دھت تیرے کی! (نظم برائے اصلاح)

الفاظ کے ساتھ میر کی ہاتھا پائیوں کو بعد کے اساتذہ نے روا نہیں رکھا لہٰذا گئے بروزن گے درست نہیں۔

میرے خیال میں نا جائز نہیں اس کا استعمال۔ گو کہ آج کل مستعمل نہیں مگر استعمال میں اور خاص مزاحیہ شاعری میں تو اتنی ڈھیل ہوتی ہی ہے۔
 
الف، واو، یاے، ہاے کا اخفاء بنیادی طور پر تو شاعر کی صواب دید پر ہوتا ہے۔

لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ میں یا آپ شعرگوئی کیوں اختیار کرتے ہیں؟ دیگر بہت سارے عوامل کے ساتھ ایک ہے: اپنی بات کو ممکنہ حد تک بہتر انداز میں اور خوبی سے ادا کرنا۔ یعنی جمالیات! صوتیاتی، معنوی، محسوساتی، لسانی سطح پر کہیں بھی کوئی بھی ناگواری پیدا ہو تو جمالیاتی سطح متاثر ہوتی ہے اور شعر کا لطف جاتا رہتا ہے۔ مجھے جناب محمداحمد سے اتفاق ہے۔ مفاعیلن مفاعیلن فعولن (ہُ ئے فے لُر ۔ دُ کے ہم اِم ۔ ت حاں میں)۔ ’’اردو‘‘ کی تو یہاں راے اور دال بچی، الف اور واو تو گئی! ایک اور بات! وہ ہے ردیف کا انتخاب۔ اختیار آپ کا ہے، تاہم معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہ ’’ادب کی زبان‘‘ نہیں لگی۔

ایک عمومی قاعدہ ہے کہ آپ مزاح لکھیں یا سنجیدہ شاعری کریں، اُس کی معنوی اور فکری گہرائی ہوتی ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ دوسرے یہ کہ: جب آپ غزل کے فارمیٹ میں بات کرتے ہیں تو وہی کئی بار کی دہرائی ہوئی بات، آپ کو دو مصرعوں میں ایک مضمون پورا بیان کرنا ہے اور دونوں مصرعوں کو چاہئے معنوی سطح پر ایک دوجے کو مضبوط کریں، یہ آپ کے شعر کی مضبوطی ہے۔

کوشش کیجئے کہ ابلاغ میں بھی جامعیت ہو۔ کسی بات کے معانی یا مطالب سمجھنے میں کسی دقت کا نہ ہونا، ابلاغ کے صرف ایک تقاضے کو پورا کرتا ہے۔ چاہئے تو یہ کہ آپ کی بات ’’اپنی روح سمیت‘‘ قاری تک پہنچے۔ پختگی ایک دم نہیں آتی، وہ آتے آتے آتی ہے، جوں جوں آپ کا مطالعہ، آپ کا علم بڑھتا جاتا ہے اور آپ شعری ’’حربوں‘‘ سے شناسا ہوتے جاتے ہیں، آپ کے کلام میں پختگی آتی ہے۔ کسی معروف شاعر کے کلام کا جب حوالہ دیا جاتا ہے تو حوالہ دینے والے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ جی ’’مجھے اس سے کم تر قبول نہیں‘‘، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ: صاحب! یہ ایک حوالہ ہے، اس کی طرف سفر تو کیجئے!۔

چلو، آؤ، چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​

محمد اسامہ سَرسَری
 

فاتح

لائبریرین
نہیں ایسا نہیں ہے فاتح بھائی۔ پہلی بات تو یہ کہ چ حرفِ روی نہیں ہے۔ اور اگر ہوتا بھی تو اس کے ساتھ چھ کا استعمال درست نہ ہوتا۔ یوں "چ" کا ٹھہراؤ ہی باقی نہیں رہا۔ جیسے بات، اور گھات کا قافیہ ساتھ، ہاتھ نہیں ہو سکتا۔
بات ہاتھ کے قوافی نہ صرف موجودہ دور کے اساتذہ نے برتے ہیں بلکہ قدما اساتذہ کے ہاں بھی اونگھنا سونگھنا کے ساتھ ٹھونگنا بطور قافیہ برتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی بات کو بھی درست مان لیا جائے کہ چ اور چھ کی بجائے ل حرف روی ہے تب بھی ما قبل کی حرکت کو کیا کیجیے گا؟ نِچلا، پِچھلا، پَگلا اور جُملہ۔۔۔
مطلع میں حرف روی سے قبل چار حروف تک جتنے حروف کی حرکات کو پابند کیا جاتا ہے، بعد کے اشعار میں ان حروف کی حرکات کو ملحوظ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ پابندی نہ کرنی ہو تو مطلع میں قافیہ کھلا رکھا جانا چاہیے کیوں کہ غزل کے باقی اشعار کے قافیے کے لیے مطلع ہی ٹکسال ہوتا ہے۔
 
بات ہاتھ کے قوافی نہ صرف موجودہ دور کے اساتذہ نے برتے ہیں بلکہ قدما اساتذہ کے ہاں بھی اونگھنا سونگھنا کے ساتھ ٹھونگنا بطور قافیہ برتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی بات کو بھی درست مان لیا جائے کہ چ اور چھ کی بجائے ل حرف روی ہے تب بھی ما قبل کی حرکت کو کیا کیجیے گا؟ نِچلا، پِچھلا، پَگلا اور جُملہ۔۔۔
مطلع میں حرف روی سے قبل چار حروف تک جتنے حروف کی حرکات کو پابند کیا جاتا ہے، بعد کے اشعار میں ان حروف کی حرکات کو ملحوظ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ پابندی نہ کرنی ہو تو مطلع میں قافیہ کھلا رکھا جانا چاہیے کیوں کہ غزل کے باقی اشعار کے قافیے کے لیے مطلع ہی ٹکسال ہوتا ہے۔

جی درست۔ اب پہلی بات تو یہ ہے کہ قافیہ کا کلیہ قاعدہ ہے جب حرف روی متحرک ہو تو ما قبل کی حرکت کی مطابقت ضروری نہیں۔ یہ مکمل اصول ہے۔ لام جب خود ہی متحرک ہے تو اب کوئی بھی ایسا اصول نہیں دکھایا جا سکتا جس میں لام سے پہلے کی حرکت کی پابندی ضروری ثابت ہو جائے۔
دوسری بات: یوں بھی عقلی دلیل دیکھیں کہ نچلا سے پہلے جب حروف ہی بدل کر کہیں گاف ہے، کہیں میم ہے، تو حرکت کی مطابقت چہ معنی دارد؟
تیسری اور آخری بات: اس غزل کے قوافی میں حرفِ روی الف ہے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
جی درست۔ اب پہلی بات تو یہ ہے کہ قافیہ کا کلیہ قاعدہ ہے جب حرف روی متحرک ہو تو ما قبل کی حرکت کی مطابقت ضروری نہیں۔ یہ مکمل اصول ہے۔ لام جب خود ہی متحرک ہے تو اب کوئی بھی ایسا اصول نہیں دکھایا جا سکتا جس میں لام سے پہلے کی حرکت کی پابندی ضروری ثابت ہو جائے۔
دوسری بات: یوں بھی عقلی دلیل دیکھیں کہ نچلا سے پہلے جب حروف ہی بدل کر کہیں گاف ہے، کہیں میم ہے، تو حرکت کی مطابقت چہ معنی دارد؟
تیسری اور آخری بات: اس غزل کے قوافی میں حرفِ روی الف ہے۔ :)
میرے خیال میں آپ کو (اور مجھے بھی) علمِ قافیہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ :)
میں اپنی بات پر اب بھی قائم ہوں کہ قوافی غلط ہیں
 
میرے خیال میں آپ کو (اور مجھے بھی) علمِ قافیہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ :)
میں اپنی بات پر اب بھی قائم ہوں کہ قوافی غلط ہیں

میں بھی قائم ہی ہوں جناب۔ قوافی درست ہیں۔ اگر آپ کو غلط لگتے ہیں تو کوئی دلیل ہوگی۔ وہ دلیل ضرور جاننا چاہونگا۔ اورساتھ ہی اگر کسی مستند کتاب کا حوالہ دیں تو پڑھ کر اپنی تصحیح کرنے میں کوئی عار نہیں۔ :)
 
مزاح نگاری کے حوالے سے پروفیسر انور مسعود کی بہت قیمتی باتیں اور کچھ راہ نما اصول یہاں دیکھئے۔
http://www.4shared.com/office/6qma4VBn/Shakhsiyat.html?
یہ کتاب ڈاؤن لوڈ کر لیجئے، اس میں ’’احساس کا پُتلا‘‘ کے زیرِ عنوان پروفیسر صاحب سے ایک طویل انٹرویو ہے۔ ضرور پڑھئے گا۔
میں نے کتاب لے کر مطالعہ شروع کردیا ہے، جزاکم اللہ خیرا۔
 

الف عین

لائبریرین
قوافی پر تو مجھے بھی شک ہے کہ درست نہیں۔ ویسے مزاحیہ غزل میں اس قسم کی اغلاط کی اجازت مزاح نگار اپنا حق سمجھتے ہیں شاید۔ بہت سی مزاحیہ غزلوں میں عروض کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے، اور مشاعروں میں بھی ایسی غزلیں پڑھ کر مشاعرہ لوٹا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ کچھ تو مکمل بے بحری بھی ہوتی ہیں!!
ایک مصرع پر فاتح کی اصلاح درست ہے۔
 
قوافی پر تو مجھے بھی شک ہے کہ درست نہیں۔ ویسے مزاحیہ غزل میں اس قسم کی اغلاط کی اجازت مزاح نگار اپنا حق سمجھتے ہیں شاید۔ بہت سی مزاحیہ غزلوں میں عروض کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے، اور مشاعروں میں بھی ایسی غزلیں پڑھ کر مشاعرہ لوٹا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ کچھ تو مکمل بے بحری بھی ہوتی ہیں!!
ایک مصرع پر فاتح کی اصلاح درست ہے۔
نظر کرم فرمانے کا بہت شکریہ استاد جی!
اگر قوافی پر شک کی وضاحت فرمادیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
ایک مرتبہ پھر توجہ فرمانے پر جزاکم اللہ خیرا۔
 
آخری تدوین:
میاں نے "اوردو"، "اردو" کو کہہ کر
"گئے" کو "گے" سا بولا دھت ترے کی

تعجب! چھینک اور سورج نمائی
کیا فقرے کو جملہ دھت ترے کی
سعود بھائی کسی نے مجھ سے فقرے اور جملے کا فرق پوچھا تو آپ کا یہ مراسلہ یاد آگیا، تلاش کرکے پڑھا چار مصرعوں میں چار اصلاحی باتیں پڑھ کر دوبارہ لطف آیا۔
کچھ وضاحت فرمائیں کہ فقرے اور جملے میں کیا فرق ہے؟
 
سعود بھائی کسی نے مجھ سے فقرے اور جملے کا فرق پوچھا تو آپ کا یہ مراسلہ یاد آگیا، تلاش کرکے پڑھا چار مصرعوں میں چار اصلاحی باتیں پڑھ کر دوبارہ لطف آیا۔
کچھ وضاحت فرمائیں کہ فقرے اور جملے میں کیا فرق ہے؟
جملے میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ :) :) :)
 
”دھت تیرے کی“
کیا یہ جملہ نہیں ہے؟
(میں محض اپنے سمجھنے کے لیے پوچھ رہا ہوں)
اجی اب کون ان تکنیکی باتوں میں پڑے۔ کہیں ہم سے بتانے میں غلطی ہو گئی تو کسی کے اعتراض پر ندامت جو ہو سو ہو، الٹا غلط معلومات پھیلانے کا دکھ سوا ہوگا۔ :) :) :)
 
اجی اب کون ان تکنیکی باتوں میں پڑے۔ کہیں ہم سے بتانے میں غلطی ہو گئی تو کسی کے اعتراض پر ندامت جو ہو سو ہو، الٹا غلط معلومات پھیلانے کا دکھ سوا ہوگا۔ :) :) :)
اور پھر بے اختیار یہی فقرہ(یا شاید جملہ بھی) ادا ہوگا ۔۔۔ دھت تیرے کی!!! :) :) :)
 
Top