عرفان صدیقی بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں - عرفان صدیقی

ظفری

لائبریرین

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے ، اور پگھل رہا ہوں میں

تجھی پہ ختم ہے جان میری زوال کی رات
تُو اب طلوع بھی ہوجا کہ ڈھل رہا ہوں میں

بلا رہا ہے میرا جامہ ِ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں

غبارِ رہ گذر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ
ہوائے تیز ! تیرے ساتھ چل رہا ہوں میں​
 

کاشفی

محفلین
غزل
(عرفان صدیقی)
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے ، اور پگھل رہا ہوں میں

تجھی پہ ختم ہے جاناں میری زوال کی رات
تُو اب طلوع بھی ہوجا ، کہ ڈھل رہا ہوں میں

بلا رہا ہے میرا جامہ ِ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں

غبارِ رہ گذر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ
ہوائے تیز ! تیرے ساتھ چل رہا ہوں میں

میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکارتا ہے،
اور اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں میں
 

ظفری

لائبریرین
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکارتا ہے،
اور اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں میں

شکریہ کاشفی ۔۔۔۔ سب سے اہم شعر تو میں نے اپنے مراسلے میں شامل ہی نہیں کیا ۔ :)
 
Top