکرمہ ٭ الشیخ عبدالرحمان سراج مفتیِ احناف
٭ شیخ ابوبکر بسیونی مفتیِ مالکیہ ٭ شیخ محمد بن عبداللہ مفتیِ حنابلہ
٭ محمد یحییٰ بن یحییٰ مفتیِ حنابلہ ٭ شیخ محمد عمر مفتی شافعیہ
٭ شیخ حسین مفتیِ مالکیہ ٭ شیخ مولانا محمد عثمان دمیاطی رحمۃ اللہ علیہم ۔
حنبلی فقہ کے مفتیِ مکہ محمد عبداللہ بن عبداللہ بن حمید لکھتے ہیں :
’’ میلادالنبی ، سیرتِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حصہ ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ سیرتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل یا کچھ حصہ بیان کرنا مستحب ہے اور آپ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکرِ ولادت کے وقت کھڑا ہونا تعظیم کا تقاضا ہے اور شریعت کے منافی نہیں ہے۔‘‘
مکۂ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے ماضی قریب کے عظیم محقق اور عالمِ دین علامہ محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کے عقائدپر’’ مفاہیم یجب ان تصحح ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ( جسے علامہ یٰٓس اختر مصباحی مدظلہ نے اردو کا قالب پہنایا ہے جورضوی کتاب گھر دہلی سے ’’اصلاحِ فکر و اعتقاد‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے ) اسی کتاب کا ایک باب ہے ’’ مفہوم المولد النبوی‘‘ جس میں آپ فرماتے ہیں :
’’بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ فاسد تصورات پائے جاتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق ہم سال بھرمیں صرف ایک مخصوص رات میں میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محافل منعقد کرتے ہیں۔ اس غافل شخص کو معلوم نہیں کہ مکۂ مکرمہ اور مدینۂ طیبہ میں میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں سال بھر ایسے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ حرمین شریفین میں جب بھی کوئی خوشی کا موقع آتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے ، جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم صرف ایک رات میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں اور تین سو انسٹھ راتوں سے غافل ہوجاتے ہیں ۔ وہ ہم پر افترا پردازی کررہا ہے اور واضح جھوٹ بولتا ہے ۔ یہ مجالسِ میلاد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن رات منعقد ہوتی ہیں اور یہ اجتماعات دعوت الیٰ اللہ کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں ، مبلغین اور علما کا فرض ہے کہ وہ ان اجتماعات کے ذریعہ امتِ مسلمہ کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اَخلاق و آداب ، احوال و سیرت اور معاملات و عبادات سے آگاہ کرتے رہیں انھیں نصیحت کریں اور خیر و فلاح کی طرف بلائیں۔ ‘‘
علامہ علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے بہ خوبی واضح ہوگیا ہے کہ حرمین شریفین میں نہ صرف ربیع الاول شریف بل کہ سال بھر میں بالخصوص ہر خوشی کے موقع پر محفل میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منعقد کی جاتی ہے ۔ یہاں ان علما کی فہرست پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا جنھوں علامہ سید محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب پر تقریظ لکھی ہے۔ چوں کہ یہ علما مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ان کا اس کتاب کی تائید و توثیق کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس کتاب کے مندرجات صحیح ہیں ۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس کتاب کی تقریظ لکھنے والوں میں پاکستان کے جید علماے دیوبند بھی شامل ہیں، جنھوں نے ’’مفاہیم یجب ان تصحح‘‘ کی ٹھوس الفاظ میں تصدیق کی ہے گویا وہ بھی عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محفلوں کو شریعت کے منافی تصور نہیں کرتے۔ مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ علما کے نام ذیل میں ملاحظہ کریں :
٭ فضیلۃ الشیخ حسنین مخلوف ( مفتی دیارِ مصر، رکن جماعتِ کبائر العلماء جامعہ ازہرشریف مصر)
٭ فضیلۃ الشیخ الدکتورالحسینی ہاشم ( وکیل ازہر شریف ، مصر و معتمد عام مجمع البحوث الاسلامی، قاہرہ)
٭ علامۃ المغرب محدث سید عبداللہ کنون حسنی ( رئیس رابطہ علماے مغربی و رکن رابطہ عالمِ اسلامی ، مکۂ مکرمہ )
٭ علامہ سید یوسف ہاشم الرفاعی ( سابق وزیر اوقاف و مذہبی امور ، کویت)
٭ علامہ مدرج فقیہ شیخ محمد خزرجی ( وزیر اوقاف و مذہبی امور متحدہ عرب امارات)
٭ علامہ محدث محقق شیخ محمد شاذلی نفیر( پرنسپل کلیہ الشریعہ تیونس و رکن رابطہ عالمِ اسلامی، مکۂ مکرمہ)
٭ علامہ فقیہ اصولی شیخ محمد سالم عدود ( رئیس عدالتِ عالیہ موریطانیہ و رکن مجلس فقہی رابطہ عالمِ اسلامی ، مکۂ مکرمہ)
٭فضیلۃ الشیخ ابراہیم الدسوقی مرعی (سابق وزیر اوقاف ، مصر)
٭ الاستاذ الدکتور حسن الفاتح قریب اللہ ( رئیس الجامعۃ الاسلامیہ ، سوڈان)
٭ فضیلۃ الشیخ السید عبدالسلام جبران ( رئیس المجلس العلمی الاقلیمی ، مراکش)
٭ شیخ یوسف احمد صدیقی القاضی ( وکیل عدالتِ عالیہ شرعیہ بحرین و رکن رابطہ عالمِ اسلامی مکہ)
٭ سید احمد بن محمد زیارۃ ( مفتی جمہوریہ یمن )
علاوہ ازیں ذیل میں اُن علماے دیوبند کے نام بھی ملاحظہ کریں جنھوں نے علامہ علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔
٭ مولانا شیخ محمد عزیز الرحمن حقانی ہزاروی ( خطیب وامام مسجد صدیق اکبر، راولپنڈی)
٭ مولانا محمد عبدالقادر آزاد( خطیب وامام شاہی مسجد ، لاہور)
٭ مولانا محمد عبدالواحد ( خطیب و امام جامع مسجد ، سیالکوٹ )
٭ مولانا محمد عبدالمالک کاندھلوی ( شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ ، لاہور)
٭ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر( ناظمِ اَعلا و ناظمِ تعلیمات جامعہ اسلامیہ ، کراچی)
مذکورہ بالا فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکۂ مکرمہ، مدینۂ طیبہ ، مصر ، بحرین ، موریطانیہ، متحدہ عرب امارات، تیونس، مراکش، یمن ، سوڈان وغیرہ عرب ممالک کے جید علما میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں محافل کے انعقاد کو مستحسن جانتے ہیں ۔ نیز علامہ علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تائید و توثیق کرنے والی کتاب پر تصدیق کرنے والے علماے دیوبند بھی میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق علماے عرب کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے ہندوستان کے بعض اُن علما پر جو میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو بدعت کے زمرے میں شامل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
کلیہ الشریعہ دمشق کے پرنسپل ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوط منکرین میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سختی سے ردّ کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف کے مضمون کا عنوان ہے ’’ اُن لوگوں کا رد جو میلادالنبی (ﷺ )کے منکر ہیں، ہر نیاکام بدعت نہیں۔‘‘ آپ لکھتے ہیں :
’’ہاں! میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ سننے کے لیے لوگوں کا جمع ہونا ایک ایسا کام ہے جو دورِ نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہوا بل کہ چھٹی صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہوا لیکن کیا صرف یہی بات اس کو بدعت کہنے کے لیے کافی ہے اور اس کی بنیاد پر اسے سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق قرار دیا جائے کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات جاری کی جو دین سے نہیں وہ مردود ہے؟ اس طرح تو اُن لوگوں کو اپنی زندگی سے ہر وہ بات خارج کردینی چاہیے جو نبیِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی، اگر وہ ایسا کرسکتے ہیں تو کرلیں کیوں کہ یہ سب کچھ بدعت ہے۔‘‘
شیخ احمد عبدالعزیز المبارک چیف جسٹس عدالتِ شرعیہ متحدہ عرب امارات لکھتے ہیں :
’’ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر جمع ہونے کے بارے میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ ان اجتماعات کے موقع پر مساجد میں آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ، واقعاتِ غزوات بیان کیے جاتے ہیں اور اکثر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں تو یہ امور جائز ہیں یا نہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے اجتماعات کو جن میں رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ نیز ان کی مبارک زندگی اور غزوات کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لیے ان کو بیان کیا جاتا ہے اور آپ کی سیرت و اَخلاق سے لوگوں کو رغبت دلانے کے لیے اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے ، ایک مباح عمل قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض کویہ مرغوب نہ ہو کیوں کہ اس تقریب نے لوگوں کا کردار بنانے اور جذبات(محبتِ رسول ﷺ) اُبھارنے میں بڑا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ تقریب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے زمانے میں نہ منائی گئی تاہم اس کو ناپسندیدہ بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ بدعت یا تو قابلِ مذمت ہے یا مستحسن و جائز۔‘‘
اِس مختصر سے مقالے میں درج کیے گئے حقائق سے کم از کم اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صرف ہندوستان کے بریلوی حضرات ہی نہیں مناتے بل کہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان عموماً اور اہلِ عرب خصوصاً مناتے چلے آرہے ہیں۔دنیا بھر کے جید علما و مفتیانِ کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس چاہے رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں نہ منعقد ہوئی ہوں لیکن ان تقریباتِ سعادت نشان کے انعقاد کو کسی طور بدعتِ سیِّئہ یعنی گمراہی والی بدعت قرار دینا اسلامی اصولوں کے سراسرمنافی ہے۔
اگراللہ جل شانہٗ کی توفیق حاصل ہوجائے تو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے اتنا ہی بس ہے ورنہ ضخیم کتب بھی ناکافی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محافلِ میلاد منانے اور اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین بجاہِ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)
(حاصلِ مطالعہ کتب: محمد رسول اللہ : شیخ محمد رضا مصری/ حسن البنّاء شہید کی ڈائری: خلیل حامدی/ اصلاحِ فکر و اعتقاد، حول الاحتفال بالمولدالنبی الشریف : علامہ سید محمد علوی مالکی/جانِ جاناں : پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی)
ڈاکٹر محمدحسین مُشاہدؔ رضوی
Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi
 

نایاب

لائبریرین
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم
اک شراکت پر نور ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

عمار عامر

محفلین
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سمیت اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں پر خوش ہونا، اس پر شکرگزار ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محاسن بیان کرنا، (غیرشرکیہ الفاظ والی) نعتیں پڑھنا، ان کا تذکرہ کرنا، یہ سب اچھے اور نیک کام ہیں۔ اس میں کسی بھی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب، اپنی جانب سے ایک طریقہ ایجاد کیا جائے، جو متفقہ طور پر دور نبوت میں رائج نہیں تھا، اور پھر اس پر اس قدر اصرار کیا جائے کہ جو لوگ اس میں شمولیت نہ کریں، اس سے کنارہ کش ہو جائیں، انہیں "ابلیس" قرار دیا جائے۔

بلکہ اس فقط ایک طریقے کی بنیاد پر پوری امت دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی مباح و جائز فعل پر اس قدر شدید اصرار اور غلو مناسب نہیں۔ ۔

جو لوگ اس فعل میں ملوث ہیں، ان کی نیت کے اخلاص میں شبہ نہیں (اگرچہ اعمال کی قبولیت کی دیگر شرائط مدنظر رکھنی چاہئیں) ۔ لیکن یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ اس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں، ان کا معاملہ بھی تو وہی ہے جو دور خیر القرون والوں کا تھا۔ جیسے صحابہ و تابعین نے اس میں شرکت نہیں کی، اگر ہم بھی شریک نہ ہوں اور کنارہ کشی اختیار کریں تو ہمیں کیوں غلط کار اور ابلیس وغیرہ قرار دیا جائے؟اور اگر ابلیس کے علاوہ سب 12 ربیع الاول کو خوشیاں منا رہے ہیں، تو صحابہ و تابعین کو کیسے اس فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے؟
 
مخالفین کے ’حکیم الامت‘ مولوی اشرفعلی تھانوی کا یہ فتوا
یہی مولوی اشرفعلی تھانوی صاحب
جو کچھ مولوی اشرفعلی تھانوی صاحب نے لکھا ہے
محترم ڈاکٹر مشاہد رضوی صاحب!
نام کا درست املا “اشرف علی“ ہے نہ کہ ”اشرفعلی“۔
 

x boy

محفلین
اھلِ ایمان متوجہ ھوں !

اگر میلاد منانا مستحب بھی ھوتا تو جو کچھ ھو رھا کیا یہ اسلام کا مزاج ھے ؟
یہ کس مذھب کا تعارف ھے ؟

یہ جزیرۃ العرب کے باھر کے ملیوں ٹھیلوں کا مذھب ھےِ، یہ اسراف یہ جلوس یہ گانے بجانے،، یہ اسلام کا مزاج نہیں ،اسلام ایک بامقصد دین ھے اور ھر بات میں اپنے مقصد پہ نگاہ رکھتا ھے، اس نے جو دو عیدیں دی ھیں وہ عیدیں بھی ھیں اور اس مقصد کا پیغام بھی جس مقصد کے لئے انسان دنیا میں بھیجا گیا ھے ،،اللہ کا تقوی اور اللہ کی محبت میں سب کچھ قربان کر دینا،،
اس زمین پر جو مقصد پہلے انسان کا تھا وھی امتحان آخری انسان کا بھی ھو گا،، یہ میلہ سازی کی صنعت ھمیشہ امتوں کے زوال کی نشانی ھوتی ھے اور بے منزل قوم کا شیوہ ،، اگر میلاد اتنا اھم موقع ھوتا تو صحابہ اسی کو اپنی تاریخ کی ابتدا بنا لیتے ،، عقیقوں سے میلاد ثابت نہیں ھوتا اور ھو بھی تو اتنا بدترین ثابت نہیں ھوتا،، جب علماء آسمان کے نیچے اللہ کی بدترین مخلوق بن جائیں اور قرآن کو اس طرح چبائیں جس طرح بیل چباتا ھے اور اس طرح اس کو کھائیں جس طرح بھوکا بیل گھاس کھاتا ھے تو معاشرہ وھی منظر پیش کرتا ھے،جو ھمارے یہاں میلاد والے دن دیکھا جاتا ھے،، مکے اور مدینے کی سرزمین اسلام کی پہلی صبح سے طلوع ھونے سے لے کر آج تک اس قسم کے میلوں ٹھیلوں سے نا آشنا ھے،، یہ ھندو دیوتاؤں کی مورتیوں کے نکالے جانے والے جلوسوں سے تو مشابہت رکھتے ھیں،، سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں،، جو بھی کرپشن کرتا ھے اپنی فیلڈ میں کرتا ھے اور وھیں کر بھی سکتا ھے اور وھیں سے اس کی جنت اور جہنم کا رستہ نکلتا ھے،، سیاست دان کی کرپشن کا اپنا میدان ھے تو پولیس اور پٹواری۔۔ جج اور وکیل اپنی قسم کی کرپشن کرتے ھیں،، جبکہ علماء جب کرپٹ ھوتے ھیں تو وہ دین میں کرپشن کرتے ھیں،، اپنی پیٹ پوجا کا سامان وھیں سے نکالتے ھیں اور بچوں کے ایکسٹرا اخراجات بھی،،یہ سارے مواقع ان اخراجات کی کولیکشن ھے،جسے دین کے نام پر عوام پر لادا جاتا ھے،،، !!

اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جان بوجھ کر شیطان پر صرف ایک اپنی لعنت کی ھے ! و ان علیک " لعنت۔۔۔۔ی " الی یوم الدین ! قیامت تک تجھ پر میری لعنت ھے !
مگر ان علماء سوء پر جو کہ حق کو چھپاتے ،دین کو بگاڑتے،، لوگوں سے سیدھا رستہ دکھانے کے پیسے لے کر غلط رستہ بتاتے،، خدائی کا اعلان کر کے " مولوی آرڈینینس " کے تحت اس امت کی بیڑیوں اور طوقوں میں اضافہ فرماتے ھیں،،
علیھم لعنت اللہ والملائکہِ والناسِ اجمعین ،، خالدین فیہا،،، اولئک یلعنھم اللہ و یلعنھم اللٰعِنون ،، ان پر اللہ کی بھی لعنت فرشتوں کی بھی لعنت تمام نبیوں سمیت سارے انسانوں کی بھی لعنت اور لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت !
 
Top