قلندر کا مفہوم

آبی ٹوکول

محفلین
یہ دونوں کتب میرے پاس ہیں اور ہر کتاب میں دراصل شاہ صاحب کے چالیس بیالیس لیکچرز کو قلمبند ہی کیا گیا ہےآپ کو اگر کتاب نہ بھی ملے تو انکی ویب سائٹ پر موجود 223 لیکچرز کو ایک ایک کرکے سن لیں یا ڈاؤنلوڈ کر لیں۔۔۔ ۔
محمود بھائی انکی ایک کتاب کہے فقیر کا کسی حد تک مطالعہ تو میں نے بھی کیا تھا مگر مجھے کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکی خاص طور پر نظریہ توحید کے معاملے میں ویسے یہ کون صاحب ہیں انکے بارے میں کچھ مزید معلومات دےس کتے ہیں آپ ؟؟؟
 
قلندر
خاصے قیمتی اور قابلِ توجہ مباحث ہو چکے۔ اس پر کوئی مفید اضافہ نہیں کر سکوں گا۔

اقبال کی لفظیات کے حوالے کوئی مستند کتاب یا مخطوطہ کسی صاحب کی رسائی میں ہو تو اس کا اتہ پتہ عنایت فرمائیں۔ اقبال کے ہاں بہت سارے اسماء اپنے عمومی معانی سے کسی قدر مختلف معانی میں بھی آتے ہیں۔
 
محمود بھائی انکی ایک کتاب کہے فقیر کا کسی حد تک مطالعہ تو میں نے بھی کیا تھا مگر مجھے کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکی خاص طور پر نظریہ توحید کے معاملے میں ویسے یہ کون صاحب ہیں انکے بارے میں کچھ مزید معلومات دےس کتے ہیں آپ ؟؟؟
شاہ صاحب کو سید یعقوب علی شاہ صابری کےی طرف سے خلافت حاصل ہے اسکے علاوہ انہیں داتا صاحب کی جانب سے بھی خلافت سے نوازا گیا ہے (انکے ایک لیکچر میں انہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے)۔ معروف روحانی شخصیت ہیں ۔ ممتاز مفتی کی الکھ نگری اور اشفاق احمد صاحب کی تحریروں میں بھی انکا ذکر ملتا ہے۔۔صاحبِ کشف بزرگ ہیں۔ اگرچہ انہیں اجازت و خلافت حاصل ہے لیکن روایتی پیری مریدی نہیں کرتے۔ بس لیکچرز کا سلسلہ جاری ہے ۔ کافی پڑھے لکھے ہیں ۔ 1966 سے پہلے انہوں نے ایم بی اے کیا اور سوئی گیس کے محکمے میں ہائی لیول منجمنٹ میں شامل رہے۔ ابھی بھی جاب کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ لندن میں کسی یونیورسٹی میں بزنس اینڈ مینجمنٹ پر لیکچرز بھی دیتے رہے ہیں۔
اگر آپ انہیں روایتی دیوبندی یا بریلوی پیمانے سے دیکھیں تو کئی معاملات میں اپکو یہ بریلوی مکتبہ فکر کے قریب نظر آئیں گے اور کئی دیگرمعاملات میں دیوبندی سکول آف تھاٹ سے ہم آہنگ محسوس ہونگے۔ لیکن انکو ان دونوں مکاتب کے ساتھ identify نہ ہی کریں تو زیادہ درست بات ہوگی۔ کیونکہ انکی ساری گفتگو زیادہ تر اپنے اوپر بیتی ہوئی روحانی واردات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کے مطابق ہوتی ہے۔ انکے لیکچرز کا بھی اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے کانسپٹس کلئیر کردئیے جائیں روحانیت و تصوف کے حوالے سے۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت شکریہ محمود بھائی آپ کی اتنی محبت کا کہ یوں شفقت فرمائی اچھا تعارف دیا آپ نے حضرت کا ۔ بحرحال میں بھی انکو روایتی دیوبندی بریلوی مکاتب ہائے فکر کے حوالوں سے نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ مجھے تعجب ان کی کتاب پڑھ کر انکے علم اور انکی شخصیت کے حوالہ سے انکے تصور توحید پرہی ہو اتھا بحرحال ۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آپکو کس بات پر تعجب ہوا تھا؟۔۔معلومات کیلئے پوچھ رہا ہوں :)
چھوڑیں محمود بھائی پھر کسی اور موقع پر سہی اب حافظہ اتنا قوی نہیں رہا کتاب میں نے ساری نہیں پڑھی مطالعہ شروع ہی کیا تھا کہ پھر واپسی ہوگئی سپین میں اور کتاب پاک میں اپنی لائبریری میں چھوڑ آیا
 

آبی ٹوکول

محفلین
ہوسکتا ہے محمود بھائی کہ میرا سرسری مطالعہ مجھے انھے سمجھنے مین دقت بنا ہو واللہ اعلم ورسولہ
 
ہوسکتا ہے محمود بھائی کہ میرا سرسری مطالعہ مجھے انھے سمجھنے مین دقت بنا ہو واللہ اعلم ورسولہ
چھوٹی موٹی باتوں میں اختلافات چلتے ہی رہتے ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی دو شخص بعینہِ ایک ہی انداز میں نہیں سوچتے۔۔ذوق، مشرب اور مزاج کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے، خاص طور پر صوفیوں میں۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ ایک مسجد میں دو مولوی، ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک شلطنت میں دو بادشاہ تو شائد ایڈجسٹ نہیں ہوسکتے، لیکن ایک گڈری میں کئی صوفی ایک دوسرے کے ساتھ گذارہ کر جاتے ہیں :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے محترم بھائی میں تو خود روشنی کی تلاش میں ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہرحال میرے ناقص علم میں یہ سب کچھ ایسے ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

یہ بہت پیچیدہ اور متنازغہ قسم کا موضوع ہے ۔ اس پر گفتگو آسان نہیں ۔ یہ " عبادت ریاضت اور مشاہدے " سے حاصل ہونے والی ایسی کیفیات کا نام ہے ۔ جو صرف ان پر ہی عیاں ہوتی ہیں جوکہ ان اعمال کو کماحقہ ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ تصوف اک بحر بے کنار کا نام ہے جس میں اترنے والا ہی اس کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔
تصوف کیا ہے ۔ اس کی بنیاد کیا ہے ۔ اس کی راہ پر چلنے کے آداب کیا ہیں ۔ اس راہ پر کون کون سی منزلیں " پڑاؤ " کی صورت راہ سلوک کے مسافر جسے " سالک " کہا جاتا ہے کہ سامنے آتی ہیں ۔
راہ سلوک کے مسافر درجہ بدرجہ ان منازل تک پہنچتے ہیں ۔ اور " سالک " ابدال " قطب " غوث " کہلاتے ہیں ۔
تصوف کی آخری منزل جو کہ " امور تکوینی " بجا لانے کی منزل ہے وہ جناب حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے پاس ہے ۔ اور سورت کہف میں ان کا بیان ہے ۔اور کوئی صوفی کوئی انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔
تصوف کو " راہ سلوک " بھی کہا جاتا ہے ۔ ایسی راہ جس پر چلتے کوئی انسان دوسرے انسانوں کے لیئے آسانیوں کا سبب بنے ۔ اور انسانیت کی فلاح اور سلامتی کا پیغامبر ٹھہرے ۔
سالک وہ ہستی کہلاتی ہے جو " مسلمان " ( انسانیت کے لیئے سلامتی کا پیغامبر )ٹھہرتے قران پاک میں بیان کردہ فرمان الہی کو جان سمجھ کر اپنی ذات اور بیرون ذات بکھرے کائنات کے مظاہر پر غوروفکر کرنے کے حکم کو بجا لانے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔
اور جب وہ اس عمل میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے سامنے سے حجابات سمٹنے لگتے ہیں ۔ اور وہ حقیقت سے واقف ہوتے " خلاق العظیم " کے پاک ذکر میں محو ہوجاتا ہے ۔ اور سورہ آل عمران میں کی آخری آیات میں فرمائے گئے ارشاد پاک کا عملی ثبوت بن جاتا ہے ۔
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [٣:١٩١]
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، [طاہر القادری]
جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے [ابوالاعلی مودودی]
جو اللہ کی یاد کرت ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے، [احمد رضا خان] جو اٹھتے، بیٹھتے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے (برابر) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی تخلیق و ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ فضول و بیکار پیدا نہیں کیا۔ تو (عبث کام کرنے سے) پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ [آیۃ اللہ محمد حسین نجفی]
جو لوگ اٹھتے, بیٹھتے, لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں... کہ خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہّنم سے محفوظ فرما [سید ذیشان حیدر جوادی]
وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزح کے عذاب سے بچا [احمد علی]
جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے [محمد جوناگڑھی]
﴿١٩١﴾

راہ سلوک کے مسافر ان منازل تصوف کے اثبات میں درج ذیل حدیث مبارکہ بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:
من عادی لی ولیا فقد اٰذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشیئ احب الی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ، فاذا احببتہ: کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصربہ، ویدہ التی یبطش بھا، ورجلہ التی یمشی بھا، وان سالنی لاعطینہ، ولانستعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیئ انا فاعلہ ترددی عن النفس المومن یکرہ الموت وانا اکرہ مساءتہ۔ او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(بخاری، ابن حبان، بیہقی(
ترجمہ: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ کسی ایسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو،اور میرا بندہ مسلسل میری نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان کی سماعت بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ کا نور بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ کی گرفت بن جاتا ہو جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاءوں کی توانائی بن جاتا جس سے وہ چلتا ہےاگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور بر ضرور پناہ دیتا ہوں ۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی متردد نہیں ہوتا جیسے بندہءمومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں ایسے میں کہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔"
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے کلام میں جہاں " مرد مومن اور قلندر " بارے اپنے قلم کو حرکت دی ہے وہاں انہوں نے " خودی " کے اثبات کو لازم قرار دیا ہے ۔
خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
خودی کیا ہے ؟
درحقیقت خود سے آگاہی ہے کہ اقبال کہ اس پیغام کی اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ۔ ۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نےاپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔
" راہ سلوک کا یہ سفر " خود شناسی سے شروع ہوکر بندے کو خدا شناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں بندہ کو بقاء و دوام تب نصیب ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خدا شناسی میں گم کردیتا ہے تب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہوجاتا ہے ۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگی انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت پر مجبور کرتی ہے
" سالک " سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے " ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں ۔
کچھ اہل تصوف "فقیر و درویش " کو بھی " سالک " کے حکم میں قرار دیتے ہیں ۔
سبحان اللہ
کیا خوب لکھا ہے۔
بہت بہت شکریہ نایاب صاحب اس معلوماتی تحریر کے لیے بیحد ممنون ہوں آپ کا۔
 
مجھ کم علم کو کیسے یاد فرمالیا ۔
سب سے پہلے تو آپ لوگوں کو بتاتا چلوں کہ کہے فقیر کے سے نام اے آر وائی نے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے میزبان مشہور شاعر وصی شاہ ہیں اور مہمان سید سرفراز شاہ ہیں آپ کو گوگل سرچ میں پچھلے پروگرامز مل جائیں گے۔
اب رہ گئی بات قلندر کی تو قلندر کا ذکر سیدِ ہجویر قدس سرہ العزیز نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف کشف المحجوب میں بیان فرمایا ہے دنیا میں ہروقت 7 قلندر مؤجود ہوتے ہیں۔
جہاں تک قلندر کی تعریف کا تعلق ہے تو "تذکرہ قلندر بابااولیاء" جو کہ خواجہ شمس الدین عظیمی نے غالبا 27 اکتوبر 1982 نے تحریر کی تھی اس کتاب کے صفحہ نمبر 21پر خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ " ایسا انسان جس کے دیدہ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہرشئے کی شیئت اٹھ گئی ہو اور وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے یہاں تک کہ عالمِ تکوین سے بالا قدم رکھے اور مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کرکے مقامِ وحدت کی مستی اور بے کیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آئے۔ اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محو رہے۔ پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے، یہاں تک کہ اس کا عروج و نزول ایک ہوجائے۔ جز میں کُل اور کُل میں جز کو دیکھے،پجر ان تمام سے مستغنی ہوکر حیرتِ محمودہ یعنی سرور میں رہے تو اس کو قلندر کہتے ہیں "
میں اس تعریف سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کیونکہ یہ کسی بھی ولی کامل جو کہ فنا فی اللہ بقا باللہ کا حامل ہو اس کی تعریف ہے ۔
میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ قلندر ایک ایسی ہستی ہے جو کہ دیوانہ کردینے والی تجلیات کو اپنے نفس میں سمو لینے کی اہلیت رکھتا ہو یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی بعض تجلیات ایسی ہوتی ہیں کہ جو کہ کاسہ دماغ کو الٹ پلٹ کررکھ دیتی ہیں۔ قلندر ایک ایسے قوی نفس کا نام ہے جو کہ ان فریکیوئنسیوں کا اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔
قارئین سے ایک گزارش کرونگا کہ خدا را مجھے اس قسم کے دھاگوں میں ٹیگ مت کیا کیجئے کیونکہ یہ موضوع کافی دقیق اور پیچیدہ ہوتے ہیں جیسے کہ آپ دیکھ لیں کہ اوپر شمس الدین عظیمی صاحب نے ایک لفظ استعمال کیا ہے جس کو مراتب وجود کہتے ہیں۔ اب ایک عام محفلین کو کیا پتہ کہ یہ کیا چیز ہے اوپر سے ادھر فضلول قسم کے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کا کام ہی اعتراض ہے جس کی وجہ ادھر اردو محفل میں ایسے موضوعات کے لیئے کسی موزوں زمرہ کا نہ ہونا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
مجھ کم علم کو کیسے یاد فرمالیا ۔
سب سے پہلے تو آپ لوگوں کو بتاتا چلوں کہ کہے فقیر کے سے نام اے آر وائی نے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے میزبان مشہور شاعر وصی شاہ ہیں اور مہمان سید سرفراز شاہ ہیں آپ کو گوگل سرچ میں پچھلے پروگرامز مل جائیں گے۔
اب رہ گئی بات قلندر کی تو قلندر کا ذکر سیدِ ہجویر قدس سرہ العزیز نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف کشف المحجوب میں بیان فرمایا ہے دنیا میں ہروقت 7 قلندر مؤجود ہوتے ہیں۔
جہاں تک قلندر کی تعریف کا تعلق ہے تو "تذکرہ قلندر بابااولیاء" جو کہ خواجہ شمس الدین عظیمی نے غالبا 27 اکتوبر 1982 نے تحریر کی تھی اس کتاب کے صفحہ نمبر 21پر خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ " ایسا انسان جس کے دیدہ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہرشئے کی شیئت اٹھ گئی ہو اور وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے یہاں تک کہ عالمِ تکوین سے بالا قدم رکھے اور مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کرکے مقامِ وحدت کی مستی اور بے کیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آئے۔ اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محو رہے۔ پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے، یہاں تک کہ اس کا عروج و نزول ایک ہوجائے۔ جز میں کُل اور کُل میں جز کو دیکھے،پجر ان تمام سے مستغنی ہوکر حیرتِ محمودہ یعنی سرور میں رہے تو اس کو قلندر کہتے ہیں "
میں اس تعریف سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کیونکہ یہ کسی بھی ولی کامل جو کہ فنا فی اللہ بقا باللہ کا حامل ہو اس کی تعریف ہے ۔
میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ قلندر ایک ایسی ہستی ہے جو کہ دیوانہ کردینے والی تجلیات کو اپنے نفس میں سمو لینے کی اہلیت رکھتا ہو یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی بعض تجلیات ایسی ہوتی ہیں کہ جو کہ کاسہ دماغ کو الٹ پلٹ کررکھ دیتی ہیں۔ قلندر ایک ایسے قوی نفس کا نام ہے جو کہ ان فریکیوئنسیوں کا اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔
قارئین سے ایک گزارش کرونگا کہ خدا را مجھے اس قسم کے دھاگوں میں ٹیگ مت کیا کیجئے کیونکہ یہ موضوع کافی دقیق اور پیچیدہ ہوتے ہیں جیسے کہ آپ دیکھ لیں کہ اوپر شمس الدین عظیمی صاحب نے ایک لفظ استعمال کیا ہے جس کو مراتب وجود کہتے ہیں۔ اب ایک عام محفلین کو کیا پتہ کہ یہ کیا چیز ہے اوپر سے ادھر فضلول قسم کے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کا کام ہی اعتراض ہے جس کی وجہ ادھر اردو محفل میں ایسے موضوعات کے لیئے کسی موزوں زمرہ کا نہ ہونا ہے۔
محترم روحانی بابا جی
ماشاءاللہ ۔۔۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم سے نواز رکھا ہے ۔
کیا ہی خوب تعریف کی ہے " قلندر " کی ۔
آپ روشن چراغ کی مثال ہیں ۔ اور چراغ اس فکر سے دور رہتے اپنی روشنی چہار جانب بکھیرتا ہے کہ کون کس نیت سے اس کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے ۔ آپ جیسے صاحب علم اگر ان فکروں میں الجھ علم کی روشنی کو " مراتب وجود " تک محدود کریں گے ۔ تو مجھ جیسے " جاہل عام فضول " لوگ سدا اعتراض میں الجھے " علم " سے دور رہیں گے ۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی " اعتراض " کبھی فضول نہیں ہوتا ۔ اگر اعتراض نہ ہو تو " مباحث علم " کبھی رواں نہیں رہ سکتے ۔ معترض " بہر صورت " اپنے جہل کو علم میں بدلنے کے لیئے " اعتراض " کو اپنا ذریعہ بناتا ہے ۔
سو ہم جیسوں کے لیئے کچھ لکھ دیا کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب
۔نایاب بھائی یہ نصف قلندر والی بات کھوپڑی میں نہیں بیٹھ رہیِِ!
کیا عورت ہونے کی وجہ سے انہیں نصف قلندر کہتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟
محترم بھائی میرے ناقص خیال سے اس کی دو وضاحتیں ہیں ۔
اک یہ کہ یہ " نصف " اک مرد کے مقابلے پر دو عورتوں کی گواہی کے اصول پر استوار ہے ۔۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ " دوران رضاعت " لڑکے کو لڑکی کی نسبت " دوگنا وزنی " ماں کا دودھ ملتا ہے ۔ ۔۔ یعنی لڑکی کو لڑکے کی نسبت " نصف "
باقی اہل علم ہی اس کی مناسب وضاحت کر سکتے ہیں ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تصوف میں یہ واحد مقام ہے جو کہ اپنے آپ میں مکمل ہے ۔ باقی تمام تصوف کے سلسلے راہ سلوک پر چلتے سالک سے ولی ۔ ولی سے ابدال ابدال سے قطب قطب سے غوث کی جانب رواں رہتے ہیں ۔
ابدال۔۔۔۔۔۔قطب۔۔۔۔۔۔۔۔غوث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تعریف کیا ہے
" سالک " سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے " ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں ۔

یعنی بے ہوشی و مستی جتنی زیادہ ہوگی اتنے ہی مدارج زیادہ ہوں گے ۔مقام ء فنا کے بعد بھی کوئی درجہ ہوگا جو ان مدارج سے گزرتا ہو

تصوف کی آخری منزل جو کہ " امور تکوینی " بجا لانے کی منزل ہے وہ جناب حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے پاس ہے ۔ اور سورت کہف میں ان کا بیان ہے ۔اور کوئی صوفی کوئی انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔
تکوینی امور کا ولی یا کسی ایسے صاحب ئ ہستی سے کیا تعلق ہے اور کونسا مقام جناب ء خضر کو دیا گیا ہے ۔ جناب ء خضر نے کیا واقعی ہی آب ء حیات پیا تھا

مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کرکے مقامِ وحدت کی مستی اور بے کیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آئے


احدیث کیا ہے ؟ مشاہدہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے ؟

پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے
جناب حضرت ابراہیم علیہ سلام کا مقام صدیق تھا جبکہ حضرت ایوب علیہ سلام کا مقام عبد تھا جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عام انسان یہ مقام کیسے پا سکتا ہے ؟


اک یہ کہ یہ " نصف " اک مرد کے مقابلے پر دو عورتوں کی گواہی کے اصول پر استوار ہے ۔۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ " دوران رضاعت " لڑکے کو لڑکی کی نسبت " دوگنا وزنی " ماں کا دودھ ملتا ہے ۔ ۔۔ یعنی لڑکی کو لڑکے کی نسبت " نصف "
باقی اہل علم ہی اس کی مناسب وضاحت کر سکتے ہیں ۔


یہ سراسر نا انصافی ہے اور اس کو ایسا کیوں کہا گیا ہے اس کی لاجک کیا ہے
 

نایاب

لائبریرین
ابدال۔۔۔۔۔۔قطب۔۔۔۔۔۔۔۔غوث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تعریف کیا ہے
میری محترم بٹیا
تصوف کی ابتدا یا تصوف کی بنیاد جو کلمہ کہلاتا ہے ۔ وہ کچھ یوں ہے کہ
" جس نے خود کو جان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا "
خود کی پہچان کے لیئے اپنے باطن کو چھاننے کے سفر میں نکلنے والے راہ سلوک پر رواں رہتے " سالک ،ابدال ۔ قطب ، غوث ، عبد " کی منزل سے گذر حقیقت کی حقیقت کو پاتے ہیں ۔ اور فلاح انسانیت میں مصروف رہتے تاریکی میں نور کی شمع جلائے رکھتے ہیں ۔
ان کی سچی حقیقت سے تو صرف رب سچا ہی آگاہ ہوتا ہے ۔ اور یہ خود میں مست اللہ مسبب الاسباب کی حکمت پوری ہونے کے سبب اسی کی رضا اور امر سے تلاشتے ہیں ۔ یہ جہان تصوف میں ایسی ہستیاں قرار دی جاتی ہیں جنہوں نے خود کو پہچان کر اپنے خالق کی پہچان کر لی ہوتی ہے ۔ اور یہ اپنے نفس پر ایسے قادر ہوتے ہیں جیسے اک مداری اپنے پالتو سدھائے ہوئے جانوروں پر ۔
صوفیاء میں " قلندر " سے مراد " آزاد اور اپنی مستی میں مست ہستی " وہ ہستی کہلاتی ہے ۔ جس نے کٹھن مجاہدے کے بعد اپنے نفس پر قدرت پا لی ہو۔" بو علی شاہ " سخی لعل شہباز " جناب رابعہ بصری " یہ تین ہستیاں درجہ " قلندری " کی حامل قرار دی جاتی ہیں ۔
جناب رابعہ بصری کو " نصف قلندر " کہا جاتا ہے ۔ قلندر میں مجذوبیت اور مستی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ یہ مجذوبیت اور مستی ان کے مجاہدے و مشاہدے پر استورا ہوتی ہے ۔ مجذوب اور قلندر اک جیسی کیفیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا کہ " مجذوبیت " مادر ذاد بحکم الہی ہوتی ہے
اور قلندری " اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی " کے قول پر عمل پیرا ہوتے ابھرتی ہے ۔
تصوف میں یہ واحد مقام ہے جو کہ اپنے آپ میں مکمل ہے ۔ باقی تمام تصوف کے سلسلے راہ سلوک پر چلتے سالک سے ولی ۔ ولی سے ابدال ابدال سے قطب قطب سے غوث سے عبد کی جانب رواں رہتے ہیں ۔ عبد بمعنی " اللہ کا بندہ " یہ درجہ آپ جناب نبی پاک علیہ السلام کی ذات پر منقطع ہو چکا ۔
اب غوث پر بھی اس کا اتباع لازم ہے ۔
اب یہ خود کو کیسے جاننا ہے کیا جاننا ہے ؟ اس بارے سچے علیم الحکیم نے فرما دیا کہ "لقد کان لکم فی رسول الله اسوه حسنہ " (الاحزاب 21 )
قران پاک کی تلاوت سے مشرف ہوتے اس کے بیان پر غور کرتے "اسوہ حسنہ " کو نہ صرف جانا جائے ۔ بلکہ اس کو خود پر طاری کیا جائے ۔ قران پاک نے کھول کر بیان کر دیا ہے کہ " اسوہ حسنہ " کیا ہے ۔ مجاہدہ کیا ہوتا ہے ۔ مشاہدہ کیسے ہوتا ہے ۔
تو انسان اپنی حقیقت کو جاننے لگتا ہے ۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو پانے لگتا ہے ۔ اور جب وہ جان جاتا ہے ۔ تو مخلوق میں اسے خالق کی جانب سے درج بالا درجوں میں سے کسی درجے کا حقدار قرار دے دیا جاتا ہے ۔
مجھے اسے سمجھنے میں آسانی محترم خواجہ شمس الدین عظیمی کے جواب ہوئی جو انہوں نے ان درجوں کے بارے سوال پردیا ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے آدم کو زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا ۔ آدم کو نیابت اور خلافت اس وقت منتقل ہوئی اور وہ مسجود ملائک ٹھہرے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونکی اور ’’علم الاسماء‘‘ سکھایا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کائنات کے انتظامی امور کو سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم الاسماء کی روشنی میں ان انتظامی امور کو چلانا نیابت کے دائرے میں آتا ہے۔ انسان کو بحیثیت خلیفتہ اللہ علم الاسماء کی حکمت تکوین کے اسرار و رموز اس لئے سکھائے گئے کہ وہ نظامت کائنات کے امور میں نائب کے فرائض پورے کر سکے۔
اوتار، طلب، غوث، ابدال وغیرہ یہ کائناتی نظام تکوین کا کام کرنے والے حضرات کے عہدوں کے نام ہیں۔ یہ حضرات اپنے عہدے اور علم کے مطابق تکوینی امور (Administration) سر انجام دیتے ہیں۔ علم الاسماء سے واقفیت اور تکوینی عہدے پر فائز ہونا اللہ تعالیٰ کا کسی بندے پر فضل و کرم اور انعام ہے۔ سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے بندے سے متعارف کرایا ہے جو نظام تکوین کا رکن تھا۔ عرف عام میں اس بندے کو حضرت خضر علیہ السلام کہا جاتا ہے۔


اور بلاشک اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
اوتار، طلب، غوث، ابدال وغیرہ یہ کائناتی نظام تکوین کا کام کرنے والے حضرات کے عہدوں کے نام ہیں۔ یہ حضرات اپنے عہدے اور علم کے مطابق تکوینی امور (Administration) سر انجام دیتے ہیں۔ علم الاسماء سے واقفیت اور تکوینی عہدے پر فائز ہونا اللہ تعالیٰ کا کسی بندے پر فضل و کرم اور انعام ہے۔ سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے بندے سے متعارف کرایا ہے جو نظام تکوین کا رکن تھا۔ عرف عام میں اس بندے کو حضرت خضر علیہ السلام کہا جاتا ہے۔

اوتار یا ابدال یا اخیار یا قطب ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تعریفیں کیا ہیں اور آپ نے کہا حضرت خضر علیہ سلام اعلی درجے پر ہیں تو ان کا کون سا درجہ ہے ؟

قلندری کس طرح مکمل ہے ۔۔اس کی ترقی نہیں ہوتی ہے ؟

تو انسان اپنی حقیقت کو جاننے لگتا ہے ۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو پانے لگتا ہے ۔ اور جب وہ جان جاتا ہے ۔ تو مخلوق میں اسے خالق کی جانب سے درج بالا درجوں میں سے کسی درجے کا حقدار قرار دے دیا جاتا ہے ۔

انسان اپنی تخلیق کے مقصد کب اور کیسے پاتا ہے ؟ اور کیا اچانک اونچا درجہ بھی مل جاتا ہے کیا ؟
 
Top