دھت تیرے کی! (نظم برائے اصلاح)

مزمل حسین

محفلین
مزمل شیخ بسمل صاحب اور فاتح صاحب!
جانے سے پہلے قوافی کا تنازعہ تو حل کردیتے۔ ۔
جہاں تک مجھے محسوس ہوتا ہے پچھلا اور نچلا کو مطلع میں لانے کا مطلب ہے باقی تمام اشعار میں ''چلا یا چھلا'' قافیہ ہو گا (شاید تکنیکی زبان میں انھیں حروفِ روی کہیں گے؟)۔
بشرطیکہ اگر چ اور چھ والے قوافی قابلِ قبول ہیں تو ہر قافیہ میں لام سے پہلا حرف مجزوم (لازماً چ یا چھ) اور اس سے بھی پہلا حرف مکسور ہو گا۔
مختصر یہ کہ قوافی مندرجہ ذیل مثالوں کے مطابق لانے ہوں گے:
پچھلا، نچلا، رِچلا، کِچھلا، گِچلا وغیرہ۔

اگر یہ ناممکن ہے تو پھر مطلع کے قوافی بدلنے ہوں گے۔
اس نظم میں مطلع کے علاوہ دیگراشعار میں میرے نزدیک قافیہ ہے ہی نہیں۔

میں مزید جاننا چاہوں گا کہ کیا مجھے غزل کے مطلع میں روشنی کا قافیہ چاندنی باندھنا چاہئے؟ روشنی اور چاندنی کو میں دو الگ الگ کی بجائے ایک ہی قافیہ سمجھتا ہوں، جب کہ ایک قافیہ دو اشعار میں لانا تو صحیح ہے لیکن مطلع کے دونوں مصروعوں میں کیا یہ جائز ہے؟
مثال کے طور پر:
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ماجرا، وفا، برا۔ ۔ یعنی حرفِ روی الف ہے تو کیا مطلع میں ایک ہی قافیہ دونوں مصرعوں میں چلے گا؟

نوٹ: میرے پیش کیے گئے نقاط کی بنیاد باقاعدہ علم پر نہیں، محض ایک عام قاری کی محسوسات پر ہے۔
ماہرین رہنمائی فرمائیں۔
 
آخری تدوین:
Top