بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی، تیوری کو چڑھا کر ۔ مستزاد مثلث از نظیر اکبر آبادی

فاتح

لائبریرین
بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی، تیوری کو چڑھا کر
اور رنجشِ بے جا سے نہ کر صاف لڑائی، منہ سرخ بنا کر
اس حور کی کب ہم سے ہوئی عہدہ برائی، اتنی نہ جفا کر

کرتا ہوں ترے ہجر میں اے شوخ پری زاد، میں نالہ و فریاد
دیتا نہیں خاطر سے تری اے ستم ایجاد، جب کوئی مری داد
پھر ہار کے دیتا ہوں میں تیری ہی دہائی، ہاتھوں کو اٹھا کر

دل تڑپے ہے بسمل کی طرح جی میں نہیں جی، مشتاق اجل ہوں
آنکھوں میں دم آیا ہے نہیں مرنے میں باقی، چھن یا کوئی پل ہوں
لائی مجھے ظالم تری اس درجہ جدائی، لے اب تو ملا کر

سدھ لے گئی بالی کی جھمک، سبر کرن پھول، اور قعل کو بندے
بالی کی گئی جوھک لگا سینہ میں اک ہوں، دل لے گئے جھمکے
اور جی کے تئیں لے گئی زنجیرِ طلائی، زنجیر پنھا کر

کا جل کی کھچاوٹ نے کیا دل پہ یہ طوفاں، جو ہوش اڑایا
مسی کی دھری نے وہ کیا ظلم نمایاں، جو غش پہ غش آیا
ہاتھوں نے بھی اک آگ سی سینے میں لگائی، مہندی کو دکھا کر

کیا اس کی نظیرؔ اب میں کہوں تن کی لطافت، میلا ہو نگہ سے
اور اس کے سوا اور یہ نرمی و نزاکت، ٹک ناز و ادا سے
اک پھول اٹھا دے تو مڑک جاوے کلائی، بل سیکڑوں کھا کر
نظیر اکبر آبادی​
 
Top