فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عقیدہ توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ، عقیدہ رسالت ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنی طرف سے رسول اور نبی بھیجے جو انسانیت کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آتے رہے۔ یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور ہمارے نبی محمد ﷺپر ختم ہوا۔ آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کر دیا، اورامت کو بہترین انداز میں نصیحت کی ۔
تمام انبیاءو رسل اس لیے دنیا میں تشریف لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بالا دستی قائم ہو اور لوگوں پر حجت نہ رہے کہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری کیسے کرنی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
"پیغمبروں کو (اللہ تعالی) نے خوشخبری سنانے والا، ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا تا کہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ پر کوئی حجت نہ رہے" (قرآن مجید، سورہ نساء– 165)
جو لوگ منصب رسالت پر سرفراز کئے گئے، اللہ تعالی کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم، تدبر، قوت فیصلہ اور نور بصیرت عطا کیا گیا۔ اسی لیے ایک رسول اور فلسفی میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ فلسفی جو کچھ کہتا ہے وہ عقل و ظن کی بنیاد پر کہتا ہے جبکہ انبیاء ورسل جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کہتے رہے۔ انہوں نے جو دعوت پیش کی علم اور دلیل کے ساتھ پیش کی۔ سب رسول بشر تھے، مگر اللہ تعالی کی مخلوق میں علی الاطلاق افضل و اکمل تھے۔ جب تک تمام انبیاءو رسل پر ایمان نہ رکھا جائے کوئی بھی شخص صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ کوئی اطاعت اللہ اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ رسولﷺ کی پیروی سے منہ موڑنا، اللہ کی اطاعت سے بغاوت ہے۔ ، اللہ تعالی کے رسول دنیا کی تمام قوموں میں آئے اور ان سب نے اسلام کی تعلیم دی اورہمارے نبی ﷺوہی تعلیم دینے کے لیے سب سے آخر میں تشریف لائے، اس لحاظ سے اللہ کے تمام رسول ایک گروہ کے لوگ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:
"ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا (تا کہ وہ لوگوں کو بتائے) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دورر ہو ۔"
(قرآن مجید، سورہ نحل : 6-3)
ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی کی معرفت ضروری ہے، کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالر سالت کو تکمیل ایمان کی شرط کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پرجو ہم نے اتارا۔"
(قرآن مجید، سورہ تغابن 64، آیت : 8)
رسول اللہ ﷺکی اطاعت تمام انسانوں پر بالعموم اور ایمان والوں پر بالخصوص فرض ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشادہے :
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیاہے اس پر ایمان لے آو – اس میں تمہاری بھلائی ہے۔" (قرآن مجید، سورہ نساء-170)
اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا:
" (اے محبوب!) کہو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔"
(قرآن مجید، سورہ اعراف 7، آیت : 158 )
خود آپ ﷺنے فرمایا : " ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔"
ان آیات اور احادیث سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے رسول مبعوث فرمائے گئے۔
لہذا رسالت پرایمان لانے میں یہ داخل ہے کہ آپ کو انسانیت کی طرف اللہ کا آخری رسول ماناجائے،اوریہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول جوکچھ بتائے وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے۔ ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنا فرض ہے، خواہ ان باتوں کا تعلق عبادت و معاملات، تہذیب و معاشرت، اخلاق و کردار یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو، اس لیے کہ یہی اسوہ کامل ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : "میری ساری کی ساری امت جنت میں داخل ہو گی، سوائے اس شخص کے، جس نے انکار کیا۔ پوچھا گیا :انکار کا کیا مطلب ہے، آپ نے فرمایا: جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔جو نافرمانی کرے گا، وہ انکار کرےگا۔"
اطاعت کا مطلب اتباع ہے، ہر وہ عمل جو آپ کے قول و فعل اور تقریر سے صحیح طور ثابت ہو، وہ سنت ہے، جس کی اتباع ضروری ہے۔ اسی اتباع کا نام اطاعت ہے۔ اللہ کا ارشادہے :
" اوررسول جوکچھ( حکم) تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس(چیز) سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔"
( قرآن مجید، سورة الحشر59، آیت :7)
اللہ تعالی کا ارشادہے :
" اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا(رعب اور طاقت)اکھڑ جائے گی۔"
(قرآن مجید، سورہ انفال8، آیت : 46 )
اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ہی میں ہمارا امن اور ہماری وحدت ہے۔ جو کوئی اس اطاعت سے منحرف ہوا، گویا وہ غیر فطری راہوں پر چل نکلا۔ جس کے لیے نہ دنیا میں کوئی کامیابی ہے اور نہ آخرت میں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اثبات نبوت
نبوت ايک ايسا عظيم و مقدس منصب ہےجس پر فائز ہونے والا شخص لوگوں کے درميان مومن و مصدق ہوجاتا ہے، ان کے لئے محبوب و مقدس بن جاتا ہے اور اس کی اطاعت و پيروی لوگوں کے لئے شرعی اور دينی وظيفہ اور ذمہ داری ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ بعض دوسروں سے سوئے استفادہ کرنے والے افراد نبوت کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے ہیں تاکہ نبوت کے ظاہری فوائد سے مستفید ہوتے ہوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں اور ان پر غلبہ حاصل کر لیں۔ یہی امر اس بات کا موجب ہوجاتا ہے کہ ہم ان راہوں اور دلائل کو پہنچانیں جو نبوت کا دعوی کرنے والے کے دعویٰ کی صداقت و حقیقت کو واضح کر سکیں ۔ نبوت کا دعوی کرنے والے شخص کی صداقت تین راہوں سے ثابت ہو سکتی ہے۔
(1) قرائن و شواہد
نبوت کا ادعا کرنے والے شخص کی صداقت کو سمجھنے کا ايک راستہ يہ ہے کہ اس کی گذشتہ زندگی، اخلاقی صفات وخصوصيات، اس کے پيغام، وہ معاشرہ جس ميں دعوت دی جائے اور اس سے مربوط دوسرے تمام امور کا عميق تجزيہ اور پھر ان تمام نکات کو يکجا کرکے اس کی صداقت پر غوروفکر کيا جائے۔
(2) گذشتہ نبی کی تائيد
ايسا شخص جس کی نبوت، دلائل کے ذريعہ ہمارے نزديک ثابت اور مسلم ہے، اگر يہ خبر دے گيا ہو کہ ميرے بعد فلاں فلاں خصوصيات وصفات کے ساتھ خدا کے طرف سے ايک نبی مبعوث ہوگا اور يہ تمام خصوصيات وصفات اس شخص پر منطبق ہوتی ہوں جو نبوت کا دعویٰ کررہا ہے تو ان تمام افراد کے لئے جو گذشتہ نبی پر ايمان رکھتے ہيں اور اس کی طرف سے دی گئی بشارت سے آگاہ بھی ہيں ، شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہيں رہ جاتی کہ يہ شخص نبی خدا ہے۔
(3) معجزہ
انبياء کرام عام طور پر معجزے کے ذريعہ اپنی نبوت کوثابت کيا کرتے تھے- قرآن مجيد کي آيتوں سے واضح ہوتا ہے کہ امتيں اپنے نبی سے معجزے کی درخواست کيا کرتی تھيں اور جب بھی اس طرح کی کوئی درخواست حق وحقيقت کی جستجو کی خاطر ہوتی تھی، انبياء کرام معجزہ پيش بھی کرتے تھے البتہ اکثر ايسا بھی ہوتا تھا کہ نبی کی طرف سے اتمام حجت اور حق کے روشن ہوجانے کے باوجود بھی مشرکين تمسخر، استہزاء اوردوسرے غلط افکار کی بنا پر دوبارہ معجزے کی خواہش کرتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ ايسے موقعوں پر ان افراد کی خواہش کو کوئی اہميت نہيں دی جاتی تھی اور کوئی دوسرا نيا معجزہ وقوع پذير نہيں ہوتا تھا۔
نبوت کے لیے لازمی چیزیں
کوئی شخص انسانی کمال کے کتنے ہی بلند ترین مرحلہ کو پہنچ جائے مگر وہ اس منصب نبوت اور مقام رسالت کو نہیں پا سکتا،چنانچہ قرآ ن مجید کی متعدد آیات کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ انبیاء کرام کمال انسانی کے آخری مرحلے پر فائز تھے، اسی طرح ان کے اور بالخصوص آنحضرت ﷺکے خصوصیا ت اور امتیا زات کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ قرآن مجید کی جن آیا ت میں شناخت ِ نبوت سے متعلق اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے ان میں سے ہم چند آیا ت کے ترجمہ کو ذیل میں پیش کرتےہیں :
"اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں بعض کو اپنے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب فرمالیتا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ ٔ حج 22، آیت : 75)
اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) صفوت و نجابت کے اعتبار سے تمام انسانوں سے برگزیدہ افراد ہیں اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ نے انہیں عہدہٴ رسالت سے سرفراز فرماکر اپنے پیغام کا امین بنایا ہے۔
"اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ منصب ِ رسالت کہاں قرار دے۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 124)
اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام عظمت ، قوت روح ، صفائے نفس، شجاعت، معارف الہی، خدا شناسی ا ور تمام اخلاقی مسائل کے اعتبار سے اس قدر بلند تھے کہ خدا ئے تعالیٰ نے ان کو اپنی رسالت کا محل و مقر قرار دیا، اور انہیں سعادت ، انسانیت، ہدایت اورمعرفت کا مرجع بنایا۔
اگر انبیا ء کرام میں یہ لیاقت پہلے سے نہ پائی جاتی تو خدا ئے تعالیٰ ہرگز اپنی امانت ِ رسالت و نبوت اور ہدایت ان کو سپرد نہ کرتا ،لہٰذا خدائے تعالیٰ کا ان حضرات کو تاج رسالت و نبوت سے سرفراز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پہلے سے رذائل و خباثت سے دور تھے، چنانچہ قوم ثمود کی حضرت صالح علیہ السلام سے مندرجہ ذیل گفتگو ہماری اس بات کی تائید کرتی ہے:
"وہ لوگ کہنے لگے :اے صالح!اس سے پہلے تم ہی ہماری قوم میں امیدوں کے مرکز تھے۔"
(قرآن مجید، سورہ ہود 11، آیت : 62)
یعنی تمہاری ہوشمندی ، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے ۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
یہ آیت روشن دلیل ہے کہ انبیاء کرام قبل ِ بعثت اپنی قوموں کے درمیان ایک خاص اخلاقی امتیا ز او ر محیط زندگی کے مالک تھے، اور ان کو لوگ ایک عاد ی فرد کی حیثیت سے نہ دیکھتے تھے، یہی شیوہ ٴاخلاقی سبب بنی کہ لوگ آپ سے کچھ زیادہ ہی انتظار رکھتے تھے، اور انہوں نے اپنی اس بات کا اظہار بھی کیا چنانچہ پہلے سے انبیاء کا منصب ِ نبوت کے لئے آمادہ اور شائستہ ہونا سبب ہوا کہ جب آپ کو دعوت حق کا حکم ملاتو جو لوگ سرکش اور ضدی مزاج نہ تھے انہوں نے پہلی ہی مرتبہ میں آپ کی بات مان لی ،اور آپ کے حکم پر کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں آگئے۔ رسول اکرمﷺکی زندگی کو اس کے لئے شاہد مثال کے طور پیش کیا جاسکتا ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
انبیاء کی عصمت و عفت:
علمائے عقائد نے انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ہیں ہم یہاں ان میں سے چند دلائل پیش کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائیں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح وبلیغ بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائیں تو ایسی صورت میں تربیت کامقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔
ایک مربی ورہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی رہنمائیاں بے قدر اور بیکار ہوجائیں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ہی متزلزل ہوجائےگی۔
اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔اسی طرح فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹھ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ہڑپ کرتارہے تو اس کاعمل اس کی کہی ہوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔
اللہ تعالیٰ اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے معطر رہنا چاہیئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزاراہھو اور اس کی زندگی کانامہٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔
رب تعالیٰ کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائیں۔اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوں کے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتہائی کم کردے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلاہے؟
تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک شرط ،جو انبیاء کرام کے اہم مقاصد میں سے ہے ،یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔کیونکہ بہت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ اب اگر مذہبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹھ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے ہاتھ نہ آئے گا۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائیں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔
جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو،اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا۔؟
اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناہے ۔جس کے ذریعہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلہ میں جو عموماً بہت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نھیں کرتے۔
اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نہیں رکھتے اور” یہ دکھو کیا کہہ رہاہے یہ نہ دیکھو کون کہہ رہاہے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کہنے والے کی شخصیت اور اس کی طہارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔
یہ بیان جس طرح رہبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاہے،اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاہے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لہذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتاہے۔اور یہ ذہنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جہاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی ،زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ پیغمبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ پیغمبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتہا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ہر گناہ ، خطا و لغزش سے معصوم (محفوظ) ہوتے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم چند آیات کے ترجمہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
" (یہی وہ لوگ ہیں) جن کو خدا نے ہدایت کی ہے، تو تم انہیں کی راہ چلو۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 90)
اس آیت شریف سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیا ء کرام کے اسماء کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے : ”میں نے ان کے آباء و اولاد میں سے بھی بعض کو رسول بنایا، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی خود خدا نے ہدایت کی۔آیت مبارکہ” فَبِہُداہُمُ اقْتَدِہْ“(یعنی انہیں کی راہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی ہدایت نہیں ہے ،بلکہ ایک ایسی ہدایت ہے جو صرف انبیاءعلیہم السلام سے مخصوص ہے، لہٰذا اس ہدایت اور امتیاز کے ہوتے ہوئے کوئی نبی گناہ نہیں کرسکتا ،اور نہ وہ ہدایت کے راستے سے گمراہ ہوسکتا ہے، چنانچہ دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہوا :
"اور جسے اللہ ہدایت دےاسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔"
(قرآن مجید ، سورہ زمر 39، آیت : 37)
مذکورہ دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی ہدایت و راہنمائی اللہ تعالیٰ نے کی ہے، اور ہدایت بھی ایسی کی ہے کہ گناہ صغیرہ کا بھی کوئی نبی و رسول ارتکاب نہیں کرسکتا،لہٰذا جب ضلالت ،گمراہی اور گناہ ان سے سرزد نہیں ہو سکتا تو اب دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان بر گزیدہ افراد کی پیروی کریں۔اب رہا ضلالت ، گمراہی ، معصیت ا ور نافرمانی کسے کہتے ہیں ،تو قرآن میں اس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، ارشادہوتا ہے:
1. "اے اولاد آدم!کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نہیں کرو گے؟ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
(قرآن مجید ، سورہ یٰس 36، آیت 60)
اس آیت میں شیطان کی پرستش اور پیروی کو گمراہی کہا گیاہے، یعنی ہر وہ گمراہی اور معصیت جو شیطان کی وجہ سے وجود میں آئے اسے قرآن کی زبان میں ضلالت و گمراہی کہا جاتاہے، لہٰذا تینوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوگا :انبیاء و مرسلین ہر اس گمراہی اور معصیت سے محفوظ ہوتے ہیں جسے ضلالت کہا گیا ہے ، لہذا خلاصہ یہ ہوا :
1. انبیاء و رسول انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کو خدا نے اپنی خاص ہدایت سے نوازہ ہو۔
2. انبیاء و مرسلین میں ضلالت و گمراہی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاسکتا،کیونکہ وہ خاص ہدایت سے نوازے گئے ہیں ۔
3. قرآن مجید کی اصطلاح میں ہر وہ معصیت اور انحراف جو خدائے تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں ہو اسے ضلالت اور گمراہی کہا جاتا ہے ۔
نتیجہ : مذکورہ تینوں مطالب کی روشنی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین پاک و پاکیزہ اور معصوم ہوتے ہیں،اوران سے کوئی خطا اور گناہ سزد نہیں ہو سکتا ۔
2. "اورہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی سے اس کی اطاعت کی جائے۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء 4، آیت : 64)
اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ کوئی رسول اس وقت تک مبعوث نہیں ہوتاجب تک کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کی جائے، یعنی اللہ کا منشاء یہ ہے کہ انبیاء ہر حال میں ُمطاع قرار پائیں گویا گفتار و کردار دونوں کے اعتبار سے ان کی اطاعت کی جائے، کیونکہ جس طرح انبیاء کرام کی گفتار ذریعہ ٴ تبلیغ ہے اسی طرح ان حضرات کا کردار بھی وسیلہ ٴ تبلیغ ہوتا ہے۔
آیت کے مطابق انبیاء و مرسلین کے کردار و گفتار دونوں کی اطاعت کرنا چاہیئے لہٰذا اگر انبیاء سے بھول اور نسیان واقع ہو تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ یہ بھول محبوب ا ورمشیت خدا وندی ہے، چونکہ خدا ئے تعالیٰ نے انبیاء کی پیروی لوگوں پہ فرض کی ہے، لہٰذا جیسے افعال بھی انبیاء کرام سے صادر ہوں گے چاہے برے افعال ہو ں یا اچھے ،ان کی اطاعت ہر حال میں ہمارے اوپر من جانب الله لازم قرار پائے گی حالانکہ خدا وند تعالیٰ نے برے افعال سے منع فرمایا ہے۔
لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے تاکہ خدا کی ذات پر حرف نہ آئے، بالفاظ دیگر اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو لازم آئے گا کہ جس چیز کو خدائے تعالیٰ نے منع فرمایا اسی کوبجالانے کا حکم بھی فرمایا ہے!! یعنی جو چیز محبوب ِخدا ہے وہی چیز مبغوض خدا بھی ہے، اور ذات پروردگار کیلئے ایسا تصور کرنا یقینا فاسد و باطل ہے۔
3. "وہ (شیطان) بولا تیری عزت و جلال کی قسم ! ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں گا۔"
(قرآن مجید، سورہ ص 38، آیت : 82، 83)
اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تمام لوگوں کو بہکائے گا لہٰذا اگرانبیائے کرام سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد ہوا تو گویا وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے!اور جب انبیاء پر شیطان اپنا پھندہ ڈال سکتا ہے تو پھر وہ مخلصین عباد اللہ میں نہ رہیں گے۔ حالا نکہ خدائے تعالیٰ انبیائے کرام کو اپنے برگزیدہ اور مخلصین بندوں میں سے شمار کرتا ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے پہلے چند آیا ت کے اندر اللہ تعالیٰ نے انبیا ء کو مخلصین بندوں میں سے قراردیاہے :
"بیشک ہم نے ان لوگوں کو ایک خاص صفت (آخرت کی یاد) سے ممتاز کیا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ ص38، آیت : 46)
آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ خود شیطان اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بہکا سکتا جو مخلص ہیں اوریہی نہیں بلکہ خدا ئے تعالیٰ نے بھی انبیاء کرام کے مخلص ہونے کی گواہی دی ہے، اور ان کے مرتبہ ٴاخلاص کی اپنی طرف سے تضمین اور تائید فرما ئی ہے، لہٰذا اس بات سے ثابت ہو تا ہے کہ شیطان کے وسوسہ کی پہنچ اور اس کے فریب دہی کے کمند کی رسائی انبیاء کے دامن تک نہیں ہو سکتی، اوریہاں سے ہمیں اس بات کا بھی یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انبیا ء سے کسی گناہ و معصیت کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
منصب رسالت سے متعلق بعض بنیادی غلط فہمیاں
نبی کریم ﷺکے منصب رسالت کی حیثیت اور آپ کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کے بارےمیں بعض لوگوں میں جو بعض غلط تصورات پیدا ہو چکے ہیں۔ہم یہاں پر صرف تین بنیادی غلط فہمیوں کی طرف اشارہ کریں گے جو ہمارے تین بڑے بڑے گروہوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔
منصب رسالت کی تنقیص کرنے والا گروہ
ہمارے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو خدا اور بندوں کے درمیان نعوذ باللہ آنحضرت ﷺکی وہی حیثیت سمجھتا ہے جو ایک کاتب (یعنی لکھنے والا) اور مکتوب الیہ [جس کے لئے لکھا گیا ہو] کے درمیان کسی معتمد اور ایک دیانت دار قاصد کی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک آنحضرت ﷺکا کام بس یہ تھا کہ اللہ تعالی نے جو کتاب اپنے بندوں پر نازل فرمانی چاہی وہ آپ نے ان کو پہنچا دی، اس کے بعد آپ کا کام ختم ہوگیا۔
وہ اپنے اسی تصور کے لحاظ سے نبی ﷺکے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت متعین کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ منصب رسالت کا اس قدر حقیر تصور رکھتے ہوں، ان کے لئے معرفت الہی کے نقطہ نظر سے نبی ﷺکی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ جاتی اور جب آپ کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ جاتی تو آپ کی ذات کے ساتھ کسی غیر معمولی وابستگی کے لئے بھی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ جب اصلی کام آپ کا صرف خط کا پہنچا دینا تھا اور آپ خط پہنچا چکے تو اس کے بعد اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ اصل خط کی ہے یا زیادہ سے زیادہ کاتب کی، نہ کہ خط کے لانے والے قاصد کی۔ اس کے بعد تو اگر قاصد سرے سے درمیان سے غائب بھی ہو جائے، جب بھی ان حضرات کے نقطہ نظر سے کوئی خلا نہیں واقع ہونا چاہیے۔
رسالت کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ نبی، خدا اور اس کے بندوں کے درمیان صرف ایک قاصد یا نامہ بر ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک معلم بھی ہوتا ہے، ایک مزکی (تزکیہ و تربیت کرنے والا) بھی ہوتا ہے، ایک مرشد بھی ہوتا ہے، ایک مبین (وضاحت کرنےوالا) بھی ہوتا ہے اور ایک مبشر (بشارت دینے والا) بھی ہوتا ہے، ایک منذر (خبردار کرنے والا) بھی ہوتا ہے، ایک سراج منیر (ہدایت کا چراغ) بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک واجب الاطاعت ہادی بھی ہوتا ہے اور پھر اپنی ان تمام خصوصیتوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ارشاد و ہدایت کے فرائض کے سلسلہ میں براہ راست خدا کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ جس کے سبب سے وہ غلطی اور گمراہی کے تمام خطروں سے بالکل محفوظ و مامون ہوتا ہے۔
اس کا فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ خدا کی کتاب بندوں کو پہنچا دے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اس کتاب کے تمام اسرار ورموز لوگوں کو سمجھا دے، اس کتاب پر عمل کر کے دکھاوے، اس کتاب پر عمل کرنے والوں کا ایک گروہ اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کر دے اور اس کتاب کے مضمرات، ان کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں نمایاں کر دے۔ ان سارے کاموں میں اس کی اپنی ذات ایک عامل کی حیثیت سے بھی شریک ہوتی ہے اور ایک راہنما کی حیثیت سے بھی شریک ہوتی ہے اور اپنی اس دوسری حیثیت میں جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے یا جس چیز کو وہ منظور کر لیتا ہے، اس کو اس کتاب کے اور اس کے منصب رسالت کے تحت ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی حیثیت سے اس کو قبول کیا جاتا ہے۔
رسالت کے اس تصور کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نبی ﷺکے ساتھ ہم جتنی گونا گوں نوعیتوں کے تعلقات رکھتے ہیں، اتنی گونا گوں نوعیتوں کے تعلقات نہ دنیا میں ہمارے کسی کے ساتھ ہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔ یہاں آپ سے آپ یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر کوئی شخص ان گونا گوں تعلقات کی نوعیت سے اچھی طرح واقف نہ ہو یا ان میں سے بعض کا یا کل کا منکر ہو، تو وہ ہرگز آپ کی ذات بابرکات سے وہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جس کے لئے آپ کی بعثت ہوئی ہے۔
جدت پسند افراد کا گروہ
ہمارے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو نبی ﷺکو ماضی کی ایک قابل احترام شخصیت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ساری قوم چونکہ آپ کو رسول کہتی ہے، اس وجہ سے یہ لوگ بھی آپ کو رسول ہی کہتے ہیں اور قومی روایات کے زیر اثر آپ کے لئے حمیت اور عصبیت کا جذبہ بھی ایک حد تک رکھتے ہیں، لیکن یہ بات ان لوگوں کے دل میں کسی طرح بھی نہیں دھنستی کہ آپ جس معاملے میں جو کچھ فرما گئے ہیں، وہی حرف آخر ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کا انحصار بس اس کو بے چون و چرا مان لینے ہی پر ہے۔
ان لوگوں کے نزدیک آپ نے جو کچھ بتایا اور سکھایا، وہ ایک مخصوص زمانہ اور ایک مخصوص ماحول کے لئے تو بے شک ٹھیک تھا لیکن علم و روشنی کے اس زمانہ میں انہیں چیزوں پر اصرار کئے چلے جانا، ان کے خیال میں جہالت اور حماقت ہے۔ اب آپ کی بتائی ہوئی باتوں میں سے اگر کچھ چیزیں مانے جانے کے قابل ہیں، تو یا تو وہ ہیں جو خود ان کی اپنی خواہشات کے مطابق ہیں، یا وہ ہیں جن کو خوش قسمتی سے موجودہ زمانے میں بھی قدر و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو یہ لوگ دل سے گوارا کرنے کے لئے تیار ہوں اگرچہ اپنی کمزوری اور بزدلی کے سبب سے اس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہ رکھتے ہوں۔
عوام الناس
عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہے، جن کے نزدیک نبی ﷺکی ذات بس ایک اندھی بہری عقیدت کا مرجع ہے، وہ مختلف اوقات میں اپنی اس عقیدت کا اظہار کر کے اپنے خیال میں آپ کے نبوت و رسالت کے تمام حقوق و واجبات سے اپنے آپ کو سبکدوش کر لیتے ہیں۔
انہیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ نبی ﷺکس مقصد کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے، آپ نے دنیا کو کیا تعلیم دی، اپنے بعد امت پر کیا ذمہ داریاں چھوڑ گئے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ ان سوالوں پر غور کرنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے وہ اپنے تصورات کے مطابق آپ کی ذات کے ساتھ اظہار عقیدت کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں، اگرچہ اس اظہار عقیدت کا طریقہ صریحاً آپ کی تعلیمات اور ہدایات کے خلاف ہی ہو۔
جاہل پیروں اور مولویوں کی ایک جماعت نے نبی ﷺکے ساتھ عوام کے اس جذبہ عقیدت سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ شریعت کی حقیقی ذمہ داریوں سے محفوظ رہتے ہوئے عوام میں مقبول بننے کا یہ راستہ بہت سہل ہے کہ عوام کی اس جاہلانہ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ آنحضرت ﷺکے ساتھ اظہار عقیدت و محبت کے ایسے طریقے ایجاد کئے جن سے ان کو اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لئے شریعت کی تمام پابندیوں سے پوری آزادی مل جائے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
رسالتِ محمدی ﷺ کی خاتمیت
نبوت محمدی ﷺکی خاتمیت نے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو کائنات انسانی کی آخری پیغمبرانہ سیرت بنا دیا ہے۔ باری تعالیٰ نے ہرچند آپ ﷺکو خلقاً اوّل الانبیاء بنایا مگر آپ ﷺبعثاً آخر الانبیاء قرار دیئے گئے گویا آپ ﷺنبوت کے ملنے میں سب سے مقدم کئے گئے مگر نبوت کے ظاہر کرنے میں سب سے موخر کئے گئے تاکہ اولین و آخرین کے تمام فضائل و کمالات آپ کے دامن نبوت میں سمٹ جائیں۔ چونکہ آپ ﷺکو خاتم الانبیاء بنایا گیا اس لئے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو وہ کمال و دوام اور حسن و مقام عطا کیا گیا ۔ آپ ﷺکی آمد سے نظام نبوت کے بپا کئے جانے کا مقصد پورا ہو گیا، آپ ﷺکی بعثت سے سلسلہ رسالت کے قیام کی غرض و غایت مکمل ہو گئی سو ضروری تھا کہ اب باب رسالت کسی بھی نئی بعثت کے لئے بند کر دیا جائے اور ختم نبوت کا دائمی اعلان کر دیا جائے تاکہ قیامت کے دن تک جملہ ادوار و زمن نبوت و رسالت محمدی ﷺکے زیر سایہ رہیں اور آئندہ تمام انسانی نسلیں فیضان سیرت محمدی ﷺسے پرورش پائیں۔ ختم نبوت کے الوہی اعلان کے بعد اب کسی شخص کا مدعی نبوت ہونا حقیقت میں قرآن و حدیث کا منکر اور دین اسلام سے مرتد ہونے کے علاوہ باری تعالیٰ کے عظیم منصوبہ ہدایت کا کھلا باغی ہونا بھی تصور کیا جائےگا کیونکہ اس نے اپنے ‘‘اعلان سے فی الواقع نبوت و رسالت محمدی ﷺکی خاتمیت کی الوہی حکمت اور حقیقی عظمت کو بزعم خویش رد کر دیا ہے اور معاذ اللہ تکمیل سلسلہ ہدایت کے الوہی منصوبہ کو ناکافی و ناقص سمجھتے ہوئے اسے اپنے تئیں مکمل کرنے کی گمراہانہ کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت فراموش کر دی ہے کہ اگر علم الٰہی میں آپ ﷺکے بعد کسی نئے نبی یا رسول کی بعثت کی ضرورت و گنجائش ہوتی تو آنحضور ﷺکی تعلیمات (قرآن و سنت) کو حرفاً حرفاً محفوظ رکھنے کا اس قدر غیر معمولی اور عدیم المثال اہتمام نہ کیا جاتا اور باری تعالیٰ ان کی حفاظت کا خود ذمہ دار نہ بنتا۔ جب یکے بعد دیگرے انبیاء و رسل کے مبعوث ہونے کا دور تھا اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا رسول کی الہامی کتب، وحی اور تعلیمات کی اس طرح حفاظت کا انتظام نہیں فرمایا۔ کیونکہ ہر زمانے میں حسب ضرورت انبیاء مبعوث ہو رہے تھے، اگر پہلی وحی اور تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں تو نئے نبی اور رسول نے آکر انہی بنیادی تعلیمات کی پھر تجدید کردی، انہیں دوبارہ یاد کروا دیا، پھر ایک زمانے کے لئے انسانی سینوں میں محفوظ کردیا اور یوں یکے بعد دیگرے یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺکی بعثت ہوئی تو حفاظتِ تعلیمات کا جو نظام ہزارہا سال سے چلا آرہا تھا کلیتاً بدل دیا گیا اور تعلیمات محمدی ﷺکو سینوں کے ساتھ ساتھ سفینوں میں بھی لفظاً و حرفاً اس طرح محفوظ کروا دیا گیا کہ کوئی تبدیلی نہ کی جاسکے۔ اس کا مقصد واضح طور پر انسانوں کو یہ باور کروانا تھا کہ اب اس نبی آخر الزمان ﷺکے بعد حسب سابق کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوگا اب قیامت تک یہی کتاب اور سیرت تمہارے کام آئے گی، اسے محفوظ رکھو۔ چنانچہ قرآن مجید نے بعثت محمدی ﷺکے جملہ مقاصد کی تکمیل کا اعلان ان الفاظ میں کیا ہے :
"آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا"
(قرآن مجید، سورہ مائدہ 5، آیت : 3)
خطبہ حجتہ الوداع میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :
"لوگو !یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ "
اور یہ ایک واضح اور منطقی با ت ہے کہ جب آپ کی نبوت کسی مخصوص قوم یا مخصوص علاقے کے لئے نہیں، بلکہ پورے بنی نوع انسان کے لئے ہے، علاوہ ازیں آپ نبوت کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی ہیں، آپ کے بعد کسی اور نبی کو بھی نہیں آنا تھا، تو آپ کو دین بھی وہ عطا کیا جاتا جو ہرلحاظ سے مکمل ہوتا جس میں عالم گیریت کی شان بھی ہوتی اور اَبدیت کی خوبی بھی۔ الحمدللہ اسلام میں یہ شان اور خوبی ہے۔ اس میں تمام انسانوں کی ہدایت کا سامان ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں اور اس کے اصول بھی ابدی اور ناقابل تغیر ہیں لیکن و ہ احوال و حوادث کے تغیرات کے باوجود قابل عمل ہیں، ان میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
مقاصدِ بعثتِ رسالت کی تمامیت
نبی اکرم ﷺنے جس عظیم اور عالمی پیغمبرانہ مشن کا مکہ معظمہ سے آغاز فرمایا تھا وہ آپ ﷺکی حیات ظاہری میں ہی بتمام و کمال کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگیا۔ اس پیغمبرانہ جدوجہد کی کامیابی کا پہلا مرحلہ 1ھ میں اسلامی ریاست مدینہ کا قیام تھا دوسرا 8ھ میں فتح مکہ، تیسرا 10 ھ میں خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان تھا اور چوتھا مشرق سے مغرب تک عالمی سطح پر اسلامی دعوت کی تحریک کو بپا کردینا تھا۔ یہ اعزاز و امتیاز تاریخ میں صرف رسالت و سیرت محمدی ﷺکو ہی نصیب ہوا کہ اپنی ظاہری حیات مبارکہ کے اندر ہی اپنے مشن کو ہر جہت اور ہر اعتبار سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ پھر کامیابی اور نتیجہ خیزی کا یہ عمل تسلسل کے ساتھ آنحضور ﷺکی وفات کے بعد بھی صدیوں تک جاری رہا۔ بالآخر فروغ دعوت حق کا یہ سلسلہ روئے زمین کی ان حدود تک جا پہنچا جن کا مشاہدہ آنحضور ﷺکو کروایا گیا تھا۔
یہاں فقط ایک حوالہ ہی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ دور حاضر کے ایک غیر مسلم مؤرخ اور محقق Michael H. Hart نے اپنی معروف تصنیف The 100, A Ranking of the Most Influential persons in History میں کائنات انسانی کی تاریخ میں عظیم، نامور اور تاریخی کارہائے نمایاں کی حامل شخصیات کی فہرست میں حضور نبی اکرم ﷺکا اسم گرامی سب سے پہلے نام کے طور پر لکھا ہے وہ خود اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کرتےہے :
My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels despite of humble origins, Muhammad founded and promulgated one of the worlds great religions and became immensely effective political leader. Today, thirteen centuries after his death, his inflence is still powerful and pervasive.
It may initially seem strange that Muhammad has been ranked higher than Jesus. There are two principal reasons for that decision. First, Muhammad played a far more important role in the development of islam than that done by Jesus for Christianity Furthermore, Muhammad (unlike Jesus) was a secular as well as a religious leader. In fact, as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most inflential political leader of all time.
It is this unparalleed combination of secular and religious inflence which I feel entitles Muhammad to be considerd the most influential single figure in human history.
"دنیا کی سب ذی اثر شخصیات میں سے محمد (ﷺ) کا میرا پہلا انتخاب، کچھ قارئین کو حیران کر دے گا اور ہوسکتا ہے بعض حلقوں کی طرف سے اس پر سوال کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذات محمد (ﷺ )ہی وہ ذات اقدس ہے جو دنیوی و مادی اور مذہبی و روحانی دونوں سطحوں پر سب سے بڑھ کر کامیاب رہی۔ ایک انتہائی متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد (ﷺ )نے نہ صرف دنیا کے ایک عظیم مذہب کی بنیاد رکھی بلکہ اس کی اشاعت بھی کی اور ایک انتہائی سحر انگیز سیاسی موثر راہنما بن گئے۔ ان کی وفات کے تیرہ سو سال بعد ان کا اثر آج بھی پائیدار، مضبوط اور اسی طرح جاری و ساری ہے۔"
"ابتدائی طور پر یہ بات حیرت انگیز ہوسکتی ہے کہ حضرت محمد (ﷺ )کا رتبہ و مرتبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام )سے بلند تر ہے۔ اس فیصلے کی دو بنیادی وجوہات ہیں : اول یہ کہ حضرت محمد (ﷺ) نے اشاعت اسلام اور اس کی ترویج و ترقی میں جو کچھ کیا وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام )کی عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت سے کہیں بڑھ کر ہے۔"
"علاوہ ازیں حضرت محمد (ﷺ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام )کے برعکس مذہبی و لادین سبھی لوگوں کے راہنما تھے۔ فی الحقیقت عربوں کی فتوحات کے پیچھے انہی کی زبردست قوت کام کر رہی تھی۔ انہیں بلا تامل تاریخ کی ایسی اثر انگیز اور موثر شخصیت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جن کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ مذہب و دنیاوی زندگی پر ان کے وہ عظیم اور گہرے اثرات ہیں جن کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ محمد ﷺتاریخ انسانی کی واحد مثال ہیں۔"
اس امر کا بیان A.J. Arberry نے ان الفاظ میں کیا ہے :
When he (Muhammad) died in 634, Islam was secure as the paramount religion and political system of all Arabia.(1)
(1) A.J. Arberry, Aspects of Islamic Civilization, p. 11.
"جب 634ء میں حضرت محمد ﷺکا وصال ہوا اس وقت اسلام پورے خطہ عرب میں ایک غالب دین اور سیاسی نظام کے طور پر مستحکم ہو چکا تھا۔"
وہ مزید لکھتے ہیں :
From the Atlantic coast, to the borders of China the call to prayer, in the tongue of Macca, rang out from minaret, summoning the faithful to prostrate themselves to the Lord of the world. The rapidity spread of Islam, through extensive provinces which had long been Christian, is a crucial fact of history which has naturally engaged the speculative allousion of many critical investigator.(1)
(1) A.J. Arberry, Aspect of Islamic Civilization, p. 12.
"وادی مکہ سے اٹھنے والی حق کی یہ آواز ہر طرف پھیل چکی تھی۔ بحر اوقیانوس کے ساحل سے لے کر چین کی سرحدوں تک مساجد کے میناروں سے بلند ہونے والی صدائے دلنواز اہل ایمان کو رب کائنات کے حضور سر بسجود ہونے کی دعوت دے رہی تھی۔ اسلام کی اس درجہ تیزی سے اشاعت خصوصاً ان دور دراز علاقوں میں جو عرصہ دراز سے عیسائی رہ چکے تھے ایک ایسی اٹل تاریخی حقیقت ہے جس نے بہت سے نقاد تاریخ نگاروں کی توجہ کو بدیہی طور پر اپنی طرف مبذول کر لیا ہے۔"
اس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺکی شخصی اور رسالتی جہت سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جو اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے اگر کوئی مثالی شخصیت کامل نمونہ ہو سکتی ہے تو حضور نبی اکرم ﷺکی ذات مبارکہ ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
رحمۃ للعالمین: رحمت محمدی کا ایک پہلو
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"(اے محبوب !) ہم نے تم کو سارے جہان کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ انبیاء 21، آیت : 107)
اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی ﷺکی ذات مبارکہ تمام جہان کے لئے کس طرح رحمت بنی تو اس کا احاطہ یا نا ممکن۔ اس لئے ہم آپ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے انسانی سماج کے لئے وہ اصول پیش کئے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انہی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State)بھی معرض وجود میں آ سکتی ہے اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں، انہوں نے جو بھی اصول پیش کئے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ توڑنے والے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ہٹلر کو لے لیجیےاس نے یہ دعوی کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدائشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ جنوبی افریقہ اور روڈیشیا میں یہی ظلم آج بھی انسان انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔
اسی قبیل سے علاقائی قومیت (Territorial Nationalism) کا ایک نشہ بھی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصب کی بنیاد پر چھڑیں۔ اور یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہر قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں برتر و فائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک برا آدمی رکھتا تھا۔
جس سرزمین میں انسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی ﷺنے اپنی پکار انسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے کی تھی۔ آپ نے پکار کر فرمایا:
اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔
اور جو بات پیش کی وہ خدا کا یہ فرمان تھاکہ:
"اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اس لئے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ حجرات 49، آیت : 13)
آپ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔
آنحضور ﷺفلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس بنیاد پر ایک امت بنائی اور اسے بتایا کہ :
تمہیں (امت وسط)درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اللہ اور آخرت کی) گواہی قائم کر دو۔
امت وسط کا مفہوم یہی ہے کہ مسلمان امت عادل ہے۔
اب یہ امت عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی، یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر یعنی اللہ اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کر لو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہو جاتا ہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سید اور شیخ میں کوئٰ فرق نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔
اس امت میں بلال حبشی بھی تھے، سلمان فارسی بھی اور صہیب رومی بھی (رضی اللہ عنہم)۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دنیا کو اسلام کے قدموں میں لا ڈالا۔ خلافت راشدہ کے عہد مبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اس لئے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لئے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ ایران میں ویسا ہی اونچ نیچ کا فرق تھا جیسا کہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خود بخود مسخر ہو گئے۔
مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے، مار کھائے۔ اسپین پر مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بناء پر باہمی چپقلش۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی، ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں ابھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پٹے، پھر سکھوں سے پٹے اور اب تو آئے دن پٹتے رہنا گویا ان کا مقدر ہوگیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ آیات وروایات کی روشنی میں
بعض آیات ِکریمہ سے صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ قبل ِ بعثت ایمان ،عقیدہ ،اخلاقی شائستگی اور صداقت کے اعتبار سے تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے ،حتیٰ کہ آپ کفارکے درمیان بھی امین و صادق جیسے لقب سے مشہور و معروف تھے اور اسی طرح آپ کے آباء واجداد سب موحد ، خدا پرست ،شرک سے دوراور پیمبران ِ خدا میں سے تھے ،چنانچہ اس بارے میں ذیل میں ہم چند آیا ت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
جو آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور آپ کی منصب رسالت کے لئے آمادگی کو بیان کرتی ہے، وہ وہی آیت ہے جو آپﷺ کی مکی زندگی کے وسط میں نازل ہوئی جب کہ کفار قریش نے آپ پر اعتراض کیااور یہ کہنے لگے :
(اور جب ان کے پاس کوئی نشانی دین کی تصدیق کے لئے آتی ہے توکہتے ہیں) "ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جائے گی جو رسولوں کو دی گئی ہے ۔" (یعنی ہم بھی مقام نبوت پر فائز ہوں )۔
قرآن مجید، سورہ انعام6، آیت : 124)
ان کے جواب میں خدا تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
ü "خدا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کو کس جگہ ودیعت کرے۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 124)
یہ آیت انبیاء کرام کے منتخب ہونے کی حکمت کو بطور عموم اور آنحضرت ﷺکے انتخاب کرنے کی علت کو بطور خصوص بیان کرتی ہے یعنی مقام رسالت ایسا نہیں ہے کہ بغیر پہلے سے آمادگی اور شرائط کے ہر کس و ناکس کو خدا ئے تعالیٰ عنایت کردے، بلکہ یہ منصب اس کو ملتا ہے جو اپنے وجود میں پہلے سے اس کے تمام لازمی شرائط اور مقدمات کو آمادہ رکھتا ہو، خدائے تعالیٰ ایسے داناترین افراد کو مقام رسالت سے سرفراز کرتا ہے ،یعنی اس پاک منصب کیلئے ضروری ہے کہ انسان پہلے ایمان ، صداقت اوراخلاق و کردار میں کامل اور تمام رذائل اور خبائث سے پاک ہو تب خدا کہیں اپنا خاص عہدہ عنایت کرتا ہے ۔
ü "اور (اے محبوب!)یقیناً تم خلق عظیم پر فائز ہو۔"
(قرآن مجید،سورہ قلم 68، آیت : 4)
یہ آیت تمام اعتبار سے آنحضرت ﷺکی حیات طیبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور صراحت کے ساتھ لفظ خلق عظیم کے ذریعہ آپ کی رسالت سے قبل لیاقت ا ور استعداد پر بطور عموم دلالت کرتی ہے (کیونکہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی، اگرچند ایام گذر جانے کے بعد نازل ہوتی تو سمجھا جاسکتا تھا کہ خلق سے مراد نبوت و رسالت ہے یا وہ اوصاف جو رسالت و نبوت ملنے کے بعد آنحضرتﷺ میں پیدا ہوئے لہٰذا ماننا پڑیگا کہ) خلق عظیم سے مراد آپ کے وہ کمالات ہیں جو آپ کے وجود میں مبعوث برسالت ہو نے سے پہلے نمایاں تھے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کی مدح کے لئے اس آیت سے بہتر اور کوئی جامع اور وسیع جملہ نہیں ہو سکتا،اور اس جملہ میں جو مفہوم اور معنویت پائی جاتی ہے وہ کسی اور جملے میں نہیں ہے، کیو نکہ لفظ خلق تمام اچھے اعمال ،امتیاز اور عبادت کو شامل ہے،یعنی صفت ِ خلق وہ صفت ہے جوتمام شخصی،اجتماعی ،انسانی، خانوادگی اور مذہبی اوصاف کی مظہر ہے ،اور خدائے تعالیٰ نے ایسی صفت کے بارے میں فرمایا کہ رسول اس صفت کے عالی اور عظیم مرحلہ پر فائز ہیں،کیونکہ آیت میں صرف خلق کا ہی لفظ نہیں ہے بلکہ’’ عظیم ‘‘بھی آیا ہے ، اور پھر اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے امتیا زی اخلاق کی دوبارہ تصدیق بھی فرما دی ہے :
"خدا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کو کس جگہ ودیعت کرے۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 124)
ü "اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔"
(قرآن مجید، سورہ احزاب 33، آیت : 33)
یہ آیت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے، جو آپ اور آپ کے خاندان کی طہارت پر دلالت کرتی ہے ، یعنی رسول اور آپ کے اہل بیت ہر قسم کے شرک ، کفر ، گناہ ، معصیت ،آلودگی ، نجاست اور رذائل سے دور ہیں، کیونکہ رجس کا اطلاق اِن تمام چیزوں پر ہوتا ہے، پس آیت کی رو سے آنحضرت ﷺاور خاندان ہر قسم کے رجس سے پاک و پاکیزہ ہیں ۔
ü " بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ایک بندہ کو جب نماز پڑھتا ہے تو روکتا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ علق 96، آیت : 10، 11)
یہ آیت آنحضرت ﷺکی تعریف اور ایک مغرور اور سر کش شخص کی مذمت میں نازل ہوئی ہے ،جو آپ کو ہمیشہ خدا کی عبادت سے منع کرتا تھا ،بہر کیف اس آیت سے دو نکتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے :
· آنحضرت ﷺبعثت سے قبل نہ تنہا موحد تھے بلکہ آپ ہمیشہ خدا کی پرستش و عبادت میں مشغول رہتے تھے، کیو نکہ یہ سورہ ٴ علق کی آیت ہے جو کہ کثیر روایات اور مفسرین کے مطابق سب سے پھلے نازل ہوئی ،لہٰذا یہاں عبادت کا تذکرہ بعثت سے قبل کی زندگی کی جانب ہے۔
· یہ عبادت جزیرة العرب کے رہنے والوں کی عبادت کے خلاف تھی اسی وجہ سے وہ اس کی مخالفت کرتے تھے، اور اس مطلب کا استفادہ متعدد روایا ت سے بھی ہو تا ہے کہ رسو ل اسلامﷺ بعثت سے پہلے کبھی مخفی طور پر اور کبھی سب کے سامنے اپنے خدا کی عبادت کرتے تھے۔
ایمان بالرسالت کے تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے اور اس ایمان کے کامل ہونے کے بنیادی تقاضے کیا ہیں ۔ بنیادی طور پر ایمان بالرسالت کے دو بنیادی مدارج ہیں :
اصل ایمان : یہ وہ اساسی ایمان ہے جو نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کا زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرنے سے متحقق ہوجاتا ہے
کمال ایمان : یہ ایمان کامل جو بعض شرائط اور تقاضے صحیح طور پر پورے کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
ایمان بالرسالت اقرار و تصدیق کی شرط پوری کرنے کے علاوہ درج ذیل چار تقاضوں سے مرکب ہے ۔
1. تعظیم رسول
2. محبت رسول
3. نصرت رسول
4. اطاعت رسول
ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے تحقیق و ثبوت میں ایک قدر مشترک ہے اور ایک مختلف۔ جہاں تک اصل اور کمال کے مدارج کا تعلق ہے دونوں ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ جیساحضرت معاذ بن انس سے مروی ہے کہ :
جس نے اللہ کے لیے کسی سے محبت کی اور اللہ کے لیے کسی کو کچھ دیا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے کچھ روکا تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔
حالانکہ ان شرائط پر پورا نہ اترنے کے باوجود اس کا اللہ پر ایمان رکھنا اصلا ثابت ہوجاتا ہے مگر ناقص رہ جاتا ہے ۔ جہاں تک ایمان بالرسالت میں اصل ایمان اور کمال ایمان کے تعین اور ان کے ثبوت کے حدود کا تعلق ہے اس میں اس کی حیثیت مختلف ہے ۔ مذکورہ بالا چار شرائط اور تقاضوں میں سے پہلے دو (محبت اور تعظیم) اصل ایمان کا حصہ ہے ۔ جبکہ بقیہ دو (اطاعت اور نصرت) کمال ایمان کا حصہ ہیں۔
اگر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ سرے سے محبت ہی نہ ہو ، بلکہ قلبی اور باطنی سطح پر ایک طرح کی لا تعلقی یا عدم رغبت کی کیفیت ہو نہ ہی دل میں آپ کی تعظیم کا کوئی داعیہ موجود ہو تو ان خصائص کا فقدان مطلقا ایمان ہی کی نفی کو مستلزم ہوگا ۔ اس کے برعکس اگر محبت رسول اور تعظیم رسول کے عناصر انسان کی طبیعت میں پائے جائیں ، مگر بد قسمتی سے اطاعت اور نصرت کی توفیق نہ ہو تو پھر ایمان اصلا تو ثابت ہوگا مگر ناقص رہ جائے گا۔ اس کا کمال بلکہ خود داعیات محبت و تعظیم کا کمال اطاعت اور نصرت کے بغیر ممکن نہیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
تعظیم و توقیر
تعظیم رسالت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قرآن پاک نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایسے ایمان افروز اسلوب میں بیان کیا ہے جس سے حسین تر اور معنی خیز اسلوب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ ارشاد فرمایا:
"اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت و بشارت اور انذار کے منصب پر فائز کرکے بھیجا ہے، (اے لوگو! یہ اس لئے ہے) تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کے دین کی مدد کرواور رسول کی خوب تعظیم و توقیر کرو ۔"
(قرآن مجید، سورہ فتح 48، آیت : 9-8)
اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اولیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرت رسول ﷺ ہے ، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک موثر ، نتیجہ خیز اور موجب ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول ﷺ کے ساتھ تعظیم و توقیر کے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔
نصرت و اطاعتِ رسول ﷺدونوں کا تعلق عقائد ، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اول الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت ، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیم رسول ﷺسے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعظیم ، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی پاک ﷺکے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ یاد رکھا جائے کہ توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً آنحضور ﷺکا حق ہے۔
قرآن پاک نے دوسری جگہ ٹوٹ کر محبت کرنے اور تعظیم و توقیر کا یہی عمل اختیارکرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی خوب تعظیم کی اور مدد کی اور جو نور ان کے ساتھ اتارا گیا ہے اس کی پیروی کی تو یہی لوگ کامیاب و بامراد ہوں گے۔"
(قرآن مجید، سورہ اعراف 7، آیت : 157)
دونوں آیات میں حضور نبی کریم ﷺ کی تعظیم کا حکم دینے کے لئے لفظ ’’تعزیر‘‘ لایا گیا ہے جو اپنی جگہ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ لفظ عام قسم کی تعظیم و تکریم کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ تعظیم کی اس حالت پر بولا جاتا ہے جو تعظیم کی انتہائی حدوں کو چھولے۔ عام انسانوں کے لئے تو تعظیم میں مبالغہ آ سکتا ہے لیکن آنحضور ﷺکی وہ ذات گرامی ہے کہ تعظیم و تکریم میں مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن پاک نے یہ لفظ ذکر کیا ہے تاکہ اہل ایمان ان کی تعظیم کے لئے جو بھی عمل اور انداز اختیار کرنا چاہیں وہ بلا تکلف اختیار کرلیں اور اپنے پاک نبی کی صفت وثناء بیان کریں، چاہے ان کا بیان کتنا ہی پر شکوہ اور حسنِ عقیدت سے لبریز ہو اور ان کا نیاز مندانہ انداز، خواہ کتنی ہی عاجزی لئے ہوئے ہو پھر بھی اس میں مبالغہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ نبی اکرم ﷺکی شان اتنی ارفع و اعلیٰ ہے اور رب کریم نے ان کو اتنی عظمتیں عطا فرمائی ہیں کہ امتی جو خوبی اور شان بھی بیان کرے گا وہ ان کی ذات اقدس میں موجود ہوگی۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
"جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مبالغہ کیا تھا، تم اس سے باز رہو اور میری اس قسم کی تعریف نہ کرو۔"
نبی کو خدا کا بیٹا کہنا بے شک مبالغہ اور خلاف واقعہ بات ہے، کفر ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ تعریف نہیں، ، خلاف واقعہ، غلط اور جھوٹی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے، کوئی نبی اس کا بیٹا نہیں ہوسکتا، اس لئے جو بھی کسی کو اس کا بیٹا کہے گا وہ جھوٹ بولے گا اور مبالغہ کی حدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا، اس لئے یہ غلط بات کہنے اور اس انداز سے تعریف کرنے کی اجازت نہیں، باقی ہر قسم کی تعریف و ستائش، مدح ونعت اور صفت و ثناء کی اجازت ہے۔
اس حدیث کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺنے اپنی تعریف سے منع فرمایا ہے، اس لئے کسی قسم کی مدح و ستائش جائز نہیں اور وہ مبالغہ کی تعریف میں آ جاتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث پاک میں خدا کا بیٹا کہہ کر مدح کرنے کی ممانعت ہے، باقی رہے وہ اوصاف جو آپ کی ذات اقدس میں حقیقتاً پائے جاتے ہیں ان کے بیان کی ممانعت نہیں بلکہ ان کا ذکر ضروری اور موجب خیرو برکت ہے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ جب آحضور ﷺ کی نعت پڑھتے تو آپ ﷺ ان کو دعا دیا کرتے تھے۔
"اے اللہ! جبریل امین کو حسان کی تائید و تقویت کے لئے مامور فرما۔"
لہذا مذکورہ بالا آیات واحادیث سے ثابت ہوا کہ تعظیم حبیب ﷺتوحید باری تعالیٰ عزوجل سے متعارض و متصادم نہیں۔ کیونکہ اس عمل کا حکم تو خود رب کریم نے اپنے پاک کلام میں دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نصوص قرآنیہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی نبی پاک ﷺکی بے ادبی کرتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے۔ اور جو نبی پاک ﷺکی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ دراصل اللہ عزوجل کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے۔ اسی طرح نبی پاک ﷺکو اذیت دینا دراصل اللہ کریم کو اذیت دینا ہے اور اللہ کریم کو اذیت دینے کا مطلب اس کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :
"بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ۔ دنیا و آخرت میں ان پر اللہ کی لعنت ہے ۔ اور ان کے لیے اللہ نے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ احزاب 33، آیت : 57)
واضح ہوا کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ جیسا کہ قرآن عظیم نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور معصیت و نافرمانی کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے۔
یہ تو ايسى بارگاه ہے جہاں حكم عدولى كى تو كيا گنجائش ہوتى، يہاں اونچى آواز سے بولنا بهى غارت گر ِايمان ہے- سورة الحجرات كى ابتدائى چار آيات ميں آنحضورﷺ كے ادب و احترام كے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہيں :
"اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے۔اے ايمان والو! اپنى آوازيں نبى كى آواز سے بلند نہ كرو اور نہ ہى ان كے سامنے اس طرح اونچى آواز سے بولو جيسے تم ايك دوسرے سے بولتے ہو۔ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہیں اس كى خبر بهى نہ ہو-بلا شبہ جو لوگ رسول الله ﷺكے حضور اپنى آوازيں پست ركهتے ہيں، يہى لوگ ہیں جن كے دلوں كو الله نے تقوىٰ كے لئے پرکھ ليا ہے، ان كے لئے بخشش اور اجر عظيم ہے۔ (اے نبى!) جو لوگ تم كو حجروں كے باہر سے پكارتے ہيں، ان ميں سے اكثر بے عقل ہيں۔ اگر یہ لوگ صبر كرتے یہاں تک کہ تم ان كى طرف خود نكلتے تو یہ ان كے حق ميں بہتر تها اور الله بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ حجرات 49، آیت : 5-1)
سن 06 ہجری کو جب کفار مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تو اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں کفار کا وکیل بن کر آیا۔ اس نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حضور ﷺ کی بے حد تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ اور جو اس نے محبت و ادب رسول ﷺ کے حیران کن مناظر دیکھے تو واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کی منظر کشی کی۔ اے قوم ! خدا کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں۔ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم ! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی اس طرح دل سے تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ "
رسول اللہ ﷺ کا ادب
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! 'راعنا' نہ کہا کرو بلکہ 'انظرنا' کہا کرو اور توجہ سے بات کو سنا کرو۔ یہ انکار کرنے والے تو دردناک سزا کے مستحق ہیں۔" (البقرۃ 2: 104)
رسول اللہ ﷺسے بغض رکھنے والے بعض یہودی اور منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ظاہری احترام کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ان کی یہ کوشش ہوا کرتی کہ وہ کسی طرح آپ کی شان میں بے ادبی کر سکیں۔
'راعنا' ایک ذو معنی لفظ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنحضور ﷺکی گفتگو سنتے ہوئے اگر کبھی کوئی بات سمجھ نہ پاتے تو آپ سے رعایت کی درخواست کرتے ہوئے یہ لفظ بول کر بات کو دوہرانے کے لئے کہتے۔ اس لفظ کو ذرا لچکا کر بولا جائے تو یہ ایک اہانت آمیز لفظ بن جاتا۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو اس لفظ کے استعمال سے روک دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ایسے موقع پر 'انظرنا' یعنی ہم پر نظر فرمائیے کہہ کر آپ کی توجہ حاصل کریں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بات کو پہلے ہی توجہ سے سنیں تاکہ اس کی نوبت نہ آئے۔
اس حکم کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کا حصہ بنا دیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺکی عزت و حرمت کے معاملے کو کتنی اہمیت دی ہے۔ نبی کریم ﷺکی جو حیثیت اللہ کے نزدیک ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے آپ کی ذات والا صفات کا انتہائی درجے میں ادب و احترام کیا جائے اور کوئی ایسا لفظ نہ بولا جائے اور نہ ہی ایسا عمل کیا جائے جس سے آپ کی شان میں ادنی درجے میں بھی گستاخی کا کوئی شائبہ ہو۔ یہی رویہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے۔
آپ كے صحابہ كرام كو حضور سے جو والہانہ محبت تهى اسى كا نتیجہ تها کہ وه ہر اس كام كو كرنے كى كوشش كرتے جو حضور نے كيا ہوتا۔ ان كو وہى كهانا پسندہوتا جو آپ كو پسند ہوتا- جس مقام پر آپ تشريف فرما ہوتے يا نماز پڑھ ليتے، وه جگہ بهى واجب الاحترام ہوجاتى اور اس مقام پر وہى عمل انجام دينا وه اپنى سعادت جانتے ، جیسا کہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ :
موسىٰ بن عقبہ بيان كرتے ہيں کہ ميں نے سالم بن عبدالله بن عمر كو ديكهاکہ وه دورانِ سفر راستے ميں بعض مقامات تلاش كرتے تهے اور وہاں نماز پڑهتے تهے كيونکہ انہوں نے اپنے والد عبدالله كو اور انہوں نے اپنے والد عمر كو وہاں نماز پڑهتے ديكها تها اور عمروہاں اس لئے نماز پڑهتے تهے کہ انہوں نے آنحضور ﷺ كو وہاں نماز پڑهتے ديكها تها-
انہیں دربارِ نبوت ميں حاضرىكے لئے خاص تقريب كا موقع ہوتا، صاف ستهرے كپڑے زيب تن كرتے ، بغير طہارت كے آپ كى خدمت ميں حاضر ہونا اور مصافحہ كرنا گوارا نہ ہوتا، راستے ميں كبهى ساتھ ہوجاتا تو اپنى سوارى كو آنحضورﷺ كى سوارى سے آگے نہ بڑهنے ديتے- غايت ِادب كى بنا پر كسى بهى بات ميں سبقت گوارا نہ تهى۔ دستر خوان پرہوتے تو جب آپ كهانا شروع نہ فرماتے كوئى كهانے ميں ہاتھ نہ ڈالتا- یہ تو تها آپ كى زندگى ميں صحابہ كرام كا معمول مگر آپ كى وفات كے بعد ہم لوگوں كے لئے آپ كى عزت و تكريم كا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺسے صدقِ دل سے محبت كريں، آپ كے فرمودات پر عمل كريں، اپنى زندگى ميں آپ كو واقعى اپنے لئے اُسوهٴ حسنہ سمجھیں۔
 

مہ جبین

محفلین
:AOA: مہ جبین آپا! پسندیدگی کے لیے شکریہ!
اگر آپ مزید مطالعہ کا شوق رکھتی ہوں تو اسی عنوان پر اتنا ہی مواد اور باقی ہے۔
ضرور ضرور فارقلیط رحمانی بھیا
سر آنکھوں پر ، ہماری خوش نصیبی کہ ہم اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ پاک پڑھیں اور دلوں کو منور کریں ۔ الحمد للہ
جزاک اللہ
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
"بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر "
محترم فارقلیط بھائی اتنی بہترین آگہی بکھیرتی تحریر میں شراکت دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں ۔
جاری رکھئے گا برائے مہربانی ۔
اللہ تعالی آپ کو حسن نیت کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے

مولای صل وسلم دائماؐ ابداؐ
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلہم

جزاک اللہ خیراؐ کثیراؐ فارقلیط رحمانی بھیا
محبتِ رسول
دین اسلام میں وہ ایمان یا وہ اطاعت معتبر نہیں ہے جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو۔پھر محبت بھی محض رسمی اور ظاہری قسم کی مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسی محبت مطلوب ہے جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے، جس کے مقابل میں عزیز سے عزیز رشتے اور محبوب سے محبوب تعلقات کی بھی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جائے، جس کے لئے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جا سکے لیکن خود اس کو کسی قیمت پر باقی نہ چھوڑا جا سکے۔ قرآن مجید میں اس محبت کا معیار یہ بتایا گیا ہے:
(اے محبوب! مسلمانوں سے) " کہہ دو کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب) اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں تگ و دو کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم اللہ کے حکم (عذاب) کاانتظار کرو ۔"
(قرآن مجید، سورہ توبہ 9، آیت : 24)
اس آیت کے عموم سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ سچا ایمان اسی وقت نصیب ہوسکتا ہے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ساری دنیا بلکہ خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو اور آپ کی محبت اس درجہ ہو کہ دوسری کوئی محبت اس پر غالب نہ آسکے۔ احادیث مبارکہ سے بھی حب بنوی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک کوئی آپ سے دنیا ومافیہا کی ہر محبوب چیز کی محبت سے زیادہ محبت نہ کرے اور دوسروں کی محبتوں پر آپﷺکی محبت کو فوقیت نہ دے تو اعمال صالحہ کا بڑا سے بڑا ذخیرہ بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد اور اصل ہی آپ کی محبت ہے، گرچہ باقی ارکان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
درج بالا حدیث میں محبت نبوی کو ایمان کیلئے اسا س یعنی شرط قرار دیا گیا ہے۔ ایک مؤمن کو اپنی جان پر جتنا حق ہے اس سے زیادہ اس کی جان پرنبی کا حق ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون اپنی کتاب میں ان الفاط میں بیان فرمایا:
"یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق دار ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ احزاب 33، آیت : 6)
اور بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرنے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے عزیز ہیں، یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا تم میں کوئی شخص اُس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمرنے تھوڑے توقف کے بعد عرض کیا بخدا یا رسول اللہ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپﷺنے فرمایا اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔
محبت کی کتنی قسمیں ہیں اور حدیث میں کونسی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہیں:
1. محبت طبعی: یعنی جن محبتوں کا طبیعت تقاضہ کرتی ہے۔
2. محبت عقلی: یعنی جن محبتوں کا عقل تقاضہ کرتی ہے۔ جیسے مریض طبعاً کڑوی دوا کو نا پسند کرتا ہے، لیکن عقل کے تقاضہ سے وہ دواکھا لیتا ہے۔
3. محبت ایمانی:یعنی وہ محبت جس کا ایمان تقاضہ کرتا ہے۔ جیسا کہ اگر نبی اکرمﷺ کا فر باپ یا کافر بیٹے کو جنگ میں قتل کرنے کا حکم دیں تو محبت طبعی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ باپ اور بیٹے کو قتل نہ کیا جائے لیکن محبت ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کر دے۔ جیساکہ غزوہ بدر میں حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے لڑائی اور اُسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔
لہذا محبت عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل اور ایمان اس کا تقاضا کرتے ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے۔
ان تین قسموں میں سے حدیث بالا میں محبت عقلی اور محبت ایمانی مراد ہے۔ محبت طبعی انسان کے اختیار میں نہیں، لہذا مسلمان محبت طبعی کا مکلف نہیں ہے۔ البتہ محبت عقلی اور محبت ایمانی کا مسلمان مکلف ہے، محبت ایمانی کی بنیاد پر حضور نبی اکرمﷺ کو دنیا کی ہر چیز سے عزیز جاننا حدیث بالا اور دیگر مذکورہ بالا دلائل شرعیہ سے واضح ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہاں جس محبت کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مقصود وہی عقلی اور اصولی محبت ہے جو ایک شخص کو کسی اصول اور مسلک کے ساتھ ہوا کرتی ہے اور جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی میں ہر جگہ اسی اصول اور اسی مسلک کو مقدم رکھتا ہے، اس اصول اور مسلک کے اوپر وہ ہر چیز اور ہر اصول اور ہر مسلک اور ہر خواہش اور ہر حکم کو قربان کر دیتا ہے لیکن خود اس کو دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہیں کرتا۔
محبت رسول کے اس اصول اور مسلک کی برتری کے لئے وہ ساری چیزوں کو پست کر دیتا ہے لیکن اس اصول اور مسلک کو کسی حالت میں بھی پست دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر اس سے خود اس کا اپنا نفس اس مسلک کی مخالفت میں مزاحم ہوتا ہے تو وہ اس سے بھی لڑتا ہے، اگر دوسرے اس سے مزاحم ہوتے ہیں تو ان کا بھی وہ مقابلہ کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے بیوی بچوں اور اعزا و اقارب کے مطالبات بھی اگر اس کے اس مسلک کے مطالبات سے کسی مرحلہ پر ٹکراتے ہیں تو وہ اپنے اس اصول اور مسلک کا ساتھ دیتا ہے اور بے تکلف اپنے بیوی بچوں کی خواہشوں اور اپنے خاندان اور قوم کے مطالبہ کو ٹھکرا دیتا ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سبحان اللہ
"بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر "
محترم فارقلیط بھائی اتنی بہترین آگہی بکھیرتی تحریر میں شراکت دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں ۔
جاری رکھئے گا برائے مہربانی ۔
اللہ تعالی آپ کو حسن نیت کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین
قلبى محبت
تكميل ايمان كے لئے رسول الله ﷺكى صرف ظاہرى اطاعت ہى نہيں بلكہ قلبى تسليم ورضا بهى ضرورى ہے۔
فرمانِ بارى تعالىٰ ہے:
"پس تمہارے رب کی قسم ! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تمہیں (محمد ) کو فیصل نہ مالیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرواس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے سے اسے تسلیم کریں۔"
(قرآن مجید ، سورہ نساء 4، آیت : 65)
رسول الله ﷺكے حكم كى موجودگى ميں اپنى مرضى يا كسى دوسرے كے حكم پر عمل كرنے كى دين اسلام ميں كوئى گنجائش نہيں-سورة الاحزاب ميں فرمانِ خداوندى ہے:
"اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ "
(قرآن مجید ، سورہ احزاب 33، آیت : 36)
اسی طرح سورة الحشر ارشادِ الٰہى ہے:
"اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں ،لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں رک جاؤ "
( قرآن مجید، سورة الحشر59، آیت :7)
گويا آپ كا حكم اور عمل ہى فیصلہ كن سند قرار پائے اور اس حكم كو ماننے يا نہ ماننے اور اس پر ناگوارى كے احساس يا عدمِ احساس پر ہى آدمى كے موٴمن ہونے يا نہ ہونے كا انحصار ٹھہرا ہے- یہ ممكن ہى نہيں کہ موٴمن الله اور اس كے رسول كے كئے گئے فیصلہ كے متعلق عدم اطمينان كا شائبہ تك دل ميں لائے-آج كے مسلمانوں كواپنا جائزه لينا چاہیئے كہ وه حب ِرسول كے اس تقاضے كو كس حد تك نبھاتے ہيں؟
نبی کریم ﷺ سے محبت کی فضیلت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت رکھے گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم اسلام لانے کے بعد کسی چیز سے اتنا خوش نہیں ہوئے جتنا اس حدیث کے سننے سے خوش ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا"یا رسول اللہ ﷺ !آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو ایسے (نیک) لوگوں سے محبت کرتا ہے جن کے نیک اعمال کو وہ نہیں پہنچا۔" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "(قیامت کے دن) آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: " تین باتیں جس میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے دوستی رکھے (یعنی دنیا کی کوئی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہو) تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹنے کو بعد اس کے کہ اللہ نے اس سے بچا لیا اس طرح برا جانے جیسے آگ میں ڈال دیا جانا۔"
رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کیوں؟
اسلام کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ترین ذات ،رسول اللہ ﷺ کی ہونی چاہے ، حتی کہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ آپ ﷺ سے محبت ہونی چاہے اگرایسانہیں ہے تواس کاایمان خطرہ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہر مؤمن کواللہ کے نبی ﷺ سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہئے اس کی کیاوجہ ؟
مرکزی وجہ یہی ہے کہ آپ ﷺکی محبت آپ کی تعلیمات پرعمل کرنے پر آمادہ کرے ،لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ ﷺکی ذات میں بھی ایسی خوبیاں موجود ہیں جوآپ ﷺسے سب سے زیادہ محبت کافطری تقاضہ کرتی ہیں ،ان خوبیوں کے تذکرہ سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی سے محبت کیوں کی جاتی ہے ؟اگرہم اہل دنیا کی محبتوں کاجائزہ لیں اوران کے واقعات پڑھیں تومعلوم ہوتاہے کہ ہرمحبت کے پیچھے درج ذیل تین اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہوتاہے:
1. محبوب کا احسان
2. محبوب کا کردار
3. محبوب کا حسن وجمال
اہل دنیا کی محبتوں کے پیچھے ان اسباب میں سے کوئی ایک ہی سبب ہوتا ہے،یعنی کوئی صرف کسی کے احسان کے سبب اس سے محبت کرنے لگتا ہے،خواہ وہ عمدہ کرداراورحسن وجمال سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی شخص کسی فن میں مہارت رکھتاہے توکچھ لوگ اس پر فداء ہوجاتے ہیں چاہے وہ احسان اورحسن وجمال کی خوبی سے عاری ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی حسین وجمیل ہے تولوگ اس کے بھی گرویدہ ہوجاتے ہیں گرچہ وہ بداخلاق اوربدکردارہی کیوں نہ ہو۔
لیکن جب ہم اہل ایمان کی نبی اکرم ﷺسے محبت کودیکھتے ہیں توپوری انسانیت میں صرف اورصرف یہی ایک ایسی محبوب ذات نظرآتی ہے جن کی محبت کے پیچھے نہ صرف یہ کہ مذکوہ جملہ اسباب محبت بیک وقت پائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسباب درجہ کمال کوپہنچے ہوئے ہیں۔
شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کبھی کسی شخص سے محبت اس لذت کی بنا پر ہوتی ہے جسے انسان کسی کی صورت وآوازیا کھانے وغیرہ میں محسوس کرتاہے،کبھی ان اندورنی خوبیو ں کی بناپرہوتی ہے جسے انسان اپنے شعورکے ذریعہ بزرگوں،اہل علم یاہرقسم کے اہل فضل لوگوں میں محسوس کرتا ہے، اورکبھی محبت اپنے اوپرکئے گئے احسان یا اپنی مشکلات کاازالہ کئے جانے کی بنا پرہوجاتی ہے، اوریہ تمام اسباب نبی اکرم ﷺکی ذات میں موجودہیں کیونکہ آپ ﷺبیک وقت ہرقسم کے ظاہری وباطنی جمال وکمال اورہرقسم کے فضائل وکردار سے متصف ہیں نیزآپ ﷺنے صراط مستقیم اوردائمی نعمتوں کی طرف تمام مسلمانوں کی رہنمائی کرکے اور جہنم سے انہیں دورکرکے احسان عظیم کیاہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
احسان:
آپ ﷺکے احسانات کوچندلفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا،آپ ﷺکی پوری زندگی اس سے پرہے،آپ ﷺنے پوری انسانیت پراس قدراحسان کئے ہیں کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس سے بڑااحسان کیاہوگا کہ آپ ﷺاپنے دشمنوں تک کوبھی جہنم کی دائمی آگ سے بچانے کی فکرکرتے اوراس فکرمیں اپناچین وسکون بھی قربان کردیتے تھے،یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی:
" (اے محبوب!) اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے شدت رنج و غم میں اپنی جان پر کھیل جاؤگے۔"
(قرآن مجید، سورہ کہف 18، آیت : 6)
خودآپ ﷺنے انسانیت پراپنے احسان کی مثال اس طرح پیش کی ہے۔
میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے کہ جس نے آگ سلگائی۔ پس اس کے ارد گرد روشنی پھیل گئی۔ تو پروانے اور وہ کیڑے جو آگ میں گرتے ہیں۔ اس میں گرنے لگے۔ وہ آدمی انہیں کھینچ کر باہر نکالنے لگا اور وہ اس پر غالب آکر اس آگ میں گرے جاتے تھے۔ (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر کھینچتا ہوں اور تم ہو، کہ اس میں داخل ہوئے جاتے ہو۔
فرض کیجئے کہ کوئی شخص خود کشی کے ارادے سے کسی کنویں میں کودنے جارہاہواورآپ اسے بچانے کے لئے آئے اس پروہ آپ کوگالی دینے لگے اورالٹاآپ ہی کومارنے پیٹنے لگے کیا ایسی صورت میں بھی آپ اسے بچائیں گے ؟ ہرگزنہیں۔
لیکن آپ ﷺکو ظالموں نے ہرطرح سے برابھلا کہا ،حتی کہ ایک دفعہ آپ ﷺ کولہولہان بھی کردیا،طائف کا وہ ہولناک منظر جب آپ ﷺ اہل طائف کی نجات کے لئے انہیں حق کی دعوت دے رہے تھے ،اس پرانہوں نے کیا کیا؟ آپ کوگالیاں دیں، اورآپ کے پیچھے اوباش بچوں کولگادیاجوآپ پرپتھراؤ کررہے تھے، آپ اس قدررخمی ہوئے کہ آپ کے جسموں سے خون بہہ کرآپ کی جوتیوں میں جم گئے،اگر آپ اس وقت چاہتے تو پوری قوم تباہ و برباد ہو سکتی تھی جیسا کہ نبی کریم ﷺ اس کے بعد کی حالت کو بیان فرماتے ہیں ۔
"بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا میں نے جو دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ(ﷺ)کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد!(ﷺ) یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دوں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔"
غورکریں جن کے پیچھے اوباش بچوں کے لگایا گیاتھا ان کے ساتھ ملک الجبال(پہاڑی فرشتے ) کوکھڑاکردیاگیا،جن پرکنکرپتھرپھینکے گئے تھے ان کے اختیارمیں پہاڑدے دیا گیا ،آج اگردنیا والے اس طاقت کے مالک ہوتے توکیا کرتے۔لیکن آپ ﷺنے ان ظالموں پر بھی اس طاقت کواستعمال نہ کیا ،اورنہ صرف ان پربلکہ ان کے ذریعہ پیداہونے والی آئندہ نسلوں پربھی رحم کیا ،آج نہ جانے پوری دنیا میں کتنے خاندان انہیں کی نسل سے ہیں ، انسانیت پراس سے بڑااحسان اورکیاہوسکتاہے۔
موجودہ امت سے قبل بہت سی قوموں پراللہ نے عمومی عذاب نازل کرکے انہیں تہس نہس کردیا،وجہ یہ تھی کہ وہ بھیانک جرائم میں ملوث تھے ،لیکن جن جن جرائم کی وجہ سے گذشتہ قومیں تباہ وبربادکی گئی،وہ تمام جرائم موجودہ امت کے کسی نہ کسی حلقہ میں موجودہیں اس کے باوجودبھی ان پرعمومی عذاب نہیں آرہا ہے ،کیونکہ رسول رحمت ﷺ نے یہ دعاء کررکھی ہے :
میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو (عمومی غرق) سے ہلاک نہ کیا جائے تو رب نے مجھے یہ عطاکیا۔میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو(عمومی) قحط سے ہلاک نہ کرنا تواللہ نے مجھے یہ عطا کردیا۔(یعنی اس امت کوکسی بھی عمومی عذاب سے ہلاک نہیں کیاجائے گا۔)
یقینا اللہ کے نبی ﷺ کی یہ دعاء موجودہ امت پراحسان عظیم ہے۔
محسن انسانیت ﷺکے احسانات امتِ مسلمہ پر اس قدر ہیں کہ ان کو کسی عدد محصور میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا، انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں فرمایا، آپ مومنین کے حق میں رؤف ورحیم بلکہ رحمتہ للعالمین ہیں بشیر اور نذیر ہیں، آپ ہی کی وجہ سے یہ امت خیرامت کہلائی، آپ ہی کے ذریعے سے کتاب وحکمت کی تعلیم چار دانگ عالم میں عام ہوئی، امت کے افراد کا تزکیہ ہوا، جوامت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے کنارے پہنچ چکی تھی فلاح وکامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی، اس امت پر یہ تمام انعامات صرف آپ ہی کے احسانات کے بدلے مقدر ہوئے۔ آپ کی قرابت ہر مسلمان سے ہے بلکہ آپ کی قرابت دوسروں کی قرابت سے اقویٰ ہے، کیونکہ دنیوی قرابتیں جسمانی اور فانی ہوا کرتی ہیں اور آپ کی قرابت روحانی اور باقی ہے، آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے میں دنیا وآخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ امت کے حق میں بمنزلۂ شفیق مہربان باپ کے ہیں، جب آپ کی ذات میں تمام خصائل جمیلہ وجمیع اسباب محبت موجود ہیں تو آپ کی ذات کیونکر محبت کے لائق نہ ہوگی۔
غرض یہ کہ دنیاوالے اگراس وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہیں کہ اس نے ان پراحسان کیا ہے تومعلوم ہونا چاہیے کہ ان پرسب سے بڑااحسان اللہ کے نبی ﷺ کا ہے لہٰذاان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخصیت اللہ کے نبی ﷺ کی ہونی چاہئے۔
اخلاق و کردار:
دوسراسبب جس کی بناپر دنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ کرداراورخوبیوں کی عظمت ہے،مثلاکوئی کسی فن میں ماہرہے تولوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ،کوئی بڑابہادرہے تولوگ اس پربھی فداء ہوجاتے ہیں ،کوئی بہت اخلاق مندہے تووہ بھی لوگوں کامحبوب بن جاتاہے،وغیرہ وغیرہ یعنی کوئی انسان عمدہ کرداراوراچھی خوبی کامالک ہے تواس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
آپ ﷺہراچھے معاملات میں اعلی کرداراورعمدہ خوبیوں کے مالک تھے ،چنانچہ آپ کے اعلیٰ کردار و اخلاق کی گواہی خودخالق کائنات نے دی ہے :
"اور یقیناً آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔"
(قرآن مجید، سورہ قلم 68، آیت : 4)
آپ ﷺکے اخلاق کا حیرت انگیز نمونہ اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیے:
عمربن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ لوگوں کے ساتھ الفت کامظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سب سے کم ترین شخص سے بھی پوری طرح متوجہ ہوکربات کرتے تھے ،چنانچہ آپ ﷺ مجھ سے بھی اس قدرتوجہ کے ساتھ گفتگوکرتے کہ میں یہ سمجھ بیٹھا کہ میں لوگوں میں سب سے افضل ہوں، چنانچہ ایک دن میں آپ ﷺ سے پوچھ بیٹھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں بہترہوں یا ابوبکر؟آپ ﷺ نے فرمایا:ابوبکر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ میں بہترہوں یاعمر؟ آپ ﷺ نے فرمایا:عمر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ میں بہترہوں یاعثمان؟آپ ﷺ نے فرمایا:عثمان۔تو جب میں نے آپ ﷺ سوالات کئے توآپ ﷺ نے حق گوئی سے کام لیا،کاش کہ میں نے آپ ﷺ سے یہ سوالات ہی نہ کئے ہوتے۔غورکریں کہ آپ ﷺنے ایک عام صحابی کے ساتھ ایسے اخلاق کامظاہرہ کیا کہ اس سے متاثر ہوکرصحابی مذکورنے یہ سمجھ لیاکہ یہ تمام صحابہ سے افضل ہیں تبھی تواللہ کے نبی ﷺان کے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کامظاہرہ کررہے ہیں لیکن جب انہوں نے سوالات کیا تب انہیں معلوم ہوا کہ صحابہ کا مقام اپنی اپنی جگہ مگررسول اکرم ﷺکااخلاق سب کے ساتھ یکساں ہے۔
کیاپوری دنیامیں کوئی ایک بھی ایساانسان مل سکتاہے کہ وہ کسی سے بات کرے تومخاطب یہ سمجھ لے کہ میں اس کی نظرمیں سب سے زیادہ قابل احترام شخص ہوں؟ یقیناایسے اخلاقی کردارکی مثال پیش کرناناممکن ہے۔
اگرکوئی صرف آپ ﷺکے کردارکی عظمتوں پرغورکرلے تووہ خواہ آپ ﷺکادشمن ہی کیوں نہ ہوآپ ﷺسے پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محبت کرنے لگے گا،یہ اندازے کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی مثال موجودہے ،عہدنبوی میں آپ کاایک مشہوردشمن ''ثمامہ بن اثال'' نامی سردارتھا،اس نے مسجد نبوی میں صرف تین دن قید کی حالت میں گذارے اس بیچ نہ تواس پرکوئی جبرکیاگیا اورنہ ہی اسے اسلام کی دعوت دی گئی ،لیکن تین دن کے بعد جب اسے آزاد کردیاگیا تومحض آپ ﷺکے اعلی اخلاق کی بناپرآپ ﷺکایہ مشہوردشمن مسلمان ہوگیااورآپ سے حددرجہ محبت کرنے لگا۔قبول اسلام کے وقت اس کے الفاظ یہ تھے:"اے محمد (ﷺ)اللہ کی قسم !اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض چہرہ میری نظرمیں کوئی اورنہ تھا مگراب میرے نزدیک آپ کاچہرہ تمام چہروں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔"
اگردنیاوالے کسی کے حسن کردارسے متاثرہوکراس سے محبت کرتے ہیں توانہیں چاہئے کہ اللہ کے نبی ﷺسے محبت کریں کیونکہ اللہ کے نبی ﷺہرکارخیرمیں بے مثال کردارکے مالک تھے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
حسن وجمال:
تیسراسبب جس کی بناپردنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ حسن وجمال ہے یہ خوبی بھی آپ کے اندربدرجہ اتم موجودہے،دس سال آپ ﷺکی خدمت کرنے والے انس بن مالک فرماتے ہیں :
اللہ کے نبی ﷺتمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔
حسن وجمال کوبیان کرنے میں سب سے زیادہ مہارت شعراء حضرات کوہوتی ہے،صحابہ کرام میں بھی ایک شاعرحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے اپنے اشعارمیں آپ ﷺکی خوبصورتی کا حیرت انگیز نقشہ کھینچاہے:
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني​
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ​
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ​
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ​
· آپ ﷺسے زیادہ حسین میری آنکھ نے دیکھا نہیں
· آپ ﷺسے زیادہ جمیل کسی خاتون نے جنانہیں
· آپ ﷺکی پیدائش ہرقسم کے عیوب سے اس طرح پاک ہے
· کہ لگتاہے آپ ﷺاپنی خواہش کے مطابق پیداکئے گئے ہیں۔
دونوں اشعار پرغورکریں ،پہلے شعر کے مصرع اول میں ''اجمل ''کالفظ ہے اورمصرع ثانی میں ''احسن '' کالفظ ہے،جمیل اورحسین مترادف الفاظ ہیں لیکن جب یکجا ان کااستعمال ہوتوان میں لطیف فرق ہے،جمیل کامطلب ہوگارنگ ورونق کے اعتبارسے خوبصورت جبکہ حسین کامطلب ہوگاچہرے کی بناوٹ اور ناک و نقشہ کے اعتبارسے خوبصورت کسی بھی انسان کے کامل خوبصورت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہواگرکوئی صرف جمیل ہے یعنی صرف رنگ اچھا ہے لیکن چہرے کی بناوٹ درست نہیں تواسے خوبصورت نہیں کہاجاسکتا،اسی طرح کسی کاچہرہ تو بڑا جمیل ہو مگر رنگ اچھانہیں ہے تواسے بھی خوبصورت کہلوانے کاکوئی حق نہیں ہے۔
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بیت میں دوسرامصرع معنوی اعتبارسے پہلے مصرع کاتکرارنہیں ہے بلکہ شاعررسول دوسرے مصرع میں یہ بتلاناچاہتے ہیں کہ آپ ﷺجمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہیں یعنی حقیقی معنی میں خوبصورت ہیں۔اب دوسرے شعرپرغورکیجئے اس میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺکے حسن وجمال کی مقداربیان کی ہے اوراس کے لئے ایسی عمدہ تعبیراستعمال کی ہے کہ شعرکی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ، کہ آپ ﷺکی بے انتہا خوبصورتی کودیکھ کرایسا لگتاہے کہ آپ ﷺاپنی خواہش کے مطابق پیداہوئے ہوں اوراپنی مرضی سے حسن وجمال کاانتخاب کیاہو۔
اس تعبیرکوسمجھنے کے لئے اس بات پرغورکیجئے کہ تقریباہرانسان خودکوبنانے سنوارنے کی فکرمیں رہتاہے،خصوصاخواتین اس معاملے میں سب سے زیادہ فکرمندہوتی ہیں ،یہ جب ڈریسنگ ٹیبل پرآتی ہیں توخود کوبنانے سنوارنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہیں ،اگران خواتین میں سے کسی سے اللہ تبارک وتعالی یہ کہہ دے کہ اے خاتون تجھے اختیارہے توجس طرح بنناچاہتی ہے بن جا ! توذراسوچئے یہ عورت خود کوکیسا بنائے گی؟ کس درجہ کا حسن وجمال اپنے لئے منتخب کرے گی؟
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ یہی کہناچاہتے ہیں کہ آپ ﷺکے حسن وجمال کودیکھ کرایسالگتاہے کہ اللہ نے آپ سے یہ کہہ دیاہوکہ آپ جس طرح بنناچاہتے ہیں بن جائیے ،اورآپ ﷺنے اپنی مرضی کے مطا بق حسن وجمال کاانتہائی درجہ منتخب کیاہو۔یہ حسن وجمال کے بیان کی ایسی تعبیرہے جوکسی بھی شاعرکے کلام میں نہیں ملتی اس کی وجہ شاعرکی ادبی کمزوری نہیں بلکہ اس کی نظرکی محرومی ہے کسی شاعرنے آپ ﷺجیساحسین وجمیل دیکھاہی نہیں کہ اس کی زبان پربے ساختہ ایسی تعبیرآجائے۔بہرحال حسن وجمال کی خوبی میں بھی آپ ﷺدرجہ کمال کوپہنچے ہوئے تھے ۔
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
"آپ کا چہرۂ انور آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔"
ایک بارپھرواضح رہے کہ محبت کے یہ تمام اسباب آپ ﷺکی ذات میں بیک وقت اوربدرجہ اتم موجودہیں ، جس ذات کے اندر یہ کمالات ہوں اسے یہ کہنے کاحق حاصل ہے:
تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
اس حدیث میں آپ ﷺسے سب سے زیادہ محبت کاجومطالبہ ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے،جب محبت کے جتنے بھی اسباب ہوتے ہیں سب ایک ساتھ اعلی درجہ میں آپ ﷺکی ذات میں پائے جاتے ہیں تواس صورت حال کافطری تقاضہ ہے کہ آپ ﷺسے سب سے زیادہ محبت کی جائے۔
اسباب محبت یہ محبت رسول کا صرف ایک پہلوہے اس کے ساتھ ساتھ محبت رسول کے دیگرپہلوں پرنظررکھنی چاہے محبت رسول کے تقاضے ،محبت رسول میں اضافہ کے اعمال، وغیرہ وغیرہ ۔
نصرت رسول :
آنحضرت ﷺ کے پیغمبرانہ مشن کی خدمت کو قرآنی اصطلاح میں نصرت رسول سے تعبیر کیا گیا ہے ۔یعنی اپنی جان و مال ، ممکنہ وسائل و ذرائع اور علم و عمل کی تمام صلاحیتوں کو نبی کریم ﷺ کے مشن کی خدمت مٰں لگادینا در اصل نبی کریم ﷺ کی نصرت و اعانت ہے جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت کریمہ میں محبت کے تین عناصر بیان کے گئے ہیں:
" (اے محبوب! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب) اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں تگ و دو کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم اللہ کے حکم (عذاب) کاانتظار کرو ۔"
(قرآن مجید، سورہ توبہ 9، آیت : 24)
جس کامطلب یہ کہ کائنات کی کوئی شیٔ اور منفعت خدا کی محبت ، رسول کی محبت اور پیغمبرانہ مشن کی خدمت سے زیادہ عزیز اور محبوب نہیں ہونی چاہیے۔
پیغمبرانہ مشن کی خدمت و مدد کا یہی تصور قرآن مجید میں ایک مقام پر یوں مذکور ہے:
"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اوراپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں تگ و دو کرتے رہے ۔ اللہ کے نزدیک ان کادرجہ بہت بڑا ہے اور وہی لوگ کامیاب و بامراد ہیں۔ "
(قرآن مجید، سورہ توبہ 9، آیت 20)
اطاعت رسول :
حب ِرسول كا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ہے جيساکہ درجہ ذيل دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
" (اے محبوب !) کہہ دو! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرےگا اور تمہارے گناہ معاف فرما دےگا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ "
(قرآن مجید، سورہ آل عمران 3، آیت : 31)
چنانچہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ اسکے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی اتباع رسول کا عملی جامہ پہن لیں۔ اللہ نے نبی اکرمﷺ کی اطاعت کوعین اپنی اطاعت قرار دیا ہے:
"جس نے رسول كى اطاعت كى دراصل اس نے الله كى اطاعت كى۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء4، آیت : 80)
۔ نیز فرمان نبوی ﷺ ہے:
"جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔"
ايك صحابى خدمت ِاقدس ميں حاضر ہوئے اور عرض كى :” يارسول الله! ميں آپ كو اپنى جان و مال، اہل و عيال سے زياده محبو ب ركهتا ہوں، جب ميں اپنے گهر ميں اپنے اہل وعيال كے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زيارت بے قرار كرتاہے تو دوڑا دوڑا آپ كے پاس آتا ہوں، آپ كا ديدار كركے سكون حاصل كرليتا ہوں۔ ليكن جب ميں اپنى اور آپ كى موت كو ياد كرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبيا ئے کرام كے ساتھ اعلىٰ ترين درجات ميں ہوں گے، ميں جنت ميں گيا بهى تو آپ تك نہ پہنچ سكوں گا اور آپ كے ديدار سے محروم رہوں گا۔ یہ سوچ كر بے چين ہوجاتا ہوں اس پر الله تعالىٰ نے سورة النساء كى آيت نمبر 69 نازل فرمائى جس کا ترجمہ یوں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ (روز قیامت) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ ۔ اور بڑی ہی نیک بخت اور عمدہ رفاقت ہے ان لوگوں کی۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء 4، آیت : 69)
صحابى كے اظہارِ محبت كے جواب ميں الله نے یہ آيت نازل كركے واضح فرما ديا کہ اگر تم حب ِرسول ميں سچے ہو اور آنحضور ﷺكى رفاقت حاصل كرنا چاہتے ہو تو رسولِ اكرم ﷺ كى اطاعت و فرمانبردارى اختيار كرو۔
حضرت ربیعہ بن كعب اسلمى روايت كرتے ہيں کہ ايك روز نبى کریم ﷺنے مجهے مخاطب كركے فرمايا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو) ميں نے عرض كيا: "جنت ميں آپ كى رفاقت كا طلب گار ہوں۔" آپ نے فرمايا "کچھ اس كے علاوه بهى ؟" ميں نے عرض كيا "بس يہى مطلوب ہے۔" تو آپ نے فرمايا "تو پهر اپنے مطلب كے حصول كيلئے كثرتِ سجود سے ميرى مدد كرو۔"
گويا آپ نے واضح فرما دياکہ اگر ميرى محبت ميں ميرى رفاقت چاہتے ہو تو عمل كرو۔ يہى حب ِرسول ہے اور معيت ِرسول حاصل كرنے كاذریعہ بهى۔
حضرت عبدالله بن مغفل بيان كرتے ہيں کہ ايك شخص نے رسولِ اكرم ﷺكى خدمت ميں عرض كيا کہ : "يارسول الله ا! مجهے آپ سے محبت ہے۔ "آپ نے فرمايا "جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ كر كہو۔"تو اس نے تين دفعہ كہا، "خدا كى قسم مجهے آپ سے محبت ہے۔" آپ نے فرمايا کہ" اگر مجهے محبوب ركهتے ہو تو پهر فقروفاقہ كے لئے تيار ہوجاؤ (کہ ميرا طريق اميرى نہيں، فقيرى ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت كرتاہے فقر و فاقہ اس كى طرف اس سے زياده تيزى سے آتا ہے جيسى تيزى سے پانى بلندى سے نشيب كى طرف بہتا ہے۔"
گويا جس كے دل ميں حب ِرسول ہے، اسے چاہیے کہ آنحضورﷺكى سنت كى پيروى ميں اپنے اندر سادگى، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا كى صفات پيدا كرنے كى سعى كرتا رہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"جس نے ميرى سنت سے محبت كى، اس نے مجھ سے محبت كى اور جس نے مجھ سے محبت كى، وه جنت ميں ميرے ساتھ هوگا۔"
ایک مقام پر آپ ﷺ فرماتے ہیں:
"تم ميں سے كوئى شخص اس وقت تك موٴمن نہيں ہوسكتا جب تك کہ اپنى خواہشات كو ميرى لائى ہوئى شريعت كے تابع نہ كردے۔"یعنی كافر اور موٴمن ميں تميز ہى يہى ہے کہ جو الله كے رسول كى تابعدارى كرے گا وه موٴمن ہوگا اور جو رسول الله ﷺ كى اطاعت نہ كرے گا، وه كافر ہوگا جيساکہ حضرت ابوہريره فرماتے ہيں کہ رسول الله ﷺ نے فرمايا:"ميرى اُمت كا ہر شخص جنت ميں داخل ہوگا، سوائے اس كے جس نے انكار كيا۔" صحابہ نے عرض کیا : اے الله كے رسول! وه كون شخص ہے جس نے (جنت ميں جانے سے) انكار كيا؟ آپ نے فرمايا: "جس نے ميرى اطاعت كى، وه جنت ميں داخل ہوگا اور جس نے ميرى نافرمانى كى، اس نے انكار كيا۔"
قرآنِ مجيد ميں بهى الله تعالىٰ نے اسی کا حکم دیا ہے:
"اورہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی بنا پراس کی اطاعت کی جائے ۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء4، آیت : 64)
اگر ہم صحابہ كرام رضى الله عنہم كى زندگيوں پر نظر ڈاليں تو آنكھیں كهل جاتى ہيں کہ كيسے انہوں نے حب ِرسول كا حق ادا كيا۔ آپ ﷺكى زندگى كا كوئى گوشہ ایسا نہ تها جسے انہوں نے غور سےنہ ديكها ہو اور پهر اپنے آپ كو اس كے مطابق ڈهال نہ لیا ہو۔ بے شمار آياتِ قرآنى اور احاديث ِرسول كى روشنى ميں یہ بات بالكل واضح ہے کہ حب رسول ﷺكا تقاضا یہ ہے کہ زندگى كے تمام معاملات ميں قدم قدم پر آپ كى اطاعت كى جائے۔ وه محبت جو سنت رسول الله پر عمل كرنا نہ سكهائے محض دھوکہ اور فريب ہے۔ وه محبت جو رسول اكرم ﷺ كى اطاعت و پيروى نہ سكهائے محض لفاظى اور نفاق ہے- وه محبت جو رسول الله ﷺ كى غلامى كے عملى آداب نہ سكهائے محض ريا اور دكهاوا ہے۔
اللہ اور اسکے رسول ﷺسے ان کی اطاعت کے بغیر محبت تسلیم نہیں کی جاتی گرچہ انسان دل سے محبت کیوں نہ کرتا ہو۔جیسا کہ آپ ﷺکے چچا حمزہ کو بھی آپ ﷺسے بے پناہ لگاؤتھا ، جب انہیں علم ہوا کہ ابوجہل نے نبی اکرم ﷺسے بدسلوکی اور بدزبانی کی، تو بھتیجے کی محبت امنڈ پڑتی ہے اور بلا توقف ابو جہل کا رخ کرتے ہیں، ابو جہل کو ذلت آمیز الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے اس پر اپنے کمان سے حملہ آور ہوتے ہیں اور انتقام لینے کے بعد نبی اکرم ﷺکے دربار میں حاضر ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ بھتیجے خوش ہوجا ، میں نے تمہارے دشمن سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے، رسول اللہ ﷺاپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ مجھے ان دنیوی محبتوں سے کبھی خوشی نہیں ملتی جب تک کہ آپ اللہ پر ایمان نہ لے آئیں اور میری اتباع نہ کریں۔ یہ سن کر حمزہ رضی اللہ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
ان آیات و احادیث اور دلائل سے جہاں ایمان بالرسول کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپﷺسے تعلق ومحبت کے بغیر دولت ایمان کا حصول بے بنیاد ہے، اس لیے ایمان بالرسالت کا تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کے ہر حکم کے آگے اپنی جبین عقیدت کو اس طرح خم کردے کہ عقل وخرد اور فکر وفلسفہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ حب نبوی ایمان کی بنیاد بھی ہے اور اس کی معراج کمال بھی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان کا معیار یہی ہے کہ نبی کریم ﷺکے ہر قول وعمل کو بلاچوں وچرا اسی طرح مان لیا جائے جس طرح آپ نے فرمایا یا عملی نمونہ پیش فرمایا، نیز آپ سے ایسی محبت کی جائے جو طبعاً، شرعاً اور عقلاً مطلوب وپسندیدہ ہو۔
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ بہت معلوماتی آگہی سے بھرپور تحریر شریک محفل کرنے پر بہت شکریہ بہت دعائیں محترم بھائی
 

nazar haffi

محفلین
ماشااللہ۔۔۔قابل توجہ حدیث ہے،ہم سب کے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔حضرت ابوہريره فرماتے ہيں کہ رسول الله ﷺ نے فرمايا:"ميرى اُمت كا ہر شخص جنت ميں داخل ہوگا، سوائے اس كے جس نے انكار كيا۔" صحابہ نے عرض کیا : اے الله كے رسول! وه كون شخص ہے جس نے (جنت ميں جانے سے) انكار كيا؟ آپ نے فرمايا: "جس نے ميرى اطاعت كى، وه جنت ميں داخل ہوگا اور جس نے ميرى نافرمانى كى، اس نے انكار كيا۔"
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عالی جناب نایاب صاحب اور عالی مقام نظر حافی صاحبٖ!
:AOA::aadab:
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ مضمون آپ کو پسند آیا۔
پسندیدگی کے لیے شکریہ۔
اللہ تعالی اسے ہماری اور آپ کی عاقبت کی فلاح کا ذریعہ بنائے
آمین ! بجاہ النبی الکریم
 

مہ جبین

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان للہ
اللہ کریم کا بے پایاں فضل کرم اور احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں بہترین امت میں پیدا فرمایا
بس اس ایک احسانِ عظیم کا شکر بھی کماحقہ ادا نہیں کیا جاسکتا
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سرکارِ کریم علیہ الصلواۃ واسلام کی سچی غلامی نصیب فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی سعادت اور توفیقِ رفیق عنایت فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

فارقلیط رحمانی بھیا کے لئے بہت ساری دعائیں
جزاک اللہ خیرا کثیراؐ
 
Top