نمی دانم چہ منزل بود ، شب جای کہ من بودم۔۔۔امیر خسرو

عمراعظم

محفلین
نمی دانم چہ منزل بود،شب جای کہ من بودم
بہر سو رقصِ بسمل بود،شب جای کہ من بودم

پری پیکرنگاری،سرو قدی،لالہ رُخساری
سراپا آفتِ دل بود،شب جای کہ من بودم

رقیباں گوش بر آواز،او در ناز و من ترساں
سُخن گفتن چہ مشکل بود،شب جای کہ من بودم

خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل بود ،شب جای کہ من بودم

امیر خسرو


ترجمہ


نہ میں جانوں تھی کیا محفل،جہاں کل رات کو میں تھا
بہر سو رقص میں بسمل،جہاں کل رات کو میں تھا

نگارِاک سر و قد و لالہ،رُخسار و پری پیکر
آفت بپا درِ دل تھی،جہاں کل رات کو میں تھا

رقیباں گوش بر آواز تھے،وہ ناز میں اور میں ترساں
تھی کوئی بات بھی مشکل، جہاں کل رات کو میں تھا

خدا خود میرِ مجلس،لامکاں اندرتھا خسرو اور
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل،جہاں کل رات کو میں تھا

ترجمہ از : طارق اکبر


 

تلمیذ

لائبریرین
شراکت کا شکریہ۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
پری پیکرنگاری،سرو قدی،لالہ رُخساری
سراپا آفتِ دل بود،شب جای کہ من بودم​
نگارِاک سر و قد و لالہ،رُخسار و پری پیکر
آفت بپا درِ دل تھی،جہاں کل رات کو میں تھا
ترجمہ از : طارق اکبر​
اس شعر میں ترجمے سے زیادہ فارسی آسان ہے۔:)
 

عاطف بٹ

محفلین
خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل بود ،شب جای کہ من بودم

بہت ہی عمدہ انتخاب ہے۔
شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ سر
 
نمی دانم چہ منزل بود،شب جای کہ من بودم
بہر سو رقصِ بسمل بود،شب جای کہ من بودم

پری پیکرنگاری،سرو قدی،لالہ رُخساری
سراپا آفتِ دل بود،شب جای کہ من بودم

رقیباں گوش بر آواز،او در ناز و من ترساں
سُخن گفتن چہ مشکل بود،شب جای کہ من بودم

خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل بود ،شب جای کہ من بودم

امیر خسرو

پہلے تین اشعار کا ترجمہ بندے کی طرف سے:

نہ جانے کیا تھی وہ منزل جہاں میں نے گزاری شب
تھا ہر سو رقص میں بسمل جہاں میں نے گزاری شب

جمالِ چہرہ ، حسنِ قامت اور رخسار کی رونق
سبھی تھے قاتلانِ دل جہاں میں نے گزاری شب

مخالف تاک میں ، وہ ناز میں اور میں جھجکنے میں
نہ تھا کہنا ذرا مشکل جہاں میں نے گزاری شب
 
پہلے تین اشعار کا ترجمہ بندے کی طرف سے:

نہ جانے کیا تھی وہ منزل جہاں میں نے گزاری شب
تھا ہر سو رقص میں بسمل جہاں میں نے گزاری شب

جمالِ چہرہ ، حسنِ قامت اور رخسار کی رونق
سبھی تھے قاتلانِ دل جہاں میں نے گزاری شب

مخالف تاک میں ، وہ ناز میں اور میں جھجکنے میں
نہ تھا کہنا ذرا مشکل جہاں میں نے گزاری شب
اصل خوبصورت غزل کی تعریف کرنا تو گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف تصورر کیا جائے، لیکن محمد اسامہ سَرسَری بھائی کے خوبصورت ترجمے کی داد نہ دینا زیادتی ہے۔

مزیدار مزیدار جناب۔ بہت داد قبول فرمائیے۔
 

عمراعظم

محفلین
پہلے تین اشعار کا ترجمہ بندے کی طرف سے:

نہ جانے کیا تھی وہ منزل جہاں میں نے گزاری شب
تھا ہر سو رقص میں بسمل جہاں میں نے گزاری شب

جمالِ چہرہ ، حسنِ قامت اور رخسار کی رونق
سبھی تھے قاتلانِ دل جہاں میں نے گزاری شب

مخالف تاک میں ، وہ ناز میں اور میں جھجکنے میں
نہ تھا کہنا ذرا مشکل جہاں میں نے گزاری شب

واہ ! بہت خوب جناب۔۔ لطف دو بالا کر دیا۔
 
Top